موبائل فون کے "تخریبی امکانات”


چند دن قبل اس کالم میں نیٹ فلیکس کے لئے تیار ہوئے ایک ڈرامائی سلسلے کا ذکر کیا تھا۔ اس کا مرکزی کردار سکول کا ایک طالب علم ہے۔ مناسب طبقے کا رکھ رکھائو والا مہذب بچہ دِکھتا ہے۔ والدین کی مناسب نگہبانی نہ ہونے کی وجہ سے مگر وہ ٹیلی فون پر قائم ہوئے ان گروہوں کے مابین ہوئی گفتگو میں سنجیدگی سے حصہ لینا شروع ہو گیا جو عورتوں کو بدی کی علامت تصور کرتے ہیں۔ ان گروہوں کے ساتھ متحرک رشتوں کی وجہ سے بالآخر عورت دشمنی کے جذبات سے مغلوب ہو کر اس نے اپنے سکول کی ایک بچی کو قتل کر دیا۔ پولیس کو یہ طے کرنے میں بہت دیر لگی کہ مذکورہ قتل اس معصوم شکل بچے کے ہاتھوں سرزد ہوا۔

(بلوغت) کے نام سے بنی یہ ڈرامہ سیریز آن ایئر ہوئی تو کہرام مچ گیا۔ اخباری کالموں، ٹی وی پروگراموں کی وجہ سے بالآخر برطانوی پارلیمان بھی یہ سوچنے کو مجبور ہوئی کہ 10 سے 19 سال کے درمیان کی عمر والے بچوں کو سمارٹ فون استعمال کرنے کی اجازت میسر ہو یا نہیں۔ برطانوی وزیر اعظم نے اس ڈرامائی سلسلے کو اپنے بچوں کے ہمراہ بیٹھ کر دیکھا ہے۔ گزشتہ ہفتے اس نے ’’بلوغت‘‘ کے تخلیق کاروں کے ساتھ بھی ایک طویل ملاقات کی ہے۔ اس کی پریشانی عیاں کر رہی ہے کہ برطانیہ جیسا کھلے ذہن کا معاشرہ بھی موبائل فون کے ’’تخریبی امکانات‘‘ سے گھبرا گیا ہے۔

سوشل میڈیا اور موبائل فون کے تخریبی امکانات ویسے تو آج سے کئی برس قبل ہی ہم جیسے ملکوں میں عیاں ہونا شروع ہو گئے تھے۔ سری لنکا اور برما میں اس کی وجہ سے خونریز فسادات ہوئے۔ بھارت کے کئی شہروں میں بھی واٹس ایپ پر بنائے گروہوں نے مسلمانوں کی زندگی اجیرن بنانے میں اہم کردار ادا کیا۔ ہمارے ہاں مگر سوشل میڈیا کو معتبر دانشوروں کی اکثریت نے حق و صداقت کا حتمی اظہار بناکر پیش کیا ہے۔ 8 فروری 2024ء کے دن ہوئے عام انتخابات کے دوران اس کے اثر کو فخرسے تسلیم کیا گیا اور امید باندھ لی گئی کہ پاکستان جس کی آبادی کا تقریباََ 60 فی صد نوجوانوں پر مشتمل ہے فیس بک، یوٹیوب اور اب X کہلاتے ٹویٹر کے ذریعے ’’نظام کہنہ‘‘کو تباہ و برباد کر دے گا۔

بچپن ہی سے مجھے عوام میں فوری طورپر مقبول ہوئے خیالات پر سوال اٹھانے کی علت لاحق رہی ہے۔ میری دانست میں ایسے خیالات ’’فرشی شلوار‘‘ جیسے فیشنوں کی طرح آتے اور جاتے ہیں۔ ان کی کوئی ٹھوس بنیاد نہیں ہوتی۔ اس امر پر کوئی شک نہیں کہ سوشل میڈیا کی بدولت 8 فروری کے روز ہمارے ہاں انتخابی عمل کے حوالے سے مستند تصور ہوتے کئی پیمانے خاک میں مل گئے۔ تقریباََ ایسی ہی صورتحال مگر 1976ء کے انتخابات کے دوران بھی دیکھنے کو ملی تھی۔ سوال مگر یہ اٹھتا ہے کہ اس کے بعد ’’نظام کہنہ‘‘ مضبوط ہوا یا کمزور۔ جان کی امان پاتے ہوئے عرض کروں گا کہ ریاستی جبر 8 فروری 2024ء کے بعد شدید تر ہو گیا ہے۔ آزادی اظہار کی گنجائش محدود تر ہورہی ہے اور پیکا قانون پاکستان میں سوشل میڈیا کا فروغ بے رحمی سے کچلنے کو تیار ہے۔ ’’حق وصداقت کا پیغامبر‘‘ بننے کے لئے اب لازمی ہے کہ آپ ملک چھوڑ کر کسی اور ملک میں پناہ گزین ہو جائیں۔ اس صورت میں لیکن اپنے قریبی عزیزوں کو ساتھ لے جانا نہ بھولیے گا۔ یہ سوال بھی اگرچہ اہم ہے کہ 25 کروڑ کے ساتھ ملک سے کتنے لوگ اپنے خیالات کے اظہار کے لئے دوسرے ملک منتقل ہو سکتے ہیں۔ خاص طورپر ان دنوں جب امریکہ میں ٹرمپ دوسری بار برسراقتدار آیا ہے۔ یورپ کے بیشتر ممالک میں بھی تارکین وطن سے نفرت انتہائوں کو چھو رہی ہے۔

ان حقائق کی جانب توجہ دلائو توسوشل میڈیا پر چھائے ’’انقلابی‘‘ آپ کو بزدلی کے طعنے دیں گے۔ میری گزارشات کا مقصد اگرچہ اس حقیقت کی جانب توجہ دلانا ہے کہ دنیا بھر کے ملکوں میں تاریخی اعتبار سے وہاں کے لوگوں ہی نے مل کر ’’تبدیلی‘‘ کی راہ نکالی۔ مائوزے تنگ چینی انقلاب سے قبل ایک دن کے لئے بھی اپنے ملک سے باہر نہیں گیا۔ چینی انقلاب کے بعد بھی فقط کچھ دنوں کے لئے روس کا دورہ کیا تھا۔ یہ الگ بات ہے کہ اس دورے نے موصوف کو چینی قوم پرست بننے کو مجبور کردیا۔ اکثر ’’انقلاب‘‘ بھی بالآخر ’’نظام کہنہ‘‘ میں بدلے۔ اس ضمن میں فرانس کے دانشور ’’کامیو‘‘ کی Rebel(باغی) نامی کتاب پڑھ لیجئے۔
خودپرستوں کی طرح لیکن مجھے اپنی سوچ پر ڈٹے رہنے کی عادت نہیں۔ وقتاََ فوقتاََ سوشل میڈیاپر حاوی رحجانات (Trends) کا نہایت توجہ سے جائزہ لیتا رہتا ہوں تا کہ اگرمیری سوچ سوشل میڈیا کے اثر کے بارے میں غلط ہے تو اسے تبدیل کر سکوں۔ منگل کے روزبھی ایسے ہی ہوا۔ اتفاق سے اس روز اسلام آباد ہائی کورٹ کی جانب سے طے ہوئے شیڈول کے مطابق اڈیالہ جیل میں قید عمران خان کی ان کے اہل خانہ سے ملاقات ہونا تھی۔ اس شیڈول کو ذہن میں رکھتے ہوئے علیمہ بی بی اڈیالہ جیل اپنی دیگر بہنوں کے ہمراہ تشریف لائیں تو انہیں جیل کے پھاٹک تک جانے کی اجازت نہ ملی۔ انہوں نے اپنے روکے جانے کی اطلاع سوشل میڈیا پر لکھی تو اس کے نیچے لکھے تبصروں کی بھرمار کا اصرار تھا کہ ’’خان سے وفا نبھانے تحریک انصاف کے کارکنوں کو جلد از جلد اڈیالہ جیل‘‘ کے باہر پہنچ جانا چاہیے۔

ذاتی طور پر میں دیانتداری سے یہ محسوس کرتا ہوں کہ منگل کا دن اگر بانی تحریک انصاف کا خاندان سے ملاقات کے لئے مختص ہے تو اس میں رخنہ نہیں ڈالنا چاہیے تھا۔ حکومتیں مگر مجھ سادہ لوح کی طرح نہیں سوچتیں۔ نجانے کن بنیادوں پر علیمہ بی بی کو عمران خان سے ملاقات سے انکار ہوا۔ یہ انکار ہو گیا تو علیمہ بی بی کئی گھنٹوں تک اڈیالہ جیل کے باہر کھڑی رہیں۔ یقین مانیں مجھے یہ جان کر دْکھ ہوا کہ ان کے ساتھ یک جہتی کے اظہار کے لئے اتنے لوگ بھی نہیں پہنچے جو سوشل میڈیا پر لوگوں کو ’’خان سے وفا نبھانے‘‘ کے لئے اڈیالہ جیل کے باہر پہنچنے کو اْکسا رہے تھے۔ شام ڈھل گئی تو پولیس نے حیلوں بہانوں سے علیمہ بی بی اور ان کے ہمراہ آئی دو اور بہنوں کو ایک شادی ہال کے لان سے اٹھا لیا جہاں وہ اپنی دانست میں دھرنا دئے بیٹھی تھیں۔ کالم لکھتے وقت مجھے علم نہیں کہ وہ کہاں ہیں۔ امید ہے گھر پہنچ گئی ہوں گی۔

منگل کے روز اڈیالہ جیل کے باہر پنجاب کے سابق گورنر میاں اظہر کے سر پر لگے پتھر کی وجہ سے بھی مجھے افسوس ہوا۔ دْکھی دل کے ساتھ اپنے کمرے میں سر جھکائے بیٹھا تھا تو خبر آئی کہ پیپلز پارٹی کے تاج حیدر کا انتقال ہو گیا ہے۔ مرحوم کئی دنوں سے شدید علیل تھے۔ میرے سسرال سے ان کی قریبی عزیز داری ہے۔ اس سے قبل البتہ میں اور وہ پی ٹی وی کے لئے ڈرامے لکھنے کی وجہ سے ایک دوسرے سے بخوبی واقف تھے۔ موصوف سادہ طبیعت اور دیانتدار شخص تھے۔ پروفیسر کرار حسین کے فرزند تھے اور ان سے تہذیب و دیانت داری ورثے میں پائی تھی۔ پیپلز پارٹی کے دیرینہ کارکن تھے۔ اس کی وجہ سے بہت مصائب کا شکار بھی رہے۔ ان دنوں اس جماعت کی نمائندگی سینٹ میں فرما رہے تھے۔ میں نے ان کی رحلت کی خبر سن کر ایک تعزیتی ٹویٹ لکھا تو اس کے نیچے ایک مخصوص جماعت کے حامیوں نے یہ تبصرہ لکھا کہ مجھے ’’تاج حیدر کی موت سے سبق سیکھنا چاہیے‘‘۔ مقصد یہ کہ میں بھی اب تک مرا کیوں نہیں ہوں۔ اس تبصرے کی نقل میں ایسے ہی پیغامات کا انبار لگ گیا۔ ’’اللہ جرمن کی توپوں میں کیڑے پڑیں‘‘ والی نفرت عاشقان عمران کے سوشل میڈیا کے عادی ہوئے گروہ کی عادت بن گئی ہے۔ دیکھنا ہو گا کہ یہ نفرت ’’بلوغت‘‘ ڈرامے والے کردار میں کب تبدیل ہو گی۔

(بشکریہ نوائے وقت)


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments