پاکستانی افغان، پاکستانی تھے
وہ اول و آخر افغان تھے، آپ نے ان کو مہاجر بنانا تھا، اس لیے خود انصار بن گئے۔ مدینہ کی خوشنما تاریخ میں لپیٹ کر آپ نے امریکی سٹریٹیجک جنگ لڑنی تھی اور ساتھ ڈیورنڈ لائن کے آرپار موجود پختونستان کے خوشنما لولی پاپ کو خود پسند قوم پرستوں کے منہ سے کھینچ کر زمین پر پھینکنا تھا، آپ نے دونوں کام بڑے شاندار انداز میں کر دیے، لیکن اس کے بعد خود کو بادشاہ گرد سمجھنے لگے۔ آپ بھول گئے کہ اس جنگ میں تمام ’آزاد دنیا‘ اور اس کے سارے وسائل اور ہنرمندی آپ کے ساتھ تھی۔ آپ چند سال پہلے اتنے کمزور تھے کہ اپنا مشرقی بازو نہ بچا سکے۔ لیکن اس جنگ کے دوران جدید جنگی طیارے، جاسوسی آلات، ٹریننگ، اور دنیا کی مانی ہوئی انٹلیجنس ایجنسی کے مالک بنے، اور جہاں سوئی تک بنانا مشکل تھا، وہاں بہت پیچیدہ ہنرمندی اور جدید سائنس کی حامل ایٹمی اسلحہ بن گیا۔ جس کی وجہ سے آپ آج تک محفوظ ہیں۔ عراق لیبیا اور شام، اور آپ میں امتیاز انہی ایٹمی اثاثوں کی وجہ سے ہے۔
پھر آپ کو کسی نے دھکا دے کر تصورات کی تزویراتی گہرائی میں پھینک دیا۔ اگر آپ کالونیل مائنڈ سیٹ کی بجائے دوست بن کر سوچتے، تو افغانستان میں آپ کو تزویراتی گہرائی پہلے سے حاصل تھی، ٹھیک اسی طرح جس طرح ایران کو اپنے شیعہ حامیوں کے وجہ سے پاکستان میں تزویراتی گہرائی حاصل ہے۔
واسکوڈی گاما سمندری راستے سے ہندوستان آنے والا پہلا یورپین تھا، جب اس کی سپلائی لائن نہیں رہی، تو وہ ہندوستان میں غیر موثر ہو گیا، لیکن اس نے جو راستہ بنایا تھا، وہ موجود رہا۔ ہندوستان سونے کی چڑیا تھی جو یورپ جان گیا تھا۔
جب ہندوستان میں شیرشاہ سوری کی حکومت تھی، یورپین تب ہندوستان آ گئے تھے۔ انہوں نے محنت کی، پلاننگ کی، یہاں اپنے لیے لوگ پیدا کیے ، ان کو احسانات سے زیر بار کیا اور ہندوستانیوں کو جسمانی شکست کے ساتھ ساتھ ذہنی شکست بھی، یہ کہتے کہتے دے دی، کہ یورپین آپ سے بہتر ہیں۔
جنگ عظیم کے بعد انگریز کمزور ہو کر چلے گئے لیکن اپنے نمائندے اور نظام چھوڑ گئے۔ آج بھی ہمارے ترانے میں قوم، ملک، کے بعد ’سلطنت‘ کا لفظ برطانیہ کے لئے دعاگو ہے۔ آج بھی ہماری گول میز کانفرنسیں برطانیہ میں ہوتی ہیں، اور ہمارے ’ناپسندیدہ سیاستدان‘ اپنی جلاوطنی وہاں گزارتے ہیں۔
آپ مانتے نہیں لیکن افغانستان میں تمام جنگیں جیتنے کے باوجود ہمیں سفارتکاری میں شکست ہو گئی ہے، اور وہ اس لیے کہ ہم نے کبھی وہاں افغانوں پر انویسٹمنٹ کی نہ ان کو کوئی اہمیت دی ہے۔ ہم نے ہمیشہ وہاں مذہبیوں کو ، اپنے مدراس کے ذریعے کنٹرول کر کے اہمیت دلائی ہے۔ مذہبیوں کے علاوہ وہاں پختون ہو یا نان پختون ہم نے ان کی مخالفت کی ہے۔ ہمیں وہاں کسی ملا عمر اور حکمت یار کی تلاش رہی ہے۔
موجود افغان حکومت بیشک امریکہ کے ساتھ اور انڈیا کا دوست ہو، لیکن عام افغان تو ہمارے پاس اور ساتھ تھے، جس کو لاتے ہوئے ہم نے پہلے اسلامی بھائی کہا، پھر مہاجر بنایا اور آج چالیس سال کے تعلقات پر پانی پھیرتے ہوئے رخصتی کے وقت انہیں نمک حرام کہتے ہیں۔ ایک طرف آپ ٹی ٹی پی کی طاقت ختم کرنا چاہتے ہیں، اور دوسری طرف اس کو لاکھوں ریکروٹ دلا دیے، جو پاکستان کے چپے چپے سے واقف، اور ہماری ہر زبان بولتے ہوئے عوام میں آسانی سے مکس ہوسکتے ہیں۔
امریکہ باگرام میں، انڈیا میدان میں اور لٹے پٹے پاکستانی۔ افغان ایک خاص ذہنی کیفیت کے ساتھ خیموں میں۔ آپ کیا سوچتے ہیں، آپ نے اپنے دشمن بڑھا دیے یا کم کر دیے؟
پہلے آپ نے تیس لاکھ افغان ان کے اپنے ملک سے نکال کر پاکستان میں بسائے، انہیں اپنے لوگوں، زبان، کلچر اور تاریخ سے کاٹا، لیکن پاکستانی بنانے کی بجائے ان کو جماعتی، جمعیتی، طیبی حزبی اور طالب بنا ڈالا۔ آپ کے ہاں ان کی پہلی نسل دفن ہو چکی ہے، دوسری بوڑھی ہو رہی ہے اور تیسری جوان۔ ان کے کام، روزگار، سکول، رشتے، تعلقات، سب یہاں ہیں۔ وہ پاکستان سے نفرت نہیں کرتے، ورنہ یہاں رہتے نہ یہاں سے نکالے جانے کی ڈر سے وہ رشوتیں دیتے۔
اگر آپ نے افغانستان میں تزویراتی گہرائی بنانی تھی، تو پاکستانی شہریت دے کر طالبان کے مقابل ان کے دست و بازو بنتے۔ آپ افغانستان میں مذہبی شدت گردی کی بجائے جمہوریت اور جمہوری اداروں کو سپورٹ کرتے۔ آپ کے پاس چالیس سال تھے۔ دوہری شہریت کے مالک پاکستانی۔افغان کی اصطلاح، ٹی وی اخبارات اور سوشل میڈیا پر عام کرتے۔ وہاں جاکر جو انتخابات پر اثرانداز ہوتے، تو آپ کا کوئی حامی حکومت میں آتا، یا آپ کی حمایت سے وہاں حکومتیں بنتیں اور بگڑتیں۔ یہ سرحد کے آرپار تجارت کرتے، تو تعلیم، صحت اور دوسری سہولیات کی خاطر، یہاں گھر، جائیدادیں اور مستقبل بناتے۔ آپ کی سرحد طورخم تک نہیں تالقان تک محفوظ ہو جاتی، اور آپ کے تعلقات تاجکستان، ازبکستان، ترکمانستان اور کرغزستان کے بارڈرز کے پار تک مستحکم ہوتے۔
افغان بھیک نہیں مانگتا، کسی پر بوجھ نہیں بنتا، سرکاری نوکری نہیں کرتا، تجارت اور روزگار کے لئے پیدا ہوا ہے۔ آپ کو ٹیکس دیتا، آپ کی اکانومی کو دبئی، سنگاپور، امریکہ اور یورپ سے ترسیلات زر دلاتا۔
پہلے آپ نے حکمت یار پر کام کیا پھر چھوڑ دیا، پھر جن کے لئے ان کو چھوڑا تھا، ان کو امریکہ کے لئے چھوڑا، اور جب وہ واپس آئے تو ان کی وجہ سے وہ لاکھوں پاکستانی۔ افغان ہاتھ سے جانے دیے، جو آپ کی طویل المدتی انویسٹمنٹ کا بیش بہا اثاثہ تھے۔ پے درپے پلٹیاں کھا کر آپ نے خود کو ناقابلِ اعتماد بنا دیا۔
برطانیہ نے روس کی ڈر سے ہندوستانی بارڈر پر قبائلی علاقوں کی دیوار بنائی تھی۔ افغانستان نے سوویت انقلاب کی وجہ سے مہاجر بنے ازبک تاجک اور دوسروں کو سوویت بارڈر پر آباد کر کے وہی کیا تھا۔ آپ بھی یہی کر سکتے تھے۔
دنیا کی بہترین اور منظم فوج کے ہوتے ہوئے آپ کو کس بات کا ڈر ہے؟ آپ کے پاس افغانستان سے کئی گنا بہتر تعلیمی نظام اور ادارے ہیں۔ آپ کے پاس صحت، ٹرانسپورٹ، ہوائی اڈے، موٹر وے اور جدید شہری سہولیات ہیں اور افغانستان کے پاس آپ کے مولویوں کے بنائی ہوئی پگڑیاں ہیں۔
جو بنایا تھا وہ بگڑ گیا ہے، لیکن اونچی سے اونچی پہاڑ کے اوپر راستہ بنا ہوا ہوتا ہے۔ کالونیل ماسٹر کی بجائے دوست بنیں۔ مولویوں کی بجائے عام انسانوں پر انویسٹمنٹ کریں۔ مذہبیوں کی بجائے افغانوں پر اعتماد کریں۔ تیس چالیس لاکھ پاکستانی اپنا ملک چھوڑ کر بھاگ چکے ہیں۔ تیس لاکھ افغان شہریت لے کر پاکستانی آبادی میں کوئی اضافہ نہیں کریں گے۔
مشہور مقولہ ہے، کہ پختون کو زور زبردستی جنت بھی نہیں لے جایا جاسکتا، عزت سے کہو گے تو جہنم ساتھ جانے پر تیار ہو جاتا ہے۔
- پاکستانی افغان، پاکستانی تھے - 09/04/2025
- افغان حکومت اور امریکہ: مستقبل کا سفر - 23/03/2025
- پختونوں کی غداری پر دھینگا مشتی - 10/03/2025
Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).