ذوالفقار علی بھٹو، نواز شریف اور عمران خان


پاکستان کی سیاست کا المیہ ہے۔ انتقام کی سیاست ایک دوسرے کا وجود ہی ختم کرنے کی کوشش میں اپنا بھی سب کچھ اس آگ میں بھسم کر دیتی ہے جب نوبت یہاں تک پہنچ جائے کہ ”میں نہیں تو کچھ بھی نہیں“ تو پھر سیاسی نظام کا تلپٹ ہوجانا غیر معمولی بات نہیں ہوتی۔ اقتدار پر قبضہ کرنے اور سیاسی مخالف کو اقتدار سے نکالنے کے لئے ہر حربہ کو جائز تصور کر لیا جائے اور بات ”قبر“ ایک اور بندے دو تک پہنچ جائے پھر نہ صرف جمہوریت پٹڑی سے اتر جاتی ہے بلکہ اس میں سر لگتے ہیں۔

سیاست میں عدم برداشت ہی حکومتیں ختم ہونے کا باعث بنتی ہے جن حکومتوں میں اپوزیشن کو اکاموڈیٹ کیا جاتا ہے۔ ان کی عمریں طویل ہوتی ہیں۔ پاکستان میں ہمیشہ ”پرامن انتقال اقتدار“ سب سے بڑا مسئلہ رہا ہے لیکن مسلم لیگ (ق) ، پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) کے تین ادوار حکومت میں پر امن انتقال اقتدار ہوا انتخابات میں شکست کھانے والوں اپنی شکست کو تسلیم کیا لیکن جب 10 اپریل 2022 ء کو عمران خان کو ووٹ کی طاقت سے اقتدار سے نکالا گیا تو انہوں نے پارلیمنٹ کے سامنے ہتھیار ڈالنے سے انکار کر دیا اسٹیبلشمنٹ نے نواز شریف کو نکال کر انہیں تخت اسلام آباد پر بٹھایا جب اسٹیبلشمنٹ اور سیاسی قوتوں نے سیاسی منظر تبدیل کر دیا تو وہ مسلسل تین سال سے اسٹیبلشمنٹ اور بر سر اقتدار حکومت سے ٹکریں مار رہے ہیں۔ آج پاکستان کو جس سیاسی بحران کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ اس کی بنیادی وجہ عوام کے فیصلے کو قبول کرنے سے انکار ہے۔

نصف صدی کی سیاست ذوالفقار علی بھٹو، نواز شریف اور عمران خان کے گرد گھومتی ہے۔ 70 ء کے عشرے میں ذوالفقار علی بھٹو کا طوطی بولتا تھا۔ ان کا شمار مغربی پاکستان ( جو اب پاکستان کہلاتا ہے۔ ) کے مقبول ترین لیڈروں میں ہوتا تھا۔ انہوں نے اپنی مقبولیت کے زعم میں سیاسی مخالفین کو دیوار سے لگایا جس کے نتیجے میں اس وقت کی اپوزیشن نے ملک گیر تحریک چلا کر نہ صرف ان کو اقتدار سے محروم کر دیا بلکہ تختہ دار تک جا پہنچایا ذوالفقار علی بھٹو کی اپوزیشن میں مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی، مفتی محمود، نوابزادہ نصراللہ، ائر مارشل اصغر خان، ولی خان اور پیر صاحب پگارا جیسے لیڈر تھے۔

ذوالفقار علی بھٹو کی سیاسی عدم برداشت ان کے ”عدالتی قتل“ تک لے آئی۔ اگر ذوالفقار علی بھٹو میں اپوزیشن کو برداشت کرنے کا حوصلہ ہوتا تو وہ اپنی مقبولیت کے بل بوتے پر کئی عشروں تک حکومت کر سکتے تھے۔ چار عشروں سے زائد وقت گزرنے کے بعد سپریم کورٹ نے ذوالفقار علی بھٹو کو بے گناہ تو قرار نہیں لیکن یہ کہہ کر ان کو سرخرو کر دیا گیا کہ ان کے ساتھ انصاف نہیں ہوا یہی وجہ ہے۔ آج 45 سال بعد از مرگ ”نشان پاکستان“ دیا گیا۔

نصف صدی گزرنے کے باوجود آج بھی پاکستان کے طول و عرض میں ”بھٹو زندہ ہے۔“ کے نعرے کی گونج سنائی دیتی ہے لیکن ذوالفقار علی بھٹو کے حقیقی سیاسی جانشین ذوالفقار علی بھٹو جونیئر کو تاریک راہوں پر ہی زندگی بسر کرنے پر مجبور کر دیا گیا جب کہ اس کی بیٹی فاطمہ بھٹو نے پاکستان میں سیاست کے بھاری پتھر کو چوم کر چھوڑ دیا۔

پاکستانی سیاست میں عدم برداشت اور اسٹیبلشمنٹ کی سازشوں کی وجہ سے بار بار جمہوریت کی بساط لپیٹی جاتی رہی ضیا ء الحق کے آمرانہ دور میں سیاسی افق پر دو لیڈر ابھرے نواز شریف دائیں بازو کی سیاسی جماعتوں کے لیڈر بن گئے جب کہ بے نظیر بھٹو ذوالفقار علی بھٹو کی سوچ لے کر سیاست میں اپنا مقام پیدا کر لیا۔ اس وقت کی اسٹیبلشمنٹ دونوں لیڈروں کو ایک دوسرے کے خلاف استعمال کر کے ملک میں عدم سیاسی استحکام پیدا کرتی رہی جب دونوں نے مئی 2006 میں میثاق جمہوریت کر لیا تو کسی حد تک اسٹیبلشمنٹ کمزور ہو گئی لیکن بے نظیر بھٹو بے رحم لوگوں کے ہاتھوں لیاقت باغ میں جلسہ عام میں ماری گئیں۔

12 اکتوبر 1999 ء کو فوجی بغاوت کے ذریعے نواز شریف کو اقتدار سے محروم کر دیا گیا پرویز مشرف نواز شریف کا بس چلتا نواز شریف کو تختہ دار تک پہنچا دیتا لیکن امریکہ اور سعودی عرب کے دباؤ میں آ کر پرویز مشرف اپنے عزائم کی تکمیل نہ کر سکا پھر اسے 11 سال جلاوطنی کی زندگی بسر کرنا پڑی نواز شریف سے محض اس لئے اقتدار چھین لیا گیا کہ وہ پرویز مشرف کو نشان عبرت بنانا چاہتے تھے۔ نواز شریف نے اپنی سیاست میں تو لچک پیدا کی لیکن اپنے اصولوں پر قائم رہنے کی وجہ سے وہ ملک کے چوتھی بار وزیر اعظم نہ بن سکے ان کی جگہ ان کے بھائی شہباز شریف نے لے لی اور ان کی صاحبزادی مریم نواز پاور بیس پنجاب کی حکمران ہے۔

نواز شریف نے کسی بات پر بضد رہنے کی بجائے حالات کو دیکھتے ہوئے سیاست میں کمپرومائز کیا اور عدم برداشت کی پالیسی کو ترک کر دیا وہ بظاہر جاتی عمرہ میں گوشہ نشین ہو گئے ہیں لیکن اب بھی ان ہی کی دی گئی ہدایات پر شہباز شریف حکومت کام کر رہی ہے۔ ملک میں ہونے والے اہم اقدامات کے پیچھے نواز شریف کی سوچ کار فرما ہے۔

یہ بات کسی سے ڈھکی چھپی نہیں کہ ملک میں نواز شریف اور عمران خان دو ہی ٹکر کے لیڈر ہیں۔ عمران خان پونے چار سال کے دوران اپنی معاشی پالیسیوں کی وجہ سے ایک غیر مقبول لیڈر بن گئے تھے۔ ممکن تھا۔ وہ حکومت کے پانچ سال مکمل کرتے تو پاکستان کی عمران خان سے ہمیشہ کے لئے جان چھوٹ جاتی لیکن انہوں نے اقتدار سے نکالے جانے کے بعد ”اینٹی اسٹیبلشمنٹ پالیسی اختیار کر کے نہ صرف اپنی مقبولیت بحال کر لی بلکہ اب وہ پورے نظام کے لئے تھریٹ بن گئے ہیں۔

16 ماہ کی شہباز شریف حکومت نے پاکستان کو ڈیفالٹ ہونے سے بچا کر بڑا کام کیا آج کوئی نہیں کہہ سکتا کہ پاکستان ڈیفالٹ ہو رہا ہے لیکن مسلم لیگ (ن) نے اس کی بھاری قیمت ادا کی اس کا پولیٹیکل کیپیٹل تباہ برباد ہو گیا وہ سنگل لارجسٹ پارٹی بن کر نہ ابھر سکی اسے وفاقی حکومت بنانے کے لئے پیپلز پارٹی کی بیساکھیوں کا سہارا لینا پڑا۔ پیپلز پارٹی مسلم لیگ (ن) کی حکومت کو کوئی ایسا اقدام نہیں اٹھانے دے رہی جس سے اس کی مقبولیت پر منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔

دوسری طرف پی ٹی آئی ملک کی دوسری بڑی پارلیمانی پارٹی ہے۔ پچھلے دو سال سے اس کا لیڈر قید و بند کی صعوبتیں برداشت کر رہا ہے۔ سر دست ڈیل نہیں ہو پا رہی عمران خان کی سوشل میڈیا ٹیم نے ان کے اور اسٹیبلشمنٹ کے درمیان اتنے فاصلے پیدا کر دیے ہیں۔ ان کی رہائی کی گنجائش ختم ہوتی نظر آ رہی ہے۔ عمران خان کے شیدائی ”خان ہے تو پاکستان ہے۔ خان نہیں تو پاکستان نہیں“ کے گیت تو گاتے ہیں لیکن ان کو خان کو رہا کرانے کا کوئی راستہ نظر نہیں آتا وزیر اعلیٰ کے پی کے کی عمران خان سے بیک ڈور چینل ملاقاتوں کا دوبارہ سلسلہ شروع ہوا ہے۔ اگ ان کوششوں کا بھی کوئی نتیجہ نہ نکلا تو عمران خان اگلی عید بھی اڈیالہ جیل میں ہی گزاریں گے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments