کیا توہین صرف عدلیہ ہی کی ہوتی ہے؟


میر تقی میر کی لُغت مُستعار لی جائے تو عدل کی کارگۂِ شیشہ گری کا کام بے حد نازُک ہے۔ اتنا نازُک کہ سانس بھی آہستہ لی جائے۔ یہ تلوار کی دھار سے تیز اور بال سے باریک پُل صراط پر سنبھل سنبھل کر پاؤں دھرنے اور توازن برقرار رکھنے کا فن ہے جس کے لئے جسمانی تربیّت یا اعضاء کی مخصوص ساخت کی نہیں، صرف اُس حلف کو اپنے ایمان و یقین کا حصہ بنانے کی ضرورت ہے جو اعلیٰ عدلیہ کا ہر جج، مسندِ عدل پر بیٹھنے سے پہلے اُٹھاتا ہے۔

اِس مقدس حلف کا ایک جُملہ ہے۔ ”میں ہر حالت میں، ہر قسم کے لوگوں کے ساتھ بلاخوف و رعایت اور بلا رغبت و عناد، قانون کے مطابق انصاف کروں گا۔“ حقیقتِ احوال یہ ہے کہ ہماری تاریخ کے کم و بیش ہر بڑے عدالتی فیصلے پر ”خوف، رعایت، رغبت یا عناد“ کی مہر ثبت ہے۔ آئین ہی کے آرٹیکل 209 ( 8 ) کے تحت سپریم جوڈیشل کونسل نے ایک نہایت جامع ضابطۂِ اخلاق بھی مرتب کر رکھا ہے جس کے تحت ”ہر جج پر لازم ہے کہ وہ خوفِ خدا رکھتے ہوئے، توازن اور مساوات کے اصول پر قائم رہے۔ مروجہ آداب و رسوم اور اخلاقیات کا خیال رکھے۔ عدالت کے وقار کو ملحوظ رکھتے ہوئے خوش اخلاقی پر عمل پیرا ہو۔“

نظامِ عدل و انصاف میں ایک اساسی کُلیے کا درجہ حاصل کر لینے والا قول ہے کہ ”ملزم، قانون کا لاڈلا بچہ ہوتا ہے۔“ یہ قول بھی اصول بن چکا ہے کہ ”ہر ملزم اُس وقت تک معصوم ہے جب تک اُس کا جرم ثابت نہ ہو جائے۔“ قانون و انصاف کے اِن دونوں اصولی تقاضوں کو جج صاحبان کے حلف اور ضابطۂِ اخلاق کے ہم پہلو رکھ کر پڑھا جائے تو یہ تصوّر کرنا بھی محال ہے کہ انصاف کی مسندِ عالی پر بیٹھا کوئی جج، اپنے سامنے کھڑے ملزم، یا کسی بھی شخص کی عزتِ نفس کے پرخچے اُڑا دے۔ کھڑے کھڑے اُسے بے لباس کر دے، اُس کی توہین و تضحیک کرے اور اُس پر طنز و تشنیع کے زہرناک نشتر چلائے۔ اِس سے جڑا المیّہ یہ ہے کہ یہ سب کچھ کھُلے بندوں، روزمرّہ کے معمول کی طرح ہوتا رہے، ٹیلی ویژن چینلز، آتش بداماں ریمارکس کی پھلجھڑیوں سے عوام کی تفریحِ طبع کا سامان کرتے رہیں، شام سے رات گئے تک کے ٹاک شوز نشانۂِ تضحیک بننے والے کی قبائے تار تار کے چیتھڑے چُنتے رہیں، اگلے دن کے اخبارات رنگا رنگ سرخیوں سے اپنے عارض و رُخسار نکھارتے رہیں اور سپریم جوڈیشل کونسل کے کانوں پر جوں تک نہ رینگے۔

ساری دنیا کے جج صاحبان، دو رانِ سماعت سوال و جواب کرتے اور ریمارکس دیتے رہتے ہیں۔ بالعموم اُن کا مقصد زیرنظر مقدمے کے کسی پہلو کی تفہیم ہوتا ہے۔ ریمارکس میں شُستگی اور شائستگی بھی ہوتی ہے اور لطافت و شگفتگی بھی۔ ہمارے ہاں جج صاحبان کے ریمارکس کیلوں والے ڈنڈوں کی طرح اَن گڑھ اور بے ڈھب ہی نہیں، تضحیک آمیز اور زہرناک بھی ہوتے ہیں۔ نہیں معلوم کون سی دستوری شق اِس اَمر کی اجازت دیتی ہے کہ وہ بلند چبوترے کی کرسی پر بیٹھ کر سامنے کھڑے افراد کو حشرات الارض سے بھی حقیر تر سمجھیں؟

گزشتہ ماہ کے آخری ہفتے کا ذکر ہے۔ عزت مآب جسٹس بابر ستّار نے، محمد سہیل بنام وفاق پاکستان مقدمے کی سماعت کے دوران ڈائریکٹر جنرل امیگریشن اینڈ پاسپورٹس، مصطفیٰ جمال قاضی کی سرزنش کرتے ہوئے ریمارکس دیے۔ ”کیا تمہیں انگریزی پڑھنا آتی ہے؟ آتی ہے تو ہمارا یہ آرڈر پڑھو۔ کیوں نہ تمہارے خلاف توہین عدالت کی کارروائی شروع کی جائے اور جرمانہ عائد کیا جائے۔ آج کل جسے عدالت سے سزا ملتی ہے اُسے میڈل بھی مل جاتا ہے۔ آپ کے لئے اچھی بات یہ ہے کہ اگر عدالت کی طرف سے کوئی پنلٹی لگ گئی تو آپ کو بھی میڈل مِل جائے گا۔“ ڈائریکٹر جنرل نے اپنی صفائی میں کہا کہ ”جب نیب کی طرف سے، بحریہ ٹاؤن ریفرنس میں نامزد افراد کے نام پاسپورٹ کنٹرول لسٹ (PCL) پر ڈالنے کے لئے باضابطہ طور پر مطلع کر دیا گیا تو ’ضابطہ بند طریقِ کار‘ (SOP) کے تحت میرے پاس کوئی راستہ نہیں تھا کہ میں اس پر عمل کروں اور نامزد افراد کے نام، پاسپورٹ کنٹرول لسٹ پہ ڈال دوں۔ میرے پاس نہ تو کوئی عدالتی اختیار ہے نہ میں اِس کے میرٹ کا جائزہ لینے کے لئے اپنی سوچ بروئے عمل لا سکتا ہوں۔“ جج صاحب کا بہر طور اصرار تھا کہ ”تمہیں آنکھیں بند کر کے نیب مراسلے پر عمل کرنے کے بجائے اپنا ’مائینڈ اَپلائی‘ کرنا چاہیے تھا۔“ ڈائریکٹر جنرل کے خلاف کارروائی کے امکانات اور اثرات و نتائج پر راہنمائی کے لئے، ہر نوع کی سیاسی آلائش سے پاک، ساری عمر صرف آئینی و قانونی تقاضوں تک محدود رہنے اور پیشہ ورانہ ذمہ داریوں کو شخصی پسند و ناپسند سے بالا تر رکھنے والے دو انتہائی معتبر معزز ماہرینِ آئین و قانون، شعیب شاہین اور عبدالرحیم بھٹی کو عدالتی معاونین نامزد کر دیا گیا۔ اگلی پیشی پر اِن دونوں معاونین نے رائے دی کہ ڈائریکٹر جنرل امیگریشن اور متعلقہ ڈائریکٹر نیب کے خلاف توہینِ عدالت کی کارروائی کا بھرپور جواز موجود ہے۔ مصطفیٰ جمال قاضی نے ایک تحریر پیش کرتے ہوئے کہا کہ درخواست گزار محمد سہیل کا نام، پی۔ سی۔ ایل سے نکال دیا گیا ہے۔ اِس تحریر سے صرفِ نظر کرتے ہوئے جج صاحب نے کہا۔ ”اَب بات بہت آگے نکل چکی ہے۔“

”جسے عدالت سزا دیتی ہے، اُسے تمغہ مل جاتا ہے“ کے کلمۂِ فضیلت مآب کا اشارہ واضح طور پر اسلام آباد کے ڈپٹی کمشنر عرفان نواز میمن کی طرف تھا جنہیں 9 مئی 2023 ؁ کے بعد مختلف ایجنسیوں کی رپورٹس پر متعدد افراد کو تحفظِ امن عامہ کے لئے زیرحراست رکھتے ہوئے، عدالتی احکامات ”نظرانداز“ کرنے کی پاداش میں، جسٹس بابر ستّار نے مارچ 2024 ء میں چھ سال قید کی سزا سنائی تھی۔ اِس سزا کو ایک ڈویژن بینچ نے معطّل کر دیا تھا جو آج تک معطّل چلی آ رہی ہے۔

اِس سال 23 مارچ کو صدرمملکت نے عرفان نواز میمن کو ستارۂِ امتیاز سے نوازا۔ ڈی۔ جی امیگریشن کے مقدمے سے عرفان نواز میمن کا کچھ لینا دینا نہیں تھا لیکن جانے اپنے حلف اور ضابطۂِ اخلاق کی کون سی شق سے صوابدیدی اختیار کشید کرتے ہوئے جج صاحب نے، عرفان نواز میمن کے ایک پرانے زخم کو کریدنا اور مُٹھی بھر نمک ڈال دینا، تقاضائے انصاف جانا؟ بصد احترام کیا پوچھا جاسکتا ہے کہ کیا یہ سب کچھ اعلیٰ عدلیہ کے لئے مخصوص حلف اور ضابطۂِ اخلاق کے عین مطابق ہے؟

رُسوائے زمانہ پانامہ کیس میں عالی مقام آصف سعید کھوسہ نے وزیراعظم نواز شریف پر ’گاڈ فادر‘ کی پھبتی کسی تھی۔ چند دِن قبل کسی اخبار کے کسی گوشے میں سنگل کالم خبر دیکھی کہ جسٹس عظمت سعید شیخ انتقال کر گئے۔ اللہ تعالی اُن کی مغفرت فرمائے۔ انہوں نے پانامہ کیس میں ہی شریف خاندان کو ”سسلین مافیا“ کہا تھا۔ اِس سے بھی قبل 2016 ؁ میں انہوں نے ایک مقدمے کی سماعت کرتے ہوئے کہا تھا۔ ”وزیراعظم نواز شریف کو بتا دو کہ ابھی اڈیالہ جیل میں بہت جگہ خالی ہے۔ ہم نے اُسے ایک دفعہ یہاں بلا لیا تو وہ دوبارہ دفتر نہیں جا سکے گا۔“ وزیراعظم نے اِن ناروا ریمارکس کے بارے میں چیف جسٹس انور ظہیر جمالی کو خط لکھا۔ ایک عشرہ ہونے کو ہے۔ اُس خط کا جواب نہیں آیا۔ جانے وہ کون سی سیلن زدہ کوٹھڑی کی کس کِرم خوردہ الماری میں پڑا ہے۔

کیا توہین صرف عدلیہ ہی کی ہوتی ہے؟ اُن جیتے جاگتے انسانوں کی کوئی عزت و توقیر نہیں جن کے بنیادی حقوق سے آئین چھلک رہا ہے لیکن جن کی پیٹھ پر تازیانے برساتے ہوئے جج صاحبان کا دِل اُس خوفِ خدا سے بھی خالی ہوجاتا ہے جس کا ذکر اُن کے ضابطۂِ اخلاق کا مقدس نوشتہ ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments