سفید جھوٹ : پی آئی اے کا طیارہ چوری چھپے بیچنے کی خبر: اصل کہانی
ہمارے ملک میں متعدد غلط العام باتیں عام ہیں (اور لگ بھگ سچ تصور کی جاتی ہیں ) جب کہ حقیقت کچھ اور ہوتی ہے۔ بعض اوقات حقیقت اس لئے بھی سامنے نہیں آتی کیوں کہ پھر جو ممکنہ بدنامی ہونے والی ہوتی ہے، بندہ کہتا ہے اس سے پچھلی بدنامی ہی بھلی۔
یہ قصہ بھی ایک ایسے ہی جھوٹ کا احاطہ کرتا ہے۔ یعنی پی آئی اے کا وہ جہاز جو ”کسی“ نے بیچ دیا اور متعلقہ لوگوں کو کانوں کان خبر نہ ہوئی۔ ہر جا کہ اس سے متعلق مختلف حقائق اعلی عدالتوں اور پارلیمان کے علم میں آچکے ہیں۔ نیب اور ایف آئی اے بھی 2018 کے آس پاس اس پر اپنا وقت کھپا چکا۔ لیکن اس میں وہ ایسی کیا بات تھی جس کی وجہ سے اس کی فروخت کی ڈیل جو (جس نے بھی کی) بہت زبردست کام تھا، لیکن اچھائی ان لوگوں کے گلے پڑ گئی۔ یہ معاملہ نیکی کر دریا میں ڈال جیسا ہی تھا۔
چند دنوں پہلے ایک علامہ نے ”ہم سب“ پر ہی پاکستان سے باہر بیٹھ کر ”پی آئی اے“ کی انتظامیہ پر یہ طنز ایک بار پھر کیا۔ سو یہ مضمون پیش خدمت ہے، تاکہ سند رہے۔
مسلم لیگ ”ن“ کی حکومت 2013 میں آ چکی تھی۔ مسلم لیگ ”ن“ کے ہر دور حکومت میں پی آئی اے کی فروخت کی کوششیں کی گئیں۔ مگر یہ سب ناکام ہی رہی تھیں۔ لیکن ہر کوشش سے پہلے ایوی ایشن سے متعلق مختلف نوعیت کے قوانین بھی نافذ یا تبدیل کیے گئے۔ ان میں ایک قانون یہ بھی تھا کہ پاکستان میں کوئی بھی جہاز مقامی روٹ پر 15 سال سے پرانا نہ ہو (ممکن ہے اس وقت پالیسی 20 سال ہو یا کچھ اور) ۔ اس میں ایک اہم تاریخ یکم جنوری 2017 تھی۔ جس دن سول ایوی ایشن کا نیا قانون نافذ العمل ہونا تھا۔
2016 کے آس پاس کی بات ہے پیپلز پارٹی کے جانے کے بعد ، کراچی اور اسلام آباد میں بھرتی ہونے والے پی آئی اے کے سیاسی ورکرز نے ہڑتالیں اور گو سلو رویہ اختیار کیے ہوا تھا۔ کوئی بھی شخص پی آئی اے کا انتظام سنبھالنے کو تیار نہ تھا۔ کہا جاتا ہے کہ (کچھ سال پہلے 2012 میں جب پیپلز پارٹی برسراقتدار تھی) سابق ائر چیف راؤ قمر سلیمان جب ایم ڈی بنے اور نظم و ضبط کی لاٹھی چلائی تو ایک دن ورکرز نے انہیں باتھ روم میں بند کر دیا۔ دروغ بہ گردن راوی، اسی دن انہیں ”دل کا دورہ“ پڑا اور پھر ہسپتال سے ہی وہ ائرلائن کو خدا حافظ کہہ کر گھر چلے گئے۔ 2016 میں ”ن“ لیگ کی حکومت نے بڑے چاؤ سے ائر لائن چلانے کے لئے بین الاقوامی ماہر کے لئے اشتہار دیا (یہ جانتے ہوئے بھی کہ مسئلہ نا اہل سیاسی ورکرز ہیں نہ کہ ائرلائن چلانے کے لئے درکار کوئی راکٹ سائنس) ۔ جس سب سے زیادہ پڑھے لکھے اور معقول شخص نے اپلائی کیا وہ جرمن ائرلائن لفٹ ہنسا کا ایک اسٹیشن منیجر تھا یہ صاحب لفٹ ہنسا کے ایک ذیلی ادارے میں چھوٹے موٹے ڈائریکٹر بھی رہ چکے تھے۔ دیکھا جائے تو یورپی ہونے کے علاوہ ان کے پاس کوئی خاص قابلیت یا تجربہ نہیں تھا یوں ان کی لاٹری نکل آئی اور وسط 2016 میں جرمن ”برن ہلڈن برانڈ“ پی آئی اے کہ پہلے غیرملکی منیجنگ ڈائریکٹر بن گئے، مگر عارضی۔
یاد رہے اسٹاک مارکیٹ میں رجسٹرڈ کمپنی ہونے کی وجہ سے ( 2016 میں اور اب بھی) پی آئی اے کے اصل امور اس کے بورڈ آف ڈائریکٹرز چلاتے ہیں۔ جن کا سربراہ چیئرمین پی آئی اے ہوتا ہے۔ منیجنگ ڈائرکٹر (یا سی ای او) اسی بورڈ کو جواب دہ ہوتا ہے۔ منیجنگ ڈائرکٹر (یا سی ای او) اس کے ساتھ مختلف ذیلی شعبوں کے امور کو بھی دیکھتا ہے۔ لیکن ائر لائن کے لئے کسی بھی نوعیت کا نیا کام وہ اسی صورت میں کر سکتا ہے اگر بورڈ آف ڈائریکٹر (یا ذیلی کمیٹی جس کو اس بات کا اختیار ہو) اجازت دیں۔ آج کے سی ای او کو وہ اختیارات حاصل نہیں ہوتے جیسے نور خان، اصغر خان، سہگل یا تہمینہ (شہباز شریف) کے والد شجاع درانی، یا نسرین جلیل کے والد بیورو کریٹ ظفر الحسن کو کبھی حاصل ہوتے تھے۔
یکم جنوری 2017 پی آئی اے اور ”برن ہلڈن برانڈ“ کے لئے ایک بم کی طرح پھٹا۔ ایک دن پہلے تک پی آئی اے کے پاس ائر بس 310 Aساختہ تین جہاز تھے۔ دو تو (ایک دن پہلے ہی) مسقط (اومان) اور لاہور کے روٹ پر چل رہے تھے۔ تیسرا جاپان میں خراب کھڑا تھا۔ لیکن سول ایوی ایشن کے نافذ کردہ نئے قوانین کی رو سے چونکہ یہ پاکستان کی فضاؤں میں اڑنے کے لئے زندگی کی مقرر میعاد 15 سال پوری کرچکے تھے۔ سو گراؤنڈ کر دیے گئے۔ اس حماقت کا تعلق پی آئی اے سے نہیں بلکہ سول ایوی ایشن کے نافذ کردہ نئے قوانین سے تھا۔ اب ان جہازوں کا مستقبل جناح انٹرنیشنل ائرپورٹ کے ٹارمک پر کھڑے ہو کر گل سڑنا تھا۔
یاد رہے ائربس نے 1998 میں آخری اے 310 ائر بس ازبکستان ائر کو فروخت کیا تھا۔ ہر جاء کہ اس کے بعد بھی 2007 تک کمپنی اس کے مختلف پارٹس اور چیزیں بناتی رہی تھی۔
بہرحال یکم جنوری 2017 کو جب سول ایوی ایشن پاکستان کے اس قانون کی چھری پی آئی اے پر گری اس وقت بھی دنیا بھر میں چالیس سے زائد ائر بس A 310 کمرشل ائرلائنوں میں استعمال ہو رہے تھے۔ ویسے آج 2025 میں بھی 30 سے زائد یہ جہاز ہواؤں میں اڑ رہے ہیں جن میں اکثریت افغانستان اور ایران میں ہیں۔
ظاہر ہے کم از کم ان دو چلتے ہوئے مگر (اس وقت) 25 سے 30 سال پرانے جہازوں کو پی آئی اے سے کون خریدتا؟ ائرلائن نے اس کے پرزے اور اسٹرکچر فروخت کرنے کے لئے بین الاقوامی ٹینڈر طلب کیے لیکن کسی نے کوئی خاص لفٹ نہیں کرائی۔ یاد رہے یہ جہاز فرانس، جرمنی اور برطانیہ کے ایک باہمی معاہدے کے تحت بننا شروع ہوا تھا اسی لئے اسے یورپی ممالک کی ائرلائن میں سب سے زیادہ استعمال کیا گیا تھا۔
جرمن ائر لائن ”لفٹ ہنسا“ ، ائر فرانس اور ڈچ ائر لائن (کے ایل ایم) ایک زمانے میں اس کے سب سے بڑے استعمال کنندہ تھے۔ پی آئی اے میں موجود متعدد لوگ بھی اس چکر میں تھے کہ کوئی ٹینڈر نہ کھل پائے تاکہ یہ جہاز چند لاکھ روپوں میں اسکریپ کی شکل میں پاکستان میں ہی بک جائے (جیسا کہ ہر سال ہوتا ہے ) ۔
”برن ہلڈن برانڈ“ نے جنوری 2017 میں بہرحال بورڈ کی اجازت سے مختلف ائرلائن سے جہاز لیز پر حاصل کیے اور پی آئی اے کو دھکے پر چلاتا رہا۔ یاد رہے چند ہفتے پہلے ہی دسمبر 2016 میں چترال سے اسلام آباد آتے ہوئے اے ٹی آر طیارے کے تباہ ہونے کے بعد مختلف اے ٹی آر جہاز بھی لگ بھگ گراؤنڈ ہوچکے تھے۔ یعنی ایک مہینے میں ہی چھ سات جہازوں کی کمی۔
اب 2017 سے چالیس سال پیچھے چلتے ہیں۔
جون کی 27 تھی اور سال 1976، جب ائر فرانس کی ایک ائر بس (فلائٹ 139 ) جو اسرائیلی مسافروں کو تل ابیب سے پیرس لے کر جا رہی تھی۔ ایتھنز سے مزید مسافر لینے کے لئے اترتی ہے۔ نئے مسافروں میں دو جرمن انقلابی ہائی جیکر بھی شامل ہوتے ہیں۔ (ایک روایت کے مطابق 2 فلسطینی ہائی جیکرز بھی ایتھنز سے سوار ہوتے ہیں ) ۔ ائر فرانس کا یہ طیارہ اغوا ہوجاتا ہے جسے پہلے لیبیا کے شہر بن غازی میں اتارا جاتا ہے۔ تیل بھروانے اور متعدد دوسری سہولیات کے حصول کے بعد یہ جہاز اگلے دن یہاں سے یوگنڈا کے لئے اڑتا ہے۔ اس وقت یوگنڈا کا واحد بین الاقوامی اور فوجی ائر پورٹ ”اینٹ بے“ دارالحکومت کمپالا سے 40 کلومیٹر دور جھیل وکٹوریہ کے عین کنارے واقع تھا۔
ان دنوں یوگنڈا پر ”دادا عیدی امین“ صدر مملکت اور بقلم خود فیلڈ مارشل تھے۔ عیدی امین نے غیر متوقع طور پر بین الاقوامی اصولوں کو نظر انداز کرتے ہوئے ”ہائی جیکروں کا خیر مقدم“ کیا۔ کہا جاتا ہے کہ اینٹ بے میں مزید 5 سے 7 فلسطینی مجاہدین نے جرمن ہائی جیکروں کو جوائن کیا۔
ہائی جیکروں کے مطالبات میں 5 ملین ڈالر کے علاوہ اسرائیل میں قید 40 فلسطینی مجاہدین / راہ نماؤں اور چار دوسرے ممالک میں قید 13 قیدیوں کی رہائی کا مطالبہ شامل تھا۔
ہائی جیکروں نے اس دوران 247 قیدیوں کے تین گروپ بنائے (ایک خاتون پہلے ہی بن غازی میں رہائی پانے میں کامیاب ہو گئی تھی (اس نے ایسا ظاہر کیا جیسے وہ درد زہ میں مبتلا ہو) ۔ پہلا گروہ وہ تھا جو مکمل اسرائیلی شہری تھے۔ دوسرے وہ جو یہودی تھے مگر کسی اور ملک سے تعلق رکھتے تھے۔ یاد رہے جرمن انقلابی ہائی جیکر ہٹلر کے مداح تھے اور ہولوکاسٹ کی طرز پر یہودیوں کے خلاف کچھ بھی کر گزرنے کو تیار تھے۔
بہرحال عیدی امین نے دنیا پر ایسا ظاہر کیا جیسے وہ ہائی جیکروں سے زبردست ڈیل کر رہا ہو۔ لیکن زمینی حقائق یہ تھے کہ ہائی جیکروں کو یوگنڈا کی فوج کے مزید ایک سو سے زائد فوجیوں کی مکمل مدد حاصل ہو گئی تھی۔
30 جون تک بہرحال 148 مسافروں کا دوسرا اور تیسرا گروہ بھی رہا ہوجاتا ہے۔ اب ہائی جیکروں کے پاس پہلے گروپ کے 84 اسرائیلی شہری (مزید دس فرانسیسی مسافروں نے اور ائر فرانس کے عملے کے 12 ارکان اس کے علاوہ تھے جن ہوں نے رہا ہونے سے انکار کر دیا تھا یعنی کل 106 لوگ تھے ) ۔
ہائی جیکروں کی پہلی ڈیڈ لائن یکم جولائی تھی جس کے بعد سے وہ اسرائیلی مسافروں کو مارنا شروع کر دیتے۔ اسرائیلی حکومت نے بظاہر مطالبات ماننے پر لچک دکھائی اور یوں ہائی جیکروں نے ڈیڈ لائن بڑھا کر 4 جولائی کردی۔ چونکہ اب لگ بھگ 84 اسرائیلی مسافر اور 22 دوسرے (اپنی مرضی سے قید) لوگ رہ گئے تھے تو فیصلہ اسرائیل نے کرنا تھا۔ اسرائیلی حکومت نے تحقیق اور ریسرچ کے بعد ایک پیچیدہ کمانڈو ایکشن کرنے کا فیصلہ کیا۔ کیوں کہ ان کو نہ صرف ہائی جیکروں سے لڑنا تھا بلکہ یوگنڈا کے فوجیوں اور ائرفورس سے مڈبھیڑ کا بھی خطرہ تھا۔ بہرحال اس مشن میں ان کی مدد یوگنڈا کے پڑوسی ملک کینیا نے کی۔ جہاں کا دارالحکومت نیروبی، اینٹ بے (کمپالا) سے محض سات سو کلومیٹر دور تھا۔
کینیا کی حکومت اس سلسلے میں کسی بھی طرح کی مدد نہیں کرنا چاہتی تھی مگر اس میں سب سے بڑا کردار نیروبی میں موجود ایک یہودی سرمایہ دار نے ادا کیا جس کے کینیا میں متعدد پنج ستارہ ہوٹل تھے۔ ساتھ برطانوی ایم آئی 6 کے سربراہ نے جس کا کینیا میں بہت اثر رسوخ تھا۔
3 جولائی 1976 کو چار سی ون تھرٹی جہاز لگ بھگ سو اسرائیلی کمانڈوز کو لے کر ایک تھکا دینے والے فضائی سفر کے بعد ، پہلے چار ہزار کلومیٹر دور واقع نیروبی پہنچے۔ تیل بھرنے اور مزید مستند معلومات حاصل کرنے کے بعد یہ جہاز اندھیری رات میں ”اینٹ بے“ کے فوجی اڈے پر پہنچے۔ کمانڈوز کا ایک دستہ فضائیہ کے روسی ساختہ گیارہ (مگ 17 اور مگ 21 ) طیارے تباہ کرنے چل پڑا تاکہ وہ بعد میں اسرائیلی سی ون تھرٹی اور بوئنگ کے لئے مشکلات نہ کھڑی کرسکیں۔ جب کہ باقی لوگ مسافروں کو رہا کروانے کے لئے ٹرمینل بلڈنگ کی طرف چل پڑے۔ جس کے لئے وہ ایک خصوصی مرسڈیز کار بھی اپنے ساتھ سی ون تھرٹی پر لائے تھے (ملتی جلتی مرسڈیز جس میں بیٹھ کر عیدی امین روزانہ ”اینٹ بے“ آ کر ہائی جیکروں سے ملاقات کرتا تھا۔ کار پر نمبر پلیٹ بھی اسی نمبر کی نصب کی گئی تھی) ۔ مقصد مقامی فوجیوں کو یہ دھوکہ دینا تھا کہ عیدی امین رات کو ملاقات کے لئے آیا ہے اور کوئی اسرائیلی کمانڈوز کو نہ روکے۔
یہ آپریشن محض 53 منٹ میں مکمل ہو گیا۔ جس میں مار دھاڑ کے 30 منٹ بھی شامل تھے۔ اس دوران ایک اسرائیلی سی ون تھرٹی مسافروں کے ٹرمینل کے نزدیک لایا جا چکا تھا۔ لگ بھگ سات ہائی جیکروں اور چند یوگنڈا کے حفاظت پر مامور فوجیوں کو مارنے کے بعد اسرائیلی کمانڈوز نے مسافروں کو سی ون تھرٹی میں منتقل کرنا شروع کر دیا۔ اس دوران یوگنڈا کے فوجیوں نے قریبی کنٹرول ٹاور کی بلڈنگ کی چھت پر پہنچ کر اسرائیلی کمانڈوز اور مسافروں پر فائرنگ شروع کردی۔ جس سے دو مسافر ہلاک ہو گئے۔ ایک اور یعنی تیسرا مسافر پہلے ہی ٹرمینل کی بلڈنگ پر حملے کے دوران ہلاک ہو گیا تھا۔ جب کہ ایک معمر خاتون چند گھنٹے پہلے ہی بیماری کی وجہ سے کمپالا کے ہسپتال منتقل ہو چکی تھی۔ اس بزرگ خاتون کو کہا جاتا ہے کہ اگلے دن عیدی امین کے حکم پر قتل کر کے لاش کہیں دور دفنا دی گئی۔ تین سال بعد جب تنزانیہ نے یوگنڈا پر حملہ کر کے عیدی امین کو ملک سے بھاگنے پر مجبور کر دیا تو 1979 میں اس خاتون کی لاش ایک کھیت سے برآمد ہوئی۔ اس پورے آپریشن میں صرف ایک اسرائیلی کمانڈو ”جوناتھن نیتن یاہو“ مسافروں کو بچاتے ہوئے ہلاک ہوا۔ جب کہ پانچ فوجیوں کو گولیوں کے زخم آئے۔ اسرائیلی حکومت نے بعد میں اس فوجی کے اعزاز میں اس آپریشن کا نام ”آپریشن جوناتھن“ رکھ دیا تھا۔ ویسے یہ صاحب موجودہ اسرائیلی وزیراعظم بنجمن نیتن یاہو کے بڑے بھائی تھے۔
اب آپ سوچ رہے ہوں گے کہ پی آئی اے کے گم شدہ جہاز کا ہمارے ازلی دشمنوں کی تعریف اور ستائش سے کیا تعلق ہے؟ تھوڑا رک جائیے۔
آپریشن اینٹ بے کی تعریف اور ستائش میں مختلف ادوار میں دستاویزی فلمیں بنیں۔ ناول بھی لکھے گئے۔ مگر 2016 کے اوائل میں دو برطانوی اور امریکی فلم کمپنیوں نے اس آپریشن پر مشترکہ فلم بنانے کا اعلان کیا۔ ڈائرکٹر اس شخص کو لیا گیا جو کچھ عرصہ پہلے ہی مشہور فلم ”روبو کاپ“ اور ”نارکوس“ تخلیق کرچکا تھا۔ کہانی وغیرہ مکمل کرلی گئی تو شوٹنگ یوگنڈا کے اسی ٹرمینل پر ممکن نہیں تھی کیوں کہ نہ اب وہاں وہ عمارتیں موجود تھیں اور نہ یوگنڈا کے اس واحد بین الاقوامی ائر پورٹ پر سہولتیں۔
اگست 2016 تک طے ہو گیا کہ مرکزی کردار کون کون ادا کرے گا۔ نومبر 2016 تک فلم کی شوٹنگ کا ایک بڑا حصہ مالٹا اور برطانیہ میں ریکارڈ کر لیا گیا۔ لیکن یہاں آ کر ڈائرکٹر کی سوئی ایک ایسی فرمائش پر پھنس گئی جسے پورا کرنا مشکل ہو گیا تھا۔
ائر فرانس کا ایک عدد ائر بس 300 ساختہ طیارہ جس میں مسافروں کو سفر کرتے اور ”اینٹ بے“ پر لینڈ کرتے دکھایا جانا تھا۔
ائر فرانس نے کہا کہ ہم نے تو عرصہ ہوا یہ جہاز نہیں دیکھا۔ جب پوری دنیا میں کوئی جہاز نہ ملا۔ تو کسی عقل مند نے کہا کہ دوسری ائر لائنوں کو چیک کرلو اور اے 300 ائر بس نہیں بھی ملتی تو اس سے ملتی جلتی اے 310 حاصل کرلو۔
مشکل نہ صرف یہ تھی کہ جہاز ٹھیک ٹھاک اڑنے کے قابل ہو بلکہ اس کو ائر فرانس کا پینٹ بھی کرنا تھا ساتھ اس جہاز کو اڑانے کے لئے پائلٹ بھی چاہیے تھے، ”بن غازی“ سے ”اینٹ بے“ لینڈنگ دکھانے کے لئے۔ فروری 2017 آ چکا تھا، مگر جہاز کا بندوبست نہ ہوسکا۔
اسی دوران برطانوی لاجسٹکس کمپنی جس کے ذمہ جہاز ڈھونڈنے کا کام سونپا گیا تھا۔ پی آئی اے تک پہنچ گئی۔ پی آئی اے تو پہلے ہی جہاز بیچنے کے لئے ٹینڈر دے چکی تھی۔ مگر کمپنی کو جہاز خریدنا نہیں تھا بلکہ کرائے پر لینا تھا۔ جس کے لئے دو لاکھ ڈالر کا بجٹ رکھا گیا تھا۔ (اس وقت کے دو ڈھائی کروڑ پاکستانی روپے سمجھ لیں ) ۔ ہر جاء کہ پاکستانی جہاز اڑتی حالت میں تھا مگر پی آئی اے اس کو کسی کام میں نہیں لا سکتی تھی اور نہ اس کے پرزے یا انجن کی کسی کو بھی ضرورت تھی۔ امکان یہی تھا کہ یہ جہاز پانچ سے دس لاکھ روپے میں اسکریپ ہو جائے گا۔
دو لاکھ ڈالر کی زبردست اور مفت کی آفر آئی تو پی آئی اے کی انتظامیہ نے خوشی خوشی ہاں کردی۔ مگر پہلا مسئلہ تو خود سول ایوی ایشن کے سرخ فیتے نے ڈالا کہ قوانین کی رو سے اتنا پرانا جہاز پاکستانی فضا میں اڑانے کی اجازت دینے سے انکار کر دیا۔ پی آئی اے نے کچھ زور زبردستی دکھائی تو ان سے ایک سرٹیفیکیٹ لے لیا گیا کہ اس جہاز کو صرف ایک دفعہ اڑنے کی اجازت دی جا رہی ہے تاکہ یہاں سے جا سکے اور واپسی کے لئے پی آئی اے اصرار نہیں کرے گی۔
کہتے ہیں پی آئی اے پائلٹس نے جہاز کو کراچی سے مالٹا تک اڑایا اور فلم کمپنی والوں کے حوالے کر کے واپس آ گئے۔ ائر فرانس کے نئے پینٹ کے بعد اس کو دوبارہ شوٹنگ کے لئے پائلٹس، پی آئی اے نے ہی دیے یا کسی اور ائر لائن نے اللہ جانے۔
بہرحال ایک آدھ مہینے ہی میں جب جہاز کی شوٹنگ کا ہر طرح سے کام مکمل ہو گیا تو فلم کمپنی نے پی آئی اے سے کہا کہ بھائی جان اپنا کھلونا واپس لے جاؤ۔ پی آئی اے کی انتظامیہ تو پہلے ہی جہاز پر فاتحہ پڑھ چکی تھی۔ بیس پچیس ہزار ڈالر کے جہاز کے بدلے دو لاکھ ڈالر مل چکے تھے۔ سول ایوی ایشن والوں سے پھر اجازت کا کہا گیا تو سرخ فیتہ صاف انکاری ہو گیا۔ ادھر مالٹا میں جہاز کے ٹارمک کا کرایہ بڑھتا جا رہا تھا۔ دوسری طرف ہر جاء کہ پی آئی اے والے جہاز پر فاتحہ پڑھ چکے تھے اور ڈالر پی آئی اے کہ اکاؤنٹ میں بھی آچکے تھے مگر کاغذات پر یہ ائر بس بدستور پی آئی اے کی ملکیت تھا۔ کہنے کو کئی ملین ڈالر کا ، مگر ساتھ کسی کام کا بھی نہیں۔ کیوں کہ اب تک مروج طریقوں سے اسے رائٹ آف نہیں کیا گیا تھا۔
اسی دوران یعنی اپریل 2017 میں پی آئی اے کے جرمن ”سی ای او“ سے جرمنی کے ایک ایوی ایشن میوزیم نے رابطہ کیا جو لفٹ ہنسا کے جہاز کے لئے ائر بس 310 کی تلاش میں تھے۔ جانو جرمن نے انہیں کہا کہ مالٹا سے اٹھوا لو۔ یوں یہ جہاز مالٹا سے جرمنی کے ایک میوزیم ”لیپ زگ ہال“ سے متصل ائرپورٹ پہنچ گیا۔ بعد ازاں یہ جہاز سوا ملین ڈالر مزید دے گیا۔ جرمانوں اور مختلف ادائیگیوں کے بعد پی آئی اے کو کتنے ملے۔ اللہ جانے۔ ایک رپورٹ کے مطابق دو لاکھ ڈالر فلم کے کرائے کے علاوہ میوزیم نے 19 کروڑ روپے (اس وقت 12 سے 15 لاکھ یورو) ادا کیے تھے۔ کچھ لوگ کہتے ہیں کہ مختلف کٹوتیوں کے بعد میوزیم کی طرف سے محض 32 لاکھ روپے پی آئی اے کے ہاتھ آئے۔
اس دوران دسمبر 2016 میں چترال سے اسلام آباد آنے والا اے ٹی آر طیارہ تباہ ہوجاتا ہے (جس میں ایک مسافر سابقہ گلوکار جنید جمشید بھی تھا) ۔ قیاس یہی تھا کہ وجہ زمینی عملے کی غفلت تھی۔ اس تناظر میں پی آئی اے کی یونین کے لوگوں پر جرمن سی ای او نے نظم و ضبط اور قواعد کی چھریاں تیز کرنے کی کوشش کی تاکہ کارکردگی بہتر کی جا سکے تو متعدد لابیاں اس کے خلاف ہو گئیں۔ ایک دن اپریل 2017 میں جب سی ای او چھٹیوں پر جرمنی گیا ہوا تھا۔ وہ فیصلے جو ماضی میں بورڈ آف ڈائریکٹرز نے کیے تھے (جس میں سری لنکن ائر اور دوسری ائر لائنز کے ساتھ کیے گئے کچھ معاہدے بھی شامل تھے ) ان معاہدوں پر انکوائریاں بیٹھ گئیں اور سارا ملبہ جرمن سی ای او پر ڈال دیا گیا۔ اور یوں اپریل 2017 میں گیا جانو جرمن پھر پاکستان واپس ہی نہیں آیا۔ یہ نوکری ”برن“ کے لئے اتنی ذلت اور شرمندگی والی تھی کہ اس نے آج تک اپنے سی وی اور لنکڈ ان پر بھی پی آئی اے کی نظام سقہ والی بادشاہت کا تذکرہ نہیں کیا اور فروری 2016 سے جولائی 2017 کا وقت اس کے سی وی میں ”بے روزگار“ ہی سمجھیں۔
بہرحال انہی دنوں دوسرے معاملات سے توجہ ہٹانے کے لئے (یعنی اپریل مئی 2017 میں ) کسی نے یہ کٹا بھی کھول دیا کہ پی آئی اے کا ایک جہاز کم ہے (جس کا ظاہر ہے کاغذات پر ابھی تک وصال نہیں ہوا تھا) ۔ پاکستان وہ آ نہیں سکتا تھا۔ آ جاتا تو اڑ نہیں سکتا تھا۔ اور اس عرصے میں کرائے پر دینے والوں کو یہ بھی علم ہو چکا تھا کہ جس فلم کی شوٹنگ کے لئے اس کو حاصل کیا گیا تھا وہ اسرائیلی کمانڈوز کی بہادری کی داستان سے متعلق ہے تو سب اپنا منہ بند کر کے بیٹھے رہے کہ جہاز کی گم شدگی کی گالی کھانا، اس بدنامی سے بہتر تھا کہ ”پی آئی اے“ کا جہاز اسرائیلیوں کے کام آ گیا۔ یہ وہ وقت تھا کہ جب ہمارے خادم حسین رضوی فل فارم میں تھے۔ اب ”سر تن سے جدا“ کون پسند کرتا ہے۔ 2018 مارچ میں اس وقت تک ”اینٹ بے میں سات دن“ نام سے یہ فلم بھی برطانیہ اور امریکہ میں ریلیز ہو چکی تھی۔
یو ٹیوب پر پوری فلم دیکھی جا سکتی ہے۔ 7 Days in Entebbe
Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).