سید کاشف رضا کا شعری مجموعہ: ممنوع موسموں کی کتاب
ایسے میں جب شاعر کا تیسرا مجموعہ کلام شعری دُنیا میں وارد ہونے کو ہو تب اُس کے گزشتہ کلام کا ذکر چھیڑنے میں بھی کوئی مضائقہ نہیں۔ ایک شخص جو ادبی منظر نامے پر کئی جہتوں اور حوالوں سے جانا جاتا ہو اُس کی اصل شخصیت کو کھوجنا کسی طور مشکل کام ہے۔
سید کاشف رضا کا نام سُنتے ہی دو حوالے تو فوراً آپ کے ذہن میں آتے ہیں، بطور مترجم اور بطور فکشن نگار۔ تعارف کا حوالہ یاداشت پر بھی تو منحصر ہے۔ گزشتہ چند برسوں میں سید کاشف رضا کا جو تخلیقی کام ہمارے سامنے ہے وہ تراجم ہی تو ہیں۔ ناول کی اشاعت کو سات برس ہونے کو ہیں۔ سید کاشف رضا بحیثیت فکشن نگار کی یاد دہانی اس طور بھی ہوتی رہتی ہے کہ موصوف ادبی کانفرنسوں اور فیسٹیولز پر فکشن کے موضوع پر منعقد ہونے والے سیشنز کی میزبانی کرتے اور کہیں مقرر کے روپ میں نظر آ جاتے ہیں۔
بحیثیت شاعر کا حوالہ ہمارے ذہنوں سے محو ہونے کی بڑی وجہ تو یہ ہے کہ آخری شعری مجموعے کی اشاعت کو تیرہ برس ہونے کو آئے، دوسری وجہ یہ ہوئی کہ جناب مشاعروں اور شعری کتابوں کی تقریبِ اشاعت میں بھی دکھائی نہیں دیتے جو کہ ہمارے ہاں شاعر کے پاس اپنی شاعرانہ شناخت ثابت کرنے لئے کسی شناختی کارڈ سے کم نہیں۔ کاشف رضا کا پہلا شعری مجموعہ 2003 میں شائع ہوا۔ پہلے اور دوسرے مجموعے کے درمیان نو برس کا طویل وقفہ ہے۔ شاعر کے لئے وقفہ کتنا ضروری ہے سیکھنے والوں کے لئے اس میں بہت سی نشانیاں ہیں۔ کہنے کو یہ بھی نسخہ کیمیا ہے کہ اتنی طویل مدت کے بعد قرطاس پر اُترنے والی شاعری قاری کو کُندن ہو کر ملتی ہے۔
کچھ دو برس پہلے سید کاشف رضا کی فیس بک پروفائل سامنے آئی تو فیس بک کی کور فوٹو پر ایک کتاب کی تصویر تھی (جو کہ اب بھی موجود ہے ) ۔ فیس بک کور فوٹو انسان کی شخصیت کی تھوڑی بہت خبر تو دیتا ہے۔ آدمی کی پسند ناپسند، جمالیات، وہ کون سے لمحوں اور چیزوں کو اپنے تئیں اہم ترین قرار دیتا ہے، عزیز رکھتا ہے، اپنی پروفائل پر مثلِ مطلع سجا دیتا ہے۔ سید کاشف رضا نے 2012 سے ممنوع موسموں کی کتاب کے ٹائٹل کور کو سجا رکھا ہے۔
کتاب کا عنوان پڑھ کر پہلے پہل تو گُماں گزرا شاید یہ کوئی افسانوں کی کتاب یا پھر ناول ہے۔ پچھلے برس سعید بک بینک کے اُردو سیکشن میں تاک جھانک کے دوران اس کتاب پر نظر پڑی، فہرست عنوان دیکھ کر راز کُھلا جسے ہم ناول اور افسانوں کی کتاب سمجھے تھے شاعری کی ڈائری نکلی۔ فرصت پا کر کتاب پڑھنی شروع کی تو دیباچے سے سامنا ہوا جسے شاعر نے خود تحریر کیا ہے۔ نظموں سے پہلے تو قاری کو یہ دیباچہ ہی حیرت میں ڈال دیتا ہے، یوں محسوس ہوتا ہے جیسے دیباچے میں شاعر نے اپنا دل نکال کر رکھ دیا ہو۔
اس دیباچے کو پڑھ کر مجھ پر وہی کیفیت گزری جو چار برس پہلے کلیات راشد شروع کرنے پر گزری تھی۔ ماورا کی نظمیں پڑھنی شروع کی تو راشد کی دوسری کتابوں کی طرف بڑھنے کو جی نہ چاہتا تھا، ماورا کی نظمیں خاص طور پر میں اُسے واقفِ الفت نہ کروں، مری محبت جواں رہے گی، ہونٹوں کا لمس، اتفاقات، اظہار، آنکھوں کے جال، رقص، بیکراں رات کے سناٹے میں، جیسی نظمیں بار بار مجھے اپنی طرف بُلاتیں تھیں کہ آؤ ہمیں مزید چکھو، ابھی تم پوری طرح ہم سے آشنا نہیں ہو۔ سو یہ دیباچہ ویسا ہے، لفظ و معنی کے امتزاج کے ساتھ شہ پارہ نثر بھی ہے بلکہ یوں کہیے کہ نثری نظم ہے۔
دیباچے کا آغاز ان سطور سے ہے :
”وہاں جہاں مندرج اور نادرج نوشتے محبت کا محلِ وقوع طے کرتے اور نفرتوں کا حدود اربعہ متعین کرتے تھے، کچھ موسموں کو تو ممنوع ہونا ہی تھا۔“
محبت کا محل وقوع شاعر کا پہلا شعری مجموعہ ہے۔ اپنی پہلی کتاب اور دوسرے مجموعے کا نام جس طرح سے سید کاشف رضا ایک ساتھ لائے ہیں وہاں سے ذہن اچانک احمد فراز کی ایک غزل کے مطلع ثانی کی طرف جاتا ہے :
لوگو ایک زمانہ تھا جب ہم کیا کیا کہلاتے تھے
دردِ آشوب سے پہلے ہم تنہا تنہا کہلاتے تھے
دیباچے سے چند سطریں ملاحظہ کیجیے :
”جَلی ہوئی انگلیوں سے کھینچی جانے والی لکیروں کو اگر آپ نظم نہ گردانیں تو میرا آپ پر کوئی زور نہیں۔“
”میرے پاس آپ کو دکھانے کے لئے کچھ باغ ہیں اور کچھ جلی ہوئی زمینیں۔“
”شاید شاعری اس لیے بھی کرتا ہوں کہ جن صبحوں، شاموں کو جِیا ہوں اُن کی گواہی دے سکوں۔“
”اگر انسان نے موت کے خلاف افزائش نسل سے جدوجہد کی ہے تو فراموشی کے خلاف تحریر کا فن ایجاد کیا ہے۔ شاعری بھی جیے ہوئے لمحوں، فراموشی سے جیتے ہوئے کچھ لمحوں کا حساب رکھتی ہے۔ اور انت میں فراموشی!“
”عورت تخلیق کا منبع ہے، اس لئے مجھے مخلوقات میں سب سے زیادہ وہی پسند ہے۔ لفظ بھی وہی اچھے رہے جو اس کی شُکر گزاری میں صَرف ہو گئے۔“
”سرما کی دل آویز دھوپ پر جان دینے والے کو صرف رُومانی شاعری کرنا چاہیے تھی۔ سیاسی نظمیں لکھ کر اس لیے بھی بھاڑ جھونکا ہے کہ انسانوں کو ایک دوسرے پر ظلم و زیادتی کرتے نہیں دیکھ سکتا۔“
اس مجموعے کی ابتدائی نظمیں اپنے معاشرے، اس کے سماجی و سیاسی حالات، بسنے والوں پر ہونے والے مظالم پر احتجاج سے عبارت ہیں۔ کراچی میں رہتے ہوئے شاعر بلوچستان سے لاعلم نہیں ہے، یہ خطہ زمین بھی اس کا اپنا ہے۔ مارے جانے والوں کے نام، پاکستانی موسیقی پر ایک نظم، حکیم بلوچ اور اُس کی جادوئی دُنیا، یہ وہ شہر نہیں تھا، اجتماعی مباشرت، اس حصے کی اہم ترین نظمیں ہیں۔ کتاب کے اسٹرکچر کی بات کریں تو یہ پانچ حصوں پر منقسم ہے۔ ہر حصہ اپنا الگ تاثر اور ذائقہ لئے ہوئے ہے۔ پہلے حصے سے ایک نظم ”اجتماعی مُباشرت“ دیکھیے :
تاریخ سے اجتماعی مُباشرت
ہم نے کھیل سمجھ کر شروع کیا
پھر شور بڑھتا گیا
اور ہمارا شوق دیکھ کر
ہماری بُریدہ تاریخ
ہماری زوجیت میں دی گئی
اب اُس کے بچے کُتوں سے زیادہ ہیں
یوں تو کسی نظم سے مخصوص جملے اور حصے نکال کر کتاب کے تعارفی مضمون میں پڑھنے والوں کے سامنے پیش کرنا شاعر اور نظم کے ساتھ یقیناً زیادتی ہے مگر آپ کو اشتہا دلانے کی غرض سے میرے پاس کوئی دُوسرا متبادل بھی نہیں۔
مجھے وہ لباس پسند ہیں
جن میں سے تم
ابھی ابھی نکل کر باہر گئی ہوئی ہو
۔ ۔
ہمارے لیے تو یہی ہے کہ
تمہارا جلوس جب شاہ راہ سے گزرے
تو تم اپنی اُنگلیوں کی تتلیاں ہماری جانب اُڑاؤ
اپنی اُنگلیوں کو ہونٹوں سے چُھوتے ہوئے
ہماری جانب ایک بوسے کی صورت اُچھالو
جسے سمیٹنے کے لئے ہم ایک ساتھ لپکیں
۔ ۔
عورت مجھے جن نادر چیزوں سے مسحور کر سکی اُن میں وہ شکنیں بھی ہیں جو اس کے جمال کو ٹکڑوں میں سمجھاتی ہیں، اور جو اسے لپیٹنے کی کوشش میں اس کے بھرے پُرے شکم پر قائم ہو جاتی ہیں، اور جو کہنیوں کے کناروں سے پھسل جاتی ہیں اور جو گھٹنوں کے کواڑوں سے جھانک کر مُسکراتی ہیں، اور جو آنکھوں کی کونوں پر کھڑی ہو کر مجھے حیرت سے دیکھنے لگتی ہیں۔
۔ ۔
تقدیر میرے لیے جو لکیریں فراواں کر سکی اُن میں یہ شِکنیں بھی ہیں جو عورت کی ہتھیلیوں پر ایک اِذن بن کر کِھلتی ہیں یا کسی ممنوعہ شہر کے راستوں کی طرح بند رہتی ہیں اور قدیم نقشوں کی طرح سفر کی دعوت سے ہمیشہ بھری رہتی ہیں، اور جنھیں جہاں نوردی پر اُکسایا ہوا ایک لڑکا صرف اگلی صبح تک ملتوی کر سکتا ہے۔
۔ ۔
تم مجھے مِلتے
تحلیل ہوتی ہوئی یاد میں
اور میں تمہیں حرفوں میں مُرتکز کر دیتا
تم مجھے ملتے
کوکون کے گرد لپٹے ہوئے ریشم میں
اور میں تم سے ایک نظم کھینچ نکالتا
۔ ۔
میرے سینے پر جتنے بال اُگے
کوئی عورت اُن کی جڑیں سُونگھ کر
میری محبت کی گواہی دے سکتی تھی
۔ ۔
زندگی میں پہلی بار
میں رویا تھا
جب میری ناف سے
میری ماں کی نال کاٹی گئی تھی
اِس کے بعد میں
ہمیشہ کوئی دھاگا
ٹوٹنے، جُڑنے
اُدھڑنے پر رویا
۔ ۔
موت ایک اہم کام ہے
اِسے یک سُو ہو کر کرنا چاہیے
یا سارے کام نمٹا کر
کسی کاروباری سودے سے پہلے
انتخابی مہم کے دوران
اور نظم کے وسط میں
موت نہیں آنی چاہیے
۔ ۔
تبصرہ نگاری کے جہاں بہت سے فائدے ہیں وہاں ایک نقصان یہ ہے کہ تبصرہ نگار متن کے اصل رنگ کو اُڑا کر اُس میں اپنا رنگ شامل کر دیتا ہے۔ اس کتاب کو آپ سے متعارف کرواتے ہوئے میں نے خود کو اس عمل سے باز رکھا ہے۔
سال 2023 کے دوران میں نے کچھ کچھ وقت افضال احمد سید کی کُلیات مٹی کی کان کے ساتھ بِتایا ہے۔ ممنوع موسموں کی کتاب 2024 میں گاہے گاہے پڑھی ہے۔ یوں تو فیصلے سُنانے کی عادت و روایت نقادوں کی ہے اور اُنہی پر جچتی ہے مگر کچھ کہنے کی اجازت قاری کو بھی ہونی چاہیے۔ افضال احمد سید کے بعد اگر کسی نے نظم کہی ہے تو وہ سید کاشف رضا ہیں۔
شاعری لکھنا سید کاشف رضا کے نزدیک ڈائری لکھنے کے مترادف ہے۔ ڈائری لکھنا ایک انتہائی ذاتی نوعیت کی چیز ہے، ایسی باتیں بھی لکھنا پڑتی ہیں جو آدمی دوسروں اور خود سے بھی مخفی رکھنا چاہتا ہے۔ کاشف رضا کی کئی نظموں کو پڑھ کر یہ قاری پر آشکار ہونے لگتا ہے کہ واقعی کسی شاعر کی ذاتی ڈائری اُس سے ہم کلام ہے جس میں واقعات، احساسات اور جذبات سب نظم ہو چکے ہیں۔
شاعر کا ایک تاثر وسیع المطالعہ قاری کا بھی ہے۔ آپ کاشف رضا سے اگر پوچھیں : سنائیے آج کل کیا ہو رہا ہے، کچھ بعید نہیں کہ سامنے سے یہی جواب آئے گا ”آج کل مطالعہ ہو رہا ہے۔“ ممنوع موسموں کی کتاب شاعر کی وسیع المطالعگی کا ثبوت بھی ہے۔
یہ کتاب مُدتوں سے آؤٹ آف پرنٹ تھی۔ اس کی پہلی اشاعت مرحوم آصف فرخی کے ادارے شہرزاد سے ہے۔ سعید بُک بینک کے اُردو سیکشن کی ایک خوبی یہ ہے کہ وہاں بہت سی آؤٹ آف پرنٹ کتابوں کے نایاب ایڈیشن مل جاتے ہیں، اور یہی ہماری خوش قسمتی تھی جس کے توسط سے ہم یہ نظمیں پڑھ پائے۔
کچھ ہفتے قبل خبر سُنی کہ جناب حماد نیازی نے کولاج سے اس کتاب کا دُوسرا ایڈیشن شائع کر کے قارئین کے لئے مہیا کر دیا ہے۔ اس خبر کے بعد ہم نے سعید بُک بینک کا رُخ کیا اور وہاں موجود پہلے ایڈیشن کی جتنی کاپیاں موجود تھیں خرید لیں تاکہ اپنے دوست احباب کو تحفہ کر سکیں۔ دوسری اشاعت نے پہلے ایڈیشن کو مزید نایاب بنا دیا۔
کتابوں کے عاشق اس بات سے آگاہ ہیں کہ کسی بھی کتاب کا پہلا ایڈیشن کیا اہمیت رکھتا ہے۔ دوسری اشاعت نے پہلے ایڈیشن کو نایاب تو بنایا ہی ہے نیز شہرزاد کا ایڈیشن دو وجوہات کے باعث اہم بھی ہے، اول ہارڈ بیک، خوبصورت صفحات اور ڈسٹ کور سے مزین اشاعت، دوئم مرحوم آصف فرخی کے ساتھ سید کاشف رضا کی ادبی وابستگی اور محبت۔
آج شاعری کا عالمی دن ہے، یہ دن شاعری میں بسر کرنے والوں کو مبارک، خوشی کی خبر ہے کہ شاعر کا تیسرا شعری مجموعہ زیرِ طباعت ہے۔ اُمید ہے قارئین اِس باغ کی جلد سیر کر سکیں گے۔
- سید کاشف رضا کا شعری مجموعہ: ممنوع موسموں کی کتاب - 06/04/2025
- مصنف بیچارا اب منظر میں کیسے رہے؟ - 11/03/2025
- جیسے لہور لہور ہے، ویسے تارڑ، تارڑ ہے - 03/03/2025
Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).