بڑا کم ظرف تھا جو کر گیا ویراں شاموں کو


30 نومبر 1967 کو جب پاکستان پیپلز پارٹی کی بنیاد رکھی گئی تو نوجوان احمد رضا قصوری بھی اس میں شامل ہو گئے۔ ان کے خاندان نے 1970 سے پہلے کبھی کسی یونین کونسل کا الیکشن بھی نہیں جیتا تھا۔ 7 دسمبر 1970 کو پاکستان کے پہلے اور تباہ کن عام انتخابات میں احمد رضا قصوری بھی پیپلز پارٹی کے ٹکٹ پر 30 سال کی عمر میں قومی اسمبلی کے رکن بن گئے لیکن کچھ عرصے بعد اپنے مزاج کی وجہ سے پیپلز پارٹی سے نکال دیے گئے۔ 29 اکتوبر 1972 کو ڈان اخبار میں شائع ہونے والی خبر کے مطابق پیپلز پارٹی کی سینٹرل ایگزیکٹو کمیٹی کے اجلاس میں احمد رضا قصوری کو جنرل یحییٰ خان کی آمریت کے ساتھ ملی بھگت اور پیپلز پارٹی کے خلاف مہم چلانے پر پارٹی سے نکال دیا گیا۔ پیپلز پارٹی سے بے دخل ہونے کے بعد احمد رضا قصوری نے بھٹو مخالف اصغر خان کی تحریک استقلال میں شمولیت اختیار کر لی اور بھٹو اور پیپلز پارٹی کے خلاف تقاریر کرتے رہے اور ساتھ اسی جماعت کے ٹکٹ سے ملنے والی ایم این اے شپ کو بھی چمٹے رہے۔ یہ صاحب ان چند لوگوں میں شامل تھے جنہوں نے 1973 کے آئین پر دستخط نہیں کیے۔

11 نومبر 1974 کی رات کو احمد رضا قصوری اپنے والد محمد احمد خان قصوری، والدہ میمونہ بانو اور ایک خالہ کے ہمراہ لاہور میں ایک دوست سید بشیر شاہ کی شادی کی دعوت سے گھر آ رہے تھے کہ شادمان شاہ جمال چوک پر ان کی گاڑی پر نامعلوم افراد نے فائرنگ کر دی۔ فائرنگ کے نتیجے میں ان کے والد محمد احمد خان قصوری قتل ہو گئے۔

الطاف حسن قریشی کی مرتب کردہ کتاب افواہ اور حقیقت کے مطابق ابھی محمد احمد خان قصوری کی لاش ہسپتال میں تھی کہ چوہدری ظہور الہی بھی وہاں پہنچ گئے اور احمد رضا قصوری کے ساتھ مل کر حکمت عملی بنائی کہ کس طرح اس قتل کو بھٹو کے خلاف استعمال کیا جا سکتا ہے۔ ایف آئی آر میں احمد رضا قصوری نے اپنے باپ کے قتل کا الزام بھٹو پر لگایا۔ ساتھ یہ بھی خدشہ ظاہر کیا کہ اس قتل میں قادیانی، قصور میں ان کے سیاسی مخالفین اور پیپلز پارٹی کے کچھ ارکان بھی ملوث ہو سکتے ہیں۔

بھٹو نے اس مقدمے کی تحقیقات کے لیے ہائی کورٹ کو ایک ٹریبونل تشکیل دینے کی درخواست کی۔ ٹریبونل نے اپنی رپورٹ 26 فروری 1975 کو پیش کر دی اور یہ مقدمہ داخل دفتر کر دیا گیا۔

ٹریبونل کی رپورٹ کے بعد احمد رضا قصوری ایک بار پھر بھٹو سے ملنے کو بے تاب ہو گئے لیکن بھٹو نہ مانے۔ پھر احمد رضا قصوری نے اپنی والدہ کے ذریعے بھٹو کو راضی کر لیا اور ایک دفعہ پھر پیپلز پارٹی میں شامل ہو گئے اور بھٹو کی تعریفوں میں زمین آسمان کے قلابے ملانے لگے۔ ان کی والدہ بھٹو پر اپنے سارے بیٹے قربان کرنے کے دعوے کرنے لگ پڑیں۔

مارچ 1977 کو پیپلز پارٹی نے احمد رضا قصوری کو ٹکٹ نہ دیا اور قصوری صاحب ایک دفعہ پھر پیپلز پارٹی سے نکل گئے۔

5 جو لائی 1977 کو ضیا نے اس بھٹو کی حکومت کا تختہ الٹ دیا جس کو وہ جھک کر ملتا تھا۔ ضیا نے بھٹو کو کرپشن، مالی بے ضابطگیوں اور امن عامہ کے لیے خطرے جیسے الزامات میں گرفتار کر لیا لیکن جلد ہی بھٹو کی ضمانت ہو گئی۔ لیکن چند دن بعد ضمانت منسوخ ہو گئی اور بھٹو کو پھر گرفتار کر لیا گیا۔ اس دوران احمد رضا قصوری کی والدہ میمونہ بیگم، جس نے اپنے شوہر کے قتل کے بعد بھٹو پر اپنے سارے بیٹے قربان کرنے کے دعوے کیے تھے، نے ضیا آمریت کو اپنے تین سال پہلے قتل ہونے والے شوہر کے مقدمے کو دوبارہ کھولنے کی درخواست کر ڈالی۔ سیشن عدالت یعنی ٹرائل کورٹ میں مقدمہ چلنے کی بجائے اس ہائی کورٹ میں چلا جہاں ضیا اپنے ایک درباری جج کو چیف جسٹس لگا چکا تھا۔ اس طرح ضیائی عدالت نے بھٹو کو سزائے موت سنا دی۔

سٹینلے والپرٹ اپنی کتاب زلفی بھٹو آف پاکستان میں لکھتے ہیں کہ راولپنڈی کی سینٹرل جیل میں بھٹو کو مسوڑوں کی شدید تکلیف ہوئی۔ جب بے نظیر اپنی والدہ کے ہمراہ ان سے ملی تو انہوں نے جیل حکام کو لکھا کہ ان کے والد کے مسوڑے سوجھ گئے ہیں جن سے خون اور پیپ رس رہی ہے۔ دس سال سے بھٹو کے دانتوں کے ڈاکٹر، ظفر نیازی نے ان کا معائنہ کیا لیکن درد میں کوئی افاقہ نہ ہوا۔ اس درد کا محرک بھٹو صاحب کو لاحق جگر کا عارضہ بتایا جاتا ہے۔ ڈاکٹر نیازی نے بھٹو کو کسی اور کھلی جگہ پر منتقل کرنے کی سفارش کی لیکن ضیا نہ مانا۔ ضیا کی خواہش تھی کہ بھٹو طبعی موت ہی مر جائے کیونکہ اسے معلوم تھا کہ بھٹو کے کھانے کی مقدار بہت کم ہو گئی ہے۔

3 اپریل کو بے نظیر اور ان کی والدہ جو سہالہ پولیس کالج میں نظربند تھیں کو غیر متوقع طور پر بھٹو سے تین گھنٹے ملاقات کے لیے راولپنڈی لے جایا گیا۔ رات 2 بجے بھٹو کو تختہ دار پر لٹکا دیا گیا اور صبح چار بجے چکلالہ ائر بیس سے لاش کو لاڑکانہ لے جایا گیا اور چپکے سے گڑھی خدا بخش میں دفنا دیا گیا۔ وہ لیڈر جسے قائدِ عوام کہا جاتا تھا کی موت پر کوئی ہنگامہ برپا نہ ہوا۔

قائد اعظم کے بعد ذوالفقار علی بھٹو پاکستان کی تاریخ کے مقبول ترین لیڈر رہے۔ آپ یا بھٹو سے محبت کر سکتے ہیں یا پھر نفرت۔ بھٹو جتنا بڑے لیڈر تھے ان کی غلطیاں بھی اتنی ہی بڑی تھیں۔ معروف مصنف اور ڈان اخبار کے کالم نگار فقیر سید اعجاز الدین اپنی کتاب The Fickle 70 s میں بھٹو کی شخصیت کا احاطہ ایک ہی جملے میں بڑی خوبصورتی کے ساتھ کرتے ہیں۔

”He was one of the most enigmatic, charismatic, complex, paradoxical, and eventually suicidal of politicians the country has experienced. Dead, his legacy endures still with damaging potency“ .

بھٹو ایک احسان فراموش اور انتقامی شخص تھے۔ فقیر سید اعجاز الدین لکھتے ہیں کہ بھٹو نے بیگم جونا گڑھ سے وہ مراعات بھی واپس لے لیں جو انہوں نے بڑی تگ و دو کے بعد جنرل یحییٰ سے حاصل کی تھیں۔ (جونا گڑھ ایک شاہی ریاست تھی اور اس کے نواب اور ان کے خاندان کے لوگ قانون کے مطابق شاہی مراعات کے حقدار تھے ) ۔ بھٹو بیگم جونا گڑھ کو ان شاہی مراعات سے محروم کرتے وقت یہ بھی بھول گئے کہ ان کے اپنے والد سر شاہنواز بھٹو بیگم جونا گڑھ کے سسر کے دربار میں دیوان یعنی وزیر تھے۔

1970 کے انتخابات میں مشرقی پاکستان میں شیخ مجیب کی جیت بھٹو کو ہضم نہ ہوئی جس کی وجہ سے مشرقی پاکستان میں پہلے سے ابتر حالات مزید سنگین ہو گئے۔ بھٹو نے ہی بلوچستان میں فوجی آپریشن کا آغاز کیا۔ اپنے مخالفین حتی کہ ولی خان اور ان کی جماعت کہ جس کا نظریہ پیپلز پارٹی سے ملتا تھا اس کو بھی نہ بخشا۔ بلوچستان میں نیشنل عوامی پارٹی کی حکومت کا تختہ الٹ دیا اور اس کے رہنماؤں کو پنجاب اور سندھ جی جیلوں میں ڈال دیا۔ کوثر نیازی کے کہنے پر مذہب کے نام پر اصلاحات کیں جن کا خمیازہ ریاست آج بھی بھگت رہی ہے۔ جب بھٹو کے خلاف ملک کی نو جماعتوں نے پاکستان نیشنل الائنس کے پلیٹ فارم سے تحریک شروع کی اور نظام مصطفی کا نعرہ لگایا تو اس دباؤ میں آ کر بھٹو نے اسلام کے نام پر اصلاحات کا ڈرامہ رچایا۔ پی این اے کی تحریک کا اثر زائل کرنے کے لیے بھٹو نے ملک میں شراب پر پابندی لگا دی۔

ممتاز صحافی خالد حسن مرحوم جو بھٹو کے پریس سیکرٹری رہے، اپنی کتاب ”Rearview Mirror“ میں لکھتے ہیں کہ،

”What an astute man like Bhutto failed to understand when he announced his“ reforms ”was that there is no credibility to concessions made under pressure“ .

منافقت کے لبادے میں لپٹی ہوئی ان اصلاحات سے یہ تاثر عام ہو گیا کہ بھٹو کی حکومت آخری ہچکیاں لے رہی ہے۔ جہاں دائیں بازو کی سیاسی اور مذہبی جماعتوں نے ان اصلاحات کو اپنی فتح قرار دیا وہاں بھٹو کے مداحوں نے ان اصلاحات پر کھل کر ناراضگی کا اظہار کیا۔ حبیب جالب کہہ اٹھے،

بڑا کم ظرف تھا جو کر گیا ویراں شاموں کو
نہ پوچھو حالِ یاراں شام کو جب سائے ڈھلتے ہیں

خالد حسن لکھتے ہیں کہ جب ایوب خان نے بھٹو کو وزارت سے برطرف کیا تو بھٹو اتنے مایوس ہوئے کہ یہ افواہ پھیل گئی کہ وہ ملک چھوڑ کر جانے کا سوچ رہے ہیں۔ اس افواہ پر حبیب جالب نے ایک نظم لکھی جو نوائے وقت میں شائع ہوئی اور شائع ہوتے ہی دھوم مچا دی۔ نظم کا عنوان تھا، ”چھوڑ کر نہ جا“ ۔ انہی دنوں  راجہ تجمل حسین جو انکم ٹیکس میں کمشنر تھے، نے کراچی میں ایک پارٹی کا اہتمام کیا۔ بھٹو اپنی بیگم نصرت بھٹو کے ساتھ پارٹی میں آئے۔ ہر کوئی مایوس اور اداس تھا۔ بھٹو کا جام تازہ کیا گیا۔ بھٹو نے گلاس ہاتھ میں پکڑتے ہی خالد حسن کو کہا کہ جالب کی وہ نظم گا کر سناؤ۔ خالد حسن جو یاروں کی محفل میں اچھا گا لیتے تھے نے جالب کی نظم اس وقت کے مشہور گانے، ”اکیلے نہ جانا“ کی طرز پر گائی۔ جیسے ہی خالد حسن نے نظم ختم کی، بھٹو اٹھے، سکاچ وہسکی کا بھرا ہوا گلاس پوری طاقت کے ساتھ دیوار کی طرف پھینک دیا جس سے راجہ تجمل بمشکل بچے۔ بھٹو نے چلا کر کہا، ”نہیں جاؤں گا، نہیں جاؤں گا“ ۔ تین دن کے بعد بھٹو ملک سے چلے گئے۔

1971 کی جنگ کے بعد فوج اخلاقی طور پر بہت کمزور ہو چکی تھی۔ بھٹو اگر چاہتے تو اس موقعے کا فائدہ اٹھا کر پاکستان میں ہمیشہ کے لیے سول سپرمیسی قائم کر سکتے تھا لیکن بھٹو نے آئی بی کی جگہ آئی ایس آئی کو یہ اختیار دے دیا کہ وہ سیاستدانوں اور بیوروکریٹس پر نظر رکھے۔ دوسرے لفظوں میں آئی ایس آئی کے سیاسی ونگ کے قیام کا سہرا بھٹو کے سر ہی ہے۔ وہ عوامی لیڈر جو عوام کے ووٹوں سے منتخب ہوا، اقتدار میں آتے ہی، اپنی کرسی کے تحفظ کے لیے عوام کی بجائے فوج پر تکیہ کرنے لگ پڑا۔ بھٹو نے ملک کے اداروں کو قومی تحویل میں لے کر ایک اور تباہ کن قدم اٹھایا۔ فقیر سید اعجاز الدین کے مطابق اداروں کو قومیانے کی پالیسی کے پیچھے جو محرک تھا وہ پاکستان کی معاشی ترقی نہیں بلکہ صنعت کاروں کے خلاف بھٹو کا تعصب تھا۔ بھٹو کا ایک اور بڑا گناہ پروگریسو پیپرز جیسے عظیم ادارے جو پاکستان ٹائمز، امروز اور لیل و نہار جیسے ترقی پسند اخبارات شائع کرتا تھا پر قبضہ کرنے کی سازش میں بنیادی مہرہ ہونا تھا۔ وہ کرشماتی لیڈر جو عوام کے زور پر وزیر اعظم بنا کرسی پر پہنچ کر عوام کو بھول گیا۔ کرشماتی لیڈرز معاشرے کے لیے تباہی ہی لاتے ہیں خواہ وہ ہٹلر ہو، مسولینی ہو، ناصر ہو، قذافی ہو یا بھٹو ہو۔

تاہم ان سب برائیوں اور خامیوں کے باوجود ذوالفقار علی بھٹو نے پاکستانی عوام کو سیاسی شعور دیا، دنیا میں پاکستان کو عزت دی، پاکستان کا ایٹمی پروگرام شروع کیا اور 71 کے بعد ملک کو راکھ کے ڈھیر سے اٹھایا۔ زرعی اصلاحات بھٹو کا بہت بڑا کارنامہ ہے جس سے مزارعوں کو زمین ملی۔ بھٹو جیسا ذہین اور قابل سیاستدان کوئی اور نہ آ سکا۔ وہ نہ صرف خود اعلی تعلیم یافتہ تھے بلکہ انہیں کتابیں پڑھنے کا بہت شوق تھا۔ خالد حسن مرحوم اپنی کتاب ”Rearview Mirror“ میں لکھتے ہیں کہ جب وہ لندن پاکستانی سفارت خانے میں تعینات تھے تو بھٹو انہیں کتابیں بھیجنے کا کہتے تھے۔ خالد حسن کو معلوم تھا کہ بھٹو کو کون سی کتابیں پسند ہیں۔ خالد حسن کتابیں خریدتے اور بھٹو کو بھیج دیتے۔ بھٹو کی ایمانداری دیکھیں کہ وقت کا وزیرِ اعظم ان کتابوں کے پیسے اپنی جیب سے دیتا نہ کہ سرکاری خزانے سے۔ بھٹو میں لاکھ برائیاں ہوں گی لیکن بھٹو کرپٹ نہیں تھے۔ ان کا بڑا المیہ یہ تھا کہ خود تو تھے ہی خود سر، لیکن اپنے ارد گرد جو مشیر اور وزیر رکھے وہ بھی ذہنی بونے تھے جنہوں نے بھٹو کی بربادی میں اہم کردار ادا کیا۔

4 اپریل کو بھٹو کو جہاں بطور ہیرو یاد کیا جاتا ہے وہاں ضیا اور احمد رضا قصوری جیسوں کو ولن سمجھا جاتا ہے۔ آپ اس جادو نگری جسے پاکستان کہتے ہیں میں ہونے والے کمالات دیکھیں۔ اس جادو نگری میں ریاست بھٹو جیسے شخص پر بھونڈے الزامات کے تحت مقدمات چلاتی ہے، اسے تختہ دار پر لٹکاتی ہے اور پھر پینتالیس برس بعد کہتی ہے کہ بھٹو کو فیئر ٹرائل کا موقع نہیں دیا گیا۔ جہاں یہ جادو نگری تضادات کی نگری ہے وہاں اس تضادستان میں اٹھنے والا ہر لیڈر بھی بھٹو کی طرح کئی تضادات کا مجموعہ ہی ہوتا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments