مسائل میں سلگتا پاکستان اور نواز شریف کی خود ستائی


بلوچستان میں احتجاج اور لانگ مارچ کیے جا رہے ہیں، فوجی قیادت ہر قسم کی دہشت گردی اور غیر ملکی پراکسی گروہوں کو ختم کرنے کا عزم کر رہی ہے اور امریکی صدر ٹرمپ نے پاکستانی مصنوعات پر 29 فیصد ٹیرف عائد کر کے ملک کی بیمار معیشت کے لیے نیا چیلنج پیدا کر دیا ہے تاہم حکمران مسلم لیگ (ن) کے صدر میاں نواز شریف کو شہباز شریف کی صورت میں ایسا لیڈر دکھائی دیتا ہے جو ملک کو تمام بحرانوں سے نکالنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔

اپنے منہ میاں مٹھو بننے کی اس سے بہتر مثال شاید مشکل سے تلاش کی جا سکے۔ نواز شریف سے منسوب جو بیان میڈیا میں رپورٹ ہوا ہے اس میں انہوں نے حکومت کی طرف سے بجلی کی قیمتوں میں کمی پر شہباز شریف اور مسلم لیگ (ن) کی حکومت کو خراج تحسین پیش کیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ’بجلی کے نرخوں میں ریکارڈ کمی پر وزیراعظم شہباز شریف کو مبارکباد دیتا ہوں۔ وزیراعظم کی کاوشوں سے ملک درست سمت پر گامزن ہو چکا ہے۔ نون لیگ کے دور میں ہی ہمیشہ عوام کو معاشی ریلیف ملتا ہے، مہنگائی میں مسلسل کمی لیگی بہترین معاشی پالیسیوں کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ ملک میں ترقی کی راہیں کھل رہی ہیں جس سے نوجوانوں کو روزگار ملے گا۔ بجلی سستی کرنے سے نہ صرف عوام کو ریلیف ملے گا بلکہ ایکسپورٹ بھی بڑھے گی‘ ۔

اس بیان پر غور کیا جائے تو یہ ایک ایسے لیڈر کی باتیں معلوم ہوتی ہیں جس نے یا تو میدان سیاست میں ابھی قدم رکھا ہو اور وہ حالات و واقعات کا جائزہ لے کر انہیں کھنگالنے و پرکھنے کے ہنر سیکھ رہا ہو یا وہ گرد و پیش سے بے خبر بس ایک ہی بات دہرانے کو اپنی سیاسی کامیابی سمجھتا ہو تاکہ بار بار بتانے سے لوگ اس کی باتوں پر یقین کرنے لگیں۔ ایسے میں وہ باور کرنے میں ناکام رہتا ہے کہ عوام کے شعور کی سطح میں بے پناہ اضافہ ہو چکا ہے۔ حکومتوں نے بھلے تعلیم عام کرنے سے گریز کرتے ہوئے تعلیمی نصاب کو فرسودہ رکھ کر سیاسی تسلط قائم رکھنے کی پالیسیوں پر عمل کیا ہو لیکن ٹیکنالوجی کی ترقی اور سوشل میڈیا سے عام کی جانے والی معلومات سے ملک کا عام شہری بھی ایسی بنیادی معلومات حاصل کر لیتا ہے جن سے حالات و واقعات کا ادراک ہو سکے۔ سیاسی وابستگی یا پسند ناپسند کے جذباتی غبار کے باوجود پاکستان کے بیشتر شہری اپنے تعلیمی و سماجی پس منظر سے قطع نظر یہ سمجھنے کے قابل ہیں کہ تیزی سے تبدیل ہوتے عالمی حالات میں پاکستان کو کیسے چیلنجز کا سامنا ہے۔ ایسے میں اقتدار پر قابض سیاسی پارٹی کا لیڈر اور تین بار وزیر اعظم رہنے والا شخص اپنے بیان میں ایسی گفتگو کر رہا ہے جس میں عوام کو ایسا خوشحال پاکستان دکھایا جا رہا ہے اور ان کارناموں کا ذکر ہے جو ابھی رونما نہیں ہو پائے۔ ایسے لیڈر کے بارے میں یہ گمان کر ناممکن نہیں ہے کہ اس کی قیادت میں کوئی حکومت ملک کو واقعی بحران سے نکال کر ترقی تو کیا استحکام ہی کی راہ پر بھی ڈال سکتی ہے۔

نواز شریف کا بیان باہمی احترام کے معیار کے مطابق بھی ناقص اور ناقابل قبول ہے۔ ان کا دعویٰ ہے کہ صرف مسلم لیگ (ن) کی حکومت ہی عوام کو ریلیف دے سکتی ہے۔ یہ کہتے ہوئے وہ یہ فراموش کر رہے ہیں کہ ان کی حکومت پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم کے ووٹوں کے سہارے اقتدار پر قابض ہے۔ یا پھر اس میں ہائبرڈ ماڈل کا وہ عنصر شامل ہے جس کا ذکر سننے سے شاید نواز شریف کی پیشانی پر پسینہ آ جائے کیوں کہ اقتدار سے محروم ہونے کے بعد 2017 میں انہوں نے ’مجھے کیوں نکالا‘ کا نعرہ لگاتے ہوئے مسلسل پاکستانی عوام کو یہ یقین دلانے کی کوشش کی تھی کہ انہیں اپنی خود مختاری، حریت پسندی اور ملک و قوم کے لیے نثار ہونے کی شدید خواہش کی وجہ سے نا اہل قرار دے کر ملکی سیاست سے باہر کیا گیا تھا۔ اس نکتہ کو واضح کرنے کے لیے بعد میں نواز شریف کے علاوہ ان کی صاحبزادی مریم نواز نے پارلیمنٹ کو عوامی خواہشات کے مطابق طاقت ور اور فیصلوں کا حتمی مرکز بنانے اور ’ووٹ کو عزت دو ‘ کا نعرہ لگاتے ہوئے سیاسی معاملات میں فوجی مداخلت کے خلاف ’علم بغاوت‘ بلند کیا تھا۔ لیکن گزشتہ سال ہونے والے دھاندلی زدہ انتخابات کے بعد جب اسی ہائبرڈ انتظام کے تحت شہباز شریف کو وزیر اعظم بنانے کی بات ہوئی تو نواز شریف نے اس پر راضی ہونے کے لیے اپنی صاحبزادی کے لیے پنجاب کی وزارت اعلیٰ طلب کی۔ اس انتظام پر اتفاق کرتے ہوئے انہیں ہرگز یہ یاد نہیں رہا کہ تحریک انصاف کے خلاف ان کی تمام تر جد و جہد کا ایک ہی نکتہ تھا کہ عمران خان کو فوجی اسٹیبلشمنٹ اپنی سرپرستی میں اقتدار تک لائی تھی۔ البتہ جب خود مسلم لیگ ( ن) کو وہی دست شفقت نصیب ہوا تو اس نے کسی دھاندلی یا جعل سازی کی پرواہ کیے بغیر یہ مان لیا جیسے ملک کے عوام نے شہباز شریف کو وزیر اعظم بنانے کے لیے ہی ووٹ دیے تھے۔

نواز شریف سیاست میں باہمی احترام اور ایک دوسرے کو برداشت کرنے کی بات کرتے رہتے ہیں۔ اس لیے پوچھا جاسکتا ہے کہ جب وہ حقائق کے برعکس یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ عوام کو ریلیف صرف مسلم لیگ (ن) کی حکومت دیتی ہے تو کیا وہ دوسری سب سیاسی پارٹیوں اور ان کی لیڈروں کی ’توہین‘ کا سبب نہیں بنتے؟ کیا پیپلز پارٹی اور تحریک انصاف کی حکومتوں نے بھی اپنی صوابدید اور فہم کے مطابق عوام کو ریلیف دینے کے منصوبے متعارف نہیں کرائے؟ ان میں بے نظیر بھٹو انکم سپورٹ تو ایک ایسا منصوبہ ہے جسے نواز شریف کی حکومت نے بھی جاری رکھا تھا اور اب اسے جاری رکھنا تو شاید شہباز شریف کی مجبوری ہے۔ نواز شریف اپنی باتوں سے ان پارٹیوں کو کم تر ثابت کرنے کی افسوسناک کوشش کر رہے ہیں جن کے سہارے ان کی پارٹی اقتدار میں ہے، ان کا بھائی وزیر اعظم اور بیٹی وزیر اعلیٰ پنجاب کے عہدے پر فائز ہے۔

عوام کو ریلیف دینے کی خواہش کا اظہار تو ہر پارٹی کرتی ہے۔ اور بلاشبہ ہر حکومت ہی اس حوالے سے کچھ نہ کچھ اقدام کرنے کی سعی بھی کرتی ہے، پھر اس پر مسلم لیگ (ن) کی اجارہ داری کیسے قبول کی جا سکتی ہے۔ یہ دعویٰ درحقیقت و عوام کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کے مترادف ہے۔ لیکن نواز شریف سچائی کو سمجھنے اور ملک میں سیاسی استحکام کے لیے کام کرنے کی بجائے، ابھی تک وہی ڈھول بجا رہے ہیں جس کی آواز سے اب کان بھنانے لگتے ہیں۔ یہ دعوے گمراہ کن ہیں کہ تحریک انصاف نے ملکی معیشت کو تباہ کر دیا جبکہ مسلم لیگ (ن) اسے پھر سے ترقی کی راہ پر گامزن کر رہی ہے۔ بجلی و گیس کے نرخوں میں اضافہ کا قضیہ محض تحریک انصاف کی غلط پالیسیوں کا نتیجہ نہیں ہے بلکہ مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کے ادوار میں کیے گئے ناقص فیصلے اس سنگین مسئلہ کی وجہ بنے ہیں۔ اب اگر آئی پی پیز کے ساتھ معاہدے کر کے بجلی کے نرخوں میں کمی کا اعلان ہو رہا ہے تو یہ شدید عوام دباؤ کا نتیجہ ہے ورنہ کوئی حکومت اپنے طور پر یہ قیاس نہیں کر سکی کہ نجی کمپنیوں سے مقررہ نرخوں پر بجلی خریدنے کے معاہدوں کا کیا نتیجہ نکلے گا۔ اسی طرح گردشی قرضہ میں اضافہ بھی محض پی ٹی آئی حکومت کی دین نہیں ہے بلکہ سال ہا سال تک ناقص انرجی پالیسی کے نتیجہ میں ملک اس مقام تک پہنچا اور آئی پی پیز کے ساتھ حکومتی معاہدوں نے عوام کی کمر توڑ کر رکھ دی۔ سیاسی طور سے ان معاہدوں پر نظر ثانی کے سوا کوئی چارہ نہیں تھا۔

مسلم لیگ (ن) سمیت ملکی سیاسی پارٹیاں تو بروقت یہ اندازہ بھی نہیں کرسکیں کہ بلوچستان میں سوئی کے مقام سے نکلنے والی گیس کے ذخائر، سی این جی کے طور پر گاڑیوں یا صنعت میں خام مال کے طور پر استعمال کے متحمل نہیں ہوسکتے۔ پاکستان کے پاس انرجی کے متبادل ذرائع موجود نہیں تھے اور نہ ہی انہیں تلاش کرنے کے لیے کوئی مربوط اور ٹھوس حکمت عملی بنائی گئی۔ آج اگر پاکستانی صارفین اسپاٹ مارکیٹ سے خریدی گئی گیس مہنگے داموں لینے پر مجبور ہیں تو اس کی واحد وجہ یہ ہے کہ پاکستان کی حکومتوں نے گزشتہ تیس چالیس سال کے دوران انرجی کی کھپت اور ضرورت کے بارے میں جائزہ لے کر مستقبل کا کوئی منصوبہ بنانے کی زحمت ہی گوارا نہیں کی۔ بعینہ اب ملک میں پانی کی شدید قلت کا مسئلہ ہے۔ لاہور ہائی کورٹ تو واٹر ایمرجنسی لاگو کرنے، پانی بچانے اور پانی کے وسائل میں اضافہ کے لیے ہدایات جاری کر رہی ہے لیکن کسی حکومتی پالیسی میں کبھی اس اہم اور سنگین مسئلہ پر کوئی سنجیدہ گفتگو سنائی نہیں دیتی۔

نواز شریف نے ’نوید‘ دی ہے کہ بجلی کی قیمتوں میں کمی سے نہ صرف عوام کو فائدہ ہو گا بلکہ ملکی برآمدات میں اضافہ ہو گا۔ تاہم مرکز اور پنجاب میں اقتدار پر قابض پارٹی کے لیڈر یہ بتانے سے قاصر ہیں کہ کیا وجہ ہے کہ آبادی و دیگر وسائل کے اعتبار سے پاکستان جیسے بڑے ملک کی برآمدات 30 ارب ڈالر تک ہی پہنچ پائی ہیں۔ 2024 کے اعداد و شمار کے مطابق بنگلہ دیش کی برآمدات 50 ارب ڈالر سے تجاوز کرچکی تھیں جبکہ ہمارے ’ازلی دشمن‘ بھارت کی برآمدات کا حجم 750 ارب ڈالر تھا۔ تمام تر حجتوں اور مباحث سے قطع نظر ماضی قریب میں اقتدار پر قابض ہر سیاسی لیڈر کو جواب دینا چاہیے کہ پاکستانی معیشت برآمدی معیشت کیوں نہیں بن سکی۔ اس ناکامی کا الزام کسی ایک لیڈر یا پارٹی پر عائد کر کے آگے بڑھنے کا راستہ ہموار نہیں ہو سکتا ۔

اس وقت دنیا بھر کی طرح پاکستان کو بھی امریکی ٹیرف کی وجہ سے سب سے بڑے چیلنج کا سامنا ہے۔ پاکستانی مصنوعات پر 29 فیصد محصول عائد ہو گا۔ اس طرح امریکہ کو بھیجی جانے والی 6 ارب ڈالر کی مصنوعات متاثر ہوں گی۔ یہ پابندی اگر جاری رہتی ہے تو ملک میں متعدد فیکٹریاں بند ہوں گی اور بیروزگار ہونے والے لوگوں کی تعداد کا اندازہ کرنا ممکن نہیں ہے۔ کیوں کہ پاکستانی سرکار اور اس کے زیر نگرانی میڈیا فی الوقت بجلی کے نرخ میں ساڑھے سات روپے یونٹ کمی پر وزیر اعظم شہباز شریف کے قصیدے پڑھنے میں مصروف ہے۔ اب نواز شریف نے بھی بھائی کی تعریف میں بیان دے کر حقیقی مسائل اور حکومتی ناکامیوں کو نظر انداز کیا ہے۔ پارٹی لیڈر کے طور پر نواز شریف کے پاس کوئی حکومتی عہدہ نہیں ہے۔ اس حیثیت میں انہیں حکومت کی رہنمائی و سرزنش کا فریضہ ادا کرنا چاہیے۔ یا پھر ایک تجربہ کار لیڈر کے طور پر قومی مسائل حل کرنے میں کردار ادا کرنا چاہیے۔ ان میں ایک بلوچستان میں پائی جانے والی سیاسی بے چینی ہے اور دوسرا اہم مسئلہ چولستان کے لیے نہریں نکالنے کے سوال پر پیپلز پارٹی کے ساتھ پیدا ہونے والا اختلاف ہے۔

نواز شریف اگر اپنی سادگی، معصومیت یا کم نگاہی کی وجہ سے محض حکومت کی توصیف سے ہی کام چلانا کافی سمجھیں گے تو یقین رکھیں کہ مستقبل کی جمہوری سیاست میں مسلم لیگ (ن) یا شریف خاندان کا کوئی کردار نہیں ہو گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 3075 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments