ٹرمپ کی دھمکیاں اور ایران کا جواب
امریکہ نے جوہری ہتھیاروں کے بارے میں معاہدہ نہ ہونے کی صورت میں ایران کو خوفناک بمباری کا نشانہ بنانے کی دھمکی دی ہے۔ اس کے جواب میں ایران کے رہبر اعلیٰ آیت اللہ علی خامنہ ای نے کہا ہے کہ اگر انہوں نے شرارت کی تو بھرپور جواب دیا جائے گا۔ گو کہ اس بات کا فوری امکان نہیں ہے کہ امریکہ، ایران پر حملہ کرنے کا فیصلہ کرے۔ تاہم ایسی صورت میں ایران کی طرف سے جوابی کارروائی کے آپشن محدود ہیں۔
دونوں ملکوں کے درمیان تنازعہ کو بڑھانے کی باتیں ایک ایسے وقت میں شروع کی گئی ہیں جب غزہ میں اسرائیل نے ایک بار پھر پوری طرح جنگی کارروائی کا آغاز کر دیا ہے اور روس نے یوکرین کے ساتھ تیس دن کے لیے جنگ بندی کی امریکی تجویز پر مسلسل ٹال مٹول سے کام لیا ہے۔ اب ڈونلڈ ٹرمپ نے ایک ٹی وی انٹرویو میں صدر پوتن کے بارے میں پہلی بار غصے کا اظہار کرتے ہوئے اس پر پابندیاں لگانے کی بات کی ہے۔ البتہ دیکھا جاسکتا ہے کہ دھمکیوں اور محاصل عائد کرنے کے ہتھکنڈوں کے باوجود امریکی صدر دنیا میں جنگیں بند کرانے کی بجائے، شاید انہیں پھیلانے کا سبب بن رہے ہیں۔ اگر امریکہ کسی بھی عذر پر یا اسرائیل کی محبت میں تہران کے جوہری اثاثوں پر حملہ کرنے کا اقدام کرتا ہے تو ایران شاید اس کا فوری فوجی جواب نہ دے سکے لیکن مشرق وسطی ایک طویل عرصہ تک نئے بحران کا شکار ہو جائے گا۔ اس صورت میں دہشت گردی میں اضافہ ہو گا جس کے شعلے امریکی سرزمین تک بھی پہنچ سکتے ہیں۔
صدر ٹرمپ نے 20 جنوری کو اقتدار سنبھالنے کے بعد سے مسلسل دھمکیوں کو سفارتی ہتھکنڈے کے طور پر استعمال کیا ہے۔ اس کے علاوہ اب امریکی حکومت توسیع پسندانہ عزائم کا ارادہ بھی ظاہر کر رہی ہے۔ کینیڈا کو امریکہ کی 51 ویں ریاست بنانے یا معاشی پابندیوں سے اس کی معیشت کو شدید نقصان پہنچانے کی باتوں کو اگر ’غیر سنجیدہ‘ سمجھتے ہوئے یہ قیاس کر بھی لیا جائے کہ صدر ٹرمپ اپنے عزائم پورے کرانے کے لیے دباؤ ڈالنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ لیکن ڈنمارک کے علاقے میں شامل خود مختار گرین لینڈ کو بہر صورت امریکہ کا حصہ بنانے کے دعوے تسلسل سے لیے جا رہے ہیں۔ ڈونلڈ ٹرمپ نے بہت واضح الفاظ میں کہا ہے کہ گرین لینڈ پر قبضہ سو فیصد امریکہ کے مفاد میں ہے اور وہ یہ مقصد حاصل کر کے رہیں گے۔ ڈنمارک آبادی، مالی وسائل اور عسکری صلاحیت میں امریکہ سے بہت چھوٹا ملک ہے اور کسی طرح امریکہ کا مقابلہ کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتا جبکہ امریکی صدر ڈنمارک سے گرین لینڈ چھیننے کے لیے معاشی پابندیوں کے علاوہ ضرورت پڑنے پر عسکری کارروائی پر بھی آمادہ ہیں۔
نائب امریکی صدر جے ڈی وینس نے گزشتہ ہفتے کے دوران دیگر اعلیٰ امریکی عہدیداروں کے ساتھ گرین لینڈ میں امریکی فوجی اڈے کا دورہ کیا تھا۔ اس دورے میں امریکی وفد نے پہلے متعدد ثقافتی و سماجی تقریبات میں شریک ہونا تھا لیکن ٹرمپ کی طرف سے گرین لینڈ پر قبضہ کے دعوؤں کے خلاف پیدا ہونے والے مقامی رد عمل کی وجہ سے اس دورہ کو چند گھنٹوں کے لیے امریکی فوجی اڈے تک محدود کر دیا گیا۔ البتہ اس موقع پر تقریر کرتے ہوئے جے ڈی وینس نے گرین لینڈ کے بارے میں ٹرمپ کے ارادوں کی حمایت میں بیان دیا اور کہا کہ ڈنمارک اس خطے کی حفاظت میں ناکام رہا ہے۔ امریکہ اس پر خاموش تماشائی نہیں رہ سکتا۔ دوسرے لفظوں میں امریکہ کا دعویٰ ہے کہ اس کی قومی سلامتی کے لیے گرین لینڈ پر قبضہ ضروری ہے جبکہ ڈنمارک کا موقف ہے کہ وہ 75 سال سے امریکہ کے ساتھ نیٹو کا رکن ہے۔ اس لیے کسی فوجی خطرہ کی صورت میں امریکہ، ڈنمارک کی حفاظت کرنے کا پابند ہے۔ تاہم ڈونلڈ ٹرمپ کا امریکہ ایسے کسی وعدے یا معاہدے کو ماننے سے انکار کر رہا ہے۔ ایسی صورت میں اگر امریکہ کی طرف سے گرین لینڈ پر قبضہ کرنے کے لیے کوئی فوجی کارروائی دیکھنے میں آتی ہے تو یہ امریکہ اور یورپ کے درمیان دوسری جنگ عظیم کے بعد قائم ہونے والے فوجی اتحاد نیٹو کے کفن میں آخری کیل ثابت ہوگی۔ اس صورت میں نیٹو کا ہی ایک رکن دوسرے رکن کے خلاف جارحیت کا مرتکب ہو گا۔
نئے امریکی صدر کے جارحانہ طرز عمل کی وجہ سے بیشتر یورپی ممالک میں امریکہ کے بارے میں شبہات بڑھ رہے ہیں۔ ایک تازہ جائزہ کے مطابق اب متعدد ممالک کے عوام امریکہ کو اپنی سلامتی کے لیے خطرہ سمجھنے لگے ہیں۔ ٹرمپ کو اگرچہ امریکہ میں اب بھی 47 فیصد لوگوں کی حمایت حاصل ہے لیکن یورپ کے عوام میں ان کی مخالفت 70 سے 80 فیصد ہو چکی ہے۔ اس سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ ٹرمپ حکومت نے اگر یورپ یا دنیا کے کسی حصہ میں جارحانہ رویہ اختیار کیا تو اسے پہلے کی طرح یورپ کے حلیف ملکوں سے تعاون و امداد ملنا مشکل ہو گا۔ کینیڈا کی صورت حال بھی اس سے مختلف نہیں ہے۔ وہاں پر لبرل پارٹی تقریباً ایک دہائی سے حکمران ہے جس کی وجہ سے اس کی مقبولیت کم ہوئی۔ یوں لگنے لگا تھا کہ نئے انتخابات میں کنزرویٹو پارٹی حکومت سنبھال لے گی۔ اسی لیے لبرل پارٹی نے سابق وزیر اعظم جسٹن ٹروڈو سے استعفیٰ لے کر مارک کارنی کو وزیر اعظم بنایا۔ البتہ ٹرمپ کی طرف سے کینیڈا کو مسلسل دھمکیوں کے بعد کارنی نے بھی سخت موقف اختیار کیا اور اکتوبر کی بجائے اپریل میں انتخاب کرانے کا فیصلہ کیا۔ اب ان کی قیادت میں لبرل پارٹی کو انتخابی جائزوں میں قریب ترین حریف کنزرویٹو پارٹی کے مقابلے میں لگ بھگ پانچ فیصد کی برتری حاصل ہے۔ گویا کینیڈا کی خود مختاری پر ٹرمپ کے حملوں کی وجہ سے موجودہ حکومت کی مقبولیت میں اضافہ ہوا ہے۔ اب کینیڈا کے انتخابات میں کسی بھی دوسرے مسئلہ کی بجائے یہی ایک معاملہ سرفہرست ہو گا کہ کون سا لیڈر ٹرمپ کی ’غنڈہ گردی پر مبنی سفارت کاری‘ کا جواب دینے کی صلاحیت رکھتا ہے۔
ان تمام تنازعات کے باوجود ڈونلڈ ٹرمپ نے گزشتہ روز ایک انٹرویو میں ایران پر بدترین بمباری کرنے کا دعویٰ کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ ’اگر وہ (ایران) معاہدہ نہیں کرتے تو پھر بمباری ہو گی اور بمباری بھی ایسی جو انہوں نے پہلے کبھی نہیں دیکھی ہو گی‘ ۔ اس سے پہلے مارچ کے شروع میں ڈونلڈ ٹرمپ نے آیت اللہ خامنہ ای کو ایک خط بھیجا تھا جس میں ایران کی جوہری تنصیبات کے بارے میں بات چیت کی پیش کش کی گئی تھی۔ اس موقع پر بھی ڈونلڈ ٹرمپ نے فوکس نیوز کو بتایا تھا کہ ’وہ ایران کے ساتھ کسی معاہدے پر پہنچنے کو ترجیح دیں گے۔ اس کا امکان بھی ہے۔ لیکن اگر وہ معاہدہ نہیں کرتے تو اس کے بہت برے نتائج ہوں گے اور ایران کو خمیازہ بھگتنا پڑے گا‘ ۔ اگرچہ امریکہ یا ایران کی طرف سے کبھی اس خط کے مندرجات کی تفصیلات نہیں بتائی گئیں لیکن ایرانی ذرائع کا کہنا ہے کہ اس میں بات چیت کی تجویز کے علاوہ دھمکیاں بھی دی گئی تھیں۔ ایران کسی بھی قسم کے دباؤ یا دھمکی کی صورت میں مذاکرات نہیں کرے گا۔
ایرانی سپریم لیڈر آیت اللہ خامنہ ای نے صدر ٹرمپ کی تازہ ترین دھمکیوں کے جواب میں کہا کہ ’امریکہ اور اسرائیل کی ہمیشہ سے ہم سے دشمنی رہی ہے۔ وہ ہمیں حملے کی دھمکیاں دیتے ہیں جو ہمیں زیادہ ممکنہ نہیں لگتا۔ لیکن اگر انہوں نے کوئی شرارت کی تو انہیں یقیناً بھرپور جواب دیا جائے گا۔ اگر وہ ماضی کی طرح ملک کے اندر انتشار پھیلانے کا ارادہ رکھتے ہیں تو ایرانی عوام خود ہی ان سے نمٹ لیں گے‘ ۔ واضح رہے کہ ایران میں ایک نوجوان لڑکی مہیسا امینی کی پولیس حراست میں ہلاکت کے بعد 2022۔ 2023 میں شدید مظاہرے ہوئے تھے۔ ایران دیگر اندرونی بے چینی کی طرح اس احتجاج کو بھی مغربی سازش قرار دیتا ہے۔ تاہم ٹرمپ اور آیت اللہ خامنہ ای کے درمیان شدید الفاظ کے تبادلہ کے باوجود ایران مسائل کے پرامن حل کا راستہ کھلا رکھنا چاہتا ہے۔
ایران کے صدر مسعود پژشکیان نے کہا ہے کہ امریکہ کو مطلع کر دیا گیا ہے کہ وہ بالواسطہ مذاکرات کے لیے راضی ہے لیکن موجودہ حالات میں امریکہ کے ساتھ براہ راست بات چیت نہیں ہو گی۔ ان کا کہنا تھا کہ ’ایران نے کبھی مذاکرات سے انکار نہیں کیا لیکن دوسرے فریق کی جانب سے وعدے ٹوٹنے کے سبب اعتماد کو ٹھیس پہنچی ہے‘ ۔ تبصرہ نگاروں کا خیال ہے کہ امریکی اور ایرانی لیڈروں کے دھمکی آمیز بیانات کے باوجود یوں لگتا ہے کہ دونوں ملک بات چیت کا دروازہ کھلا رکھنا چاہتے ہیں۔ البتہ ڈونلڈ ٹرمپ کی متلون مزاجی اور اسرائیل کی ایران پر حملہ کر کے جوہری تنصیبات تباہ کرنے کی دیرینہ خواہش کے سبب کسی وقت کوئی انہونی ہوتے دیر نہیں لگتی۔
ڈونلڈ ٹرمپ امریکہ کی مالی و عسکری طاقت پر شدید گھمنڈ میں مبتلا ہیں۔ اسی لیے وہ اپنے دیرینہ حلیف یورپی ممالک کے ساتھ بھی ہر قسم کا جھگڑا مول لینے پر آمادہ ہیں اور ایران کو بھی دھمکیاں دے رہے ہیں۔ غزہ کے مستقبل اور فلسطینی ریاست کے سوال پر انہوں نے عرب ممالک سے تنازعہ مول لیا ہوا ہے۔ توقع تو یہی ہے کہ سخت بیانات اور اشتعال انگیزی کے باوجود ٹرمپ امریکہ کو کسی نئی جنگ میں جھونکنے سے گریز کریں گے کیوں کہ کوئی بھی نئی جنگ امریکی معیشت کے لیے تباہی کا پیغام لائے گی۔ اور صدر کی کوتاہ نگاہی کی اصلیت بھی امریکی عوام کے سامنے کھل کر سامنے آ جائے گی۔ ایسی کسی صورت میں امریکہ کو دوبارہ عظیم بنانے کے لیے ٹرمپ کا منصوبہ بھی شرمندہ تعبیر نہیں ہو سکے گا۔ کسی جنگ کے بغیر بھی ماہرین اس بات پر متفق نہیں ہیں کہ محاصل عائد کر کے اور دنیا بھر کے ساتھ تجارتی جنگ شروع کرنے سے امریکی معیشت کس حد تک مستحکم اور امریکہ کیسا ’عظیم‘ ملک بن سکے گا۔
ٹرمپ کی سب سے بڑی پریشانی یہ ہے کہ چین اپنی معاشی ترقی کے ساتھ ٹیکنالوجی اور ایجادات میں نت نئے امکانات کی بنا پر امریکہ کو براہ راست چیلنج کرنے کے قابل نہ ہو جائے۔ البتہ ٹرمپ دوست دشمن میں تمیز ختم کر کے جس عالمی سفارتی منصوبے میں کامیابی حاصل کرنا چاہتے ہیں، وہ خود ان کے عزائم کی ناکامی کا سبب بن سکتی ہے۔ ایران پر حملہ ایسی ہی فاش غلطی ثابت ہو گا۔
- مقبوضہ کشمیر میں دہشت گردی: ذمہ دارانہ رویہ کی ضرورت - 23/04/2025
- کیا سمندر پار پاکستانی موجودہ نظام بچائیں گے؟ - 22/04/2025
- بلاول کا اعلان جنگ: کیا پیپلز پارٹی یہ جنگ جیت سکتی ہے؟ - 21/04/2025
Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).