رمضان: کل اور آج


رمضان المبارک کا آخری عشرہ اپنے اختتام کی جانب گامزن ہے جو اس بات کا اعلان ہے کہ ایک مہمان کی صورت میں آنے والا متبرک مہینہ رخصت ہو رہا ہے۔ رمضان میں ہم نے کیا کھویا اور کیا پایا یہ جائزہ لینے کی ضرورت ہے۔ ”اردو ضرب المثل ہے آیا رمضان بھاگا شیطان“ ”نیکی آنے پر بدی چلی جاتی ہے اور نیکی کے سامنے بدی نہیں ٹھہرتی۔“ رمضان المبارک میں شیاطین قید کر دیے جاتے ہیں ”یہ وہ سبق ہے جو رمضان کی برکات سے روشناس کرانے کے لیے بچپن سے پڑھایا جاتا تھا۔ بچپن رخصت ہوا تو پتہ چلا کہ ارد گرد تو سب اُسی طرح ہے۔ معذرت کے ساتھ اب اس ماہ میں اچھائی کے بجائے برائی زیادہ نظر آتی ہے۔

شیاطین قید ہوتے ہیں مگر شیطانی کھیل جاری رہتا ہے۔ دکاندار جھوٹ بول رہے ہیں۔ ملاوٹ، ناپ تول میں کمی، ریاکاری روز افزوں ہے ہر تاجر سال کا نفع، جائز یا ناجائز طریقے سے ایک ہی ماہ میں اکٹھا کرتا ہے۔ گرانفروشی پہلے سے بڑھ جاتی ہے۔

پہلے رمضان میں ناچ گانا رضاکارانہ بند ہو جاتا تھا بس سحری میں ڈھول پیٹنے کا رواج تھا۔ اب تو یوں لگتا ہے کہ رمضان بنا ہی اچھل کود اور ناچ گانے کے لیے ہے۔ کبھی رمضان نفس کو لگام دینے، دوسروں کی بھوک و پیاس کا کرب محسوس کرنے، انسانوں کی حاجت روائی، دل اور روح کی صفائی کا ذریعہ جانا جاتا تھا مگر اب تو جیسے رمضان خواہشات نفس کو جلا بخشنے، اشیاء کی ہوس بڑھانے، زیادہ سے زیادہ مال اکٹھا کرنے اور منافع کمانے کا نام ہے۔

رمضان المبارک کا آغاز ہوتے ہی سڑکوں پر لڑائی جھگڑے دیکھنے کو ملتے ہیں، گالم گلوچ اور ہاتھا پائی ہوتی ہے۔ بازاروں میں رمضان کے لیے لوگ اشیائے خور و نوش کی اس طرح خریداری کرتے ہیں جیسے آخری مرتبہ خرید رہے ہوں۔ دوسری طرف ذخیرہ اندوزی کا بازار گرم ہوجاتا ہے۔ دنیا بھر میں مقدس مہینے کے موقع پر چیزوں کی قیمتوں میں کمی ہوتی ہے لیکن ہمارے ملک میں آوے کا آوا ہی بگڑا ہے اور ہر چیز بشمول آلو، پیاز، ٹماٹر، سبزیاں، گوشت، مرغی سبھی مہنگا ترین ہو جاتا ہے۔

افطار پارٹیوں میں پلیٹوں میں اتنا کھانا بھر لیا جاتا ہے گویا صدیوں کے بھوکے پیاسے ہوں۔ رمضان کو عبادت کے بجائے کھانے پینے کا مہینہ بنا لیا گیا ہے۔ روزانہ پکوڑوں، سموسوں، چاٹ، پھینی، آلو اور قیمے کے پراٹھوں، جلیبی اور کچوریاں کھانے پر زور زیادہ ہوتا ہے۔ نتیجہ فوڈ پوائزنگ کی صورت میں بھگتنا پڑتا ہے۔ رمضان ٹرانسمیشن میں نئے نئے ستارے عظیم مبلغ اور اسلامی شخصیات کا روپ دھار کر سامنے آتے ہیں۔ وقت گزاری کے لیے قیمتی لمحات فلموں اور موبائل کی نذر کر دیے جاتے ہیں، بجائے سعادت اور نیکی کے بدبختی، اور محرومی جمع کی جاتی ہے۔ ایسے ہی لوگوں کے متعلق رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”بہت سے روزہ دار ایسے ہیں، جنہیں بھوک اور پیاس کی شدت کے سوا کچھ حاصل نہیں ہوتا“ ۔

پہلے گھروں میں افطاریاں تیار ہوتیں تو آدھی، خاموشی سے نادار ہمسایوں یا ضرورت مندوں میں بانٹ دی جاتیں۔ اب ہوٹلوں اور ریستورانوں میں افطاریاں سٹیٹس سمبل ہیں۔ ضرورت مندوں کو قریب بھی نہیں پھٹکنے دیا جاتا۔

پہلے معتکفین کسی بھی مسجد میں اعتکاف بیٹھ جاتے مگر اب ایگزیکٹو اور وی وی آئی پی اعتکاف کا دور ہے۔ رمضان میں ٹریول ایجنٹس کو سر کھجانے کی فرصت نہیں ملتی کیونکہ اشرافیہ اور متمولین آخری عشرہ حرم میں گزارتے ہیں۔ وہاں سے بھی اعتکافی سیلفیاں پوسٹ کرنے اور ٹائم لائن کی اپ ڈیٹ جاری رہتی ہے۔ پہلے ان حرکتوں کو ریاکاری کہا جاتا تھا اب لائیکس بٹوری جاتی ہیں۔

رمضان کا پہلا عشرہ ”لوٹ کھسوٹ کے عشرے“ کے طور پر منایا جاتا ہے۔ کچھ لوگوں نے اپنے عمرے کے اخراجات بھی نکالنا ہوتے ہیں۔ دوسرا عشرہ ”چل چلاؤ کا“ ہوتا ہے، زمانے کے ساتھ چلنا مجبوری ہے۔ حالانکہ اللہ تعالیٰ نے ہم سے زمانے کا نہیں بلکہ ہمارا حساب مانگنا ہے اور تیسرا ”عید کا عشرہ“ ہوتا ہے۔ جہنم سے آزادی کا یہ قیمتی عشرہ بازار بازی کی نذر کر دیا جاتا ہے۔ شاپنگ کی ماری خواتین کو شب قدر سے زیادہ نئے ڈیزائن کے کپڑوں اور ماڈل کی سینڈلوں کی تلاش رہتی ہے ؛ رات بھر شوہر اور بچّوں کے ہم راہ شاپنگ سینٹرز میں گھومنے کے بعد سحری بھی باہر ہی کر کے لوٹتی ہیں۔ تاجروں کی توجہ رمضان کی عبادتوں سے زیادہ اپنی تجارت کے فروغ پر رہتی ہے، بعض تراویح نہیں پڑھتے، بعض تو روزہ بھی نہیں رکھتے۔ یہ کتنی بڑی محرومی ہے کہ رمضان جیسا متبرک مہینہ ایک مسلمان بغیر روزے کے گزار دے۔ جدید دور میں دکھاوا معمول بن گیا ہے۔ رمضان کے تقدس کو بھی کچھ لوگ اپنی مطلب براری کے لیے استعمال کرتے ہیں۔

نہیں روزے سے ہیں تو کیا، اداکاری تو کرنی ہے
امیر شہر کی دعوت ہے، افطاری تو کرنی ہے
جہاں پر لومڑی کی طرح ہر چہرہ نظر آئے
وہاں تھوڑی بہت ہم کو بھی عیاری تو کرنی ہے

اس عشرے میں ناجائز منافع خوری اور بے ایمانی مزید دو تین گنا کر دینا دکان داروں کی مجبوری بن جاتی ہے۔ کافروں کا کوئی مذہبی تہوار یا مسلمانوں کا رمضان آ جائے تو وہ چیزیں سستی کر دیتے ہیں۔ جبکہ ہم زیادہ سے زیادہ ”رحمت“ سمیٹتے ہیں۔ یہ ساری باتیں، کہانیاں تخیّلاتی نہیں، بلکہ معاشرے کے مجموعی رویّے کی عکّاس ہیں غالباً یہ باور کرانا ہوتا ہے کہ یہی ایک مہینہ ہے جس میں ہم شیطان کو شرمندہ کر سکتے ہیں۔

جسمانی طور پر بھوکا پیاسا رہنا روزہ کی بنیادی شرائط میں سے ہے مگر اصل روزہ دار وہ ہے جو اندر کے شیطان کو مارے۔ یہاں تو حال یہ ہے کہ صرف کھانے پینا چھوڑ کر احسان جتایا جاتا ہے کہ ہم نے روزہ رکھا ہے۔ چغلی، غیبت، جھوٹ دوسروں کو بُرا بھلا کہنا روزہ گزاری کے لیے جاری رہتے ہیں۔

رمضان کریم جیسا پاکیزہ مہینہ بھی اگر ہماری زندگیوں میں مستقل تبدیلی نہیں لا رہا تو جائزہ لینا ضروری ہے کہ کمی کیا اور کہاں ہے۔

دنیا داروں اور اللہ کے نیک بندوں دونوں کے لیے یہ مہینہ ایک سیزن ہے۔ جو لوگ تلاوت، تراویح، روزہ اور دیگر عبادات میں محنت و مشقت میں اپنا وقت خرچ کر کے تجارت کرتے ہیں، وہ اللہ کی بے پایاں رحمت کے حق دار بن جاتے ہیں۔ ایک دنیا کے لیے تجارت ہے اور ایک آخرت کے لیے ہے، دونوں میں زمین و آسمان جیسا فرق ہے۔ اس مبارک مہینہ کی ناقدری کرنے والے کو حضرت جبرئیلؑ نے اس طرح بد دعا دی: ہلاک ہو وہ شخص جس نے رمضان المبارک کا مہینہ پایا پھر بھی اس کی مغفرت نہ ہو سکی، جس پر حضور ﷺ نے آمین کہی۔

اس سب کے باوجود بے شمار مسلمان اب بھی خاموشی سے تراویح، خیرات، اعتکاف کا اہتمام کرتے اور عباداتی اشتہار بازی سے کوسوں دور رہتے ہیں۔ یہی لوگ رمضان کی آبرو ہیں۔ ماہ رمضان ہمیں اپنے کردار میں سدھار کا موقع فراہم کرتا ہے۔ اب یہ ہمارا کام ہے کہ ہم رمضان کی اصل روح کو سمجھیں اور اس کی برکات سے مستفید ہوں یا انہیں دنیا کی حقیر خواہشات کی نذر کریں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments