کائنات کا انجام کیا ہو گا؟


ایک وقت تھا جب تصور کیا جاتا تھا کہ یہ کائنات ہمیشہ سے قائم ہے اور ابد تک قائم رہے گی۔ کوئی ایسے مظاہر موجود نہیں تھے جن کی بنیاد پر ایک مختلف سوچ اپنائی جا سکتی۔

پھر 1927 میں دوربینوں کی مدد سے یہ دیکھا گیا کہ ستاروں سے لبریز کہکشائیں ہم سے دور ہوتی جا رہی ہیں۔ جو کہکشاں ہم سے جتنی دور ہے اتنی تیزی کے ساتھ ہم سے دور ہوتی جا رہی ہے۔ اس بظاہر سادہ سے مشاہدے کی بنیاد پر سائنسدانوں نے نتیجہ اخذ کیا کہ یہ کائنات ہمیشہ سے قائم نہیں ہے بلکہ یہ تو صرف چودہ ارب سال قبل وجود میں آئی۔ عجیب حیرت انگیز نتیجہ یہ تھا کہ کائنات کی ابتدا ایک نقطے سے ہوئی اور یہ مستقل پھیل رہی ہے۔ چودہ ارب سال پہلے جب یہ نقطہ وجود میں آیا، اس سے پہلے نہ وقت تھا اور نہ ہی جگہ۔ کچھ بھی نہیں تھا۔ یہ تصور کرنا ناممکن لگتا ہے کہ محض چودہ ارب سال پہلے زمان و مکاں کا کوئی وجود نہیں تھا۔ یہ سائنسی تحقیق کا کمال ہے کہ چند شواہد کی روشنی میں اب ہم کائنات کی چودہ ارب سالہ زندگی کے بارے میں بہت کچھ جانتے ہیں۔

پہلے سیکنڈ میں پھیلاؤ کتنا تھا۔

تقریباً چار لاکھ سال تک الیکٹرون اور پروٹون جیسے ذرات پر مشتمل ایک دھند تھی جس میں سے روشنی کا گزرنا محال تھا۔ پھر جب کائنات کا ٹمپریچر کم ہوا تو یہ ذرات مل کر ایٹم بنانے لگے اور دھند غائب ہونے لگی۔ اس تمام عرصے میں کائنات کا پھیلاؤ جاری رہا۔ کشش ثقل کے زیر اثر ایٹموں کے بادل یکجا ہونے لگے اور پہلے ستارے، پھر کہکشائیں اور پھر کہکشاہوں کے جھرمٹ وجود میں آنے لگے۔ ان ستاروں میں دور دراز ایک ستارہ سورج وجود میں آیا جس کا اپنا سیاروں کا نظام تھا۔

پھر کچھ ایسا ہوا کہ ساڑھے چار ارب سال پہلے ان سیاروں میں سے ایک سیارے زمین پر زندگی اپنی ابتدائی شکل یعنی ایک خلیے کی شکل میں نمودار ہوئی۔
وقت کے ساتھ زندگی کی یہ ابتدائی شکل بہت سی مختلف شکلوں میں ارتقا پذیر ہوتی رہی اور آج زندگی کی اربوں شکلیں اس زمین پر موجود ہیں۔ ان شکلوں میں سب سے نمایاں اور دلچسپ انسان ہے جو سوچ سکتا ہے، قوت ارادی کا مالک نظر آتا ہے۔ اور بہت محدود پیمانے پر اس کائنات میں تبدیلی لانے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ اس کائنات سے وابستہ بہت سے معمے ہیں لیکن غالباً سب سے بڑا انسان کا وجود ہے۔ یہ کیسے ہوا کہ بے جان ایٹم مل کر انسان جیسی ذہین چیز بنانے کے قابل ہوئے؟

اس سلسلے میں ایک اہم بات یہ ہے کہ سورج کا وجود مزید صرف پانچ ارب سال قائم رہے گا۔ پھر سورج اپنی روشنی اور حرارت سے عاری ایک تاریک مادے میں تبدیل ہو جائے گا۔ اس وقت سے بہت پہلے زمین پر زندگی کا وجود ختم ہو جائے گا۔

لیکن جو سوال اس مضمون کا موضوع ہے، وہ یہ کہ اس کائنات کا کیا انجام ہو گا؟ کائنات کے انجام کے بارے میں پیشن گوئیاں کرنے سے پہلے یہ سمجھنا ضروری ہے کہ مشاہدات کی روشنی میں کائنات کے بارے میں ہمارا موجودہ تصور کیا ہے۔

ہماری کائنات کے بارے میں سب سے حیرت انگیز مشاہدہ یہ ہے کہ ہم جو کچھ دیکھتے ہیں یا دیکھنے کے قابل ہیں وہ کائنات کا پانچ فیصد سے بھی کم حصہ ہے۔ باقی پچانوے فیصد سے زیادہ کائنات ہم سے پوشیدہ ہے۔ پچیس فیصد حصہ تاریک مادے اور ستر فیصد حصہ تاریک توانائی پر مشتمل ہے۔ ہم کائنات میں موجود ستاروں اور کہکشاؤں پر ان کے اثرات تو دیکھتے ہیں لیکن ان کا براہ راست یا بالواسطہ طور پر مشاہدہ کرنا فی الحال ممکن نہیں۔ ہمیں ان کی ساخت کے بارے میں کچھ پتہ نہیں ہے۔ یہ ایک گہرا معمہ ہے۔ تاریک مادے اور تاریک توانائی کے معمے کو حل کیے بغیر کائنات کی تصویر ادھوری رہے گی۔

پہلے ہم اس سوال کا جواب دینے کی کوشش کرتے ہیں کہ وہ کیا مشاہدات ہیں جن کی بنیاد پر یہ نتیجہ اخذ کیا گیا کہ پچانوے فیصد کائنات ہم سے پوشیدہ ہے؟

Fritz Zwicky

تاریک مادے کی دریافت کا سہرا امریکی ماہر فلکیات فرٹز زوکی (Fritz Zwicky) کے سر ہے جنہوں نے 1933 میں کہکشاؤں کے ایک جھرمٹ، جسے کوما کلسٹر (Coma Cluster) کہتے ہیں، پر اپنے مطالعے کی بنیاد پر تاریک مادے کی موجودگی کا اندازہ لگایا۔ کوما کلسٹر ہماری کہکشاں سے تقریباً تین سو ارب نوری سال کے فاصلے پر واقع ہے اور ہزاروں کہکشاؤں کا مسکن ہے جس میں ہر کہکشاں کروڑوں ستاروں پر مشتمل ہے۔ یہ کائنات میں سب سے زیادہ مشہور کہکشاں گروپوں میں سے ایک ہے۔

کہکشائیں، ستاروں اور کہکشاں کے اندر موجود دیگر بڑے فلکی اجسام کے درمیان کشش ثقل کی بدولت اکٹھی رہتی ہیں۔ اگر کشش ثقل کمزور ہو تو ستاروں کا کہکشاؤں میں اکٹھے رہنا ممکن نہیں رہتا اور ستارے بکھر جاتے ہیں۔ بالکل اسی طرح، کہکشائیں دوسری کہکشاؤں کی کشش ثقل کی وجہ سے ایک جھرمٹ کے اندر موجود رہتی ہیں۔ کہکشائیں ایک جھرمٹ کے اندر حرکت کر سکتی ہیں۔ حرکات کا تعین دوسری کہکشاؤں کی موجودگی اور ان کی کشش ثقل کی وجہ سے ہوتا ہے۔

زویکی نے ایک پیمائش کے ذریعے مشاہدہ کیا کہ کوما کلسٹر کے اندر کہکشائیں کتنی تیزی سے حرکت کر رہی ہیں۔ انہوں نے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ کلسٹر میں مشاہدہ شدہ مادّہ اس قابل نہیں ہے کہ کوما کلسٹر کو یکجا رکھ سکے۔

سوال یہ تھا کہ آخر پھر یہ کہکشائیں کس طرح یکجا ہیں؟

زویکی نے اس سوال کی ایک عجیب و غریب توجیہہ پیش کی۔ انہوں نے تجویز کیا کہ ان کہکشاؤں میں کل مادہ اس سے کہیں زیادہ ہے جو ہم دیکھ سکتے ہیں۔ یہ باقی مادہ ہم کسی طور پر بھی اپنے پیمائش کے آلات سے نہیں دیکھ سکتے۔ صورت حال کچھ اس طرح ہے جیسے ہم کمرے میں کوئی چیز معلق دیکھیں۔ اس وقت ہم یہ نتیجہ اخذ کر سکتے ہیں کہ کچھ مادہ ایسا ہے جس نے اس چیز کو اپنے مقام پر سنبھال رکھا ہے لیکن ہم اس مادے کو دیکھنے سے قاصر ہیں۔ زویکی نے اس مادے کو جو ہمارے تمام آلات کی نظر سے اوجھل ہے ’تاریک مادے‘ کا نام دیا۔ انہوں نے اپنی پیمائش سے اندازہ لگایا کہ کوما کلسٹر کا تقریباً نوے فیصد حصہ تاریک مادے کی شکل میں ہے۔ یہ ایک چونکا دینے والا انکشاف تھا۔

تاریک مادے کی تلاش میں ایک اہم موڑ تب آیا جب 1970 کی دہائی میں، ویرا روبن (Vera Rubin) اور کین فورڈ (Ken Ford) ہماری اپنی کہکشاں، ملکی وے، میں ستاروں کی حرکت کا مطالعہ کر رہے تھے۔ توقع یہ تھی کہ ایسی کہکشاؤں میں زیادہ تر کمیت کہکشاں کے مرکز کے قریب مرتکز ہو گی۔ اس طرح کشش ثقل مرکز کے قریب زیادہ ہو گی اور جیسے جیسے مرکز سے فاصلہ بڑھتا جائے گا، کشش ثقل کمزور ہوتی جائے گی۔ اس طور توقع تھی کہ کہکشاں کے مرکز کے قریب ستاروں کو کہکشاں کے کنارے پر موجود ستاروں کی نسبت زیادہ تیزی سے حرکت کرنی چاہیے۔

لیکن جو مشاہدہ کیا گیا وہ یہ تھا کہ جیسے جیسے ستارے کہکشاں کے مرکز سے دور ہوتے جاتے ہیں، ان کی گردش کی رفتار کم نہیں ہوتی، بلکہ کہکشاں کے کنارے تک تقریباً ایک جیسی رہتی ہے۔ یہ بات کافی حیران کن تھی اور کوئی توجیہہ اس مشاہدے کی تاویل دینے سے قاصر تھی۔ ان نتائج کی وضاحت کرنے کا واحد طریقہ یہ تھا کہ یہ فرض کیا جائے کہ کہکشاں میں اس سے کہیں زیادہ مادہ موجود ہے جس کا مشاہدہ کیا جا سکتا ہے۔ یہ تاریک مادہ ستاروں کی حرکت کی کامیابی سے وضاحت کر سکتا تھا۔ یہ تاریک مادے کی تلاش کی طرف پہلا قدم تھا۔

تاریک توانائی کی دریافت 1990 کی دہائی کے اواخر میں ہوئی۔

جیسا کہ اوپر بیان کیا گیا ہے کہ کائنات بگ بینگ کے نتیجے میں اپنی پیدائش سے اب تک پھیل رہی ہے۔ ماہرین فلکیات کے نزدیک ایک اہم سوال یہ تھا کہ کیا کائنات کا یہ پھیلاؤ ہمیشہ کے لیے جاری رہے گا یا کیا کائنات کے پاس مادے اور توانائی کی اتنی مقدار موجود ہے کہ وہ اس پھیلاؤ کو روک سکے اور پلٹ کر اسی قسم کے نقطے پر واپس لوٹ جائے جس نے بگ بینگ کا آغاز کیا تھا۔

1990 کی دہائی میں، سائنسدانوں کی دو ٹیموں نے ان سوالات کے جوابات دینے کے لیے مشاہدات کا آغاز کیا۔ ان کا مقصد کچھ دور کے اجسام فلکی سے نکلنے والی روشنی کا تجزیہ کر کے کائنات کے پھیلاؤ کا مطالعہ کرنا تھا۔ ان اجسام فلکی میں ستاروں کے پھٹنے کے نتیجے میں پیدا ہونے والے سپرنووا بھی شامل تھے۔ ان سپرنووا سے نکلنے والی روشنی کی چمک اس بات کا پیمانہ ہے کہ یہ اجسام کتنی دور ہیں۔ اگر روشنی مدھم ہے تو یہ سپرنووا دور ہیں اور اگر روشنی تیز ہے تو یہ اجسام ہم سے قریب ہیں۔ خاص طور پر، انہوں نے ایک مخصوص قسم کے سپرنووا کی تلاش کی، جسے سپرنووا 1 a کہا جاتا ہے، جو سب ایک ہی توانائی کے ساتھ پھٹتے ہیں۔ اس طرح کے سپرنووا کی چمک ماہرین فلکیات کو کائناتی فاصلوں کا تعین کرنے میں مدد دیتی ہے۔ اگر ان روشن اجسام کا فاصلہ بگ بینگ ماڈل کی پیشین گوئی سے کہیں زیادہ پایا جاتا ہے، تو کائنات ہمارے اصل اندازے سے زیادہ تیزی سے پھیل رہی ہوگی۔ سپرنووا سے آنے والی روشنی یہ معلومات فراہم کر سکتی ہے کہ کائنات کتنی تیزی سے پھیل رہی ہے۔

1999 میں، دونوں گروپوں نے اپنے نتائج شائع کیے۔ انہوں نے جو پایا وہ یہ تھا کہ چھ یا سات ارب نوری سال کے فاصلے پر موجود یہ سپرنووا اتنے روشن نہیں تھے جتنا کہ وہ صرف کشش ثقل کی قوتوں پر مبنی بگ بینگ ماڈل کی بنیاد پر توقع کر رہے تھے۔ اس کا مطلب یہ تھا کہ یہ سپرنووا توقع سے کہیں زیادہ فاصلے پر تھے۔ ان بڑے فاصلوں کی واحد وضاحت یہ ہے کہ کائنات اس مدت کے دوران، جو کائنات کی عمر کے تقریباً نصف کے برابر ہے، توقع سے کہیں زیادہ پھیلی ہے۔ اس سے یہ نتیجہ اخذ کیا گیا کہ کائنات کے پھیلاؤ کی شرح کم نہیں ہو رہی ہے۔ درحقیقت، یہ تیز ہو رہی ہے۔ یہ ایک انتہائی حیران کن نتیجہ تھا۔

سوال یہ ہے کہ کائنات کے اس بڑھتے ہوئے پھیلاؤ کا منبع کیا ہے؟

اس نتیجے کا مطلب یہ تھا کہ کائنات کے ارتقا میں غالب عنصر کشش ثقل نہیں۔ کچھ ’تاریک توانائی‘ ہے جو اس غیر واضح پھیلاؤ کے لیے ذمہ دار ہے۔ ایک پراسرار نتیجہ یہ نکلا کہ بگ بینگ کے سات یا آٹھ ارب سال بعد تک کائنات کا پھیلاؤ سست ہو رہا تھا جو کہ اجسام فلکی کے درمیان کشش ثقل کی وجہ سے متوقع تھا۔ لیکن یوں لگتا ہے کہ پھر کچھ نامعلوم وجوہات کی بنا پر ایک پراسرار کشش ثقل مخالف قوت نے غلبہ حاصل کرنا شروع کر دیا۔ یوں پھیلاؤ کی رفتار تیز ہونا شروع ہو گئی۔

تاریک توانائی کیا ہے؟

یہ جاننے کے علاوہ کہ کائنات کا تقریباً 68 فیصد حصہ تاریک توانائی ہے جو کائنات کے پھیلاؤ کو متاثر کرتی ہے، اس کے بارے میں کچھ معلوم نہیں ہے۔ یہ کائنات کے سب سے بڑے اسرار میں سے ایک ہے۔

اب ہم کائنات کے انجام کے بارے میں سوال کی طرف آتے ہیں۔

یہ بات واضح ہے کہ کائنات کے مستقبل کے بارے میں کسی بھی سوال کا اس وقت تک تسلی بخش جواب نہیں دیا جا سکتا ہے جب تک ہم تاریک مادے اور تاریک توانائی، جو کائنات کے 95 فیصد سے زیادہ حصہ پر مشتمل ہیں، ان کی نوعیت اور خصوصیات جان سکیں۔ سب سے اہم سوال یہ ہے کہ کیا تاریک مادے اور خاص طور پر تاریک توانائی کی مقدار اور اس کی خصوصیات ہمیشہ ایک جیسی رہیں گی؟

یہاں میں چند منظر ناموں کا ذکر کرتا ہوں۔

تقریباً 100 سالوں سے سائنس دان کائناتی توسیع کے بارے میں جانتے ہیں۔ وہ یہ بھی جانتے ہیں کہ یہ بگ بینگ کا نتیجہ تھی جب ایک نقطے پر مرکوز کائنات پھیلنا شروع ہوئی۔ شروع میں اس پھیلاؤ کی رفتار بہت تیز تھی۔ سائنس دانوں کو توقع تھی کہ وقت کے ساتھ یہ توسیع سست ہو جائے گی۔ کہکشاؤں اور کہکشاؤں کے جھرمٹوں کے درمیان کشش ثقل ایک بریک کا کام کرے گی۔ شروع میں ایسا ہی ہوا۔ لیکن پھر پر اسرار تاریک توانائی کے زیر اثر اس توسیع کی رفتار تیز ہوتی چلی گئی۔ اب صورت حال یہ ہے کہ کائنات کا پھیلاؤ نہ صرف جاری ہے بلکہ وقت کے ساتھ اس میں اضافہ بھی ہوتا جا رہا ہے۔

اب ایک منظرنامہ یہ ہے کہ کائنات مستقل پھیلتی رہے گی۔ کوئی قوت بشمول کشش ثقل، تاریک مادہ، تاریک توانائی یا کچھ اور اس پھیلاؤ کو روکنے میں کامیاب نہیں ہوگی۔ پھیلاؤ کے نتیجے میں کائنات میں موجود کل توانائی ایک وسیع علاقے میں تقسیم ہوتی جائے گی۔ نتیجتاً اس صورت میں پھیلاؤ کے ساتھ کائنات کا درجہ حرارت گرتا رہے گا، یہاں تک کہ وہ وقت آ جائے گا جب کائنات کا ہر ذرہ منجمد ہو جائے گا اور ان ذرات کے مابین ہر طرح کا تعلق ختم ہو جائے گا۔ ستارے اپنی روشنی کھو دیں کے۔ ہر طرف تاریکی اور سردی کا دور دورہ ہو گا۔ اور پھر ابد تک کائنات اس منجمد حالت میں برقرار رہے گی۔

ایک اور منظر نامہ یہ ہے کہ کائنات کے پھیلاؤ کی رفتار میں اضافہ ہوتا چلا جائے گا۔ پھر ایک وقت ایسا آ سکتا ہے کہ توسیع کی رفتار اتنی تیز ہو جائے گی کہ کشش ثقل اور دوسری قوتوں کے لیے چیزوں کو ایک ساتھ رکھنا مشکل ہو جائے گا۔ یہ وہ وقت ہو گا جب کہکشاؤں سے لے کر ایٹموں تک ہر چیز پھٹ جائے گی۔ جو کچھ باقی رہ جائے گا وہ چھوٹے ذرات ہوں گے جو بظاہر خالی اور بے وقت کائنات میں بکھرے ہوئے بے مقصد حرکت کی حالت میں ہوں گے۔

لیکن ایسا بھی تو ہو سکتا ہے کہ کسی وقت تاریک توانائی اپنی خصوصیات میں تبدیلی لے آئے۔ پھیلاؤ کی رفتار میں تیزی کا سبب بننے کی بجائے پھیلاؤ کی رفتار میں ٹھہراؤ اور پھر کمی کا باعث بن جائے۔ اگر ایسا ہوتا ہے تو کائنات کشش ثقل کی بدولت سکڑنا شروع کر دے گی اور پھر سکڑتے سکڑتے اس مقام تک پہنچ جائے جہاں وقت اور جگہ کا تصور ہی ختم ہو جائے۔ یہ وہ لمحہ ہو گا جب کائنات اس نقطے پر پہنچ جائے گی جہاں سے اس کا آغاز ہوا تھا۔

اور پھر کیا پتہ یہ ایک اور بگ بینگ کا نقطہ آغاز ہو!

ان سب منظرناموں میں کلیدی کردار تاریک توانائی کا ہے، جو اس وقت خلا کی توسیع کو تیز کر رہی ہے۔ تاریک مادہ اور تاریک توانائی کی نوعیت جانے بغیر کائنات کے انجام کے بارے میں پیشن گوئی کرنا مشکل بلکہ ناممکن ہے۔ تاریک توانائی یا تو پوری کائنات میں نہ صرف یکساں ہے اور وقت کے ساتھ اس میں تبدیلی نہیں آئے گی اور یا پھر کائنات کے مختلف مقامات پر مختلف اوقات میں تاریک توانائی کی قوت مختلف ہو سکتی ہے۔ دونوں صورتوں میں کائنات کا انجام مختلف ہو گا۔

ڈاکٹر سہیل زبیری

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

ڈاکٹر سہیل زبیری

ڈاکٹر سہیل زبیری ٹیکساس یونیورسٹی میں کوانٹم سائنس  کے Distinguished Professor ہیں اور اس ادارے میں کوانٹم آپٹکس کے شعبہ میں Munnerlyn-Heep Chair پر فائز ہیں۔

suhail-zubairy has 82 posts and counting.See all posts by suhail-zubairy

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments