موت کا دریا (افسانہ)
دریا کنارے ایک چھوٹا سا گاؤں تھا جس کی آبادی تیس افراد پر مشتمل تھی اور ان کا ذریعہ معاش گلہ بانی تھا۔ اِس کے علاوہ وہ زمین کے چھوٹے چھوٹے قطعات پر کھیتی باڑی بھی کرتے تھے۔ گاؤں کے مغرب میں صرف ایک کلو میٹر کے فاصلے پر برلبِ دریا ہی ایک دوسرا گاؤں تھا جو تھوڑا بڑا تھا اور وہاں چالیس سے پچاس افراد کی رہائش تھی۔ دونوں جگہوں کے رہنے والے آپس میں قریبی رشتہ دار تھے اور شہر بانو کے ماموں بھی وہیں مقیم تھے۔ آتی بہار میں وہ اپنے بڑے ماموں کے چھوٹے لڑکے سے بیاہی جانے والی تھی۔
پہاڑی علاقہ ہونے اور موسمی شدت کی وجہ سے ان کی زندگیاں بہت ہی دشوار تھیں مگر وہ ثابت قدم تھے اور جب ساری وادی منجمد بھی ہو جاتی تو اپنے گھروں کو نہ چھوڑتے۔ مشکل حالات سے نبٹنے کے لیے انہوں نے ایک تو گھروں کو اس انداز سے تعمیر کر رکھا تھا کہ شدید سردی میں بھی وہ ٹھنڈ سے بچے رہتے تھے، دوسرا سردیوں کے لیے اناج اور گرم میوہ جات پہلے سے ہی محفوظ کر لیتے۔ ان کے مکان پتھر، گارے اور لکڑی کے تھے۔ یہ گھر زیادہ اونچے بھی نہیں تھے۔ یہی ان کی خصوصیت تھی، سردیوں میں محدود ایندھن سے ہی گرم ہو جایا کرتے تھے۔ مرکزی حیثیت رسوئی کو حاصل رہتی جو دوسرے کمروں سے کشادہ بھی تھی اور سردیوں میں سونے کا بندوبست بھی یہیں کیا جاتا۔ درمیان میں انگیٹھی جلائی جاتی جس کی پشت پہ نصب لوہے کا پائپ جو چمنی کا کام دیتا چھت سے باہر کو جاتا تھا۔ آئندہ گرمیوں تک کھانا پینا، اوڑھنا بچھونا یہیں انجام پاتا۔
ہموار جگہ پر مویشیوں کے باڑے مکان کے بالکل ساتھ ہی بنائے جاتے جو اندر سے آپس میں جُڑے ہوئے ہوتے۔ مگر ڈھلانی جگہ پر نیچے کی طرف باڑا بنایا جاتا اور اس کے اوپر ہی مکان۔ چوں کہ ٹھنڈ کے موسم میں یہ مویشی اندر ہی رہتے تھے اس لیے انہیں سنبھالنا آسان ہو جاتا تھا۔ شدید موسم میں لوگ گھروں کے اندر ہی وقت گزارتے تھے اور اگر ناگزیر ہو جاتا تو ہی باہر نکلتے۔
شہر بانو کے ابا کا فوجی چوکی پر کافی آنا جانا تھا۔ جب کبھی موسم صاف ہوتا اور برف نہ پڑتی تو وہ انہیں دودھ دینے کے لیے ضرور جاتا۔ ایک شام جب وہ واپس آیا تو کہنے لگا: ”جوان خاصے پریشان ہیں، وہ کہہ رہے تھے کہ مشرقی حصے میں حالات خراب ہو گئے ہیں“ ۔
شہر بانو کی اماں توے پر پُھلکا سینک رہی تھی کہنے لگی: ”ہمیں کیا لگے کہ وہاں کیا ہو رہا ہے ہمیں تو صرف اپنی بانو کی فکر ہے وہ اپنے گھر والی ہو جائے“ ۔
” فکر کیوں کرتی ہو چند ماہ کی تو بات ہے“ ۔
”خُدا آپ پر مہربان ہو، کہہ تو آپ ٹھیک رہے ہیں، میرا دل نا جانے کیوں بیٹھا جا رہا ہے اور عجیب سے خیالات بھی دماغ پر چھائے ہوئے ہیں“ ۔
شہر بانو کے ابا نے فرش پر بچھی ہوئی دری پر بیٹھتے ہوئے کہا: ”کل صبح میں خانقاہ جاؤں گا اور مُرشد سے پانی دم کروا کر لاؤں گا۔ خود بھی پینا اور شہر بانو کو بھی دینا اور باقی کا دروازوں پر چھڑک دینا اللہ تمہارے وسوسے دور کر دے گا“ ۔
صبح کے وقت آسمان بالکل صاف تھا۔ کئی روز سے برف باری نہیں ہوئی تھی مگر چوٹیاں پہلے سے موجود برف سے ڈھکی ہوئیں تھیں۔ شہر بانو کا باپ مویشیوں کو چارہ ڈال کر اور دودھ دھو کر فارغ ہو چکا تھا۔ ناشتے میں کشمیری چائے کا پیالہ تیار تھا جس میں دیسی گھی کے دو چمچ بھر بھر کر ڈالے گئے تھے۔ اُس نے باسی روٹی کے چند ٹکڑے چائے میں ڈبو کر کھائے اور گرم جیکٹ پہن کر باہر نکل گیا۔ وہ خانقاہ کی طرف بڑھ رہا تھا تو سامنے کی چوٹی سے اُترتی ہوئی دھوپ خانقاہ کے قریب پہنچ چکی تھی۔
خانقاہ کے دروازے تک رسائی کے لیے پختہ زینے بنائے گئے تھے۔ ابھی اُس نے پہلے زینے پر ہی قدم رکھا تھا کہ اُس کے کانوں میں پریشان کن آواز پڑی۔ اس نے تعجب سے گھوم کر پیچھے دیکھا تو اس کا چچا زاد بھاگا چلا آ رہا تھا۔ قریب پہنچتے ہی اُس نے پھولتی ہوئی سانسوں سے کہا: ”عالم کھائی میں گر گیا ہے“ ۔
بات ابھی مکمل بھی نہ ہوئی تھی کہ اُس نے گھر کی طرف دوڑ لگا دی۔ جب وہ وہاں پہنچا تو لوگ عالم کو اُٹھا کر گھر لا چکے تھے۔ اُس کی دائیں ٹانگ اور کمر پر شدید چوٹیں آئیں تھیں مگر وہ ہوش میں تھا۔ اس کے علاوہ اس کی بائیں آنکھ کے اوپر بھی زخم تھا جس میں سے خون رس رہا تھا۔ خُدا کا شُکر ہوا کہ اس کے سر پر کوئی گہری چوٹ نہیں آئی تھی۔
مدد کے لیے وہ فوجی چوکی کی طرف بھاگا۔ عالم کو علاج کے لیے بروقت شہر کے اسپتال پہنچانا ضروری تھا۔ اُس نے جوانوں کو صورت حال سے آگاہ کیا۔ تھوڑی دیر خاموشی چھائی رہی پھر کپتان بولا: ”آپ تو پہلے سے ہی جانتے ہیں کہ سرحد پر حالات کشیدہ ہیں، ایسے میں ہم اپنی پوزیشن نہیں چھوڑ سکتے۔ اگر عام حالات ہوتے تو میں یقیناً جیپ بھیج دیتا“ ۔
اس نے ہاتھ جوڑ دیے : ”خدارا میرے بچے کو بچا لیجیے“ ۔
کپتان کچھ سوچتے ہوئے کہنے لگا: ”آج سپلائی آنے والی ہے دُعا کیجیے کہ وہ جلد پہنچ جائیں، میں آپ کو اُن کے ساتھ روانہ کر دوں گا، تب تک ہم مرہم پٹی کیے دیتے ہیں“ ۔
دوپہر ایک بجے کے قریب چوکی پر دو ٹرک رُکے۔ ایک وہیں ٹھہر گیا اور دوسرا اگلے مورچوں کی طرف روانہ ہو گیا۔ سامان اُتارنے میں ایک گھنٹا لگا۔ اس کے بعد انہوں نے عالم کی چارپائی کو ٹرک میں رکھا اور شہر کی طرف روانہ ہو گئے۔
تین دن بیت چکے تھے مگر شہر سے کوئی خبر نہ آئی۔ شہر بانو اپنے دادا کے ساتھ گھر پر اکیلی تھی۔ رشتے دار تھوڑے وقت کے لیے آتے اور خبر گیری کے بعد لوٹ جاتے۔ ہر ایک لمحہ شہر بانو پر بھاری گزر رہا تھا۔ اس دوران اُس کا دادا دلاسا دینے کی کوشش کرتا مگر وہ سنبھل نہ پاتی۔
حادثہ کے بعد وہ چوتھی صبح تھی۔ موسم صاف تھا اور سب کچھ معمول کے مطابق تھا۔ اِکا دُکا لوگ باہر تھے مگر لوگوں کی اکثریت گھروں کے اندر ہی مصروف تھی۔ اتنے میں ایک جیپ مکانوں کے پاس آ کر رُکی۔ کچھ دیر کی خاموشی کے بعد میگا فون سے آواز آنا شروع ہوئی: ”کرپا دھیان دیجیے۔ یہ اعلان بھارتی فوج کی طرف سے ہے۔ ہم نے اس علاقہ سے دشمن کو مار بھگایا ہے۔ اب یہ گاؤں ہندوستان کے بندوبست میں ہے۔ ہم عام ناگریکوں کو کچھ نہیں کہیں گے۔ اگر کسی نے دشمن کے کسی فوجی کو چھپا رکھا ہے تو ہمارے حوالے کر دے، وگرنہ وہ اپنے نقصان کا خود ذمہ دار ہو گا“ ۔ میگا فون سے آنے والی آواز بند ہوئی تو گاڑی آہستہ آہستہ دور ہوتی چلی گئی۔ چند ہی تو گھر تھے، خبر گاؤں کے ہر فرد تک پہنچ گئی مگر وہ تمام اندر ہی دبکے رہے۔
نو بجے جب ہرطرف دھوپ پھیل چکی تھی تو وہ گاڑی دوبارہ آئی اور انہوں نے پھر اعلان کیا: ”میں کپتان ہرپال سنگھ بول رہا ہوں۔ کرپا کیجیے اور گاؤں کے بڑے باہر آ جایئے۔ ہم وشواس دلاتے ہیں کہ کسی کو نقصان نہیں پہنچائیں گے۔ ہم صرف بات چیت کے لیے آئے ہیں اور آپ سب کو اعتماد میں لینا چاہتے ہیں“ ۔
اعلان ختم ہوا تو ہر طرف خاموشی چھا گئی۔ تھوڑی دیر بعد ایک دروازے کے کنڈے کے ہٹنے کی آواز آئی۔ وہاں سے ایک بزرگ نمودار ہوئے اور فوجیوں کی طرف چل دیے۔ وہ شہر بانو کے دادا تھے۔ اتنے میں جو لوگ کھڑکیوں کے پیچھے سے جھانک رہے تھے اُن میں بھی ہمت پیدا ہوئی اور وہ بھی بات سننے کے لیے فوجیوں کے پاس پہنچ گئے۔ وہاں پندرہ منٹ تک گفتگو ہوئی، پھر فوجی اپنی جگہوں پر واپس چلے گئے۔ لوگوں نے دُور چوکی کی طرف دیکھا تو اُس پر تین رنگا جھنڈا لہرا رہا تھا اور مغرب کی طرف کچھ فوجیوں نے شہر جانے والی شاہراہ پر بھی قبضہ جما رکھا تھا۔ پھر وہ دوڑ کر نزدیکی چٹان پر چڑھے۔ وہاں سے دوسرا گاؤں صاف دکھائی دے رہا تھا اور وہاں کی چوکی پر ابھی بھی سبز ہلالی پرچم موجود تھا۔ جلد ہی صورت حال واضح ہو گئی کہ راتوں رات نئی سرحد تشکیل پا گئی ہے اور اُن کا گاؤں دوسرے دیس کی تحویل میں جا چکا ہے۔
کسی کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ ایک ہی رات میں ان کی کایا پلٹ جائے گی۔ کل رات جب وہ سوئے تھے تو ایک ملک کے باشندے تھے لیکن اگلی صبح بیدار ہوئے تو اُن کی آنکھ دوسرے دیس میں کھلی۔ وہ اس لیے بھی حیران تھے کہ نہ ایسا کبھی انہوں نے پہلے سُنا اور نہ ہی کہیں ہوتے دیکھا تھا۔ سرحد پر پہلے بھی جھڑپیں ہو چکی تھیں اور کئی بار تو مارٹر گولے اُن کے گاؤں میں بھی آن گرے تھے مگر اس بار نہ تو کوئی گولی چلی اور نہ ہی کہیں گولہ باری ہوئی مگر پھر بھی ایسا جغرافیائی بدلاؤ عمل میں آیا کہ جس نے قریبی رشتے داروں کو دو حصوں میں بانٹ کر رکھ دیا تھا۔
کئی ہفتے بیت گئے مگر شہر بانو کے بھائی عالم اور اُس کے والدین کی کوئی خبر نہ تھی۔ رو رو کر اب تو اُس کے آنسو بھی خشک ہو چکے تھے۔ رشتے دار کئی بار کپتان کے پاس گئے مگر وہ کہتا کہ اُس کے پاس دوسرے ملک کے شہریوں کی کوئی خبر نہیں۔ لوگ کہتے کہ وہ تو اسی گاؤں سے ہیں تو وہ آگے سے جواب دیتا کہ جو اُدھر رہ گیا وہ اُدھر کا ہوا اور جو اِس طرف ہے وہ ہمارا۔
ابھی تک دونوں گاؤں میں رابطے کا صرف ایک ہی ذریعہ دریافت ہوا تھا۔ لوگ اُس چٹان پر چڑھ جاتے جہاں سے دوسرا گاؤں نظر آتا تھا اور اُدھر والے بھی ایسی جگہ پر کھڑے ہو جاتے جہاں سے یہ گاؤں نظر آنے لگتا۔ پھر وہ ہاتھ کے اشاروں سے یا کپڑے لہرا کر ایک دوسرے کی خیریت دریافت کرتے۔ یہی ایک سلسلہ قائم ہوا تھا جس سے انہیں تھوڑی بہت تسلی ملتی تھی۔
شہر بانو بلا ناغہ اس چٹان پر چڑھتی۔ اس کا خیال تھا کہ گھر والے وہاں پہنچ گئے ہوں گے۔ اُس نے اپنے منگیتر اور دیگر رشتے دار تو دیکھے مگر ماں باپ اور بھائی کہیں نظر نہ آتے۔ پھر ایک صبح وہ وہاں پہنچی تو خوشی سے اچھل پڑی۔ دوسری طرف اُس کے والدین کھڑے تھے اور ان کے پہلو میں ایک وہیل چئیر پر عالم بھی۔ وہ دیوانہ وار چیخ پُکار کرنے لگی۔ اُس کے چہرے کے تاثرات بدل گئے۔ وہ بے حد خوش تھی۔ پھر آہستہ آہستہ اُس پر مایوسی چھانے لگی اور وہ زمین پر ہی آلتی پالتی مار کر بیٹھ گئی۔ تھوڑی دیر پہلے تک خوشی کے جو آنسو اس کے گالوں کو سہلا رہے تھے زحمت بن گئے۔ اس کی گرم شال اُن آنسوؤں کو پونچھتے پونچھتے تر ہو گئی۔ وہ ماں باپ کو گلے لگا کر تسکین پانا چاہتی تھی، بھائی کا ماتھا چومنا چاہتی تھی مگر کب اور کیسے؟ اس کا جواب کسی کے پاس نہ تھا۔
وہ روتے روتے وہاں سے بھاگی اور اس سڑک پر آ گئی جو نئی حد بندی کی طرف جاتا تھا۔ اسے اس حالت میں دیکھ کر گاؤں کے چند فرد بھی پیچھے ہو لیے۔ وہ دوڑے چلی جا رہی تھی اور مورچہ قریب آتا جا رہا تھا۔ جب وہ مورچے کے قریب پہنچی تو فوجیوں نے اُس پر بندوق تان لی۔ مارے خوف کے اُس نے اپنا چہرہ ہاتھوں میں چھپا لیا اور سہم کر زمین پر گر گئی۔ جلد ہی اس کے پیچھے آنے والے بھی پہنچ گئے۔ فوجیوں نے ہاتھ کے اشارے سے انہیں پیچھے ہٹنے کے لیے کہا۔ لوگوں نے اس کی منت سماجت کی۔ کچھ دیر بعد وہ سنبھلی تو واپس جانے کے لیے مان گئی۔
اگلی صبح وہ چٹان پر نہ پہنچ سکی۔ اُس کے والدین اُسے دیکھنے کی کوشش کرتے رہے مگر وہ کہیں نظر نہ آئی۔ وہ کافی دیر انتظار کرتے رہے اور پھر واپس لوٹ گئے۔ پچھلے پہر وہ پھر آئے مگر شہر بانو دکھائی نہ دی۔ وہ وہیں موجود تھے کہ یک دم افراتفری مچ گئی۔ لوگ دریا کی طرف بھاگتے ہوئے دکھائی دیے۔ وہ بھی اُن کے پیچھے ہو لیے۔ جب وہ ہانپتے کانپتے وہاں پہنچے تو کیا دیکھتے ہیں کہ بڑی چٹان کے ساتھ ایک زنانہ لاش پھنسی ہوئی ہے۔ اِس سے پہلے کہ لاش تیز بہاؤ میں بہہ جاتی، جلدی سے دو آدمی کمر سے رسا باندھ کر پانی میں اُترے اور کھینچتے ہوئے لاش کو کنارے پر لے آئے۔ لاش کو سیدھا کیا گیا تو پہچاننے میں ذرا بھی دیر نہ لگی۔ ماں غش کھا کر گر گئی اور باپ کی دھاڑوں نے پوری وادی کو ہلا کر رکھ دیا۔
- فلسطینی المیے پر غسان کنفانی کا ناولٹ دھوپ میں لوگ - 22/04/2025
- دی کائٹ رنر: دوستی، بے وفائی اور ندامت جیسے احساسات پر مبنی ایک اثر انگیز ناول - 27/03/2025
- موت کا دریا (افسانہ) - 23/03/2025
Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).