پہلا قدم


ہسپتال کی راہداری رات کے اس پہر ایک عجیب سی خاموشی میں ڈوبی ہوئی تھی۔ کہیں دور کسی مانیٹر کی مدھم بیں بیں بیں سناٹے کو چیر رہی تھی، جیسے تنہائی میں گھلتی ہوئی کوئی دھیمی سسکی۔ نرس یاسمین تیز قدموں سے چل رہی تھی، مگر اس کے نرم، محتاط قدم بھی فرش پر کوئی آواز پیدا نہ کر رہے تھے۔ وہ برسوں سے اس ہسپتال کا حصہ تھی، بے شمار راتیں جاگ کر گزاری تھیں، لیکن کچھ راتیں ایسی ہوتی تھیں جو دل پر بوجھ بن کر بیٹھ جاتی تھیں۔

یہ رات بھی انہی میں سے ایک تھی۔

کمرہ 104۔ دروازے کے سامنے پہنچ کر وہ ایک پل کے لیے رک گئی، جیسے کچھ سوچ رہی ہو۔ پھر اس نے گہری سانس لی اور دھیرے سے دروازہ کھول دیا۔

اندر، ایک نوجوان خاموشی سے بیڈ پر لیٹا تھا۔ کمرے کی ہلکی روشنی میں اس کا چہرہ مزید زرد لگ رہا تھا، جیسے زندگی کا رنگ آہستہ آہستہ اس میں سے نچوڑا جا چکا ہو۔ اس کے ہاتھ پہلو میں بے جان پڑے تھے، کلائیوں پر بندھی پٹیاں اس کی ناتمام چیخوں کی گواہ تھیں۔ سانسیں تو رواں تھیں، مگر آنکھوں میں کوئی چمک نہ تھی۔ کوئی امید، کوئی زندگی، کچھ بھی نہیں۔

یاسمین کا دل جیسے ایک لمحے کے لیے رک سا گیا۔ وہ ایسے مناظر کی عادی تھی، مگر ہر بار یہ درد کسی نہ کسی شکل میں اس کے دل پر اپنے نشان چھوڑ جاتا تھا۔ کتنے ہی نوجوان یہاں لائے جا چکے تھے، کچھ اس زندگی کو ایک اور موقع دینے پر آمادہ ہو کر واپس گئے، اور کچھ وہی خالی پن لیے، وہی بوجھ لیے، جیسے زندگی نے انہیں یا انہوں نے زندگی کو معاف کرنے سے انکار کر دیا ہو۔

وہ آہستہ سے آگے بڑھی، اس کا آئی وی چیک کیا، نبض دیکھی۔ کوئی ردِعمل نہیں۔
”کیا تمہیں پانی چاہیے؟“ اس نے نرمی سے پوچھا۔
کوئی جواب نہیں۔

یاسمین نے دھیرے سے سانس لی۔ وقت اور تجربے نے اسے یہ سکھایا تھا کہ بعض اوقات خاموشی چیخوں سے بھی زیادہ بلند ہوتی ہے، اور کبھی کبھی، یہ سب سے بڑا جواب بن جاتی ہے۔

وہ آہستہ سے کرسی کھینچ کر بیڈ کے قریب بیٹھ گئی۔ چند لمحوں تک کچھ نہ کہا، پھر نرمی سے بولی، ”میں نہیں جانتی کہ تم نے کیا کچھ جھیلا ہے، نہ ہی میں یہ کہہ سکتی ہوں کہ میں تمہارا درد سمجھ سکتی ہوں۔ مگر میں اتنا ضرور جانتی ہوں کہ درد بہت بے رحم ہوتا ہے۔ یہ صرف زخموں میں نہیں ہوتا، یہ دل کی گہرائیوں میں جا چھپتا ہے، وہاں جہاں کوئی اور اسے دیکھ بھی نہیں سکتا۔“

نوجوان کی پلکیں ہلکی سی لرزیں، مگر اس کی نظریں اب بھی چھت پر جمی ہوئی تھیں۔

یاسمین نے مدھم آواز میں کہا، ”مگر جانتے ہو؟ درد کا مطلب یہ نہیں کہ کہانی ختم ہو چکی ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ تم نے لڑائی لڑی ہے، اور تم ابھی بھی یہاں ہو۔ یہی بات اہم ہے۔“

کمرے میں خاموشی تھی، مگر اس خاموشی میں کچھ بدل رہا تھا۔ پہلی بار، نوجوان نے سر ذرا سا موڑا، اور ایک پل کے لیے اس کی نظریں یاسمین کی نظروں سے جا ملیں۔ بس ایک لمحہ۔ پھر اس نے نظریں چرا لیں۔

یہ ایک چھوٹی سی جیت تھی۔

یاسمین نے مزید کچھ نہ کہا۔ وہ بس وہیں بیٹھی رہی، خاموش، مگر موجود۔ کیونکہ بعض اوقات، کسی کے ساتھ بیٹھ جانا، اس کا درد محسوس کیے بغیر بھی اسے سمجھنے کی کوشش کرنا۔ یہی سب سے بڑی تسلی بن جاتی ہے۔

اور کبھی کبھی، یہی پہلا قدم ہوتا ہے۔ زندگی کی طرف واپس لوٹنے کا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments