مریم نواز کی حکومت کا ایک سال پارٹ3


وزیر اعلیٰ پنجاب مریم نواز کی جانب سے صوبہ میں عوام کو بروقت طبی سہولیات کی فراہمی کے لئے متعدد اقدامات کر رہی ہیں لیکن ان اقدامات پر عمل درآمد کے لئے موثر مانیٹرنگ کی اشد ضرورت ہے اس مقصد کے لئے وزیر اعلیٰ، وزیر و سیکریٹری صحت کی طرف سے صوبے کے ہسپتالوں کے دورے سے یقیناً مثبت نتائج برآمد ہوں گے لیکن مریم نواز نے اپنے حالیہ دورہ میو ہسپتال کے دوران ایم ایس ہسپتال کی جس طرح سرزنش کی ہے اس پر صحافتی اور قومی حلقوں میں بڑی لے دے ہو رہی ہے کوئی مثبت تاثر اجاگر نہیں ہوا دو افراد کی ہلاکت پر و زیر اعلیٰ کا رد عمل فطری ہے لیکن سوال یہ ہے کہ تحقیقات کے بغیر سر عام پنجاب کے سینئر ترین ڈاکٹر کی بے عزتی کرنا بھی مناسب نہیں کسی ہسپتال میں ہونے والی بے قاعدگیوں کا ذمہ دار ایم ایس کو ہی ٹھہرایا جاتا ہے اسے اس منصب سے ہٹا دینا کافی سزا ہوتی ہے لیکن ایسے شخص کو بے عزت کر کے ہٹانا مناسب نہیں جو خود ایک ماہ قبل ایم ایس کا اضافی چارج چھوڑنے کی درخواست دے چکا ہے ان کی درخواست پر بروقت کارروائی نہ کرنے والے افسر پر بھی کچھ باز پرس ہونی چاہیے۔ ہسپتال میں اس لئے ادویات کی کمی ہے کہ ہسپتال اربوں روپے کا مقروض ہے بل ادا نہ ہونے کی وجہ سے ادویات فراہم کرنے والی کمپنیوں نے سپلائی روک دی ہے کیا وجہ ہے وزیر اعلیٰ کے دورے کے بعد اسی روز ہی کروڑوں روپے کا چیک کیوں جاری کیا گیا؟

ہر سال حکومت ہسپتالوں کو اربوں روپے مالیت کی ادویات فراہم کرتی ہے لیکن ہسپتالوں میں ”کرپٹ مافیا“ نہ صرف ادویات کی خریداری میں گھپلے کرتا ہے بلکہ بیشتر ڈاکٹر ادویہ ساز کمپنیوں کے ”پے رول“ پر ہونے کی وجہ سے مہنگی ادویات لکھتے ہیں اور مخصوص لیبارٹریوں سے کمیشن کے حصول کے لئے مہنگے ٹیسٹ لکھ کر دیتے ہیں۔ مریم نواز نے امراض قلب ہیپاٹائٹس و دیگر بیماریوں میں مبتلا مریضوں کی آسانی کے لئے ان کے گھروں میں ادویات کی فراہمی کا منصوبہ بھی شروع کیا۔ وزیر اعلیٰ کو جہاں ادویات کی فراہمی کو یقینی بنانے کے لئے کسی رجسٹرڈ مریض کو اچانک فون کر کے چیکنگ کرنی چاہیے وہاں وزیر صحت و سیکریٹری کو اپنے دفاتر میں ائرکنڈیشنڈ کمروں میں بیٹھنے کی بجائے دور دراز کے علاقوں میں اچانک وزٹ پر بھجوانا چاہیے جب تک ہسپتالوں کے سربراہوں کو اچانک چھاپوں کا خوف نہیں ہو گا ان کی کارکردگی درست نہیں ہو گی۔ مجھے یاد ہے نیو ہولی فیملی ہسپتال میں ایک چوہے نے نو مولود بچے کو کاٹ کھایا تو اس کا نزلہ ہسپتال کے ایم ایس پر گرا تھا سفارشات کے باوجود ریٹائرمنٹ تک اس کو ملازمت پر بحال نہیں کیا گیا اسی طرح شہباز شریف کے دور میں ایک سرجن کا ہفتہ میں سات روز کے لئے مری ہسپتال نہ جانے پر وکٹوریہ ہسپتال بہاولپور تبادلہ کر دیا گیا شہباز شریف نے بے نظیر ہسپتال کے ایک ایم ایس کو اپنے ہی ہسپتال میں ڈینگی وارڈ کا پتہ نا ہونے پر عہدے سے ہٹا دیا تھا۔

وزیر اعلیٰ نے لاہور اور سرگودھا میں نواز شریف انسٹی ٹیوٹ آف کارڈیالوجی کا قیام عمل میں لانے کا مستحسن فیصلہ کیا ہے شہباز شریف نے راولپنڈی انسٹیٹیوٹ آف کارڈیالوجی قائم کیا تو یہ علاقے میں ایک سٹیٹ آف دی آرٹ تھا اب اس ہسپتال میں آزاد جموں کشمیر، گلگت و بلتستان، کے پی کے تک سے ہزاروں مریض علاج کے لئے آتے ہیں جس کے باعث مریضوں کے آپریشن کے لئے مہینوں کی تواریخ دی جاتی ہیں مریض آپریشن کے انتظار میں اس جہان فانی سے رخصت ہو جاتے ہیں صرف او پی ڈی میں مریضوں کی طویل قطاریں لگی ہوتی ہیں راولپنڈی آف کارڈیالوجی پر مریضوں کا دباؤ کم کرنے کے لئے فوری طور پر کسی نئی عمارت میں او پی ڈی شفٹ کی جائے ہسپتال میں مریضوں کے دل کے آپریشنز کے لئے نئے آپریشن تھیٹر تعمیر کرنے کی ضرورت ہے۔ ادویات کی لوکل پر چیز کے نظام میں تبدیلی کی گئی ہے لوکل پر چیز کی مد میں روزانہ لاکھوں روپے کے بوگس بلوں کی ادائیگی کی جاتی ہے وزیر اعلیٰ نے لاہور میں سٹیٹ آف دی آرٹ نواز شریف انسٹیٹیوٹ آف کینسر ٹریٹمنٹ اینڈ ریسرچ قائم کرنے کا اعلان کیا ہے جہاں کینسر کے لیول 3 اور 4 کے مریضوں کا علاج کیا جائے گا۔ سرکاری ہسپتالوں میں آنے والے مریض سروس ڈیلیوری کے حوالہ سے 0304۔ 1111781 پر شکایت درج کروا سکتے ہیں کنٹرول روم 24 / 7 ْ کام کریں گے کمپلینٹ سیل کا قیام بھی سرکاری ہسپتالوں میں غریب مریضوں کو دھکے کھانے سے بچانے میں مدد گار ثابت ہو گا۔

وزیر اعلیٰ نے جنگلات کی کٹائی کے عمل کو روکنے کے لئے جدید نظام متعارف کرایا ہے سوال یہ ہے کہ جب ٹمبر مافیا کے لوگ اسمبلیوں میں براجمان ہو جائیں گے تو وہ اس نظام کو کیسے کامیاب ہونے دیں گے؟ جنگلات کو آگ لگانے کی واردات کو روکنے کے لئے زیرو ٹالرنس کی ضرورت ہے مری اور راولپنڈی کے اضلاع کے قیمتی جنگلات کو آگ سے محفوظ کرنے کے لئے ”شیلڈنگ سمٹ“ کے نام سے ایک منصوبہ شروع کیا گیا ہے وزیر اعلیٰ کی حکومت کا جنگلات میں اضافہ کا منصوبہ ہے اس منصوبہ کے تحت 50 ہزار ایکٹر اراضی پر 5 ء 42 ملین پودے لگانے کا پروگرام ہے سر دست اس پروگرام کی کامیابی کا انحصار وزیر اعلیٰ کی ذاتی دلچسپی اور لگائے گئے پودوں کے سروائیول پر منحصر ہے تحفظ ماحولیات اور موسمیاتی تبدیلیوں کے لئے ”سرسبز پاکستان“ ضروری ہے اس کار خیر میں پنجاب کو اپنا حصہ ادا کرنا ہو گا اگرچہ وزیر اعلیٰ نے ایکسائز، ٹیکسیشن اور نارکوٹیکس کنٹرول کے نظام کا بیڑہ اٹھایا ہے لیکن ان محکموں کا آوے کا آوا ہی بگڑا ہے ان محکموں میں اصلاحات سے ممکن ہے کچھ بہتری آ جائے لیکن ان محکموں کو جائن کرنے والے اسی رنگ میں رنگ جاتے ہیں مجھے ذاتی تجربہ ہے کہ ایکسائز اینڈ ٹیکسیشن میں سفارش کی بجائے رشوت سے کام ہوتا ہے ملک بھر میں منشیات فروشوں کا راج ہے اگر وزیر اعلیٰ کو کسی شہر میں منشیات فروشی کی خبر ملے تو اس علاقے کے ایس ایچ او کو ذمہ دار قرار دے کر اس کے خلاف مقدمہ درج کیا جائے۔ وزیر اعلیٰ نے ائر ایمبولنس کا اجراء کر کے یقیناً ایک اچھا قدم اٹھایا ہے۔

حکومت پنجاب نے آبپاشی کا نظام بہتر کرنے کے لئے ایک منصوبہ بنایا ہے دریائے سندھ پر اپنے پانی کے استعمال کے لئے نئی نہریں نکالنا چاہتی ہے لیکن صدر مملکت آصف علی زرداری نے پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں کے مشترکہ اجلاس سے خطاب کے دوران دریائے سندھ سے پنجاب کو مزید پانی کے استعمال کی اجازت دینے کی مخالفت کر دی ہے فیڈریشن کی مجبوریاں آڑے آنے کے باعث ہم دریائے سندھ پر کالا باغ ڈیم بنا سکے اور نہ ہی 1990 کے پانی کی تقسیم کے معاہدے پر عمل درآمد کرا سکے دریائے سندھ کا پانی سمند میں ضائع تو ہو سکتا ہے لیکن سیاسی مجبوریوں کے تحت پنجاب اپنے حصہ کا پانی استعمال نہیں کرپائے گا۔
(جاری ہے )


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments