بچے کا سر بے ڈھب کیوں ہے؟


 

پیڈز (اطفال) ڈیپارٹمنٹ سے فون تھا۔

”کل رات ایک بچہ پیدا ہوا ہے، سر بہت سوجا ہوا ہے۔ اوزاری ڈیلیوری تھی، بچہ ٹھیک طرح سے دودھ نہیں پی رہا۔ ذرا دیکھ لیجیے گا کہ ڈیلیوری میں کوئی گڑبڑ تو نہیں ہوئی۔“

گائنی/آبسٹیٹرکس اور پیڈز کے شعبے ایک دوسرے سے اس طرح جڑے ہوتے ہیں کہ حمل کے نو ماہ اور زچگی ہماری ذمہ داری اور زچگی کے بعد دنیا میں آنے والا بچہ ان کے سپرد۔ اگر کسی بچے میں کسی بھی طرح کی گڑبڑ نظر آئے تو پیڈز ڈاکٹر ہمیں مطلع کرنے میں ایک سیکنڈ کی دیر بھی نہیں لگاتے۔

ہم نے کمپیوٹر کھول کر دیکھا کہ زچگی کے بارے میں کیا لکھا گیا ہے۔ پتہ چلا کہ زچگی کی دوسری سٹیج دو گھنٹے چلی۔ بچے دانی کے فطری دھکیلنے کے عمل کے ساتھ ساتھ زچہ بھی بھرپور زور لگا رہی تھی لیکن بچہ پیدا نہیں ہو رہا تھا۔ پھر بچے کے دل کی دھڑکن خراب ہونا شروع ہوئی جو سی ٹی جی گراف پہ دیکھی گئی۔ اب زچگی کے لیے مزید دیر کرنا مناسب نہیں تھا سو ڈاکٹر نے ویکیوم بچے کے سر پہ لگایا، کھینچا اور بچہ پیدا ہو گیا۔ اللہ اللہ خیر صلا۔

لیکن اس بات میں کہیں ایک اور بات بھی تھی۔ بچے کے سر کی پوزیشن۔ زچگی کی دوسری سٹیج میں ڈاکٹر جب بھی فیصلہ کرے کہ اوزاری ڈیلیوری کرنی ہے یا سیزیرین، لازم ہے کہ بچے کے سر کی پوزیشن متعین کی جائے۔ (ہم اس بارے میں پہلے لکھ چکے ہیں : بچہ کس سٹیشن پہ کھڑا ہے؟ )

زچگی کے دوران ویجائنا میں موجود بچے کے سر کو سٹیشنز کے لحاظ سے دیکھا جاتا ہے اور سٹیشنز اس بات کا تعین کرتے ہیں کہ زچگی آسان ہوگی یا مشکل؟ ویجائنا کے راستے ہو گی بھی کہ نہیں؟ زچگی جونیئر ڈاکٹر کروا سکتا ہے یا سینئر؟ ماں بچے کو کتنا نقصان پہنچنے کا احتمال ہے؟

ویجائنل سٹیشنز کی سائنس ہم تک انگریزی کتابوں سے پہنچی ہے اور انہی کے ذریعے زچگی کی سائنس نے بے تحاشا ترقی کی ہے۔ ان کو ہی سمجھ کر زچگی میں مرنے والی عورتوں کی شرح کم کرنے کی کوشش کی گئی۔ لیکن کیا کیجئے کہ ہمارے یہاں تو ویجائنا کا نام لینے سے ہی لوگوں کا ”تراہ“ نکل جاتا ہے کجا یہ کہ اسے سمجھنے کی کوشش کی جائے۔

بات ہو رہی تھی کمپیوٹر اور اس میں لکھے نوٹس کی جن کے مطابق بچے کا سر مائنس ون سٹیشن پہ تھا۔ ہم نے آنکھیں سکوڑتے ہوئے یہ پڑھا اور ہاتھ فون کی طرف بڑھا دیا۔ ہمیں زچگی کرنے والی ڈیوٹی ڈاکٹر سے بات کرنی تھی۔

جی آپ بتائیں گی کہ اس زچگی میں کیا ہوا؟

زچگی کے درد بہت اچھے تھے، مریضہ زور بھی بہت اچھا لگا رہی تھی لیکن بچے کا سر نیچے نہیں آ رہا تھا۔ پھر سی ٹی جی پہ نظر آنا شروع ہوا کہ بچے کو آکسیجن نہیں پہنچ رہی۔ تب میں نے اوزار لگانے کا فیصلہ کیا۔

آپ نے اوزار کا انتخاب کیوں کیا؟

میرے پاس دو راستے تھے کہ میں سیزیرین کر کے بچہ نکالتی یا اوزار لگاتی۔ میں نے دونوں طریقے مریضہ کے لواحقین کے سامنے رکھے۔ سیزیرین کا سنتے ہی وہ سب شور مچانے لگے۔ مجبوراً مجھے اوزار لگانا پڑا۔

کیا اوزار لگانے کے لیے بچے کا سر ٹھیک پوزیشن پہ تھا؟
نہیں، کچھ اونچا تھا لیکن اور کچھ نہیں کیا جاسکتا تھا۔
آپ نے اس مرحلے پہ سیزیرین اور اوزار کو برابر کیوں رکھا؟ صرف سیزیرین کرنے کا فیصلہ کیوں نہیں کیا؟
ایک تو مریضہ کے لواحقین راضی نہیں تھے۔ دوسرے مجھے لگا کہ اوزار کی مدد سے بچہ باہر نکل آئے گا۔

آپ کو لگا؟ یعنی آپ خود بھی پر امید نہیں تھیں لیکن پھر بھی آپ نے اوزار لگانے کا فیصلہ کیا سیزیرین کرنے کی بجائے؟

اصل میں لواحقین کا پریشر بہت زیادہ تھا اور دوسرے۔
دوسرے۔ ؟
میں نے سوچا نصف شب میں سیزیرین کرنا۔

آپ اپنی سینئر کو مدد کے لیے بلا سکتی تھیں اگر آپ کو سیزیرین کرنا مشکل لگ رہا تھا۔ مائنس ون پہ اٹکے سر کو اوزار لگا کر کھینچنے میں بچے کو ہونے والے نقصان کے متعلق آپ نے کیوں نہیں سوچا؟

وہ۔ وہ۔ مریضہ کے گھر والے۔

آپ کو گھر والوں کو بتانا چاہیے تھا کہ ہمارے حساب سے بچے کا سر ویجائنا میں اوپر ہے۔ اگر اوزار لگایا تو نہ صرف کھینچنے میں زیادہ قوت لگے گی بلکہ وقت بھی مزید صرف ہو گا۔ دوسرے اس پوزیشن پہ ضروری نہیں کہ اوزار ڈیلیوری کامیاب ہو۔ فیل ہونے کے چانسز زیادہ ہیں۔

جی میں نے سب کچھ بتایا تھا لیکن ان لوگوں کا کہنا تھا کہ پچھلے دس گھنٹے درد زہ برداشت کرنے کے بعد اب بڑا آپریشن بھی کروائیں۔ یہ کیا بات ہوئی۔

اور ڈیلیوری کے بعد وہ سب ناچ رہے ہوں گے کہ دیکھا ڈاکٹر سیزیرین کا کہہ رہی تھی، ہم نے پیچھے پڑ کر نارمل کروا لیا۔ ہماری آواز میں تلخی تھی۔

جی۔ جی۔ یہی ہوا تھا۔ ڈاکٹر نے سر جھکا لیا۔

اب آپ انہیں جا کر بتائیں کہ بچے کی کھوپڑی میں ہلکا سا فریکچر ہے اور سر پہ جو گومڑا نظر آ رہا ہے وہ سوجن نہیں بلکہ جلد کے نیچے جمع ہوتا ہوا خون ہے۔

جی۔ میں ایم آر آئی کی رپورٹ پڑھ چکی ہوں۔ ڈاکٹر کی آنکھ میں آنسو تھے۔

آپ کو اس سے ایک سبق یاد رکھنا چاہیے۔ کسی کے پریشر میں آ کر وہ کام نہ کریں جو مریض اور اس کے بچے کے لیے نقصان دہ ہو۔ بھلے لوگ چیخیں چلائیں، کچھ بھی کریں لیکن آپ نے مریضہ اور بچے کے حق میں ٹس سے مس نہیں ہونا۔ اور ہاں ایک اور بات۔ اگر لواحقین آپ کے بتائے ہوئے طریقہ علاج سے انکار کریں تو ایک فارم پہ ان کے دستخط لے لیں کہ وہ لوگ آپ کے فیصلے کو قبول کرنے سے انکاری ہیں۔

جی۔ میں یہ سبق یاد رکھوں گی۔

زچگی کا عمل مریضہ کے لیے تو پل صراط ہوتا ہی ہے، ڈاکٹر بھی اس باریک لکیر پہ ان کے ساتھ چل رہی ہوتی ہے اور وہ بھی اس عالم میں کہ ہر کوئی اس کی نیت پہ شک کر رہا ہوتا ہے۔

ہم مانتے ہیں کہ مالی فائدہ بہت سے ڈاکٹرز کے پاؤں ڈگمگا دیتا ہے لیکن یاد رکھیں کہ ڈاکٹرز بھی آپ کے معاشرے کا حصہ ہیں۔ جب اس حمام میں سب ہی ننگے ہوں تو ڈاکٹرز کیسے خود کو بچا سکتے ہیں۔ اب سب کے پاس فولادی قوت ارادی اور بے نیاز رہنے والا دل تو نہیں ہوتا نا۔

چلتے چلتے بتا دیں کہ ویکیوم اوزار تب لگایا جاتا ہے جب بچے کا سر پلس ون سٹیشن پہ موجود ہو۔ کچھ لوگ زیرو سٹیشن پہ بھی ایسا کر گزرتے ہیں لیکن اگر کوئی پیچیدگی ہو جائے تو تب ذمہ دار وہی ہوں گے۔ اور یہ بھی جان لیجیے کہ ضروری نہیں پلس ون پہ لگائے گئے ویکیوم اوزار سے زچگی ہو بھی جائے۔ ویکیوم فیل ہو جائے تب ہر حال میں سیزیرین ہی کرنا پڑتا ہے اور فیل ویکیوم کے بعد کیا جانے والا سیزیرین ہر گائناکالوجسٹ کے لیے ایک ڈراؤنا خواب ہوتا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).