بگ آئیز ایک سچائی!
ہر سال عورتوں کے عالمی دن پر دل چاہتا ہے کہ عورتوں کے مسائل کا رونا نہیں رونا کچھ اچھی باتیں کرنی ہے۔ مگر بُرا ہو اس تقدیر کا جو ہمیشہ تکلیف ہی پر روشنی ڈالتی ہے۔ پچھلے سال میں نے ”بگ آئیز“ کے نام سے ایک فلم دیکھی۔ بحیثیت ایک مصّورہ میں اس کو گہرائی سے دیکھتی جاتی تھی آنکھوں سے چُپ چاپ آنسو بہے جاتے تھے۔ آپ بھی سُنیے! یہ فلم ایک سچی کہانی پر مبنی ہے۔ مارگریٹ کین ایک امریکی مصورہ تھی جو اپنی منفرد پینٹنگز کے لیے مشہور تھی۔
وہ 15 ستمبر 1927 کو نیش وِل ٹینسیی میں پیدا ہوئی۔ اس کے ایک کان میں انفیکشن کی وجہ سے اس کی قوتِ سماعت کمزور ہو گئی۔ اسے بچپن ہی سے آرٹ کا شوق تھا۔ اس نے نیو یارک کے ٹرافیگن سکول آف ڈیزائن میں تعلیم حاصل کی۔ شادی کے بعد اپنے پہلے شوہر فرنیک البرچ کے ساتھ کیلیفورنیا میں سکونت اختیار کی۔ پہلی شادی زیادہ دیر نہ چل سکی۔ دنیا بھر میں عورتیں صدیوں سے اپنی شناخت اور خود مختاری کے لیے لڑتی آئی ہیں۔ اگرچہ آج کے جدید دور میں خواتین نے اپنے آپ کو منوایا ہے مگر پھر بھی بہت سی جگہوں پر مردوں کی بالا دستی کا نظام موجود ہے جو عورتوں کو ان کی اپنی شناخت کے ساتھ کامیاب ہوتے ہوئے قبول نہیں کر سکتا۔
اس کی بہت سی سماجی، نفسیاتی اور تاریخی وجوہات ہیں مار گریٹ کین کی پینٹنگز جن میں خصوصاً مجبور عورتوں بچوں حتیٰ کہ جانوروں تک کی بھی تصویروں میں اداس اور غیر متناسب بڑی بڑی آنکھیں شاندار طریقے سے پینٹ کی گئی تھیں۔ Tim Burton کی ہدایت کاری میں بننے والی یہ فلم بہت دل چسپ متاثر کن سوانحی ڈرامہ ہے۔ یہ فلم نہ صرف آرٹسٹ کی جدوجہد اور اس کے فن کی چوری پر روشنی ڈالتی ہے بلکہ اس میں ایک مضبوط سماجی پیغام چھپا ہوا ہے کہ کچھ بھی کر لو جیت ہمیشہ سچائی ہی کی ہو گی۔
فلم کے آغاز میں 1950 کی دہائیوں کا زمانہ دکھایا ہے جہاں مارگریٹ سان فرانسسکو میں رہتے ہوئے فن کی دنیا میں اپنی شناخت بنانے کی کوشش کرتی ہے۔ ایک روز ایک میلے میں جہاں اس نے بھی اپنی پینٹنگز کا سٹال لگایا ہوتا ہے وہاں ایک پُر کشش مگر چالاک شخص والٹر کین سے ملتی ہے جو خود کو ایک ماہر مصور کے طور پر پیش کرتا ہے۔ والٹر مارگریٹ سے شادی کر لیتا ہے اور اس کی پینٹنگز کو اپنی بتا کر اس کا فن بیچنا شروع کر دیتا ہے۔
جلد ہی اس کی پینٹنگز بے حد مقبول ہو کر نہ صرف گیلریوں اور ڈیپارٹمنٹل میں فروخت ہونے لگیں بلکہ ملک کی مشہور شخصیات نے بھی انہیں جمع کرنا شروع کر دیا۔ ایک روز مارگریٹ اپنے خاوند کو بتائے بغیر اپنی بنائی ہوئی پینٹنگز کی نمائش دیکھنے گیلری جا پہنچی تو اسے پتا چلا کہ اس کا دھوکے باز خاوند اسے اپنے نام سے بیچ رہا تھا۔ اس زمانے میں عورتوں کو کم اہمیت دی جاتی تھی لہذا وہ اپنے حق میں آواز نہیں اُٹھا پائی۔ کئی سالوں تک والٹر اسے مکان کے تہہ خانے میں جہاں ایک بڑے سے کمرے میں صرف ایزل، کینوس اور پینٹس تھے جبراً بند رکھتا اور وہ مجبوراً کام کرتی رہتی۔
کئی برسوں کی اس ذہنی اذیت کو سہنے کے بعد مارگریٹ نے بالآخر والٹر سے طلاق لے لی اور ہوائی منتقل ہو گئی جہاں اس نے سچ بولنے کی ہمت اختیار کی اور دنیا کو بتایا کہ ”بگ آئیز“ کی اصل تخلیق کار وہ ہے۔ ایک طویل جبر کا موسم کاٹنے کے بعد 1986 میں مارگریٹ نے والٹر کے خلاف ہتکِ عزت کا مقدمہ کیا۔ مقدمے کے دوران ایک ڈرامائی لمحہ آتا ہے جب جج مارگریٹ اور والٹر دونوں کو چیلنج کرتا ہے کہ وہ کمرۂ عدالت میں ایک ”بگ آئیز“ پینٹنگ بنا کر دکھائیں۔
والٹر نے کندھے میں درد کا بہانہ بنا کر انکار کر دیا۔ دوسری طرف مار گریٹ نے کم وقت میں پینٹنگ مکمل کر کے اپنی سچائی ثابت کر دی۔ عدالت نے نہ صرف مارگریٹ کے حق میں فیصلہ دیا بلکہ اسے مالی معاوضہ بھی دیا۔ مارگریٹ اس کے بعد دہائیوں تک پینٹنگز بناتی رہی۔ اس کا فن وقت کے ساتھ تبدیل ہوا مگر اس کی بنیادی توجہ اداس بڑی بڑی آنکھوں پر ہی مذکور رہی۔ 6 جون 2022 کو 94 سال کی عمر میں اس دلیر مصورہ کا انتقال ہو جاتا ہے مگر وہ دنیا میں اپنے کام اور بہادری کی مثال بنی۔
وہ اپنی زندگی میں پردے کے پیچھے چھپ کر کام کرتی رہی۔ شہرت اور دولت کا مزہ اس کا خاوند اٹھاتا رہا۔ یہ فلم صرف ایک آرٹسٹ کی کہانی نہیں بلکہ یہ اس سماجی، نفسیاتی اور ذاتی مسئلے پر روشنی ڈالتی ہے کہ مرد کس طرح اپنی چالاکی سے عورتوں کی خداداد صلاحیتوں سے فائدہ اُٹھاتے ہیں۔ اگر آپ آرٹ کے دلدادہ ہیں تو یہ Biopic ضرور دیکھیں جس میں پدر شاہی نظام کے خلاف دہائیوں پہلے آواز اٹھائی گئی۔ بہت سے مرد اس نظریے کے ساتھ پروان چڑھتے ہیں کہ عورت کا اصل مقام صرف گھر کی چار دیواری ہے۔
چلو اگر اس بات کو مان بھی لیا جائے تو کیا یہ مناسب ہے کہ عورت کی صلاحیتوں کو اپنی ذات کے لیے استعمال کر کے پیسہ بنایا جائے اور اس کے حق پر ڈاکا مارا جائے۔ اس فلم کی بنیادی کرداروں ایمی ڈیمر اور کر سٹوف والٹر کی شاندار اداکاری خوب صورت سینماٹوگرافی اور سچائی پر مبنی کہانی اسے یادگار بناتی ہے۔ افسوس! کہ آج کے اس جدید دور میں بھی مرد نہیں چاہتے کہ عورت اپنی زندگی خود گزارے کیوں کہ یہ ان کے اختیار اور برتری کو ایک کھلم کھلا چیلنج ہے۔
کاروبار، سیاست اور ملازمت کے میدانوں میں اکثر عورتوں کی صلاحیتوں کو نظر انداز کر دیا جاتا ہے۔ ان کی ترقی اور تنخواہوں میں روایتی رکاوٹیں کھڑی کی جاتی ہیں۔ کیوں کہ مرد عورتوں کو اپنے برابر کے حریف کے طور پر قبول نہیں کرتے۔ مردوں کو اب مجموعی طور پر معاشرے کی نصف آبادی کو ملکی ترقی کے لیے قبول کرنا ہو گا تا کہ معیشت مضبوط ہو سکے۔ کسان خواتین اور دست کاریوں کے کام کرنے والی عورتوں کی اُجرت کو ہر صورت بڑھانا ہو گا۔
- پاکستان کی سیاست اور جیلیں! - 17/04/2025
- پاکستان کی سیاست اور جیلیں - 12/04/2025
- پنسلوانیا کے پہلے بجلی کے شہر سکرینٹن کے تاریخی مقامات - 20/03/2025
Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).