کنیز فاطمہ کو گھر بسانا ہے (پانچویں قسط)


اگر بن بلائے، بن چاہے اولاد ہو، اور وہ بھی لڑکی، کی نشانیاں لیے، تو وہ بیٹی نہیں، لڑکی ہوتی ہے۔ اور لڑکی کا نام پہلے سے نہیں سوچا جاتا، بلکہ بعد میں بھی نام کا تکلف نہیں کیا جاتا۔ اس زمانے میں ہسپتال میں تو بچے ہوتے نہیں تھے، کہ میڈیکل سرٹیفکیٹ میں نام لکھوانے کی غرض سے نرس آئے اور نام پوچھے۔ یہاں تو ہر شیر خوار، لڑکی کو منی کہا جاتا، چوتھی لڑکی تک تو کنیز فاطمہ کے سسر نے قرآن سے حرف دیکھ کر، نام رکھنے کی زحمت کی۔ لیکن بار بار لڑکی پیدا ہو تو کسی زحمت کی ضرورت نہیں رہتی۔

کنیز فاطمہ کی سب سے چھوٹی نند، زبیدہ نے کسی افسانے میں شازیہ نام پڑھا ہو گا۔ سو اس لڑکی کا نام شازیہ رکھ دیا گیا۔ اس زمانے کا یہ مشہور نام تھا۔ کنیز فاطمہ پیار سے شازو کہتیں۔ کنیز فاطمہ کی بڑی بیٹی زینت، جو ان سے سولہ سال ہی چھوٹی ہوں گی، انہوں نے بچوں کی دیکھ ریکھ اور ان کے پیٹ کی آگ بجھانے کا ذمہ خود ہی سنبھال لیا۔

لڑکیوں کی تعداد اب پانچ ہو چکی تھی۔ پانچ لڑکیاں اور دو بیٹے۔ پانچویں نمبر کی ببلی جو چھ سال کی تھی اس کے بعد ٹنو چار سال کا تھا، پھر شازو جو ڈیڑھ سال کی تھی۔ اپنے سارے بچوں کو دو، دو سال اپنا دودھ پلانے کی وجہ، نئے آنے والے بچے کا مزید کچھ مدت راستہ روکنا بھی تھی۔ سن رکھا تھا کہ جب تک ماں بچوں کو اپنا دودھ پلاتی ہے وہ امید سے نہیں ہوتی۔ اس امید پر وہ اپنے سینے سے دودھ نچڑواتی رہتیں۔ یہ حربہ اتنا تو کامیاب رہتا کہ اکثر دو، ڈھائی سال ان کی کوکھ خالی رہتی۔ مگر پھر بچہ پیٹ میں ٹھہر ہی جاتا، او ر پھر جب آنے والی جان، ماں کا خون نچوڑنے لگتی تو اپنے بچے کا دودھ چھڑوانے کے جتن کیے جاتے، کبھی نپل پر پسی مرچیں، تو کبھی کڑوی دوا لگا دی جاتی، تا کہ بچہ اوب جائے۔ بچہ رات بھر رو کر خود کو ہلکان اور ماں کو بے آرام کرتا۔ شازو کو اب تک اپنا دودھ پلانے کی وجہ بھی یہ ہی تھی۔

اسی اثنا میں چھوٹی نند کا رشتہ منظور ہو گیا۔ سال بعد شادی تھی۔ کنیز فاطمہ اپنی نند کے جہیز کے لیے کمیٹیوں کی صورت پیسے جوڑنے لگیں۔ پہلی کمیٹی فرنیچر کے واسطے الگ کر لی۔ دوسری کمیٹی سے، شیشے کا ایک ڈنر سیٹ خرید کر ایک اندھیری کوٹھری کے اندر طاق پر رکھ دیا گیا۔

بچے چھپن چھپائی کا کھیل رہے تھے، پانچویں نمبر کی ببلی، کوٹھری میں جا چھپی، خود کو مزید محفوظ کرنے کو طاق میں بیٹھنے کی خاطر برتنوں کے بڑے سے پیکٹ کو کھسکایا ہو گا، کہ وہ دھڑام سے نیچے گرا۔ ببلی فوراً گھبرا کر باہر نکل آئی۔ برتنوں کے ٹوٹنے کی آواز کنیز فاطمہ تک پہنچی تو دل بیٹھ گیا۔ ابھی تو اس کی کمیٹی کے پورے پیسے بھی ادا نہ ہوئے تھے۔ انہیں خوف، کہ میاں آئیں گے تو کس طرح انہیں اس المناک خبر سے آگاہ کیا جائے گا۔ کمیٹیاں ڈالنے کے سبب ویسے ہی تنگی ترشی سے گزارا ہو رہا تھا۔ اب یہ افتاد! منجھلی نے بہن کے سفید پڑتے چہرے کو دیکھا تو سمجھ گئی، اس کے پیر سے خون بھی نکل رہا تھا۔ وہ اس کو گھسیٹ کر نلکے کے پاس لے گئی، اس کا خون صاف کر کے پٹی باندھ دی۔ ماں کو پریشان دیکھ کر منجھلی نے ایک ایک کو پکڑ کر کہنا شروع کر دیا۔ زلفی گھسا تھا اسٹور میں، اس نے برتنوں کا ڈبہ گرایا ہے۔

زلفی پریشان، لیکن منجھلی نے ایسا نقشہ کھینچا، کہ سب کو لگا جیسے انہوں نے اپنی آنکھوں سے زلفی کو اسٹور سے نکلتے دیکھا ہو۔

زلفی بھی خود کو چور سمجھنے لگا۔ اب منجھلی نے اس کو تسلی دینا شروع کر دی۔ ”آپ تو پاپا کے لاڈلے بڑے بیٹے ہو نا، پاپا آپ کو کچھ نہیں کہیں گے۔ پاپا کو سچ سننا اچھا لگتا ہے کہہ دینا، ہم سے ٹوٹ گیا دیکھ لینا۔ وہ کچھ نہیں کہیں گے۔ شاباشی دیں گے، ہمیں تو لگتا ہے انعام بھی دیں گے۔ ہم کہہ رہے ہیں نا۔ سچ بول دینا بس۔ منجھلی نے زلفی کو ایسا باتوں میں الجھایا کہ اسے لگا جیسے برتنوں کا ٹوٹنا کوئی کارنامہ ہو۔“

ببلی بے چاری منہ چھپا کر کمرے میں لیٹ گئی۔ دوپہر کو کھانا بھی نا مانگا۔ بڑی لڑکی تو شیر خوار شازو کا پیٹ بھرنے، اس کی الٹیا ں صاف کرنے، فیڈر بنانے، دودھ پلانے، پوٹی پر بٹھانے، صاف کرنے جیسے کاموں میں الجھی رہتی تھی۔ اسے حالات و واقعات کی اکثر خبر نہ ہوتی تھی، لیکن برتن ٹوٹنا کوئی خاموش سانحہ نہیں تھا۔ پر جانتی تھی، منجھلی کوئی راہ نکال لے گی۔

شام کو کنیز فاطمہ کے شوہر گھر میں گھسے، تو منجھلی نے جلدی سے ان کے ہاتھوں سے بیگ لے لیا۔ کنیز فاطمہ نے بڑی لڑکی سے شازو کو چھین کر سینے سے لگا لیا اور دودھ پلانے کے بہانے کمرے میں چلی گئیں۔

بڑی نے باپ کے آگے کھانا رکھا۔ ہمیشہ کی طرح وہ ساتھ، میں پانی رکھنا بھول جاتی تھی۔ کھانے کے درمیان پانی کی طلب، باپ کو طیش دلا دیتی۔ اور بڑی تیزی سے دوڑ کر صراحی سے گلاس بھر کر ان کے آگے رکھ دیتی۔ ببلی یوں تو گھبرائی ہوئی تھی پر باپ کو پرچانے کے لیے وہ سب سے پہلے گلاس میں پانی بھر لائی۔

کھانا ختم کرنے کے بعد منجھلی نے ان کے آگے سے برتن اٹھا لیے۔ اور زلفی کو اشارہ کیا کہ ”سچ بول اور انعام حاصل کر“ ۔

زلفی آگے بڑھا۔
” پاپا برتن ٹوٹ گئے۔“ پاپا نے اس کے سر پر ہاتھ رکھا۔ ”کوئی بات نہیں“ ۔
منجھلی آگے بڑھی۔ ”پاپا آپ جو پھپو کے لیے شیشے کے برتن لائے تھے، وہ۔“
” کیا“ ؟ پاپا دھاڑے۔ کس نے توڑے۔
ببلی جلدی سے بھاگ کر ماں کے پاس جا بیٹھی اور رونے لگی۔
کنیز فاطمہ کا خوف کے مارے برا حال۔ جانے کیا ہو۔ ببلی تو یوں بھی ان چاہی، چوتھی لڑکی تھی۔

زلفی نے منجھلی کی طرف مدد طلب نظروں سے دیکھا۔ منجھلی نے اس کے سر پر پیار سے ہاتھ پھیرا۔
”پاپا کو سچ بتا دو۔ پاپا کچھ نہیں کہیں گے۔ پاپا کو سچ سننا پسند ہے۔ ہے نا پاپا!“
پاپا ہم سے ٹوٹ گئے۔ زلفی نے اعتماد سے کہا۔
پاپا نے اس کے سر پر شفقت سے ہاتھ دیا۔ ”کوئی بات نہیں بیٹا۔“
وہ نڈھال چال چلتے ہوئے کمرے کی جانب چلے۔
منجھلی بھاگ کے ببلی کے پاس پہنچی اور اسے گلے سے لگا لیا۔ بس اب رونا بند کرو۔ پاپا غصہ نہیں ہیں۔

کنیز فاطمہ کی نند، زبیدہ کی شادی میں ابھی چھے ماہ تھے، کہ کنیز فاطمہ کی چھاتی میں ایک پھنسی نمو پانے لگی، ایک ہفتے کے اندر وہ پھوڑا بن گئی۔

کنیز فاطمہ درد سے نڈھال، شیر خوار بچی کو اوپر کے دودھ کے ساتھ ماں کا دودھ بھی چاہیے۔ وہ جی جان سے دودھ کھینچتی تو کنیز فاطمہ کی جان نکل جاتی۔ کنیز فاطمہ کے سینے میں پھوڑے کی دہکتی آگ۔ کسی نے مشورہ دیا کہ حالات خراب ہیں، کراچی چلے جائیں، وہیں پر علاج بھی ہو جائے گا۔ کنیز فاطمہ کے شوہر کو یہ فکر کہ، سفر و قیام کے پیسے کہاں سے آئیں گے۔

کنیز فاطمہ نے بتایا کہ زبیدہ کے جہیز کے فرنیچر کے پیسے سنبھلے ہوئے ہیں۔
”اور، ڈنر سیٹ بھی تو لینا ہے“ ۔ فکر برقرار رہی۔

”واپس آ کر دو کیمیٹیاں اور ڈال لیں گے“ ۔ کنیز فاطمہ کے سلیقے سے ہی، محبت میں اب تک نبھتی چلی آئی تھی۔

چھ ماہ کی شازو کو بڑی لڑکی، زینت نے گود میں اٹھایا ہوا تھا۔ باقی لڑکیوں کو منجھلی نے سنبھالا۔ دو بیٹوں کو کنیز فاطمہ کے شوہر نے اپنی انگلی پکڑائی۔ ٹرین کی بکنگ پہلے ہی ہو چکی تھی۔ کنیز فاطمہ، جانے کیسے چھاتی میں پھوڑے کی دہک برداشت کرتی کراچی پہنچیں۔ ڈرگ روڈ نمبر پانچ میں اپنی بڑی نند کے داماد کے ہاں پڑاؤ ڈالا۔ کنیز فاطمہ درد سے دہری ہوئی جاتی تھیں۔ منجھلی سے ان کی تکلیف دیکھی نہ جاتی تھی دوپہر کا کھانا کھاتے ہی اس نے باپ کا پیچھا پکڑ لیا۔ امی کو ابھی ڈاکٹر کے پاس لے کر جائیں۔ کسی نے ایک گلی چھوڑ کر لیڈی ڈاکٹر کا بتایا۔ کنیز فاطمہ اپنے چھے بچے، بڑی لڑکی کے حوالے کر، منجھلی کو ساتھ لے، لیڈی ڈاکٹر کے کلینک پہنچیں۔

قمیض اٹھا کے کنیز فاطمہ نے جو پھوڑا دکھایا، اس پھوڑے کی آگ آج بھی منجھلی کو جھلسانے لگتی ہے۔ پھوڑے کا منہ ہلکا سا کھل گیا تھا۔ ڈاکٹر نے پھوڑے کو نرم ہاتھوں سے دبایا، کنیز فاطمہ کے منہ سے ہولناک چیخ بر آمد ہوئی۔ اتنے بچے جننے پر بھی کنیز فاطمہ کی آواز کبھی کمرے سے باہر نہ آئی تھی۔ مگر آج جیسے کسی نے کنیز فاطمہ کے گلے پر چھری رکھ دی تھی۔ کنیز فاطمہ نے گلے سے نکلنے والی اگلی چیخ کو روکنے کے لیے منجھلی کا بازو اپنے دائیں ہاتھ سے جکڑ دیا۔ منجھلی چیخ اٹھی۔ ”امی کو درد ہو رہا ہے“ ۔

ڈاکٹر نے انگلی منہ پر رکھ کر منجھلی کو خاموش رہنے کا اشارہ کیا اور نرس سے اسے کمرے سے باہر نکالنے کو کہا۔ جیسے ہی نرس آگے بڑھی، منجھلی نے چلانا شروع کر دیا۔

کنیز فاطمہ نے اس کے بازو پر اپنی گرفت ڈھیلی کر دی۔ اور ایسے شانت ہو گئیں جیسے ہر بچہ جنم دینے کے بعد ہو جاتی ہوں گی۔ نرس واپس مڑ گئی۔ منجھلی نے خود پر قابو پایا۔ ڈاکٹر نے پھوڑے پر چیرا لگایا۔ ایک پچکاری کے ساتھ سارا مواد باہر آ گیا۔ نرس نے مرہم پٹی کی، انجکشن لگایا۔ منجھلی نے دوائیں پکڑیں اور کنیز فاطمہ اسٹول سے اٹھ کھڑی ہوئیں۔

منجھلی نے ان کا ہاتھ تھاما۔ گلی کی نکڑ پر بڑھیا کے بال والا کھڑا تھا۔ منجھلی اس کے پاس جا کھڑی ہو گئی۔ کنیز فاطمہ نے اس سے دو گولے بنوائے۔ ایک منجھلی کو پکڑایا، دوسرا خود سارے کا سارا منہ میں ڈال لیا۔ گھر کے قریب پہنچ کر کنیز فاطمہ نے منجھلی کا منہ صاف کیا اور اس سے پوچھا۔ ”ہمارے منہ پر بڑھیا کے بال تو نہیں لگے“ ۔ منجھلی نے جلدی سے ان کے لٹکتے دوپٹے سے ان کی باچھیں صاف کر کے جرم کا ثبوت مٹایا اور دونوں گھر میں داخل ہو گئیں۔

کنیز فاطمہ نے شاید زندگی میں پہلی بار یوں آزادانہ کچھ کھایا تھا۔ گھر میں داخل ہوتے ہی انہیں یاد آیا کہ وہ سات بچوں کی ماں ہیں، یاد بھی کیا آیا، بچوں کے شور و غل اور شازو کے رونے کی آوازیں انہیں ان کے اصل کی طرف لے آئیں۔ شازو کو کمرے کے کونے میں لے جا کر اس کا پیٹ بھرا، اسے بڑی لڑکی کے حوالے کر کے باورچی خانے میں گھس گئیں۔ کہ ان کی تعریف، تعارف اور یہی مصرف تھا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments