ایک بیان سے ملک کی تقدیر نہیں بدلے گی
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے دوسری بار صدر بننے کے بعد کانگرس سے پہلے خطاب میں پاکستانی حکومت کا شکریہ ادا کیا ہے۔ اس بیان پر اسلام آباد میں خوشی محسوس کی جا رہی ہے۔ سرکاری طور سے اسے ایک بڑی سفارتی کامیابی سمجھا جا رہا ہے۔ ٹرمپ نے پاکستان کی تعریف 26 اگست 2021 کو کابل ائرپورٹ کے ایبے گیٹ پر ہونے والے دھماکے کے ماسٹر مائنڈ شریف اللہ کی گرفتاری اور اسے امریکہ کے حوالے کرنے پر کی ہے۔
صدر ٹرمپ نے اپنی تقریر میں کہا کہ ’مجھے یہ اعلان کرتے ہوئے خوشی ہے کہ 2021 میں افغانستان سے امریکی افواج کے انخلا کے دوران کابل ائرپورٹ پر فوجی اہلکاروں کو نشانہ بنانے والا مرکزی ملزم پکڑا گیا ہے۔ امریکہ ایک بار پھر بنیاد پرست اسلامی شدت پسند قوتوں کے خلاف مضبوطی سے کھڑا ہے۔ ساڑھے تین سال قبل افغانستان سے تباہ کن انخلا کے دوران کابل کے بین الاقوامی حامد کرزئی ائرپورٹ کے ایبے گیٹ پر شدت پسند تنظیم نام نہاد دولت اسلامیہ کے شدت پسندوں کے حملے میں 13 امریکی فوجی اور سینکڑوں افغان شہری ہلاک ہوئے تھے۔ جس طریقے سے انخلا کیا گیا وہ شاید ہمارے ملک کی تاریخ کا سب سے شرمناک لمحہ تھا۔‘ آج مجھے یہ بتاتے ہوئے خوشی محسوس ہو رہی ہے کہ ہم نے اس حملے کے مرکزی ملزم کو پکڑ لیا ہے اور اسے یہاں لایا جا رہا ہے۔ وہ امریکہ کے فوری انصاف کا سامنا کرنے کے لیے اپنے راستے پر ہے۔ میں اس عفریت کی گرفتاری میں مدد کرنے پر حکومت پاکستان کا خاص طور پر شکریہ ادا کرنا چاہتا ہوں ’۔
امریکی صدر کی تقریر میں پاکستان کے ذکر اور دہشت گردی کے خلاف تعاون پر پاکستان کا شکریہ ادا کرنے پر اسلام آباد حکومت ایک بار پھر یہ امید قائم کر رہی ہے کہ وہ واشنگٹن کے ساتھ دیرینہ تعلقات بحال کرنے میں کامیاب ہو جائے گی۔ اس دہشت گرد کی گرفتاری اور امریکہ کے حوالے کرنے کے بارے میں جو تفصیلات میڈیا میں سامنے آئی ہیں، ان کے مطابق امریکی سی آئی اے نے پاکستانی آئی ایس آئی کو شریف اللہ کی نقل و حرکت کے بارے میں معلومات فراہم کی تھیں۔ ان معلومات کی بنیاد پر پاکستانی فورسز نے چند روز پہلے اس شخص کو پاک افغان سرحد کے قریب سے گرفتار کیا تھا۔ اس کے بعد چند روز تک دونوں ملکوں کی ایجنسیوں کے درمیان اسے امریکہ کے حوالے کرنے کے بارے میں بات چیت ہوتی رہی۔ تاہم کانگرس سے ٹرمپ کے پہلے خطاب کے موقع پر اسے امریکہ کے حوالے کیا گیا تاکہ امریکی صدر اپنی تقریر میں اس کا کریڈٹ لے کر عوام کی تائید و حمایت حاصل کرسکیں۔ البتہ اس آپریشن کے سلسلہ میں ہونے والی پیش رفت سے پاکستانی حکام کو امید پیدا ہوئی ہے کہ پاکستان ایک بار پھر امریکہ کے ساتھ پیدا ہونے والی سرد مہری ختم کر کے سکیورٹی کے حوالے سے تعاون کے نئے منصوبے کا آغاز کر سکتا ہے۔ تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ شریف اللہ کی گرفتاری کو اسی تناظر میں دیکھنے کی ضرورت ہے۔
کانگرس میں خطاب کے اگلے روز امریکی قومی سلامتی کے مشیر نے نائب وزیراعظم و وزیر خارجہ اسحاق ڈار کو ٹیلی فون کیا اور دہشت گردی کے خلاف اقدامات پر پاکستان کا شکریہ ادا کیا۔ ترجمان دفتر خارجہ کے مطابق نائب وزیراعظم اور وزیر خارجہ محمد اسحاق ڈار کو امریکی قومی سلامتی کے مشیر مائیکل والٹز نے ٹیلی فون کال کی۔ انہوں نے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے پاکستانی حکومت کی انسدادِ دہشت گردی کے لیے کی جانے والی کوششوں پر شکریہ ادا کیا اور تعریف کا پیغام پہنچایا۔ نائب وزیراعظم و وزیر خارجہ نے امریکی قومی سلامتی کے مشیر کو ان کے عہدے کا منصب سنبھالنے پر مبارکباد دی اور اس امید کا اظہار کیا کہ صدر ٹرمپ اور ان کی انتظامیہ کے ساتھ پاکستان اپنے دیرینہ اور وسیع البنیاد تعلقات مزید مستحکم کرے گا۔
ٹرمپ کی تقریر میں پاکستان کے ذکر کے فوری بعد وزیر اعظم شہباز شریف نے پرجوش شکریہ ادا کرتے ہوئے ایکس پر ایک پیغام میں کہا کہ ’ہم امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا خطے میں انسداد دہشت گردی کی کوششوں میں پاکستان کے کردار اور حمایت کو تسلیم کرنے اور سراہنے پر شکریہ ادا کرتے ہیں۔ پاکستان نے ہمیشہ انسداد دہشت گردی کی کوششوں میں ایک اہم کردار ادا کیا ہے۔ پاکستان دہشت گردوں اور عسکریت پسند گروپوں کو کسی دوسرے ملک کے خلاف کارروائی کرنے کے لیے محفوظ پناہ گاہوں کی فراہمی کو روکنے پر یقین رکھتا ہے۔ ہم دہشت گردی سے نمٹنے کے اپنے عزم پر ثابت قدم ہیں۔ اس کوشش میں پاکستان کے 80000 سے زیادہ بہادر فوجیوں اور شہریوں نے جانیں قربان کیں۔ اور ہم علاقائی امن اور استحکام کے لیے امریکہ کے ساتھ قریبی شراکت داری جاری رکھیں گے‘ ۔
اس جوش و خروش کے بارے میں تجزیہ نگاروں کا خیال ہے کہ یہ پاکستان کے لیے ضرور ایک اچھی خبر ہے کہ امریکی صدر نے اس کی کوششوں کی توصیف کی ہے لیکن یہ تنہا واقعہ کوئی اتنی بڑی خبر نہیں ہے کہ قیاس کر لیا جائے کہ دونوں ملکوں کے درمیان سرد مہری ختم ہو چکی ہے اور اب معاملات بہتری ہی کی طرف گامزن ہوں گے۔ امریکہ میں پاکستان کی سابق سفیر ملیحہ لودھی کا خیال ہے کہ اس حالیہ پیش رفت سے یہ بات واضح ہوئی ہے کہ پاکستان اور امریکہ کے درمیان انسداد دہشت گردی کے لیے کام جاری ہے۔ تاہم اسے بہت بڑی بات نہیں سمجھنا چاہیے کیونکہ دونوں ملکوں کے تعلقات میں ابھی اتنی گرمجوشی نہیں۔ اب امریکہ کی نظر میں پاکستان کی وہ اہمیت نہیں رہی جو پہلے تھی۔ ملیحہ لودھی سمجھتی ہیں کہ دونوں ملکوں کے درمیان دوبارہ تعلقات استوار کرنے کی ضرورت ہے۔ ’تعلقات پچھلے تین چار سال سے چوراہے پر ہیں اور ان کو دوبارہ سے استوار کرنے کی ضرورت ہے‘ ۔ ان کا کہنا تھا کہ امریکہ کے افغانستان سے انخلا کے بعد تعلقات میں کمی آئی تھی، اب ضرورت ہے کہ تعلقات کو وسیع بنیاد پر استوار کیا جائے۔
تاہم پاکستانی حکومت کو یہ بھی دیکھنا چاہیے کہ ماضی میں امریکہ کے ساتھ تعلقات کس بنیاد پر استوار تھے اور اس سے پاکستان کو سیاسی، مالی، سفارتی اور سماجی طور سے کیا فائدہ یا نقصان ہوا۔ ماضی میں پاک امریکہ تعلق پہلے افغانستان میں سوویت فوجوں کے خلاف ’جہاد‘ میں کردار ادا کرنے کے حوالے سے تھا۔ اس کے بعد پاکستان کو نظر انداز کرنے کا ایک طویل وقفہ آیا تاہم نائن الیون کے بعد افغانستان میں القاعدہ کے خلاف کارروائی اور دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پھر سے پاکستان کی ضرورت محسوس کی گئی اور پاکستان نے بھی ’اسٹریٹیجک‘ پارٹنر بننے اور امریکہ سے وصول ہونے والے ڈالروں کی خوشی میں اس جنگ کا حصہ بننے پر آمادگی ظاہر کی۔ لیکن یہ شمولیت ملک میں انتہا پسندی کے فروغ کے علاوہ عسکری گروہوں کو طاقت ور بنانے کا سبب بھی بنی۔ پاکستان نے ٹرمپ کی سابقہ حکومت کی خواہش پر طالبان کے ساتھ معاہدہ کے لیے دوحہ مذاکرات کا اہتمام کرایا تھا۔ تاہم جب امریکی فوجیں افغانستان سے نکل گئیں تو امریکہ نے بھی پاکستان کو نظر انداز کر دیا اور کابل میں طالبان کی حکومت بھی اسلام آباد کے ساتھ تصادم کا راستہ اختیار کیے ہوئے ہے۔ پاکستان کی بار بار درخواست کے باوجود طالبان حکومت تحریک طالبان پاکستان کے افغانستان میں ٹھکانوں کو ختم کرنے اور پاکستان کے خلاف ان کی دہشت گردی بند کرانے میں دلچسپی نہیں لیتی۔
پاکستان کے لیے یہ پہلو بھی قابل غور ہونا چاہیے کہ امریکہ اگرچہ سپر پاور ہے اور تمام دنیا کے اہم معاملات پر اس کا اثر و رسوخ محسوس کیا جاسکتا ہے لیکن ڈونلڈ ٹرمپ نے اقتدار سنبھالنے کے بعد متعدد معاملات میں جو انتہا پسندانہ اقدامات کیے ہیں، ان سے بین الاقوامی تعلقات اثر انداز ہو رہے ہیں۔ امریکہ کے قریب ترین ہمسائے اور تجارتی پارٹنر کینیڈا اور میکسیکو، ڈونلڈ ٹرمپ کی مسلط کردہ تجارتی جنگ کا مقابلہ کرنے کی تیاری کر رہے ہیں۔ ایسی ہی صورت حال کا سامنا یورپی یونین کو بھی لاحق ہے۔ ٹرمپ یورپی یونین کے خلاف بھی 25 فیصد محاصل عائد کرنے کا اعلان کرچکے ہیں۔ اس اعلان پر عمل درآمد سے پہلے یوکرین کے بارے میں ٹرمپ کی یک طرفہ پالیسی، روس کی طرف واضح جھکاؤ اور وائٹ ہاؤس میں یوکرینی صدر ولودو میر زیلنسکی کی توہین جیسے واقعات نے یورپ کو جھنجوڑ کر رکھ دیا ہے۔ اب متعدد یورپی ممالک اپنے دفاع پر اخراجات بڑھانے کے اقدام کر رہے ہیں۔ یورپ اور امریکہ کے درمیان 75 سال سے قائم سکیورٹی اتحاد اب ٹوٹنے کے قریب ہے۔ اسے سلامتی کے علاوہ جمہوری اقدار اور انسانی حقوق پر تصورات کے اختلاف کے طور پر بھی دیکھا جا رہا ہے۔
صدر ٹرمپ کی یوکرین جنگ ختم کرانے کی جلدی کو درحقیقت ان کی اس خواہش کے طور پر دیکھا جا رہا ہے کہ وہ سارے امریکی وسائل چین کے خلاف تجارتی و اسٹریٹیجک جنگ جیتنے پر صرف کرنا چاہتے ہیں۔ ان کی یہ خواہش بھی ہے کہ کسی طرح روس اور چین کے درمیان رخنہ ڈال کر وہ چین کی عالمی پوزیشن کو نقصان پہنچانے کی کوشش کریں۔ ان حالات میں پاکستان کے لیے کوئی ایسی حکمت عملی بنانا آسان نہیں ہو گا کہ وہ امریکہ کو خوش کر کے ماضی کی طرح اس کی دست نگر ریاست کا کردار ادا کرے اور جواب میں مالی اور سکیورٹی امداد ملنے لگے۔ شریف اللہ کو امریکہ کے حوالے کرنے کے عمل سے پاکستان کی یہ خواہش محسوس کی جا سکتی ہے کہ امریکہ کو افغانستان میں دہشت گرد گروہوں کے بارے میں تعاون پر آمادہ کیا جا سکے۔ اس طرح پاکستان ایک طرف کابل حکومت کو دباؤ میں لا سکے گا اور دوسری طرف امریکہ کے ساتھ سکیورٹی تعلقات بحال ہونے سے اسے فوجی وسائل اور مالی امداد مل سکے گی۔ تاہم ایسی امیدیں وابستہ کرتے ہوئے پاکستان کو یہ بھی دیکھنا چاہیے کہ امریکہ کس حد تک قابل اعتبار حلیف ہے۔ ٹرمپ کی سربراہی میں امریکہ نیٹو اتحاد میں شامل اپنے قریب ترین حلیفوں کے مفادات کو بھی خاطر میں لانے پر آمادہ نہیں ہے۔ اسی طرح کیا چین کو ناراض کیے بغیر امریکہ کے ساتھ سکیورٹی تعلقات استوار ہو سکیں گے؟
امریکہ کے ساتھ پاکستان کے عسکری تعاون کی تاریخ طویل اور پیچیدہ ہے۔ کسی بھی موقع پر امریکہ ضرورت پڑنے پر پاکستان کی مدد کو نہیں پہنچا۔ پاکستان ضرور امریکہ کے ساتھ تعلقات بحال کرے لیکن ان تعلقات کو ماضی کی طرح ’کرائے کا سپاہ‘ بننے کے اصول کی بجائے باہمی احترام کے اصول پر استوار ہونا چاہیے۔ اسی طرح پاکستان کو دیکھنا چاہیے کہ موجودہ عالمی تناظر میں خارجہ تعلقات میں طاقت کے کسی بھی مرکز کو ناراض کیے بغیر کیسے سب سے فائدہ اٹھایا جاسکتا ہے۔ یہ توازن پاکستان کے مستقبل اور خوشحالی کے لیے بے حد ضروری ہو گا۔ امریکہ کے ساتھ تعلقات کے معاملہ پر یک طرف فیصلے کرنے کی بجائے قومی مذاکرہ کے ذریعے کسی اتفاق رائے پر پہنچنا سود مند ہو گا۔
- مقبوضہ کشمیر میں دہشت گردی: ذمہ دارانہ رویہ کی ضرورت - 23/04/2025
- کیا سمندر پار پاکستانی موجودہ نظام بچائیں گے؟ - 22/04/2025
- بلاول کا اعلان جنگ: کیا پیپلز پارٹی یہ جنگ جیت سکتی ہے؟ - 21/04/2025
Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).