فلسطینوں کی نسل کشی: ٹرمپ کی تجاویز اور عرب
صدر ٹرمپ امریکہ کے ایسے صدر ہیں جو بادی النظر میں ہر تجویز اور فیصلہ بلا سوچے سمجھے کرتے نظر آتے ہیں مگر ایسا ہوتا نہیں ہے۔ صدر صاحب کا ہر فیصلہ دور رس نتائج کا حامل ہوتا ہے خواہ یہ نتائج کیسے ہی کیوں نہ ہوں۔ بالکل ایسے ہی فیصلوں اور تجاویز میں سے ایک فلسطین کے متعلق بیان بازی ہے۔ فلسطین کے بارے میں جلد بازی اور غلط تصورات پر مبنی بلا روک ٹوک تجاویز سے عالمی سطح پر فلسطین کے مسئلہ کے حل پر منفی اثرات مرتب ہو رہے ہیں انہوں نے ”غزہ پر قبضہ“ کرنے، اسے ”مشرق وسطیٰ کے رویرا“ Riviera of the Middle East
میں تبدیل کرنے کی دھمکی بھی دے دی ہے۔ مشرق وسطیٰ کے رویرا بنا دینے کا مطلب ہو گا غزہ کو ختم کر دینا۔ اس کے ساتھ فلسطینیوں کو اردن اور مصر میں جا بسنے کا مشورہ بھی دے ڈالا ہے جو امریکہ کے دو دیرینہ اتحادی ہیں اور وہ بھی ایسے جو اپنی بقا کے لیے امریکہ پر بہت زیادہ انحصار کرتے ہیں۔ امریکی صدر نے یہ اشارہ بھی دیا ہے کہ اگر دونوں ممالک اس کے ساتھ تعاون کرنے سے انکار کرتے ہیں تو وہ یا تو امداد میں بہت زیادہ کمی یا اربوں ڈالر کی اقتصادی اور فوجی امداد سے یکسر محروم کر دیے جائیں گے۔ ابھی تک یہ حقیقی بھی ہو سکتا ہے اور محض ایک خالی دھمکی بھی ہو سکتی ہے۔
غزہ کے مجوزہ قبضے کی ان تمام عرب رہنماؤں نے مذمت کی ہے جنہوں نے طویل عرصے سے غزہ کی پٹی میں ایک مکمل فلسطینی وطن کی وکالت کی ہے۔
امریکہ اور برطانیہ میں سعودی عرب کے سابق سفیر شہزادہ ترکی الفیصل نے ٹرمپ کی غزہ کی حکمت عملی کو نسلی تطہیر کا پاگل پن قرار دیا ہے۔
عرب ٹرمپ کے نسلی تطہیر کے اس منصوبے کو صرف اس لیے بھی قبول نہیں کر سکتے کہ ایسا کرنے سے پورا خطہ اور ان کی تمام حکومتیں غیر مستحکم ہو جائیں گی۔ کیونکہ 1948 میں فلسطینیوں کی اصل نسلی صفائی کے اثرات آج بھی پورے مشرق وسطیٰ میں محسوس کیے جا رہے ہیں۔ جب فلسطینی وطن کی مقامی آبادی کی اکثریت بے گھر تھی، تقریباً 800,000، جن میں سے زیادہ تر فلسطین کے اندر بھی بے گھر ہی رہے۔
انہوں نے کہا کہ نسل کشی کے بعد 2.2 ملین کی آبادی کو بے گھر کرنا، جس نے مشرق وسطیٰ اور پوری دنیا میں غصے کو بھڑکا دیا ہے، یہ ان عرب حکومتوں کے لیے ایک خودکش اقدام ہے جو پہلے سے ہی اپنی قانونی حیثیت کی تلاش میں جدوجہد کر رہی ہیں۔
”مجھے یقین ہے کہ ٹرمپ پہلے ہی یہ جانتے ہیں، لیکن وہ دھمکیوں کا استعمال کرتے ہوئے عرب حکومتوں پر دباؤ ڈالنے کے لیے ایک ’متبادل‘ منصوبہ تیار کر رہے ہیں جس کا مقصد فلسطینی مزاحمت کو غیر مسلح کرنا ہے، اس طرح اسرائیل سے بھی کچھ منوایا جا سکتا ہے لیکن یہ دھوکے کے علاوہ کچھ ثابت نہیں ہو گا کیونکہ غزہ کی جنگ کے نتائج پر عربوں کا کوئی کنٹرول نہیں ہے۔
اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوٹیرس نے کہا تو ہے کہ ٹرمپ کا نسلی تطہیر کا منصوبہ ہماری دنیا میں قابل قبول نہیں ہے مگر اقوام متحدہ کی بس لفظی بازی گری ہوتی ہے تاکہ دنیا کو خاموش کرایا جا سکے کہ اقوام متحدہ بھی کچھ کر رہی ہے حالانکہ مظلوم مسلمانوں کی یہ محض باتوں سے ہی دلجوئی کر رہی ہوتی ہے۔ اسی بیان کا دوسرا حصہ کہ حل کی تلاش میں، ہمیں مسئلہ کو مزید خراب نہیں کرنا چاہیے۔ بین الاقوامی قانون کی بنیاد پر قائم رہنا بہت ضروری ہے۔ یہ ضروری ہے کہ کسی بھی قسم کی نسلی صفائی سے گریز کیا جائے۔
اسی طرح گوٹیریس کا یہ کہنا کہ، فلسطینی عوام کے ناقابل تنسیخ حقوق ہیں اور ان کا یہ بھی ایک حق ہے کہ وہ اپنی سرزمین میں انسانوں کی طرح زندگی بسر کریں بھی ایک مذاق ہی لگتا ہے بلکہ طنز کے تیر برساتا نظر آتا ہے کہ یہ حقوق فلسطینیوں کے ہاتھوں اور ہمارے ہاتھوں سے پھسلتے جا رہے ہیں۔ انہیں اس بات کا اندازہ اور ادراک ہے کہ فلسطینیوں سے سرد مہرانہ بے رحمی، منظم غیر انسانی سلوک شیطانیت پر مبنی عمل ہے مگر یہ صرف باتوں کی حد تک ہی ہے۔
شہزادہ ترکی الفیصل کا اسے ”نسلی صفائی کا پاگل پن پر، مبنی منصوبہ“ کہنا درست ہے مگر وہ بھی امریکہ کو التجا کرتے نظر آتے ہیں کہ یہ نسل کشی اور نسلی صفائی تب ختم ہو گی جب عرب امریکی عزائم کو سمجھیں گے اور اپنی توانائیاں غزہ میں فلسطینیوں کی ثابت قدمی کی حمایت پر مرکوز رکھیں گے۔
اسرائیل کئی دہائیوں میں اپنی کمزور ترین پوزیشن میں ہے، اور خالی دھمکیوں اور بیان بازی کو چھوڑ کر، اس کے پاس بہت کم کارڈ باقی ہیں۔ عرب اتحاد اب کلیدی حیثیت رکھتا ہے، ایک اجتماعی ردعمل اندرونی عرب تعلقات پر مثبت اثر ڈال سکتا ہے اور فلسطین کو تمام عرب اقوام کے لیے محرک کے طور پر دوبارہ مرکز بنا سکتا ہے۔
درحقیقت، عرب لیگ کے لیے کئی دہائیوں کی پسماندگی اور غیر متعلقیت کے بعد ، ایک بار پھر اہمیت کا یہ موقع ہو سکتا ہے مگر صد افسوس مسلم خواب غفلت میں ہے اور عرب خاص طور پر اس کا شکار ہیں۔
اب یہی دیکھ لیں کہ اردن کے شاہ عبداللہ دوم، جو ایک ایسے ملک کی قیادت کر رہے ہیں جو پہلے ہی تقریباً 700,000 فلسطینی، شامی اور عراقی پناہ گزینوں کا گھر ہے، نے گزشتہ ہفتے وائٹ ہاؤس میں ہونے والی میٹنگ کے دوران ٹرمپ کو بتایا کہ وہ طبی دیکھ بھال کی ضرورت والے تقریباً 2000 فلسطینی بچوں کو گھر دینے کے لیے تیار ہیں۔ اور شاید مزید کچھ نہیں۔ اتفاق سے اردن کے بادشاہ کی اہلیہ ملکہ رانیہ ہیں جو کہ فلسطینی نژاد ہیں۔ اسی طرح مصر کے صدر عبدالفتاح السیسی وائٹ ہاؤس میں بات چیت کے لیے واشنگٹن کا سفر نہیں کریں گے اگر ایجنڈے میں ٹرمپ کا فلسطینیوں کو غزہ سے نکالنے کا منصوبہ شامل ہو گا تو کیسی دھمکی ہے۔
بین الاقوامی فوجداری عدالت کے مطابق غزہ پر مجوزہ قبضے اور فلسطینیوں کی زبردستی منتقلی کو جنگی جرم اور انسانیت کے خلاف جرم دونوں سمجھا جاتا ہے مگر ٹرمپ محض اتفاقی طور پر ہی نہیں بلکہ اپنے اور اسرائیلی مقاصد کے حصول کے لئے بڑے بین الاقوامی جرائم کو محض پالیسی تجاویز میں تبدیل کر رہے ہیں اور اپنی مرضی کے دور رس نتائج حاصل کرنے جا رہے ہیں۔
- مغربی کنارہ ایک اور غزہ - 24/03/2025
- اسلامی طاقت کے مراکز کا زوال - 17/03/2025
- فلسطینوں کی نسل کشی: ٹرمپ کی تجاویز اور عرب - 05/03/2025
Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).