خان صاحب! کیا آپ کی بھی کچھ حدود ہیں؟
بے برگ و ثمر خطوط نویسی سے اُکتا کر، عمران خان نے معروف امریکی جریدے ”ٹائم“ کے لئے ایک مضمون تحریر کیا ہے۔ یہ مضمون دراصل کس نے لکھا؟ کیسے ”ٹائم“ تک پہنچا؟ تحقیق و تفتیش کے کن مراحل سے گزر کر ”ٹائم“ اِس نتیجے پر پہنچا کہ یہ واقعی اڈیالہ جیل میں قید عمران خان کی تحریر ہے؟ یہ سب سوالات اہم سہی لیکن سامنے کی حقیقت یہ ہے کہ مضمون عمران خان کے نام سے شائع ہوا اور انہوں نے اسے اپنے مضمون کے طور پر قبول کر لیا۔ اندھی عقیدت اور سیاسی عصبیت کو ایک طرف رکھتے ہوئے، محض ایک کھرے پاکستانی کی حیثیت سے یہ مضمون پڑھا جائے تو افسوس ہوتا ہے کہ پاکستان کا ایک سیاسی راہنما، زخم خوردہ ہی سہی، دنیا کے سامنے اپنے وطن کا کیا نقشہ پیش کر رہا ہے؟ ساتھ ہی یہ سوال بھی پیدا ہوتا ہے کہ ریاست، انتظامیہ، عدلیہ، مقننہ، قومی سلامتی کے اداروں اور مقتدر شخصیات کی پشت پر پیہم تازیانے برسانے اور اُنہیں اپنی حدود و قیود (Boundaries) میں رہنے کا درس دینے والے عمران خان، چاہتے کیا ہیں؟ یہ کڑوا گھونٹ اُن کے حلق میں کیوں اٹک کر رہ گیا ہے کہ اپریل 2022 میں اُسی ایوان نے اُن پر عدمِ اعتماد کر دیا جس نے اگست 2018 میں اُن کی تاج پوشی کی تھی۔ شاید اُن کے دل میں تیرِ نیم کَش کی دَرد اَنگیز خلش کا سبب، شکستِ خواب کا یہ نوحہ ہے کہ جنرل باجوہ نے اُن کے اُس شجرِ آرزو پر کلہاڑا چلا دیا، جسے جنرل فیض حمید نے، اپنے نہیں، دوسروں کے خون پسینے سے سینچا تھا۔ وہ ابھی تک انگاروں پر لوٹ رہے ہیں کہ کیوں چشم زدن میں کم و بیش دو عشروں کے اقتدارِ کُلّی کا منصوبہ، ریت کے گھروندے کی طرح بیٹھ گیا۔ تین سال گزر جانے کے بعد بھی اُن کے زخم پر موم نہیں آیا۔ آیا بھی تو انہوں نے بے ہُنر ”ناخنِ تدبیر“ سے کھرچ ڈالا۔
’ٹائم‘ کے مضمون میں ”بنیادی انسانی حقوق کی پامالی“ اور ”جمہوریت کُشی“ کی مکروہات میں لت پت پاکستان کا چہرہ مسخ کرنے کی کوشش میں عمران خان نے بعض بے بنیاد اور خلافِ حقیقت ”انکشافات“ بھی کیے ہیں۔ پی۔ ٹی۔ آئی کے راہنماؤں کو حکومت سے مذاکرات کی اجازت دینے کی داستان بیان کرتے ہوئے وہ اپنی فراخ قلبی کا تذکرہ کرتے اور بتاتے ہیں کہ جواب میں اُنہیں اڈیالہ جیل سے نکال کر ہاؤس اریسٹ کی پیشکش کی گئی جو اُنہوں نے مسترد کر دی۔ یہ سراسر بے بنیاد اور من گھڑت بات ہے۔ مذاکراتی عمل کے دوران کسی مرحلے پر، حکومتی کمیٹی نے، پیشکش تو کیا، اِس نوع کا کوئی اشارہ تک نہیں دیا۔ اِس رعایت اور خان صاحب کے ”مردانہ وار“ اِنکار کی کہانی، مذاکراتی عمل کے آغاز سے بہت پہلے بیان کی جا رہی تھی۔ کوئی نہیں بتا رہا کہ یہ پیشکش کب ہوئی؟ کس نے کی؟ کس ذریعے سے اڈیالہ جیل پہنچی؟ اور خان صاحب کی طرزِ انکار کیا تھی؟
پاک فوج کو کٹہرے میں لانے کی کوشش کرتے ہوئے لکھتے ہیں۔ ”دنیا کو پاکستان کی صورتِ حال پر توجہ دینی چاہیے جہاں، جمہوریت سے انحراف کے باعث، بالخصوص خیبرپختون خوا اور بلوچستان میں، ایک بار پھر دہشت گردی نے سر اُٹھا لیا ہے۔ یہ سب کچھ محض اتفاقیہ نہیں۔ اس کا سبب یہ ہے کہ
”Rather than addressing these critical security threats the Pakistan Military ’s resources have been diverted to a campaign of vengence against political opponents such as PTI.“
(ملکی سلامتی کو درپیش اِس سنجیدہ خطرے (دہشت گردی کا خاتمہ) پر توجہ دینے کے بجائے پاکستانی فوج کے وسائل، سیاسی مخالفین، جیسے پی۔ ٹی۔ آئی، سے انتقام لینے کی مہم میں جھونک دیے گئے ہیں )
دوسروں کو اپنی حدود و قیود کا احساس دلانے کی ناصحانہ خصلت سے کام لیتے ہوئے فرماتے ہیں
”It is imperative that Pakistan Army chief, Syed Asim Munir acknowledges and respects the constitutional boundaries of the Military“
(یہ بات اہم ہے کہ پاکستان کے آرمی چیف، سید عاصم منیر، اس امر کو تسلیم کریں اور اس کا احترام کریں کہ فوج اپنی آئینی حدود میں رہے )
پاکستان کو مالی مشکلات کی دلدل میں دھکیلنا، اُسے دیوالیہ پن کے گڑھے میں پھینکنا اور شدید نوعیت کے سنگلاخ اقتصادی بحران میں مبتلا کر کے اپنے سیاسی مفادات کی جُوئے شِیر بہا لانے کی کوشش کرنا اُن کی سیاسی حکمتِ عملی کا اہم جزو رہا ہے۔ اقتدار سے محروم ہوتے ہی انہوں نے شوکت ترین کے ذریعے خیبرپختون خوا اور پنجاب کے وزرائے خزانہ کو آئی۔ ایم۔ ایف ڈیل سبوتاژ کرنے پر اُکسایا۔ فروری 2024 میں بہ نفسِ نفیس آئی۔ ایم۔ ایف کی ڈائریکٹر جنرل کرسٹالینا جارجیوا کو خط لکھا کہ امداد، انتخابات کے آڈٹ سے مشروط کردی جائے۔ مارچ 2024 میں قیادت کے حکم پر پی۔ ٹی۔ آئی کے کارکنوں نے واشنگٹن میں آئی۔ ایم۔ ایف ہیڈکوارٹر کے سامنے مظاہرہ کر کے، عالمی ادارے پر پاکستان کی امداد بند کرنے کے لئے دباؤ ڈالا۔ ”ٹائم“ کے تازہ مضمون میں بھی انہوں نے فن کارانہ انداز میں توجہ دلائی ہے کہ پاکستان کی موجودہ صورتِ حال کی روشنی میں یورپی یونین، پاکستانی برآمدات کے ترجیحی محصولات کی رعایت واپس لے سکتی ہے۔ مزید کہا کہ ”علاقائی اور عالمی سلامتی کے حوالے سے اہم مقام رکھنے والا پاکستان، ایک خطرناک نظیر بنتا جا رہا ہے۔ یہ صورتِ حال اُن سب کے لئے باعثِ تشویش ہونی چاہیے جو جائز حکمرانی پر یقین رکھتے ہیں۔“
پاکستان کو ہر زوایے سے مطعون کرنے اور اُس کے چہرے کے ایک ایک مسام میں کالک بھرنے کے بعد ، اُن کا قلم یکایک جُوئے نغمہ خواں بن جاتا ہے۔ وہ نومنتخب امریکی صدر، ڈونلڈ ٹرمپ پر داد و تحسین کے فراخ دلانہ ڈونگرے برساتے ہوئے لکھتے ہیں۔ ”میں جنوری میں حلف اٹھانے والے امریکی صدر، ڈونلڈ ٹرمپ کو دِل کی گہرائیوں سے مبارک پیش کرتا ہوں۔ وائٹ ہاؤس میں اُن کی شاندار واپسی، امریکی عوام کے عزم و ارادہ کا ثبوت ہے۔ اب جبکہ وہ دوبارہ منصبِ صدارت پر فائز ہوئے ہیں، ہمیں توقع ہے کہ اُن کی انتظامیہ، جمہوریت، انسانی حقوق اور قانون کی حکمرانی کے اصولوں سے اپنی وابستگی کا مظاہرہ کرے گی۔ خاص طور پر اُن ممالک کے حوالے سے جہاں اِن اصولوں کو آمرانہ حکومتوں سے خطرات درپیش ہیں۔“
”حقیقی آزادی“ اور ”غلامی نامنظور“ جیسے جنوں خیز نعروں کو طاق پر رکھتے ہوئے اُنہوں نے ’سائفر‘ والے امریکہ کے حضور، بصد عجز و نیاز عرضی گزار دی ہے۔ دیکھئے اِس پر کیا گزرتی ہے۔
اپریل 2022 سے ’ماہیِ بے آب‘ کی کیفیت میں مبتلا عمران خان، بلاشبہ آج کل، بے مہر موسموں کی زد میں ہیں لیکن کون سا سیاستدان ہے جو اِن موسموں کے قہر کا نشانہ نہیں بنا؟ کسی کے نامہ¿ِ اعمال میں نہ کوئی 9 مئی ہے نہ 26 نومبر، نہ سینکڑوں صفحات پر مشتمل خطوط نہ عالمی جریدوں میں لکھے جانے والے ”دُشنام نامے“ ۔ عمران خان اقتدار میں تھے تو بھی، سیاسی، اخلاقی، تہذیبی، جمہوری اور پارلیمانی، حدود و قیود کو پاؤں کی ٹھوکر میں رکھا۔ اقتدار سے نکلے تو بھی یہی چلن رہا۔ نامہ ہائے بے ننگ و نام اور مضمون ہائے الزام و اتہام کی جانکاہ مصروفیت سے کچھ وقت نکال کر ”قید تنہائی“ کے کسی دلگداز لمحے میں کنج قفس میں سر بہ زانو بیٹھ کر، وہ اِس سادہ و معصوم سوال کا جواب ضرور تلاش کریں کہ اگر پاکستان کے ہر ادارے اور ہر فرد کے لئے کچھ حدود و قیود (Boundaries) ہیں تو کیا خود خان صاحب کے لئے بھی کوئی حدود (Boundaries) ہیں یا نہیں؟ کیا وہ اقتدار میں ہوں یا اقتدار سے باہر، ہر حد، ہر قید، ہر قدغن سے مبرّا ہیں؟
- اقبالؒ۔ کیا ہم بھول جائیں گے؟ - 22/04/2025
- مخاصمت کی صلیب پہ لٹکی مفاہمت اور مزاحمت! - 15/04/2025
- کیا توہین صرف عدلیہ ہی کی ہوتی ہے؟ - 08/04/2025
Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).