آسماں در آسماں
ہجرت فقط ایک جغرافیائی تبدیلی نہیں بلکہ تاریخ کے گلے کا کانٹا ہے، جس کی چبھن صدیوں بعد بھی محسوس ہوتی ہے۔ یہ ایک ایسا اضطراب ہے جو دلوں میں بسنے والوں کو بے گھری کے کرب میں مبتلا کر دیتا ہے۔ ڈاکٹر شاہد صدیقی کی کتاب آسماں در آسماں بھی اس زخم کی باز گشت ہے جو ہجرت کی ہولناکیوں اور ہجر کی تلخیوں کو لفظوں میں قید کرتی ہے۔ یہ صرف ایک داستان نہیں بلکہ ان چراغوں کی کہانی ہے جو اپنے ہنر کی لو سے بر صغیر کی گلیوں کوچوں اور چوراہوں کو روشن کرتے رہے۔
وہ شاعر، ادیب، موسیقار اور فنکار جن کے تخلیقی آہنگ کی گونج کبھی لاہور تو کبھی امرتسر اور کبھی پشاور تو کبھی دلی کے آنگنوں میں سنائی دیتی تھی انہیں ایک ہجرت نے نئے دیس میں دھکیل دیا۔ جہاں جسم تو جا پہنچے مگر روح ہمیشہ اپنی مٹی کے کرب میں مبتلا رہی۔ یہ ہجرت صرف ایک خطہ زمین سے دوسرے تک کا سفر ہی نہیں بلکہ ایک تہذیب کے دولخت ہونے کا سفر تھا۔ یہ کتاب صرف چند ناموں کی روداد نہیں بلکہ ایک پورے عہد کی باز گشت ہے جو محبت فن اور ہنر سے معمور تھا۔
شاہد صدیقی نے ان کہانیوں میں ایک ایسا جمالیاتی اور جذباتی رشتہ پیدا کیا ہے کہ ہر سطر میں دل کی دھڑکن بچھڑ جانے کی اذیت اور لوٹ آنے کی حسرت سنائی دیتی ہے۔ یہ ان خوابوں کی کہانی ہے جو جو نئی زمین پر تو بسائے گئے مگر ان کی جڑیں کبھی اپنے اصل وطن سے جدا نہ ہو سکیں۔ اس کتاب میں صرف تاریخی حقائق نہیں بلکہ ایک تہذیبی کرب بھی ہے جو نسل در نسل منتقل ہوتا رہا ہے۔ یہ وہ کہانی ہے جہاں جدائی کا دکھ صرف مکانوں کی تبدیلی تک محدود نہیں بلکہ ایک زبان، ایک محاورہ، ایک موسیقی، ایک خوشبو اور ایک احساس کے بچھڑنے کی اذیت ہے۔
شاہد صدیقی کی تحریر کسی مؤرخ کی خشک تحریر نہیں بلکہ اس میں ایک حساس دل کی دھڑکنیں سنائی دیتی ہیں ایک ایسا اسلوب جو یادوں کی دھند میں لپٹی ہوئی محبتوں اور ان کہی آہوں کا مرقع بن جاتا ہے۔ رہ رہ کر خیال آتا ہے کہ شاہد صدیقی کی نثر میں ایک عجیب جادو ہے۔ ایک کشش ہے جو قاری کو نہ صرف اُن اہم کرداروں سے روشناس کراتی ہے جو ہجرت سے دو چار ہوئے بلکہ ماضی کی ان گلیوں میں بھی لے جاتی ہے جہاں ہجرت کے زخم آج بھی تازہ محسوس ہوتے ہیں۔
ان کے قلم سے پھوٹنے والے الفاظ محض سیاہی کے نقوش نہیں بلکہ ایک دردمند دل کی صدا ہیں جو ان صفحات میں جاوداں ہو گئی ہے۔ ہر کردار میں محبت کی لطیف روشنی ہے اور ہر جملے میں ہجرت کا گہرا دکھ یوں پوشیدہ ہے جیسے کسی شب غم میں دبے پاؤں آنسو چھلکنے کو ہوں۔ شاہد صدیقی کی تحریر میں ہجرت صرف ایک واقعہ نہیں بلکہ ایک احساس ہے جو قاری کی روح میں اتر کر اسے ان بچھڑنے والوں کے دکھ سے ہم آہنگ کر دیتا ہے۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ یہ الفاظ فقط قلم سے نہیں بلکہ دل کی تپش اور آنکھوں کی نمی سے تراشے گئے ہوں۔
یہ کرب صرف کسی فرد کا نہیں بلکہ ان زمین زادوں کا ہے جنہوں نے اپنے فن کے ذریعے سماج کو ایک نئی جہت دی۔ وہ فنکار، شاعر، موسیقار، مصور اور اداکار جو اپنے وقت کی دھڑکن تھے آج بھی ان صفحات میں زندہ محسوس ہوتے ہیں۔ کہیں بلراج ساہنی کی وہ آواز گونجتی ہے جو فلم کے پردے پر امر ہو گئیں تو کہیں گلزار کے اشعار دل کے زخموں کو ہرا کر دیتے ہیں اور کہیں امرتا پریتم کا دکھ یوں بکھرتا ہے جیسے ہوا میں بکھرتے الفاظ جو سنے نہ جا سکیں مگر محسوس ضرور کیے جا سکتے ہوں۔
یہ سبھی کہانیاں تاریخ کے گرد میں پوشیدہ ان چہروں کو پھر سے اجال دیتی ہیں جو اپنے ہنر کے چراغ جلا کر خود کہیں تاریخ کے صفحات میں گم ہو گئے۔ شاہد صدیقی نے صرف ان شخصیات کو نہیں لکھا بلکہ ان کے وجود میں سرایت کر جانے والے ہجر اور کرب کو اپنے لفظوں میں سمو دیا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ آسماں در آسماں محض ایک کتاب نہیں بلکہ ایک آئنہ ہے جس میں ماضی کے وہ سبھی چراغ جھلملا رہے ہیں جو وقت کی آندھیوں میں بجھ تو گئے مگر ان کی روشنی ہمیشہ کے لیے تاریخ کے سینے میں قید ہو گئی۔
شاہد صدیقی کی تحریر قاری کو یوں جکڑتی ہے کہ وہ خود کو ان کرداروں کے قریب محسوس کرنے لگتا ہے جیسے وہ خود بھی اس قافلے کا ایک حصہ ہو جو ہجرت کے شور میں بچھڑ گیا۔ آسماں در آسماں محض ایک کتاب نہیں بلکہ ایک زندہ دستاویز ہے جو ان زخموں کو محفوظ رکھتی ہے جو برصغیر میں ہجرت کے ساتھ جڑے ہیں۔ یہ صرف تاریخ کا بیان نہیں بلکہ جذبات کی وہ گواہی ہے جو نسل در نسل منتقل ہوتی رہی ہے۔ شاہد صدیقی نے ان شخصیات کی جدائی کا دکھ یوں محسوس کیا ہے جیسے یہ ان کے اپنے وجود کا حصہ ہو۔
ان کے قلم سے جھلکنے والی محبت ان کرداروں کی زندگی کے ساتھ ایسا رشتہ قائم کر دیتی ہے کہ قاری بھی خود کو اس المیے کا شریک محسوس کرتا ہے۔ یہاں یہ اہم اور تاریخی شخصیات صرف شخصیات نہیں بلکہ لمحے ہیں وہ لمحے جو تاریخ کے کسی دوراہے پر ٹھہرے رہ گئے۔ جہاں سے کچھ لوگ آگے تو بڑھ گئے مگر ان کی یادیں وہیں مقید رہ گئیں۔ آسماں در آسماں کا ہر صفحہ ایک حال بیان کرتا ہے اور ہر حال کے پیچھے ایک ماضی کی بازگشت سنائی دیتی ہے۔
یہ کتاب اس سچائی کو مجسم کرتی ہے کہ محبت فن اور یادوں کی کوئی سرحد نہیں ہوتی کہ ہجرت اگر جسمانی ہے تو بھی روح اپنی مٹی سے ہجرت نہیں کر پاتی۔ ان کہانیوں میں بکھری مسکراہٹوں میں چھپا دکھ ان گلیوں کی یادیں جہاں ان قدموں کی چاپ مدھم ہو گئی اور وہ صدا جو کسی اور سرزمین میں جا بسی مگر کبھی اپنی زمین کے آسمان میں گم نہ ہو سکی۔ یہ سب کچھ اس کتاب کے صفحات میں محسوس کیا جا سکتا ہے۔ شاہد صدیقی نے تاریخ کو صرف زندہ نہیں کیا بلکہ اسے احساسات کے سانچے میں ڈھال کر ایک نئی تخلیق کی شکل دے دی ہے۔
اور پھر، یہ کتاب ایک ایسا سوال چھوڑ جاتی ہے جو پڑھنے والے کے دل و دماغ میں دیر تک گونجتا رہتا ہے کہ کیا وہ چہرے، وہ آوازیں، وہ کہانیاں جو سرحد کے پار گم ہو گئیں کبھی ہمارے دلوں سے محو ہو سکتی ہیں؟ یا پھر وہ ہمیشہ ان مٹیالی یادوں کی طرح رہیں گی جو رات کی خاموشی میں دل کے دروازے پر دستک تو دیتی ہیں مگر جنہیں کھولنے والا کوئی نہیں؟
- آسماں در آسماں - 03/03/2025
Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).