سیاسی انقلابات۔ 1
ایک سیاسی انقلاب پہلے سے موجود سیاسی نظام میں بنیادی اور تیز رفتار تبدیلی کا نام ہے۔ سیاسی انقلاب میں اقتدار کی ساخت، حکومت، نظریے اور سماجی تعلقات میں نمایاں تبدیلی کا وقوع پذیر ہونا ہے۔ انقلاب سے عام طور پر عوام یا اہم سیاسی گروہ یا گروہوں کے ذریعے حکومت کو اچانک منہدم کیا جاتا ہے۔ یہ برق رفتار واقعات اکثر گہری سماجی کشیدگی، معاشی عدم مساوات، یا نظاماتی سیاسی ظلم سے پیدا ہوتے ہیں۔ یہ واقعات ملک کے آئین، قیادت اور سماجی تنظیم میں بڑی تبدیلی لا سکتے ہیں۔ بنیادی طور پر ہر سیاسی انقلاب کے پیچھے جو مقاصد کار فرما ہوتے ہیں ان میں اقتدار کی منتقلی، آمریت سے جمہوریت یا بادشاہت سے جمہوریت وغیرہ ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ سیاسی ڈھانچے میں عوامی امنگوں کے مطابق بڑی اصلاحات یا مکمل تبدیلی اور سیاسی اور معاشرتی حقوق کی فراہمی شامل ہیں۔
سیاسی انقلابات کی مثالیں پوری دنیا میں پائی جاتی ہیں۔ قریباً تمام براعظموں میں مختلف نوعیت کے سیاسی انقلابات آئے۔ 1789 میں فرانس میں بادشاہت کے خلاف انقلاب آیا۔ مذکورہ انقلاب نے فرانس میں جاری صدیوں پرانی بادشاہت کو ختم کر دیا اور شہریت اور انسانی حقوق کے اصولوں کو قائم کیا۔ ”آزادی، مساوات اور بھائی چارہ“ فرنچ انقلاب کا نعرہ تھا۔ اس انقلاب نے دنیا بھر میں جمہوری حکومتوں کے قیام کی داغ بیل ڈالی۔ یورپ میں فرانس کے ہمسایوں سب سے زیادہ متاثر ہونے والا ملک انگلینڈ تھا۔ انقلاب کے نتیجے میں جاگیرداری اور طبقاتی تفریق ختم ہوئی اور عوام کو قانون کے تحت مساوی حیثیت دی گئی۔ اس کے علاوہ، نپولین بوناپارٹ کے اقتدار میں آنے کے بعد فرانس میں سیاسی اور قانونی اصلاحات متعارف کروائی گئیں، جن میں نپولین کوڈ نمایاں ہے۔ یہ کوڈ نپولین کے دور اقتدار میں متعارف کروایا جانے والا ایک قانونی نظام تھا۔ کوڈ میں تمام شہریوں کو یکساں قانونی حقوق کی فراہمی، شخصی آزاد کی ضمانت، سیکولر قوانین کا اجراء اور کنٹریکٹ اور پراپرٹی کے قوانین وغیرہ شامل تھے۔
اکتوبر 1917 میں روس میں ایک انقلاب آیا۔ اسے اکتوبر انقلاب یا بالشویک انقلاب کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ بعض مورخ اسے سرخ انقلاب بھی کہتے ہیں۔ مذکورہ انقلاب نے روسی سلطنت کے اس وقت رائج نظام کو ختم کیا اور کمیونسٹ طرز حکومت کی بنیاد ڈالی۔ اکتوبر انقلاب کے کئی معاشرتی، سیاسی اور معاشی محرکات تھے۔ روس میں زار نکولس دوم کی مطلق العنان حکومت عوام کے مسائل حل کرنے میں ناکام رہی، جس کے نتیجے میں لوگوں میں بے چینی بڑھتی گئی۔ روس کی معیشت جنگ کے باعث کمزور ہو چکی تھی، لاکھوں فوجی مارے گئے، اور عوام کو خوراک اور بنیادی ضروریات کی شدید قلت کا سامنا تھا۔ کسانوں اور مزدوروں کو شدید استحصال کا سامنا تھا، فیکٹریوں میں کام کرنے کے حالات بدتر ہو چکے تھے، اور اشیائے خورد و نوش کی قلت عام تھی۔ اس انقلاب میں زار نکولس دوم کو ہلاک کر دیا گیا اور ایک عبوری حکومت قائم کی گئی، مگر یہ حکومت عوامی مسائل حل کرنے میں ناکام رہی، جس سے مزید بے چینی پیدا ہوئی۔
1979 کا ایرانی انقلاب جسے اسلامی انقلاب بھی کہا جاتا ہے نے سیکولر ایرانی بادشاہت کی جگہ اسلامی جمہوریہ قائم کی۔ ایران میں اسلامی انقلاب نے بادشاہت کی جگہ فقہی خلافت قائم کی جو آج تک جاری ہے۔ اس انقلاب نے ایرانی کی صدیوں پرانی بادشاہت کو سرے سے ہی نیست و نابود کر دیا۔ اس انقلاب کی بھی کئی وجوہات تھیں۔ ایرانی بادشاہ محمد رضا پہلوی نے جمہوری اصلاحات کی مخالفت کی اور اپوزیشن کو دبانے کے لیے سخت پالیسیاں اپنائیں۔ دوسری طرف شاہ کی خفیہ ایجنسی مخالفین کو گرفتار، تشدد اور قتل کرتی تھی جس سے عوام میں خوف اور نفرت پھیلی۔ شاہ کو امریکی اور برطانوی حمایت حاصل تھی، جس سے ایرانی عوام میں یہ تاثر پیدا ہوا کہ وہ مغربی طاقتوں کا ایجنٹ ہے۔ سیاسی جماعتوں پر پابندیاں اور عوام کی رائے کو دبانے کی پالیسیوں نے انقلاب کے جذبات کو تقویت دی۔ معاشی طور پر دیکھا جائے تو ایران میں تیل کی دولت تھی مگر اس کا فائدہ صرف امیر طبقے کو ہوا جبکہ عوام غربت اور بے روزگاری کا شکار رہے۔ شاہ کے ”وائٹ ریولوشن“ کے تحت کی گئی زرعی اصلاحات ناکام ہوئیں، جس سے کسان طبقے میں بے چینی بڑھ گئی۔ شاہ کی حکومت میں کرپشن عام تھی اور امیر طبقہ تیل کی دولت پر عیش کر رہا تھا، جبکہ عام لوگ مسائل کا شکار تھے۔ شاہ نے مغربی ثقافت کو فروغ دیا، جسے قدامت پسند اور مذہبی طبقہ ایرانی روایات اور اسلامی اقدار کے خلاف سمجھتا تھا۔ یونیورسٹیوں اور مدارس میں شاہ کے خلاف احتجاج بڑھ گیا، اور طلبہ و علماء انقلاب میں کلیدی کردار ادا کرنے لگے۔ بڑے شہروں میں جدت اور مغربی اثرات جبکہ دیہی علاقوں میں قدامت پسندانہ رجحانات تھے جس سے سماجی اختلافات پیدا ہوئے۔
1959 میں فیڈل کاسترو کی قیادت میں کیوبا کا انقلاب برپا ہوا۔ اس انقلاب نے باٹسٹا کی حکومت کو گرایا اور ایک سماجی ریاست قائم کی۔ فیڈل کاسترو ایک مشہور انقلابی شخصیت رہے ہیں۔ یہ انقلاب کیوبا میں سماجی، اقتصادی، اور سیاسی تبدیلیوں کا نقطۂ آغاز ثابت ہوا اور سرد جنگ کے دوران عالمی سیاست پر گہرے اثرات مرتب کیے۔ بیسویں صدی کے آغاز سے ہی کیوبا امریکی اثر و رسوخ میں تھا۔ 1933 میں فوجی بغاوت کے ذریعے باٹسٹا نے اقتدار حاصل کیا۔ باٹسٹا یہیں نہیں رکا بلکہ 1952 میں دوبارہ بغاوت کر کے حکومت پر قابض ہو گیا۔ اس دوران کیوبا میں شدید بدعنوانی، معاشی عدم مساوات، اور امریکی کارپوریشنوں کا غلبہ تھا، جس نے عوام میں بے چینی پیدا کی۔ 1956 سے 1958 تک کاسترو اور ان کے ساتھیوں نے گوریلا جنگ کے ذریعے حکومت کے خلاف مزاحمت جاری رکھی۔ عوامی حمایت میں مسلسل اضافہ ہوا اور باٹسٹا کی حکومت کمزور ہوتی گئی۔ دسمبر 1958 میں سانتا کلارا کی جنگ میں باغیوں کو فیصلہ کن کامیابی ملی جس کے بعد باٹسٹا جنوری 1959 کو ملک چھوڑ کر فرار ہو گیا۔ انقلاب کے بعد فیدل کاسترو نے حکومت سنبھالی اور کیوبا کو سوشلسٹ ریاست میں تبدیل کر دیا۔ امریکی حمایت یافتہ کاروبار اور جاگیریں قومی تحویل میں لے لی گئیں۔ کیوبا اور امریکہ کے تعلقات میں واضح دراڑ آ گئی۔ 1962 کا کیوبا میزائل کرائسس خراب تعلقات کی واضح مثال ہے۔ امریکی مخالفت میں کیوبا نے روس سے قریبی تعلقات استوار کر لیے۔ کیوبا کا انقلاب صرف ایک سیاسی تبدیلی نہیں تھی بلکہ اس نے عالمی سطح پر سرد جنگ کی سیاست کو بھی متاثر کیا اور لاطینی امریکہ میں دیگر انقلابی تحریکوں کے لیے ایک مثال قائم کی۔
(جاری ہے )
- جنگ عظیم دوم اور فرانس - 18/04/2025
- تنہائی کے ایک سو سال - 17/03/2025
- سیاسی انقلابات۔ 2 - 10/03/2025
Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).