بگڑے امیر زادوں کے ”کارنامے“ ۔ بستی بستی مقتل بابا


امیر زادوں سے دلی کے مل نہ تا مقدور
کہ ہم فقیر ہوئے ہیں انہیں کی دولت سے

میر تقی میر نے کسی زمانے میں کہا تھا کہ دلّی کے امیر زادوں کی صحبت سے دور رہو کیونکہ ان ہی کی دولت کی وجہ سے غریب ہیں یعنی دلّی کے امیر مادیت پرست ہیں اور دولت جمع کرنے کا کوئی حربہ نہیں چھوڑتے اس لئے انہوں نے ہماری دولت ہم سے لوٹ کر ہمیں غریب بنا دیا ہے۔ یہ دلی کے امیر زادے تھے آج کے رئیس زادوں کے غریبوں سے ہی نہیں، دوسرے شریف لوگوں سے جو سلوک ہے، میرِ یہ دیکھ لیتے تو ایسوں کی صحبت تو کجا ان کے قریب پھٹکنے سے منع کرتے۔ حال ہی میں جو واقعہ کراچی ڈیفنس میں منظر عام پر آیا اس کے متعلق پڑھ اور سن کر رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں۔ لیکن ہمارے ہاں جشن طرب کی کیفیت ہے، کسی کو پرواہ تک نہیں۔

جانے کیسا شہر ہے یہ موت کی آغوش میں
رہ کے بھی ہر وقت جشن زندگی کرتے ہیں لوگ

امیر زادے نے دوست کو قتل کر کے لاش بنا نمبر پلیٹ والی گاڑی میں رکھی، سارا کراچی کراس کیا، بلوچستان کی سرحد عبور کی اور بہت دور جا کر لاش کو نذر آتش کر دیا۔ پولیس والے اسے گرفتار کرنے کی جرات ہی نہیں کر سکے۔ میڈیا میں یہ بات پھیلی تو ایک ڈی ایس پی رئیس زادے کو گرفتار کرنے اس کے گھر پہنچا۔ ڈان زادے نے ڈی ایس پی کو گولی مار کر زخمی کر دیا۔ اعلیٰ افسر کو، زخمی کرنے کے باوجود پولیس کا سارا محکمہ رئیس زادے کو بچانے کے لیے سرگرم ہو گیا۔ اس ملک میں اکثر ایسا ہوتا ہے کہ:

قتل امیر شہر کا لاڈلا بیٹا کر گیا
جرم مگر غریب کے لخت جگر کے سر گیا

قلعہ بند شاہی محل میں موجود صرف نوادرات کی مالیت ایک ارب روپے کے لگ بھگ ہے۔ یہ بات میڈیا کا ”ہاٹ ایشو“ بنی تو ناچار اسے گرفتار کرنا پڑا۔ پولیس ریمانڈ لینے دہشت گردی عدالت پہنچی تو جج نے جسمانی ریمانڈ دینے کے بجائے رئیس زادے کے حق میں ایسے ”عادلانہ“ ریمارکس دیے کہ وزیر اعلیٰ سندھ بھی چیخ اٹھے کہ یہ کیا ہو رہا ہے۔ ادھر اس کے والد محترم عدالت جا پہنچے، پولیس اور جج کو دھمکایا، کئی گھنٹے غل غپاڑہ کیا اور کہا، کیا ہوا، ایک قتل ہی تو کیا ہے۔

ہنگامہ ہے کیوں برپا، بندہ ہی تو مارا ہے
ڈاکا تو نہیں ڈالا، چوری تو نہیں کی ہے

رئیس اور رئیس زادہ دونوں منشیات کے ”کنگ“ باور کیے جاتے ہیں۔ اس گرفتاری نے نظام کو ہلا ڈالا ہے۔ چند دن نظام ہلے گا، پھر باعزت بریت ہو جائے گی اور نظام واپس اپنے مقام پر آ جائے گا۔ مقتول مصطفیٰ کے خلاف بھی اینٹی نارکوٹکس فورس میں مقدمہ درج تھا جبکہ واقعہ کے روز وہ بغیر نمبر پلیٹ گاڑی لے کر ارمغان کے گھر گیا۔ اسی طرح ارمغان کے خلاف چار مختلف مقدمات درج تھے اور اس کے گھر سے بھاری مقدار میں بڑے ہتھیار اور سینکڑوں گولیاں برآمد ہوئی تھیں۔ ملزم نے اپنے، ہتھیار سے ہی مقتول پر گولیاں برسائیں۔

پوش علاقوں میں بڑی گاڑیاں، زیادہ سے زیادہ گارڈز، آئس کا استعمال اور ڈانس پارٹیاں منعقد کرنا ٹرینڈ بن چکا ہے۔ چھوٹی اور معمولی باتوں پر جھگڑے، اسلحے کا استعمال اور اپنے اپنے گارڈز کے ساتھ ہتھیاروں کی نمائش معمول ہے۔ اسلحے کی بہت بڑی تعداد ایسی ہے جس کی تھانوں میں کوئی انٹری یا ریکارڈ ہی نہیں ہے۔ اسی طرح بڑی اور بغیر نمبر پلیٹ گاڑیوں کی ریس بھی معمول ہے، رئیس زادے سڑکوں پر تیز رفتاری سے گاڑیاں چلاتے ہیں جو عام شہریوں کی زندگیوں کے لیے خطرہ ہیں۔ دوسرے صوبوں کے سرکاری افسران، نوابوں اور سرداروں کے بچے بھی پوش علاقوں میں مسلح گارڈز بھاری ہتھیاروں کے ساتھ گھومتے نظر آتے ہیں۔

ڈانس پارٹیوں میں منشیات کے استعمال کے ساتھ ساتھ نوجوانوں کو منشیات کا عادی بنایا جاتا ہے۔ ڈرگ مافیا کے کارندے پیسوں کے عوض ڈانس پارٹیوں کے ساتھ گھروں تک منشیات کی سپلائی کرتے ہیں۔ پوش علاقوں کے چائے ڈھابوں، شیشہ کیفے اور ریسٹورنٹس میں رات گئے امیر زادے دوست اکٹھے ہو کر بیٹھکیں لگاتے اور وفا کے افسانوں کی ایسی جھلکیاں دکھاتے ہیں۔

دولت شہرت قتل تباہی کیا کیا ہیں پہچان نہ پوچھ
آج وفا کے افسانوں کے کتنے ہیں عنوان نہ پوچھ

چائے خانوں اور ہوٹلوں اور پارکنگ سمیت دیگر جگہوں پر چھوٹی چھوٹی باتوں پر جھگڑے آئے روز کا معمول ہے۔ اس ملک میں آپ کو کسی جگہ لازمی پہنچنا ہے راستے میں جگہ جگہ ناکے ہیں، اور گاڑیوں کی تلاشی ہو رہی ہے تو، بس آپ اپنی گاڑی کی نمبر پلیٹس اتروا دیں۔ اب آپ کو کوئی نہیں روکے گا۔ آپ لاہور سے کراچی اور کراچی سے کوئٹہ تک بے دھڑک سفر کیجئے۔ افسر اور اہلکار، بنا نمبر پلیٹ گاڑی دیکھ کر سمجھیں گے۔ کہ اس میں کوئی بہت بڑا افسر، افسر زادہ، زوجہ یا افسر زادی ہے، کوئی بڑا وڈیرہ، رئیس یا گدّی نشین ہے۔ گاڑی والا گالیاں بکتا، جھاگ اگلتا باہر نکلے گا، روکنے والے اہلکار کو دو چار تھپڑ مارے گا۔ پھر وہیں کھڑے کھڑے فون کال کر کے اسے نوکری سے معطل یا ڈسمس کرا دے گا۔ مناسب سمجھے گا تو گاڑی سے کچل بھی دے گا۔ میڈیا میں غل مچا تو ایک آدھ دن کی گرفتاری کے بعد ”باعزت بری“ ہو جائے گا۔

قاتل کے چھوٹ جانے کی امید بڑھ گئی
برسوں سے چل رہا ہے سماعت کا سلسلہ

ایسی ہی ایک رئیس زادی کی وڈیو وائرل ہوئی۔ بائیکیا والا، موصوفہ کی کروڑ پتی گاڑی سے آگے نکلنے کی جسارت کر بیٹھا۔ رئیس زادی نے ٹکر مار کر اسے گرایا، پھر اس کا گریبان پکڑا، ماں اور بہن کی ننگی گالیاں بھرے مجمعے میں دیں۔ خواجہ حیدر علی آتش نے ایک صدی سے پہلے کہا تھا۔

لگے منہ بھی چڑانے دیتے دیتے گالیاں صاحب
زباں بگڑی سو بگڑی تھی خبر لیجے دہن بگڑا

مگر بات تو منہ چڑانے ’دہن بگڑنے اور درمیان میں زباں بگڑنے سے بھی بہت آگے چلی گئی ہے اور پھر مزید کہا، تمہاری اوقات کیا ہے، تم دو ٹکے کے آدمی ہو۔ پولیس والے خاموش کھڑے تماشا دیکھتے رہے۔ موصوفہ قدرے رحم دل تھیں، گالیاں دے کر، اوقات یاد دلا کر معاملہ رفع دفع کر دیا۔ ”تم جانتے نہیں میں کس کا بیٹا ہوں، تمہیں معلوم نہیں میں کس کی وائف ہوں“ یہ ڈائیلاگ کچھ برسوں سے عام ہے۔ رئیس زادے اور رئیس زادیاں، پوش علاقوں میں بے مہار گھومتے، دوسری گاڑیوں کو ٹکر مارتے، انہیں گالیاں بکتے، اپنے عہدوں کا تعارف کراتے اور ہوائی فائرنگ کرتے روزانہ کی زندگی کا نمایاں ترین فیچر بنتے جا رہے ہیں۔ تیز رفتاری سے ٹکر مار نے کا ان کے پاس لائسنس ہے۔ سال پہلے ایک ٹین ایجر رئیس زادے نے ایک پورے گھرانے ہی کو، لاہور کی پوش سوسائٹی میں ہلاک کر دیا تھا، مقتولین کا جرم یہ تھا کہ انہوں نے اپنی ایک بیٹی کو چھیڑنے پر اسے ٹوکا تھا۔ کچھ دن میڈیا میں چرچا رہا، پھر کسی صاحب انصاف نے شاید باعزت بری کر دیا۔

بستی بستی مقتل بابا
شہر سے اچھا جنگل بابا
جس کا من دھنوان ہے اس کے
تن کا ٹاٹ بھی مخمل بابا

لاہور کے فیکٹری ایریا میں نجی سوسائٹی کے بگڑے ہوئے 2 رئیس زادے گاڑی پر اسکیٹنگ کر رہے تھے کہ دکاندار نے انہیں منع کیا۔ اس رنجش میں وہ دوبارہ آئے گاڑی تیز رفتاری سے روکنے والے شخص کی دکان میں گھسا دی۔ مالک نے بہ مشکل جان بچائی۔ رئیس زادوں نے اسے 10 لاکھ روپے کا نقصان پہنچایا۔ اس سے پہلے انہوں نے ایک رکشے کو بھی ٹکر ماری جس سے رکشہ ڈرائیور اور راہگیر سمیت 3 افراد زخمی ہوئے۔ کسی کو خبر نہیں کہ قانون کے آہنی ہاتھ موم کیوں بنے؟

پرویز مشرف دور میں پوش سوسائٹیوں نے کھمبیوں کی طرح فروغ پایا، ناجائز کمانے کی دوڑ شروع ہوئی، قیمتی ترین گاڑیوں سے مارکیٹیں بھر گئیں، امپورٹڈ گاڑیوں کے دھندے نے فروغ پایا اور اس کے اندر سے نکلنے والی رئیس زادوں کی یہ مخلوق دیکھتے ہی دیکھتے سماج کو کھا گئی، تیرگی کو روشنی میں بدلنے کا نیا عنوان سامنے آیا۔

کس ہنر مندی سے قتل تیرگی کرتے ہیں لوگ
میرا کاشانہ جلا کر روشنی کرتے ہیں لوگ

سوسائٹیوں میں ان کا دم گھٹا تو فارم ہاؤسز کا فیشن چلا۔ یہ فارم ہاؤسز چھوٹے چھوٹے دارالحکومت ہیں جنہیں قانون سے مراعاتی استثنا حاصل ہے۔ اس مخلوق کو نکیل نہ ڈالی گئی تو یہ ہمارے سماج کو پاکستان نہیں رہنے دے گی، اسے نیا بابل یا نیا سدّوم بنا دے گی۔

ہم سے یہ قتل کے منظر نہیں دیکھے جاتے
شاہراہوں پہ کٹے سر نہیں دیکھے جاتے


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments