صفدر زیدی کا ناول ”بنت داہر“: تنقیدی جائزہ


فاتح قوموں کا نفسیاتی حربہ ہوتا ہے کہ وہ مفتوحہ قوم پہ غالب آنے کے بعد اسے اس کی تاریخی ہیئت سے کاٹ کر الگ کھڑا کر دیتی ہیں، جس کا سب سے پہلا اور گہرا وار علم و ادب پہ کیا جاتا ہے۔ تاریخ کا بغور جائزہ لیا جائے تو کتنے ہی عظیم کتب خانے، ودیا شالا اور پاٹھ شالائیں راکھ کا ڈھیر بنا کر مفتوحہ قوموں کو ناکارہ اور فضول بنا کر تاریخ کے کٹہرے میں کھڑا کر کے ان پر من پسند تاریخ گھڑ کے ان کے تشخص کو پامال کر دیا گیا۔

کچھ عرصے سے ایسے ہی پروپیگنڈا (خود ساختہ مصلحت) کے تحت تدریس اور فکشن کی آڑ لے کر سندھ کی تاریخی ہیئت پہ شعوری حملے جاری ہیں تاکہ تاریخ کو مسخ کر کے سندھی قوم کی تہذیب و تمدن کو روندا جا سکے۔ کچھ ماہ پہلے اشفاق احمد کی کتاب ”سندھ، غیر سندھی باشندے اور حکمران“ فکشن ہاؤس کی طرف سے چھاپی گئی، جس کا مجموعی مقصد یہ بیان کرنا ہے کہ نہ تو سندھی کوئی قوم ہے اور نہ ہی سندھی بولی کوئی قدیم زبان ہے، باقی پوری روئیداد اس کو ثابت کرنے کے گرد گھومتی ہے۔ اسی پروپیگنڈے کی نمائندگی کرتے ہوئے محترم صفدر زیدی صاحب اپنے ناول ”بنت داہر“ میں یہ تذکرہ کرتے ہوئے ناول پہ خود حاوی ہیں کہ ”قدیم سندھ سبھیتا میں سندھیوں کے پاس نہ تو کوئی نظریہ یا دھرم ہے اور نہ ہی کوئی دھارمک وچار ہیں وہ تو تاریخ کے اضطراب کا شکار بیکار و فضول لوگ ہیں۔

بنت داہر فکشن کی طرز نوع میں تحریر شدہ تاریخی ناول ہے اس لیے اس کی دھارا خالص تخلیقی محرکات اور عناصر سے خارج ہوئی جاتی ہے۔ فکشن جیسا کے خالص تخلیقات و جمالیات کا عمل و مظہر ہے ہوتا ہے اس لیے یہ ناول خالص تخلیقیت یا افسانوی مفروضوں سے نکل کر ایک قوم کی تضحیک کرنے کا سوچا سمجھا منصوبہ محسوس ہوتا ہے۔ تاریخ کی غلطیوں کو مدنظر رکھ کر اس ناول کی بنیاد رکھی گئی ہے جس کے لئے زندان میں قید بنت داہر جیسا کردار ہی موزوں لگا۔

اس ناول سے نہ صرف جرح پسندی بلکہ شاؤنسٹ اور پدرشاہی کی بھی سخت بدبو آ رہی ہے، جابر لٹیروں کے زندانوں میں قید عورتیں جن سے جینے کا حق چھین کر انہیں آزادی اور زندگی کی بھیک کے طور پہ خود کو ظالم کے سامنے فحش اور برہنہ کھیل دکھاتے ہوئے پیش کر کے ان کے کردار کی توہین کی گئی ہے۔ ان عورتوں کی استقامت، بہادری، وطن پرستی اور آدرشیت چھین کر انہیں بدکردار بنا کر پیش کیا گیا ہے، ایسے امر کردار تو ہماری سندھ کی قابل فخر تاریخ میں بھرے پڑے ہیں، رانی ودلا، رانی دھشلا، رانی شوبھا، سونھں دیوی، مائی ماین، رانی لاڈی، سریا دیوی، پرمل دیوی، ہموں بائی، باگھل بائی، اور لطیف سرکار کی سب سورمیاں جنہوں نے وقت کے جابر حکمرانوں، پدرشاہی اور شاؤنسٹ سماجوں کے سامنے مزاحمت کے نئے آدرش اور ضابطے تخلیق کیے، معروضی مفروضوں اور روایتوں کو توڑ کر آزاد اور خودمختار عورت کا سر بلند کیا، یہی وجہ ہے کہ آج بھی سندھ میں تہذیب و تمدن، سیکولر ازم، انسانیت پہ یقین، فکری اور شعوری روایتوں کا گہرا اثر محسوس ہوتا ہے۔

افسانہ وہ ہوتا ہے کہ جس میں مصنف کو اس کے اختتام کا اندازہ نہ ہو، افسانہ اپنا اختتام خود طے کرتا ہے لیکن اس ناول میں شعوری طور پر کہانی کو مخصوص موڑ دے کر مطلوبہ نتائج حاصل کرنے کی بھرپور کوشش کی گئی ہے۔

ناول کا ایک مخصوص حصہ بنو امیہ کی خلافت، فتح نامہ اور قصیدہ گوئی میں ڈوبا ہوا ہے جو کہ ناول کی خود ساختہ تمہید باندھ دیتا ہے لیکن جب محمد بن قاسم دیبل کے قلعے پہ سمندری راستوں سے حملہ کرتا ہے اور اروڑ پہنچ کر راجہ داہر کو ہلاک کرتا ہے۔ تو یہ کوئی ایک دن کا قصہ تو نہ تھا جیسا کہ ناول کہ عنوان سے بھی ظاہر ہوتا ہے کہ بہادروں کی روئیداد کو تقویت دے گا اور دیبل کے قلعے پر تین دن مسلسل لڑی گئی جنگ کی بابت ذکر ہو گا لیکن یہ سب ایسی آنکھ جھپکنے کی مانند محسوس ہوا جیسے اس جنگ اور مزاحمت کی حیثیت غیر ثانوی ہو۔ اور بن قاسم کا اصل مقصد محض بنت داہر سے کاماسترائی سیکس کا لطف لینا ہی تھا۔

بقول ہمارے دوست اور لکھاری نیمون سندھی ”اس ناول میں سندھی سماج کی چچ نامے سے بھی زیادہ توہین کی گئی ہے، بلکہ یہ ناول سندھ پہ ایک دوسرے عرب حملے کے مترادف ہے“ ۔ جیسا کہ ناول کے عنوان ”بن قاسم اور راجہ داہر کی روئیداد“ سے نمایاں ہوتا ہے جبکہ یہ قطعی راجہ داہر کی روئیداد تو نہیں ہے بلکہ مصنوعی طور پر تاریخی بیانیے کو مسخ کر کے عظیم کرداروں کی عصمت دری کرنے کی بھرپور کوشش ہے۔

مصنف فیسبک پہ ایک دوست مجیب اوٹھو کی وال پہ کمنٹ کرتے ہوئے لکھتے ہیں،

”آپ کے مورخین نے بنت داہر کا بن قاسم سے ریپ کروا کر خلیفہ کو پیش کروایا۔ ان مورخین کو آپ نے ہضم کر کے تاریخ کا درجہ دے دیا۔ اس دو نمبر تاریخ پر کبھی غیرت نہیں جاگی پر فکشن پر جاگ گئی“ ۔

مندرجہ بالا کمنٹ سے مصنف کی نیک نیتی کا بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے، اس ناول میں افسانوی رنگ کی آڑ میں تاریخی گند بیچنے کی کوشش کی گئی ہے، لیکن سوال ہے کے کیا فکشن کے نام پہ بھی گند بیچا جا سکتا ہے؟

ریپ لفظ بذات خود اپنے آپ میں مزاحمت کی نشاندہی کرتا ہے، ریپ ہوتا ہی تب ہے جب وکٹم ”victim“ انکار کرتا ہے، نہ جانے کتنا لٹریچر ریپ وار فیئر ”war time sexual violence“ پہ لکھا جا چکا ہے کہیں بھی ایسا نہیں ہے کہ ریپ کرنے والے کی بجائے ریپ ہونے والے کو قصوروار ٹھہرایا گیا ہو اور ریپ کے عمل کو دو طرفہ دلچسپی کا درجہ دیا گیا ہو، ریپ کرنے والا ہمیشہ وحشی اور درندہ ہی کہا جاتا ہے۔ کراہت اس میں نہیں کہ تاریخ میں راجکماری کے ساتھ ریپ کے بارے میں مورخین نے لکھا ہوا ہے، لیکن اس ناول میں راجکماری کو پروفیشنل طوائف سے بھی نیچ کر کے پیش کیا گیا ہے۔

افسانہ ایسے ہی لکھنا چاہیے، تمہید ایسے ہی باندھنی چاہیے اور افسانے کے نام پہ تاریخ کا بلاتکار ایسے ہی کرنا چاہیے جیسے زیدی صاحب نے کیا ہے۔ زیدی صاحب راجکماری کی بن قاسم کے ساتھ شہوت انگیز گفتگو میں لکھتے ہیں،

”شاید تم پر مذہبی احکامات کا خیال سوار ہو گیا ہے، تم سندھ کی سرزمین پر آ ہی گئے ہو تو یہاں کی تہذیب کی گہرائیوں کو سمجھنے کی کوشش کرو۔ تم جس لنگھ کو چھپا رہے ہو وہ ہماری تہذیب میں زرخیزی کی علامت ہے، ہماری عمارتوں میں کہیں نہ کہیں ایک مورت لنگہم کی ضرور مل جائے گی۔ میں نے تمہیں کہا تھا کے میں چاندنی رات میں پاروتی کی طرح تمہارے لنگھم کی پرستش کروں گی۔“

جابروں کی قید میں یہ کوئی پہلی عورت نہیں ہے بلکہ سب حملہ آوروں کی تاریخ ایسے واقعات سے بھری پڑی ہے، جہاں حملہ آوروں کی طرف سے راجکماریوں کو رکھیل بنا کر جنسی خواہشات کی بھینٹ چڑھایا گیا ہے، لیکن زیدی صاحب نے تاریخ کی کایا پلٹ کر یہ تاثر دینے کی کوشش کی ہے کہ دراصل بن قاسم تو معصوم بچہ تھا جس کو جنگ و جدل سے کوئی دلچسپی نہیں تھی اس نے بنت داہر کا نہیں بلکہ بنت داہر نے اس کا ریپ کیا تھا، حیرت انگیز طور پہ زیدی صاحب لکھتے ہیں کہ ”بن قاسم جنسی تسکین دینے سے پہلے ہی عجلت میں ڈھیر ہو جاتے تھے (مردانہ کمزوری) تو بنت داہر نے اسے کاما سترا کی تکنیک سے مرد بنایا“ ۔ یعنی بنت داہر نے بن قاسم کو کاما سترا کی تکنیک اور پریکٹس سے مرد بنا کر اس سے ریپ کروایا اور یوں مصنف بنت داہر کو بن قاسم پہ جنسی مات دے کر اپنے راجا کی موت کا انتقام لینے کا کریڈٹ دیتا ہے، ورنہ بن قاسم بیچارے کو کیا پتہ تھا کہ سیکس کیا ہوتا ہے وہ تو نیک پرہیزگار معصوم بچہ تھا۔ ناول میں ایسے کئی جنسی مناظر و جنسی گفتگو کی بھرمار ہے۔

ایسے واقعات تاریخ پہ بنائی گئی فلموں جیسا کہ الیگزینڈر دی گریٹ ”Alexander the great“ ، مارکو پولو ”Morco polo“ ، اور دیگر کئی سیکشوئل وائلنس ”sexual violence“ اور وار ریپ کنفلکٹ ”War rape conflict“ پہ بنائی گئی فلموں میں فلمائے گئے ہیں، جہاں عورت اپنی نسوانی، جسمانی و جنسی اداؤں کا استعمال کرتے ہوئے راجاؤں کے حواس پہ حاوی ہو کر سلطنتیں گرانے کے جتن کرتی نظر آتی ہیں، لیکن ضروری نہیں کہ یہ پس منظر ہر کہانی میں فٹ ہو۔ آپ کو کرداروں کو تاریخی اور ثقافتی تناظر میں پرکھنے کی اشد ضرورت ہوتی ہے کیوں کے یہ کردار افسانوی تخلیق نہیں بلکہ تاریخی ہیں اور ان کے لیے تاریخی حساسیت ”historical sentiment“ پہلے سے موجود ہے۔ اور جب کرداروں کا تاریخی وجود واضح ہو تو وہ سارا دور، ثقافتی لبادہ اور تہذیبی عناصر کو رد نہیں کیا جاسکتا۔

ہمیں اس بات پر بھلا کیوں اعتراض ہو گا کہ ایک ناول ”کاما سوترا سیکس تعلیم“ پر ہی لکھ دیا جائے۔ بات سہل ہے کہ بنت داہر ناول میں موجود تمام کردار حقیقی ہیں اور بن قاسم سے منسوب ساری کتھا بڑے محتاط، سلیس اور نیم تنقیدی نوع کی ہے البتہ بنت داہر سے منسوب واقعات تاریخ مبالغہ کو منسوخ کرنا، قیاس آرائی اور نفرت کو فروغ دینے جیسا ہے۔ تاریخی فکشن اپنے آپ میں ایک تضاد ہے پر تضاد کا ہونا مسئلہ نہیں ہوتا لیکن اس تضاد کے ساتھ افسانوی ٹریٹمنٹ مسئلہ ہوا جاتا ہے۔ جس میں جھوٹ اور سچ ایک دوسرے کا لبادہ اوڑھ لیتے ہیں۔ ایسے کتنے ہی ناول جو کہ تاریخی علامت و جوہر کی حقیقت کو ظاہر کرنے میں ناکام رہے ہیں۔ وہ اپنے کرداروں کو اصلی نظر آنے والے کپڑے تو پہنا دیتے ہیں لیکن ان میں لکھاری اپنی جدید احساسات اور سوچ کی نمائندگی کر بیٹھتا ہے۔ جیسا کہ کارلوس کا ناول ”The shadow of the wind“ اور ڈان براؤن کا ”The vinci code“ ان دونوں پر تنقید کی بنیاد یہی ہے کہ انہوں نے تاریخی واقعات کی درست عکاسی نہیں کی اور واقعات، حوادث کا تناظر مزید رومانوی عکس بند کر دیا ہے اور اس کے سیاسی اور سماجی قوت کو رد کر دیا ہے۔

قومی نوعیت کی غیرت بھی انسانی جذبات میں پیچیدگی سے بھرپور ایک جذبہ ہوتا ہے جس کی گرفت میں آ کر انسان خود کو دہکتی ہوئی آگ میں بھی ڈالتے ہوئے دیر نہیں کرتا، ذاتی عزت پہ قومی غیرت کو برتری دینے میں شرم محسوس نہیں کرتا، اس کے سامنے ذاتی عزت اور ملکیت سب ثانوی حیثیت رکھتے ہیں اور ہر عزت دار اور آدرشی قوموں میں ایسے بہت قصے پڑھنے اور سننے کو ملتے ہیں۔ جیسے ”مائی ماین“ کی کتھا۔

مائی ماین راجہ داہر کی سگی بہن تھی، یہ پہلی عورت تھی جس نے اپنا آپ اپنی دھرتی اور وطن کی سالمیت، قدامت، آبرو اور ذاتی خواہشات پر قربان کر کے پوری تحریک میں جان بھرنے کا کام کیا، اس نے قلعے کے اندر تمام عورتوں کو اکٹھا کر کے عربوں کے خلاف حقارت کا اظہار کرتے ہوئے کہا:

”بے شک ہمیں ان گائے خوروں سے چھٹکارا نہیں ملے گا، ہماری عزت برباد ہو چکی ہے اور مہلت پوری ہو چکی ہے، اب جبکہ آزادی کی امید نہیں ہے تو لکڑیاں، کپاس اور تیل اکٹھا کرنا چاہیے، میری رائے کا تقاضا یہ ہے کہ خود کو آگ کی نذر کر کے اپنے (شہید) شوہروں سے جا ملیں، جو جانا چاہے (سرنڈر کرنا چاہے ) وہ جا سکتی ہے، ممکن ہے اسے نجات مل جائے (چچ نامہ ص 285 )

اور یوں مائی ماین کی تلقین اور مشورے پر قلعے کے اندر تمام عورتوں نے عربوں کے ہاتھوں لٹنے کی بجائے آگ کا رخ کیا اور اپنے وطن و قوم کی حرمت و ناموس پہ قربان ہو گئیں، ایسے گھرانے میں جنم و پرورش لینے والی سریا دیوی اور پرملا دیوی کے کرداروں سے مزاحمت، ادراک، بردباری کو نکال کر جو تذلیل آپ نے کی ہے اس پہ آپ کو شرم آئے نہ آئے لیکن ہمارے سر شرم سے جھک گئے ہیں۔

راجہ داہر کی بہادر بیٹیوں نے وطن سے دور قید میں ہونے کے باوجود ایک لمحے کے لیے بھی دشمن سے صلح پسندی نہیں دکھائی اور اپنی جنگی مہارت کے فن کو استعمال کرتے ہوئے بن قاسم کو زندہ ہی گدھے کی کھال میں بند کروا کر خود قومی غیرت پہ قائم رہتے ہوئے قربان ہو گئیں۔

لطیف سرکار ماروی پہ شاعری میں فرماتے ہیں۔
اس کا ذکر کچھ یوں کیا ہے
کیا ہے قید میرے جسم و جاں کو
عبث سے سومرا سردار تو نے
نہ جانے کیوں ہے یہ ایذا رسائی
دیے کیوں روں کو آزار تونے
ازل ہی سے مرے دل کو ودیعت
ہوئی ہے پیارے، مارو کی محبت
(منظوم ترجمہ: شیخ ایاز)
جس طرح آئی میں جیسے، اس طرح جاؤں ان کے ہاں
لالائی کے لطیف کہے مینہ پڑے ہوں موسم پے
لگا طعنہ محلات کا، ساری زندگی مجھے
ہوئی نقص والی خاوند کے آگے یہاں آ کر ایسے
سر اٹھاؤں گی کیسے، ماروؤں کی جھگی میں
(ترجمہ: نور احمد جھنجھی)

سندھو تہذیب کی وہ بے گناہ لڑکیاں جنہیں اپنے آبا و ں نے جہیز میں ہی وطن پرستی، نھٹائی اور اکیلاپن دیا ہو جن کے قلب میں اپنے وطن اور لوگوں کی سالمیت کی خواہش بیدار ہو ایسے کرداروں کو سماجی، اخلاقی، تہذیبی اور نفسیاتی جائزہ لیے بغیر اِس طرح بدکردار، فحش اور زانی کر کے پیش کرنے پر ہم اپنی توہین سمجھتے ہیں۔

مشہور فلسطینی نژاد امریکی دانشور اور ادبی نقاد ایڈورڈ سعید نے یادداشت (میموری) کے موضوع پر اپنے خیالات کا اظہار کیا ہے۔ ان کے مطابق، یادداشت صرف ماضی کے واقعات کو محفوظ کرنے کا ذریعہ نہیں ہے، بلکہ یہ شناخت، تاریخ، اور ثقافت کی تشکیل میں اہم کردار ادا کرتی ہے۔ یعنی یادداشت ایک سیاسی اور سماجی عمل ہے، جو اکثر طاقت کے تعلقات سے جڑا ہوتا ہے۔ یادداشت کا یہ عمل طاقتور گروہوں کے مفادات کے تحت بھی منسوب ہوتا ہے جو تاریخ کو اپنے نقطہ نظر اور رومانویت سے پیش کر کہ تاریخی بیانیے کو مسخ کرتے ہوئے تاریخی یادداشت پر وار کرتے ہیں۔

کوئی بھی مصنف خاص طور پر افسانوی ادب کا مصنف قطعاً پابند نہیں ہے کہ وہ قارئین کی پسند کو مدِنظر رکھتے ہوئے لکھے لیکن بنت داہر میں کردار افسانوی نہیں ہیں، زیدی صاحب یہ تخلیق نہیں ہے بلکہ تاریخ میں زندہ رہنے والے امر کردار ہیں، ناول میں بن قاسم کی معصومیت، پارسائی اور راجکماری کی تذلیل، ”لنگھ و یونی“ کے شہوتی تذکروں کے علاوہ ایسا کیا ہے جو پہلے سے تاریخ میں درج نہیں ہے، جس کو ہمارے کچھ ادیب نسل در نسل پڑھنے اور پڑھانے کی تلقین کر رہے ہیں۔ حیرت ہے کہ فکشن کی آڑ لے کر تاریخ کے ساتھ ایسا بدترین کھلواڑ بھی ہضم ہو جاتا ہے۔ ہم راجکماریوں کی شان میں مہان شاعر شیخ ایاز کے ساتھ کھڑے ہیں۔

راجا داہر!
تیری بیٹیاں
سہنی، سیانیاں
کون یوں لائے
ماندیاں! باندیاں!
چیلھ میں رسے
کھینچے چوٹے
آگے گھوڑے
پیچھے پیاریاں
راج کماریاں
ننگیں ساریاں!
ہاں، پر ہے
پھر بھی ان کے
منہ پر نفرت
عظمت، جرات!
ہیں میری
جیسے سب کویتائیاں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments