اگر بچہ ویجائنا سے باہر نہ نکل سکے تو؟


پچھلے کالم کے بعد کچھ نے کہا کہ ویجائنا تو بنی ہی اس لیے کہ بچہ وہاں سے نکلے۔ کچھ فرمانے لگے کہ فلاں بی بی نے دس بچے پیدا کیے، کچھ بھی نہ ہوا۔

مورکھو۔ جان لو کہ تمہارے گھر کی عورت وہ ہستی ہے جو تمہارے ساتھ پوری زندگی گزار جائے گی مگر تمہیں کانوں کان خبر نہ ہونے دے گی کہ کیسی گزری؟

عورت کو بولنا اور حق مانگنا سکھایا ہی نہیں گیا بلکہ گھٹی میں یہ ڈال دیا گیا ہے کہ خبردار، منہ بند رکھنا، زبان پہ شکوہ شکایت لائیں تو نہ آگے کی رہو گی نہ پیچھے کی۔ سو آگے نہ پیچھے کا خوف دل میں پالتے ہوئے زندگی کے دن کاٹتی ہے گن گن کر۔

کچھ خواتین کے اور پیغامات آئے جو مرد حضرات نے حسب معمول نظر انداز کر دیے۔

” کھانسی اور چھینک کے ساتھ پیشاب کے قطروں کا اخراج ہر اس عورت کے لیے عام سی بات ہے جس کے تین چار بچے ہوں“

”میں نے اپنی بہت سی ہم عمر لڑکیوں کو دیکھا ہے جنہوں نے نارمل ڈلیوری کروائی اور وہ بچے دانی اور ویجائنا کے مسائل سے دو چار ہیں“

” میری کزن کی پاخانے والی نالی کٹ گئی زچگی میں، اب وہ بستر پہ ہے“
بہت سے دیوانے پاکستانی عورت کی زچگی کو یورپ اور امریکہ کی عورت سے موازنہ کرتے پائے گئے۔

مغرب کی عورت جو بچپن سے سوئمنگ کرتی ہے، کھیلوں میں حصہ لیتی ہے، اچھی غذا کھاتی ہے، کسی جنسی تفریق کا شکار نہیں بنتی۔ جسم کے مسلز توانائی سے بھرپور ہوتے ہیں کہ باقاعدگی سے جم جا کر جسم کو طاقتور بناتی ہے اور سب سے بڑھ کر یہ کہ بچوں کی قطار نہیں لگاتی۔

اس کے مقابلے میں ہمارے ہاں کی بچی کو سوئمنگ تو دور کی بات، کھیل کود میں حصہ نہیں لینے دیا جاتا کہ لڑکیوں کی چھاتی اگر اچھلتی ہوئی نظر آئی تو بہت سوں کا ایمان ڈولنے لگے گا۔ جم جانا عیاشی سمجھ لیا جاتا ہے۔ اچھی غذا کا حقدار گھر کا لڑکا ہے، لڑکی کو بوٹی دینے کا کیا فائدہ، روٹی اور اچار ہے نا۔ نتیجتاً ہر دوسری لڑکی خون کی کمی کا شکار نظر آتی ہے۔

خون کی کمی اور ہر برس ایک نیا بچہ۔ مزید خون کی کمی۔ منصوبہ بندی؟ ہر گز نہیں۔ فطرت سے جنگ؟ کیوں کریں بھئی؟ عورت کا کام ہے بچے جننا چاہے جسم میں کچھ ہو یا نہ ہو۔ ایسے نحیف جسم خواتین کی نارمل زچگی اور وہ بھی ان ہاتھوں میں جنہیں زچگی کی سائنس کی اے بی سی کا علم نہیں۔

” کرنا ہی کیا ہوتا ہے جی کھینچ کھانچ کر بچہ باہر نکال لو“
اس کھینچنے کھانچنے میں عورت کیسے ادھڑ جاتی ہے یہ کسی کو علم نہیں ہوتا۔

یورپ اور امریکہ میں ویجائنل ڈلیوری کے لیے سٹاف تربیت یافتہ، کسی بھی مشکل کو بھانپ لینے والا اور کسی بھی پیچیدگی سے نمٹنے کے لیے ہمہ وقت تیار۔

ہم اپنا حال سنائے دیتے ہیں۔ پہلے بچے کی زچگی کے وقت ایم بی بی ایس کی ڈگری ہاتھ میں تھی مگر زچگی کی پیچیدگیوں میں معلومات صفر۔ بس اتنا ہی سمجھتے تھے جو شاید کسی ورکشاپ میں کام کرنے والا چھوٹا جانتا ہو۔

آج ہم جو لکھتے ہیں اس کے پیچھے بتیس برس کی محنت، تجربہ، مشاہدہ اور گھاٹ گھاٹ کا پانی شامل ہے۔ یہ دیکھ کر ہک دک رہ جاتے ہیں کہ وہ لونڈے آ کر اس پہ بات کرتے ہیں جو شاید کبھی اپنے محلے سے باہر بھی نہ نکلے ہوں۔

پچھلے کالم میں ہم نے کہا تھا کہ ہم کچھ باتیں بچے کے متعلق بھی کریں گے کہ ویجائنل زچگی کا ایک فریق وہ بھی ہے۔

چشم تصور سے دیکھیے اور سوچئے کہ اگر بچہ ویجائنا سے باہر نہ نکل سکے تو کیا حل سوچیں گے آپ؟
زچہ تڑپ رہی ہے، بچے کا سر ویجائنا میں موجود ہے اور دائی / نرس / ڈاکٹر خاموش تماشائی۔

مختلف وجوہات ہو سکتی ہیں۔ بچے کا وزن چار کلو سے زیادہ ہے، بچے کے کندھے بہت چوڑے ہیں، بچے کا سر بہت بڑا ہے، بچے کے سر نیچے تو ہے لیکن ٹیڑھا ہے، بچے کا سر ترچھی پوزیشن میں ہے، بچے نے سر پہ ہاتھ رکھا ہوا ہے، بچہ الٹا ہے یعنی پاؤں اور کولہے ویجائنا میں ہیں۔

درد زہ تیز سے تیز تر اور بچہ باہر نکلنے سے قاصر۔ زچہ عورت گاؤں میں ہے اور دائی کہتی ہے کہ اب اسے شہر لے جائیں۔

مشورے کرنے، گاڑی کا انتظام کرنے اور قریبی شہر پہنچنے تک زچہ تڑپے گی اور بس تڑپے گی۔ اذیت کے ایک سمندر سے گزرتے ہوئے۔ ویجائنا بچے کا وزن سہارتی رہے گی۔

ہو گا کیا؟ کیا قریبی چھوٹے شہر میں کوئی ایسی ڈاکٹر ملے گی جو اس پیچیدگی کو حل کر سکے؟

امکانات یہ ہیں کہ ایسے کیس پہ کوئی ہاتھ نہیں ڈالے گا کہ پیچیدگی سامنے کھڑی نظر آ رہی ہے۔ چھوٹے شہر سے انکار کے بعد گاڑی چلے گی کسی بڑے شہر کے سرکاری ہسپتال کی طرف۔ لیبر روم کے دروازے پہ گاڑی سے چارپائی برآمد ہوگی جس پہ نیم جاں زچہ لیٹی ہو گی جس کی روح اس کی ویجائنا کے گرد طواف کر رہی ہوگی کہ موت سر پہ کھڑی نظر آتی ہو گی۔

بڑے ہسپتال کے ڈاکٹر اپنا سر پیٹیں گے کہ جاں بہ لب عورت کو کیسے بچایا جائے؟

آپریشن تھیٹر لے جانے سے پہلے چار چھ خون کی بوتلوں کا انتظام کرنا ہو گا؟ یہ سنتے ہی ساتھ آئے سب ہٹے کٹے مرد خون کا عطیہ دینے سے انکاری ہو جائیں گے، انہیں خون دینے سے مردانہ کمزوری ہونے کا خدشہ ڈرانے لگے گا۔

اس وقت زندگی اور موت کی جنگ لڑتی زچہ بچتی ہے یا نہیں، یہ مسئلہ اہم نہیں۔ بس کہیں مردانہ کمزوری نہ ہو جائے، کا بھوت سر پہ ناچے گا جس کے زیر اثر سب مرد وہاں سے کھسک لیں گے اور پیچھے رہ جائیں گی کچھ ڈاکٹرز جو چیخیں گی، بڑبڑائیں گی، برا بھلا کہیں گی مگر زچہ کی جان بچانے کے لیے اپنی جان لڑا دیں گی چاہے خون کی بوتل اپنے جسم سے کیوں نہ نکلوانی پڑے۔

یہ ہے وہ کتھا جو بڑے سرکاری ہسپتالوں کے لیبر روم میں کام کرنے والوں کے روز و شب کا حصہ ہے۔
باقی آئندہ


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments