نوبل انعام برائے ادب


ادب کے شعبے میں دنیا بھر میں مختلف ایوارڈز دیے جاتے ہیں۔ یہ انعام مختلف زبانوں، ثقافتوں اور طرز تحریر کے لیے مخصوص ہوتے ہیں۔ ان میں نوبل انعام برائے ادب، بکر پرائز، پلٹزر پرائز، پرکس گنکور پرائز، نیوشتیڈ پرائز، ہانس کرسچن اینڈ رسن ایوارڈ، کمال فن ایوارڈ، اردو اکادمی ایوارڈ، فیض احمد فیض ایوارڈ، پریم چند ایوارڈ شامل ہیں۔ لیکن ان سب میں زیادہ اہمیت کا حامل نوبل انعام ہے۔ مذکورہ ایوارڈ ہر سال سویڈش اکیڈمی کی طرف سے دیا جاتا ہے۔ ایوارڈ کے مستحق ادبی لوگوں کو ان کی نمایاں خدمات کے سلسلے میں نوازا جاتا ہے۔ نوبل انعام کے لیے پوری دنیا کے ادبی فن پاروں کو بغور پڑھا اور پرکھا جاتا ہے۔

یہ انعام سویڈش کیمیا دان اور ڈائنامائٹ کے موجد الفریڈ نوبل کی وصیت کے مطابق 1901 سے دیا جا رہا ہے۔ نوبل انعام کی بنیاد الفریڈ نوبل نے 1895 میں اپنی وصیت میں رکھی جس میں انہوں نے اپنی دولت کو پانچ انعامات کے لیے مختص کیا۔ ادب کے لیے یہ انعام ان کے بیان کے مطابق ”ایسے مصنف کو دیا جانا تھا جس کا کام ادبی دنیا کے لیے انتہائی اہمیت کا حامل ہو“ ۔

سب سے پہلے نوبل انعام برائے ادب فرانسیسی شاعر اور مضمون نگار سلی پرودھوم کو دیا گیا۔ یہ انعام ان کی اعلیٰ فنی معیار اور شاعرانہ صلاحیت کے اعتراف میں دیا گیا۔ نوبل کمیٹی نے انہیں اس وجہ سے منتخب کیا کیونکہ ان کی شاعری میں جمالیات اور فلسفیانہ گہرائی جھلکتی تھی۔ اس کے علاوہ ان کے کاموں میں جذباتی نزاکت اور فکری سنجیدگی کا امتزاج پایا جاتا ہے۔ کئی ادبی نقادوں کا یہ ماننا تھا کہ پہلا انعام لیوٹالسٹائی جیسے عظیم مصنف کو ملنا چاہیے تھا۔ یہ فیصلہ بعد میں متنازع بھی سمجھا گیا کیونکہ سُلی پرودوم کی شہرت اور ادبی اثر و رسوخ وقت کے ساتھ کم ہو گیا جبکہ ٹالسٹائی کو عالمی سطح پر زیادہ اہمیت حاصل ہوئی۔

دوسرا انعام تھیوڈور مومزن کو دیا گیا جو جرمنی سے تعلق رکھتے تھے۔ یہ انعام ان کی غیر معمولی خدمات کے اعتراف میں دیا گیا۔ انعام کی حق دار ان کی ایک کتاب ”رومن ہسٹری“ ٹھہری۔ مومنز کو دنیا کے بہترین تاریخ دانوں میں شمار کیا جاتا ہے، اور ان کا تحقیقی کام آج بھی قابلِ قدر سمجھا جاتا ہے۔ تیسرا انعام ناروے کے بیور نسن کو نوازا گیا۔ انہیں حقیقی شاعرانہ احساس، نثر اور ڈرامے میں فنی مہارت پر انعام دیا گیا۔ بیورنسن ناروے کے قومی شاعر سمجھے جاتے ہیں اور انہوں نے نثری و شعری ادب میں نمایاں کام کیا۔ ان کا کام ناروے کی قومی شناخت کو اجاگر کرنے کے حوالے سے بہت اہم تھا۔

فرانسیسی فریڈرک مسترال چوتھے نوبل انعام برائے ادب کے حق دار ٹھہرے۔ نہیں ڈرامے میں جدت اور اسپین کے تھیٹر کو نئی شناخت دینے کے باعث دیا گیا۔ ان کے ڈراموں میں جذباتی شدت اور سماجی مسائل کی عمدہ عکاسی کی گئی تھی۔ 1904 میں پہلی بار نوبل انعام دو مصنفین میں مشترکہ طور پر تقسیم کیا گیا تھا۔ اس کے بعد بھی بعض مواقع پر ایسا کیا گیا ہے۔ یہ وہ ابتدائی ادیب تھے جنہیں نوبل انعام سے نوازا گیا اور ان کے کام نے عالمی ادب پر گہرا اثر چھوڑا۔

1913 میں برصغیر کے رابندر ناتھ ٹیگور کو ”گیتانجلی“ 1925 میں آئرلینڈ کے جارج برنارڈ شاہ کو ان کے طنز و مزاح سے بھرپور ڈراموں کی وجہ سے، 1930 میں امریکہ کے سنکلیئر لیوس کو امریکی معاشرتی حقیقت نگاری پر، 1946 میں جرمن ہرمن پیسے کو ان کے فلسفیانہ ناول ”سدھارتہ“ اور ”سٹیپن وول“ پر، 1954 میں امریکی مشہور زمانہ ارنیسٹ ہیمنگ وے کے بے مثال سادگی اور گہرائی والے ناول ”دی اولڈ مین اینڈ دا سی“ پر 1964 میں فرنچ ژاں پال سارتر کو ان کی فلسفیانہ ادب میں شاندار خدمات کی بنیاد پر دیا گیا لیکن کہا جاتا ہے کہ انہوں نے یہ انعام وصول کرنے سے انکار کر دیا تھا۔

1982 میں کولمبیا کے گیبریل گارشیا مارکیز کو ان کی مشہور زمانہ فکشن ”ون ہنڈرڈ ییرز آف سالیٹیوڈ“ 1993 میں امریکی ٹونی ماریسن کو افریقی نژاد امریکی تجربات کی بھرپور عکاسی کی بنیاد پر، 1999 میں جرمن گنٹر گراس کو ”داٹن ڈرم“ پر دیا گیا جو دوسری جنگ عظیم کی تاریخ پر اثر انداز ہوا۔ 2010 میں پیرو سے تعلق رکھنے والے ماریو ورگاس یوسا کو طاقت کے ڈھانچوں اور انفرادی مزاحمت کی کھوج پر مبنی ادب کے لیے دیا گیا۔ 2016 میں امریکی باب ڈلن کو موسیقی میں شاعرانہ جدت کے لیے دیا گیا۔

یہ پہلی بار کسی گلوکار کو دیا گیا۔ 2021 میں تنزانیہ کے عبدالرزاق گرنہ کو نوآبادیاتی اثرات اور مہاجرین کے تجربات پر لکھی گئی تحریروں کے لیے دیا گیا۔ 2022 میں اینی ارنیکس کو اپنی ذاتی یادداشت کی جڑوں، بیگانگیوں اور اجتماعی پابندیوں کو بے نقاب کرنے میں جس جرات اور طبی باریک بینی کا مظاہرہ کیا۔ 2023 میں جان فاس کو اپنے اختراعی ڈراموں اور نثر کے لیے دیا گیا جو ان کہی باتوں کو آواز دیتے ہیں۔ اور 2024 کو جنوبی کوریا سے تعلق رکھنے والی ہان کانگ کو دیا گیا۔ یہ انعام ان کی اپنی شدید شاعرانہ نثر کے لیے، جو تاریخی صدمات کا سامنا کرتی ہے اور انسانی زندگی کی نازکی کو آشکار کرتی ہے۔

نوبل انعام برائے ادب دنیا کا سب سے معتبر اور باوقار ادبی اعزاز ہے جو ہر سال ایک ایسے ادیب یا ادیبہ کو دیا جاتا ہے جس کے کام نے انسانی سوچ، جذبات، اور ادب میں نمایاں خدمات انجام دی ہوں۔ یہ انعام ان مصنفین کو دیا جاتا ہے جن کی تخلیقات نے ادب کے میدان میں ایک نئی جہت متعارف کرائی ہو اور جن کے کام نے سماجی، ثقافتی اور فکری سطح پر اثر ڈالا ہو۔ اس کا مقصد محض ادبی خوبصورتی کو تسلیم کرنا نہیں بلکہ ایسی تحریروں کو سراہنا بھی ہے جو انسانی زندگی، نفسیات اور معاشرتی مسائل کی عکاسی کرتی ہیں۔

ہر سال دنیا بھر سے ماہرینِ ادب، پروفیسرز، پچھلے نوبل انعام یافتگان اور دیگر مجاز ادارے مختلف ادیبوں کو نامزد کرتے ہیں۔ نامزد مصنفین کے کاموں کا تفصیلی جائزہ لیا جاتا ہے اور ان کی ادبی اہمیت کو پرکھا جاتا ہے۔ حتمی فیصلہ کرنے سے پہلے چند نمایاں ناموں کی فہرست تیار کی جاتی ہے۔ سویڈش اکیڈمی کے ممبران ووٹنگ کے ذریعے کسی ایک مصنف کا انتخاب کرتے ہیں۔ ہر سال اکتوبر میں نوبل انعام یافتہ مصنف کا باضابطہ اعلان کیا جاتا ہے۔

نوبل انعام یافتگان اپنے منفرد طرزِ تحریر اور نئے ادبی تجربات کے لیے مشہور ہوتے ہیں۔ یہ انعام ایسے مصنفین کو دیا جاتا ہے جن کی تحریریں انسانی زندگی کے پیچیدہ مسائل، جذبات، اور تجربات کی بہترین عکاسی کرتی ہیں۔ نوبل انعام پانے والے اکثر مصنفین کے کام کا دائرہ محض ایک ملک یا زبان تک محدود نہیں ہوتا بلکہ وہ عالمی سطح پر ادبی حلقوں میں اہمیت رکھتے ہیں۔ ان کے کام میں سماجی اور فلسفیانہ موضوعات پر گہرائی سے روشنی ڈالی جاتی ہے۔ اگرچہ نوبل انعام برائے ادب دنیا کا سب سے معتبر ادبی اعزاز سمجھا جاتا ہے، لیکن اس پر وقتاً فوقتاً تنقید بھی کی گئی ہے۔ ابتدائی طور پر یہ انعام زیادہ تر یورپی مصنفین کو دیا گیا، جس کی وجہ سے دیگر خطوں کے مصنفین نظر انداز ہوتے رہے۔

بعض دفعہ ایسے مصنفین کو ایوارڈ دیا گیا جن کے ادبی مقام پر اختلاف پایا جاتا ہے۔ جیسا کہ باب ڈلن کو انعام دینے پر کچھ حلقوں نے اعتراض کیا کہ وہ روایتی معنوں میں ادیب نہیں۔ کئی مشہور مصنفین جیسے لیو ٹالسٹائی، جیمز جوائس، ورجینیا وولف اور ہاروکی موراکامی کبھی نوبل انعام حاصل نہ کر سکے حالانکہ ان کا کام عالمی سطح پر تسلیم شدہ ہے۔ نوبل نعام برائے ادب دنیا بھر میں ادبی میدان میں ایک سنگ میل کی حیثیت رکھتا ہے۔

یہ انعام نہ صرف مصنف کی ادبی خدمات کا اعتراف ہے بلکہ اس کے کام کو عالمی سطح پر متعارف کروانے میں بھی اہم کردار ادا کرتا ہے۔ اگرچہ اس پر کچھ تنقید بھی کی جاتی ہے، لیکن یہ حقیقت ہے کہ نوبل انعام پانے والے مصنفین نے دنیا بھر کے قارئین پر گہرے اثرات مرتب کیے ہیں اور ان کے کام آج بھی ادبی دنیا میں نمایاں حیثیت رکھتے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments