جواب آن غزل۔ ”جموعتھیے بھائی“ کی خدمت میں!
تعجب سے زیادہ افسوس اور اضطراب اس پہ ہوتا ہے کہ کوئی عام ہی کیا خاصے پڑھے لکھے اور آگے سے وہ ”جنھیں افغانستان جہاد بھیجا گیا“ یعنی اسلامی تحریک سے وابستہ اور ذہن کے کسی نہاں خانہ میں ”جذبۂ جہاد“ اور ”شوق شہادت“ لئے اقامت دین کی جدوجہد کا حصہ بننے والے لوگ حب عمرانی میں مبتلا ہو کر اتنے آگے تک پہنچ جائیں گے کہ جو یہاں تک کہنے میں بھی باک محسوس نہیں کریں گے کہ ”فلسطین سے زیادہ پاکستان کو آزاد کرانے کی فکر“ اور امریکی درندگی اور اسرائیلی بربریت پر اقتدار کی خاطر مجرمانہ خاموشی اختیار کرنے والوں کے لیے صلح حدیبیہ جیسے ”جہادی حکمت عملی“ کو جواز کے طور پر پیش کرنے کی جسارت کر کے ایک ناکام سیاست دان کو تحریک اسلامی پر ترجیح دے کر ایک نظریاتی اسلامی تحریک پر پھبتیاں کسنے پر بھی عار محسوس نہیں کریں گے۔
ریکارڈ کی درستی کے لیے چند نکات کی وضاحت لازمی ہے۔ اسلامی تحریک سے وابستہ کسی بھی کارکن نے جہاد میں حصہ کسی قائد کے کہنے پر نہیں بلکہ اللہ کا حکم سمجھ کر لیا ہے اور جن لوگوں نے حقیقتاً جہاد میں عملی حصہ لیا ہے انھیں اس پر فخر ہے۔ قاضی صاحب محترم یا کسی اور راہ نما کی اولاد اپنے ہی خرچے پر ہزاروں پاکستانیوں کی طرح بغرض تعلیم کہیں بیرونی ملک چلے گئے ہیں تو یہ ان کی خوش بختی رہی ہے کہ وہ وہاں کلبوں، بیچز اور مادر پدر آزاد ماحول کا حصہ بنے رہے اور نہ ناجائز اولاد چھوڑ کر واپس آ کر ”دادی، نانیوں“ سے شادیاں رچا کر ”“ ریاست مدینہ ”کے نام پر عوام کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کی منافقت نہیں کرتے رہے بلکہ وہاں مغربی تہذیب کے دل میں اسلامی تحریک کے ساتھ وابستہ رہ کر دعوت دین اور خدمت خلق میں مصروف رہ کے واپس ایمان اور عمل صالح کے قیمتی متاع کے ساتھ آ کر یہاں اقامت دین کی جدوجہد میں عملاً مصروف کار رہے۔
حافظ نعیم الرحمان نے کیا دشمنی مول لی ہے اور“ آزادی کے لئے جہاد ”کرنے والی عظیم تحریک کے راستے میں رکاوٹ ڈالی ہے۔ اپنی حماقتوں سے سارے سیاسی لوگوں کو اپنا دشمن بنا کر تنہا رہنے والے عمران خان اور تحریک انصاف کے حق میں تو صرف حافظ نعیم اور جماعت اسلامی ہی نے آواز تو اٹھائی ہے اور حکومت اور اسٹیبلشمنٹ کے ناروا سلوک کے خلاف ڈنکے کی چوٹ پر مخالفت کی ہے۔ کوئی ایسا موقع اور واقعہ جس کی جماعت اسلامی نے تحریک انصاف کا اصولی ساتھ نہ دیا ہو اور حکومت یا اسٹیبلشمنٹ کی حمایت کی ہو۔
اب اگر تحریک انصاف کے اپنے“ مجاہدین و انقلابی ”لیٹ جاتے ہیں اور وعدہ معاف گواہ بن جاتے ہیں تو اس میں جماعت اسلامی کا کیا قصور؟ فلسطین کے مظلوم مسلمان جائیں بھاڑ میں لیکن جرنیلوں سے آزادی فرض عین ہے۔ امریکہ اسرائیل سے کیا لینا دینا، سب سے بڑا طاغوت تو اسٹیبلشمنٹ ہے۔ لیکن کیا محترم کو واقعی پتہ نہیں ہے کہ اسٹیبلشمنٹ اور جرنیلوں کا عمران خان سے کوئی واسطہ نہیں رہا ہے؟ کیا عمران خان کے اٹھانے، لانے، آگے بڑھانے اور تحفظ دلانے میں ان لوگوں کا کوئی حصہ نہیں رہا؟
اب ذرا یہ وضاحت فرمائی جائے کہ عمران خان کب اینٹی اسٹیبلشمنٹ رہا ہے؟ جرنیلوں کے ڈالے گئے گھاس کو انھوں نے برضا و رغبت مزے سے کھایا نہیں ہے؟ آرمی چیف ایکسٹینشن کیا کوئی معمول کی بات ہے؟ قوم کا باپ گردان لینا کیا معمولی واقعہ ہے؟ پاکستان کے تمام تر سویلین اداروں میں اعلی پوسٹوں پر ریٹائرڈ ہی کیا حاضر سروس جرنیلوں کو بٹھانا کیا چھوٹی بات ہے؟ کیا صبح شام وزیراعظم ہوتے ہوئے آرمی چیف کی مدح سرائی کرنا اور ان کے نام کا وظیفہ پڑھنا نارمل سی بات ہے؟
کیا اب بھی“ ڈٹ کر کھڑا رہنے والا ”مرد مجاہد جرنیلوں سے مذاکرات کی بھیک نہیں مانگ رہا؟ محترم کون سی جدوجہد، جس کے لئے فلسطین کے مظلوموں کو خاطر میں نہ لایا جائے، وہ جس پر اب تک شرمندگی ہی شرمندگی ہے؟ اسلام آباد پر یلغار اور اڈیالہ جیل کو توڑ کر مرد مجاہد کو نکالنے کی بڑھکیں کہاں تک پوری ہوئیں ہیں؟ محترم، حافظ نعیم کو اس“ جہاد ”میں سپاہی کا کردار ادا کرنے کی نصیحت نما طنز کرنے کی بجائے ان غازیوں کو جدوجہد پر آمادہ کیا جائے جنھوں نے اپنا سب کچھ عمران خان کے راستے میں لٹانے کی قسمیں کھائی ہیں۔
اگر احباب برا نہ مانیں تو بجائے اس پہ مباحثہ کرنے کے کہ تحریک انصاف اور دیگر سیاسی پارٹیوں میں کیا فرق ہے اور ان کے دور حکومت جو تاحال چودہ سال سے ایک صوبے میں جاری ہے، اور دیگر کے حکومتوں میں کیا نمایاں فرق ہے، اس نکتے کی وضاحت فرمائیں کہ کیا واقعی تحریک انصاف سے“ ریاست مدینہ ”کے قیام کی ان کی کوئی امید ہے؟ اسلامی احباب کم ازکم انھیں یہ تو سمجھا دیں کہ“ بیچاری صلح حدیبیہ ”کے علاوہ اسلامی تاریخ میں مکہ کی گلیوں، عکاظ کے میلوں اور طائف کی وادیوں میں آبلہ پائی، بدر و احد، خندق و حنین اور تبوک کے میدانوں میں جان نثاری اور جہاد کے معرکوں کا بھی تذکرہ ہے۔
اور ہاں ریاست مدینہ کے خد و خال اور قیام کے لئے جدوجہد اور رجال کار کی تیاری کے مراحل کا بھی عملی خاکہ موجود ہے اور ریاست مدینہ کے حکمرانوں کے اوصاف اور کردار کا نمونہ بھی ملے گا آخری بات، محترم کو شدید دکھ ہے کہ“ جماعت اسلامی نہ سیاسی رہی اور نہ اسلامی ”اس لئے انھوں نے عافیت تحریک انصاف کے“ پاکیزہ جدوجہد ”میں شامل ہونے میں جان ہی لی اور چونکہ قاضی حسین احمد، سراج الحق اور حافظ نعیم کی قیادت اور جدوجہد“ ناکارہ ہے ”اس لئے جناب عمران خان کو ہی چار و ناچار مہاتما مان لینا پڑا کہ وہ سکہ بند پاکیزہ اور صلاحیت و صالحیت کا حسین امتزاج قائد ہے، اب ذرا یہ بتلایا جائے کہ تحریک انصاف کتنی سیاسی، جمہوری اور اسلامی تحریک ہے جو اقامت دین کے لیے جدوجہد کر رہی ہے اور تطہیر افکار، تعمیر سیرت، اصلاح معاشرہ اور حکومت الہیۂ کے قیام جیسے روڈ میپ پر عمل پیرا ہے، کہ جس میں شامل ہو کے رضائے الہی کا حصول مطلوب و مقصود ہے؟
حافظ نعیم نے کون سے اسرائیل یا امریکہ پر حملے کا مطالبہ کیا ہے بلکہ صرف ایک“ بڑھک ”ہی کی تو بات ہے۔ #مذمت_کیوں _نہیں _کرتے یاد آیا کہ جب کشمیر کے سودا کرانے پر عمران خان حکومت کو مورد الزام ٹھہرایا گیا تو وزیراعظم کی حیثیت سے اسمبلی فلور پر کھڑے ہو کر انتہائی سطحی اور بزدلانہ بیان دے مارا تھا کہ“ کیا میں ہندوستان پر حملہ کرا دوں۔
Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).