اَب جج فیصلے نہیں، خط لکھتے ہیں!


کچھ عرصہ قبل سامنے آنے والی رپورٹ کے مطابق پاکستان کی عدلیہ 142 ممالک میں 130 ویں اور خطے کے چھے ممالک میں پانچویں نمبر پر تھی۔ اِس مقامِ بلند پر فائز ہونے کا واحد محرّک عزت مآب جج صاحبان کی اپنی کارکردگی تھی کیوں کہ اُس وقت نہ چھبیسویں ترمیم آئی تھی، نہ ’اُمید سے‘ بیٹھے کسی جج کی ”حق تلفی“ ہوئی تھی، نہ کوئی آئینی بینچ تشکیل پایا تھا، نہ اسلام آباد ہائی کورٹ میں تین جج صاحبان کا تبادلہ ہوا تھا، نہ کوئی نئی انتظامی کمیٹی بنی تھی اور نہ کسی کی سنیارٹی تہ و بالا ہوئی تھی۔ قوی اُمید ہے کہ ”مکتوب نویسی“ کے تازہ اُبھار کے بعد ، وہ کئی درجے اُوپر چلی جائے گی۔

روایتی طور پر جج عظمتِ کردار، آئین و قانون پر مضبوط گرفت اور عمدہ فیصلہ نویسی کے حوالے سے جانے جاتے ہیں۔ ہمارے ہاں بھی ایسے چند نام درخشاں ستاروں کی طرح دمک رہے ہیں۔ اگر صرف شعری و ادبی چاشنی کے حامل فیصلوں کے حوالے سے دیکھا جائے تو جسٹس اے۔ آر۔ کارنیلئیس، جسٹس حمودالرحمن، جسٹس بدیع الزماں کیکاؤس، جسٹس شفیع الرحمن، جسٹس محمد حلیم، جسٹس ایم۔ آر۔ کیانی اور جسٹس تصدق حسین جیلانی کے لکھے ہوئے فیصلے اُن صاحبانِ ذوق کو بھی آسودگی بخشتے ہیں جو آئین و قانون کی موشگافیوں کے بجائے، صرف تحریر کی لطافت کا لطف لیتے ہیں۔ المیہ یہ ہوا کہ بالعموم، عدلیہ نے اپنی آئینی ترجیحِ اوّل، عدل کی کارفرمائی کو ”ریٹائرنگ روم“ میں پھینک دیا اور فیصلے ماحولیاتی آلودگی کا شکار ہو کر بے توقیر ہوتے چلے گئے۔ اعلیٰ عدلیہ کا ہر جج، ایوانِ عدل میں قدم رکھنے سے پہلے اللہ تعالی کو حاضر ناظر جان کر حلف اٹھاتا ہے کہ ”۔ میں اپنے ذاتی مفاد کو سرکاری کام یا اپنے عدالتی فیصلوں پر اثرانداز نہیں ہونے دوں گا۔ اور یہ کہ میں ہر حال میں ہر قسم کے لوگوں کے ساتھ بلا خوف و رعایت اور بلارغبت و عناد، قانون کے مطابق انصاف کروں گا۔“ لیکن نہایت تلخ حقیقت یہ ہے کہ ”خوف، رعایت، رغبت اور عناد“ کے چھینٹے کم و بیش ہر عدالتی فیصلے پر نظر آتے ہیں۔ ابھی ابھی تمام ہونے والی دہائی میں عدلیہ کی کوکھ سے، دو دو تین تین سَروں والے ایسے ایسے عجیب الخلقت بچھڑوں نے جنم لیا کہ زمین و آسمان ششدر رہ گئے۔ ستم یہ کہ زبان و بیان اور اسلوبِ تحریر کے حوالے سے بھی فیصلوں کا لب و لہجہ، کوچہ و بازار کی تُوتکار جیسا ہو چلا ہے۔ سو نہ انصاف رہا نہ ذوقِ لطیف کو تسکین بخشنے والی تحریریں۔ خشک سالی کی ماری ہوئی کِشتِ عدل میں اب بے آب و رنگ جھاڑ جھنکار اُگ رہا ہے۔ اس کا کچھ تعلق واسطہ آئینی تشریح و تعبیر سے ہے نہ قانونی نکات کی توضیح و تفسیر سے۔ مفاد اور عناد کی پیلی بیل میں لپٹی ایک مشقِ بے آب و رنگ ہے کہ تیز سے تیز تر ہوتی جا رہی ہے۔

اُردو زبان کے آغازِ سفر میں خطوط نویسی یا مکتوب نگاری، روایتی اصنافِ ادب کا حصہ نہیں تھی لیکن مرزا غالب اور ابوالکلام آزاد تک آتے آتے اِس کے عارض و رخسار پر کچھ ایسا نکھار آیا کہ کئی حسینانِ اصنافِ ادب منہ چھپاتی پھریں۔ ’عود ہندی‘ ’اُردوئے معلّیٰ‘ اور ’غُبارِ خاطر،‘ ادب کے عظیم شہ پارے خیال کیے جانے لگے۔ ابھی کچھ دِنوں سے یکایک علمی و ادبی اداروں کے بانجھ پن کا ازالہ کرنے کی ذمہ داری ہماری خوش ذوق عدلیہ کے کچھ علم دوست اور ادب شناس جج صاحبان نے سنبھال لی ہے۔

خط کو کُلّی طور پر شخصی، ذاتی اور انفرادی عمل تصور کیا جاتا ہے جو کسی فردِ واحد کے جذبہ و احساس کی ترجمانی کرتا ہے۔ ایسا کبھی نہیں ہوتا کہ کوئی خط، ایک سے زیادہ افراد نے تخلیق کیا ہو۔ متعدد شخصیات کی ترجمانی کرنے والی تحریر، معروف معنوں میں ہرگز ”خط“ نہیں کہلا سکتی۔ اُسے عرضی، درخواست، پٹیشن، فریاد یا کوئی بھی ایسا نام دیا جاسکتا ہے۔ ماضی قریب میں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے خط نویسی کی طرح ڈالی لیکن یہ اُن کی انفرادی سوچ کی حامل تحریریں تھیں، اِس لئے خط ہی کے زمرے میں شمار ہوئیں لیکن گزشتہ برس، مارچ 2024 میں یکایک اسلام آباد ہائی کورٹ کے چھ معزز جج صاحبان کا مشترکہ خط اِس دھماکے کے ساتھ سامنے آیا کہ آج تک اُس کی گونج تھمنے میں نہیں آ رہی۔ ”خط“ کا مرکزی موضوع یہ شکایت تھی کہ ”ایک طاقت وَر ایجنسی ہمیں چھیڑتی اور ڈراتی ہے۔“ کوئی پوچھے کہ جب آپ نے اللہ کو حاضر ناظر جان کر، کسی سے خوف زدہ نہ ہونے کی قسم کھا رکھی ہے تو یہ شکایت کیسی؟ لیکن ’خط‘ کا یہ مطالبہ اس سے بھی زیادہ مضحکہ خیز تھا کہ ”ایک ایجنسی پر لگائے گئے جسٹس شوکت عزیز صدیقی کے الزامات کی تحقیقات کی جائیں۔“ جسٹس صدیقی نے یہ آواز، اپنا سب کچھ داؤ پر لگا کر، وکلا کے ایک بڑے اجتماع میں، ستمبر 2018 میں اٹھائی تھی جب کوئی ڈیڑھ ماہ بعد اُسے چیف جسٹس بننا تھا۔ 11 اکتوبر 2018 کو صدر عارف علوی کی طرف سے ایجنسی گزیدہ شوکت صدیقی کی معزولی کا فرمان جاری ہوا۔ تب کم ازکم چیف جسٹس انور خان کاسی، جسٹس اطہر من اللہ اور مکتوب نویسِ اعلیٰ جسٹس محسن اختر کیانی، اسلام آباد ہائی کوٹ کا حصّہ تھے۔ کسی نے سِسکِی تک نہ لی۔ نہ کوئی ردّعمل، نہ رسمی بیان، نہ احتجاج، نہ کوئی ریمارکس، نہ مذمت، نہ ایجنسی کے ضمن میں کوئی مطالبہ، نہ کوئی خط۔ دیکھتے دیکھتے اِن کے سب سے سینئر رفیق کار کو ریاستی غیظ و غضب کے کولہو میں پیس کر، گنے کے پھوگ کی طرح کسی ’کچرا کُنڈی‘ میں پھینک دیا گیا۔ کوئی اُسے پُرسا تک دینے نہ گیا۔ اُس نے بیٹی کی شادی پر سب کو دعوت دی۔ کوئی ایک بھی شریک نہ ہوا۔ خوف کا یہ عالم تھا کہ فون پر بھی مبارک نہ دی۔ چمن کا کاروبار پہلے سے کہیں زیادہ خوش خرامی سے چلتا رہا۔

ٹھیک ایک ماہ سترہ دِن بعد عزت مآب جسٹس اطہر من اللہ نے بطور چیف جسٹس حلف اٹھالیا۔ 2021 اور 2022 میں، پی۔ ٹی۔ آئی کے عہدِ انصاف پرور میں، باقی پانچ مکتوب نگار جج، اسلام آباد ہائی کورٹ کا حصہ بنے۔ اِن سب کو جسٹس شوکت عزیز کی دُہائی اور ایجنسی کے بارے میں تحقیقات کا خیال اُس وقت آیا جب جسٹس صدیقی کو عہدِ ستم گر کا لُقمہ تَر ہوئے پانچ سال، پانچ ماہ، پندرہ دِن گزر چکے تھے۔

26 مارچ 2024 کو چھے جج صاحبان کے شہرہ آفاق خط کے بعد سے، مکتوباتِ عدل کا سلسلہ ساون بھادوں کی برکھا کی طرح جاری ہے۔ اسلام آباد ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ میں زوروں کا مقابلہ چل رہا ہے۔ شاہراہِ دستور پر رنگارنگ کبوتر، سرخ چونچوں میں نیلگوں لفافے لئے، لوٹنیاں کھاتے، اِدھر سے اُدھر اُڑتے دکھائی دیتے ہیں۔ گئے دنوں میں جج صاحبان، چائے کی میز پر مل بیٹھتے تو کسی مقدمے کے اسرار و رموز پر بات ہوتی، آئین و قانون کی گتھیاں سلجھائی جاتیں، زیربحث مسئلے پر ماضی کے نظائر دیکھے جاتے، فیصلوں کی نوک پلک سنواری جاتی، لیکن اَب یہ وقت زیادہ تعمیری، مثبت اور ادب افروز مشق کے لئے مخصوص ہو چکا ہے۔ اَب عالی مقام جج صاحبان کے مل بیٹھنے کا ایجنڈا یہ ہوتا ہے کہ اَگلا خط کس کے نام لکھنا ہے؟ نفس مضمون کیا ہو گا؟ بیٹی کو کوسنے دیتے ہوئے دراصل روئے سخن کس بہو کی طرف رکھنا ہے؟ بنیادی اُمور طے ہو جانے کے بعد خط لکھنے کی ذمہ داری انگریزی پر دسترس رکھنے والے انشا پرداز کے سپرد کر دی جاتی ہے۔

جج صاحبان کے حلف اور ضابطہ اخلاق کے عین مطابق، عدل کی کارفرمائی کا مقدس مشن جاری ہے۔ کچھ عرصہ بعد مرتب ہونے والی ’پی۔ ایل۔ ڈی‘ (PLD ) فیصلوں نہیں، خطوط پر مشتمل ہوگی۔ کوئی ادب شناس وکیل اِن خطوط کو ”غُبارِ خاطر“ کے انداز میں ”گرد و غبارِ عدل“ کے نام سے مرتب بھی کر سکتا ہے۔

٭٭٭٭٭


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments