کیا فاسٹ فوڈ فلیورز دل، جگر اور کڈنی فیلر کا سبب ہیں؟


یکم فروری 2025 کو بہاول پور پریس کلب میں شام کو دوستوں کے ساتھ چائے پہ گپ شپ ہو رہی تھی۔ پریس کلب کو مالی طور پہ خود مختار بنانے کے لیے احاطہ کی وہ جگہ جو دو سڑکوں کی طرف کُھلتی ہے وہاں چار منزلہ بلند عمارت تعمیر کی جا رہی ہے جو کہ بعد میں کسی بنک یا کمپنی کو کرایہ پہ دی جائے گی۔ اس ماہانہ کرایہ سے حاصل ہونے والی آمدن کو کلب کے بجلی کے بلوں اور ملازمین کی تنخواہوں کے لیے استعمال کیا جائے گا۔ یہ ایک بہت اچھا اقدام ہے۔

کیا ہی اچھا ہو گا کہ ملک کے دیگر رجسٹرڈ پریس کلبز بشمول اسلام آباد، کراچی اور لاہور پریس کلبز بھی بہاولپور پریس کلب کے نقشِ قدم پہ چلتے ہوئے خود کو اس طریقے سے مالی طور پہ خود مختار بنائیں تاکہ انھیں اپنے یوٹیلٹی بلز اور ملازمین کی تنخواہوں کی ادائیگی کے لیے بیرونی امداد پہ انحصار نہ کرنا پڑے۔ گپ شپ کے دوران وائرل بیماریوں، صحت اور ہسپتالوں میں مریضوں کے بہت زیادہ رش کو بھی ڈسکس کیا گیا۔ وہاں ایک سوال اُٹھایا گیا کہ کیا مارکیٹوں میں اور ہوم ڈیلیوری سے ملنے والے فاسٹ فوڈز میں استعمال ہونے والے کیمیکل فلیور اسپائسز کے صحت پہ مضر اثرات بھی ہیں یا نہیں؟ اس پہ آگے چل کر بات کرتے ہیں۔

احباب! اگر آپ بذریعہ ریل گاڑی بہاول پور آتے ہیں تو جیسے ہی آپ ریلوے اسٹیشن سے باہر نکلیں گے آپ کو بائیں ہاتھ پہ بادشاہی مسجد لاہور سے تھوڑا سا ملتی جلتی سفید رنگ کی ایک چھوٹی مسجد نظر آئے گی جو محکمہ اوقاف نے بنائی۔ مسجد کے بالکل ساتھ اس محکمہ نے یو شیپ میں اوقاف مارکیٹ کے نام سے ایک بلڈنگ بہت سال پہلے بنائی تھی وہاں اندر بابا ٹی اسٹال کے نام سے ایک ڈھابہ ہوتا تھا جو بابا جی کی وفات کے بعد زیادہ عرصہ تک چل نہ سکا۔

بابا رات کو ہی ٹی اسٹال پہ آتا تھا اور فجر کی اذانوں سے پہلے ملحق مسجد کی صفائی کر کے مسجد کے فرش کو پانی سے دھو کر دن نکلے پھر گھر چلا جاتا۔ بابے کی ایک عادت تھی کہ ہر وقت چھوٹی الائچی چباتے رہنا۔ اصل میں اُسے جسم میں درد رہتا تھا اور حکمت کی کتابوں میں الائچی کے لیے مسکّن کا لفظ استعمال ہوا ہے جو بابے کے جسمانی دردوں کو کچھ حد تک کم کر دیتی تھی۔ مجھے بھی کہتے ”اکبر صیب! الائچی کھاسو“ ،

اچھا، اگر آپ ڈپریشن کے ساتھ انزائٹی یعنی ذہنی اور جسمانی بے چینی والی کیفیت بھی محسوس کرنا شروع کر دیتے ہیں جو کہ آج کل کے آمدن اور قوّتِ خرید کم جبکہ مہنگائی تاریخ کی بلندیوں کو چھوتی ہوئی والے حالات کی وجہ سے عام ہے تو الائچی چونکہ اعصاب کی اوور ایکٹو حالت کو واپس نسبتاً سکون کی طرف لے آتی ہے تو اس کے چبانے سے ڈپریشن اور انزائٹی لیول بھی تھوڑا کم ہو جاتا ہے۔ جسم کی خارش بھی اعصاب کی اِری ٹیشن کی ایک قسم ہے تو الائچی خارش میں بھی کمی لاتی ہے۔ قبض بھی ختم کرتی ہے۔

کافی سال پہلے ایک پہاڑی علاقہ میں میری جاب تھی جہاں سردیوں میں پارہ منفی دس تک بھی گر جاتا تھا۔ مجھے سردی بہت زیادہ لگتی تھی۔ حکمت کی کتابوں کی ایک تحریر نے مجھے بتایا کہ اگر آپ کالی مرچ منہ میں رکھتے ہیں تو یہ جسم کے اندر گرمی پیدا کر دیتی ہے۔ یقین کریں جب میں کالی مرچ منہ میں رکھ کر سخت سردی میں باہر بھی نکلتا تو کسی کسی وقت مجھے ہلکا پسینہ بھی آ جاتا تھا۔ جن لوگوں کا یورین بند ہو جاتا ہے کالی مرچ چبانے سے وہ کُھل جاتا ہے۔ فالج کا راستہ بھی روکتی ہے۔ معدہ میں گیس بھرے رہنے کو بھی ٹھیک کرتی ہے۔ قبض کے مرض میں مبتلا ایسے لوگ جن کو سردی بہت زیادہ لگتی ہو، کالی مرچ ان کے لیے دوا ہے تاہم اس کا استعمال نارمل حد تک ہی کریں۔ مثلاً سردی سے بچنے کے لیے میں چوبیس گھنٹے میں اس کے صرف تین سے پانچ یا سات دانے چباتا تھا۔

لونگ کے تیل کو دانت درد میں تیر بہدف کا درجہ حاصل ہے۔ اب جدید میڈیکل ریسرچ تو کہہ رہی ہے کہ لونگ، جائفل اور دارچینی جسم میں نائٹرک آکسائیڈ پیدا کرتے ہیں جو کہ شوگر کے مریض کے لیے ضروری ہے۔ آج کل لوگ ان کا قہوہ بنا کر پیتے ہیں تاہم چوبیس گھنٹے میں دو کپ قہوہ سے زیادہ نہیں پینا چاہیے ورنہ جسم میں گرمی بڑھ جاتی ہے۔

آغا خان ہسپتال کراچی کے ایک بڑے ڈاکٹر کی تحریر میری نظروں سے گزری جس میں انھوں نے لکھا کہ ذیابیطس کے مریض کے جسم میں عام طور پہ ٹیسٹوسٹیرون ہارمون اور نائٹرک آکسائیڈ لیول بہت کم ہو جاتا ہے جبکہ جسم میں ان دونوں کا نارمل لیول تک ہونا اُسے کئی پیچیدگیوں خصوصاً گینگرین اور خلیوں کے گلنے سڑنے سے بچاتا ہے۔ واضح رہے کہ ذیابیطس یا شوگر کے مریضوں میں خون کی نالیاں تنگ ہو جانے سے ہائی بلڈ پریشر، دل کی بیماریاں اور فالج کے خطرات لاحق ہونے کا اندیشہ ہوتا ہے۔

ذیابیطس سے یاد آیا اپنے سرائیکی وسیب میں تو مٹھائیاں اور سوہن حلوے کھانے کا اس قدر جنون ہے کہ جب محبوب کو بھی کسی پیاری چیز سے تشبیہ دینا ہو تو ریڈیو ملتان اور ریڈیو بہاول پور سے چلنے والے مشہور لوک گیت میں کہا جاتا ”تُوں کھنڈ تے مِصری دا گُھٹ ماہیا، تیرے نِمے نِمے ہاسے گِدا لُٹ ماہیا“ (میرے محبوب! تم مجھے ایسے پیارے ہو جیسے چینی اور مصری کھانڈ کا شربت، ظالما تیری دبی دبی ہنسی نے ہمیں برباد کر دیا ہے ) ۔

یہاں یہ بات بھی لکھتا چلوں کہ نائٹرک آکسائیڈ لیول جسم میں نارمل لیول پہ ہو تو خون کی نالیاں، وریدیں یا شریانیں کہہ لیں وہ پھیل جاتی ہیں، اُس سے مثبت فائدہ تو یہ ہوتا ہے کہ خون میں کہیں چھوٹا موٹا لوتھڑا بن رہا ہوتا ہے یا خون کسی ورید یا شریان میں جما ہوا ہوتا ہے تو وہ تحلیل ہو جاتا ہے اُس کے ساتھ ساتھ خون جسم کے ان حصّوں اور خلیوں تک بھی پہنچ کر انھیں گلنے سڑنے سے بچا لیتا ہے جہاں وہ باریک نالیوں کے مزید تنگ ہو جانے سے پہنچ نہیں پا رہا ہوتا لیکن جن لوگوں کے پھیپھڑوں وغیرہ کے ٹشوز پہلے سے بہت زیادہ کمزور ہوتے ہیں یا خون پہلے سے بہت پتلا ہوتا ہے تو نائٹرک آکسائیڈ کی زیادتی یا اُس کے نارمل لیول سے بہت زیادہ اوپر چلے جانے سے خون کی شریانوں سے لیکیج بھی شروع ہو سکتی ہے، سر میں شدید درد بھی ہو سکتا ہے اور جسم کا درجہ حرارت بھی اوپر چلا جاتا ہے۔ واضح رہے کہ جن افراد کے جسم میں خون کی نالیاں زیادہ سکڑ جاتی ہیں اور وہ مسلسل بلڈ پریشر کا سامنا کر رہے ہوتے ہیں تو ڈاکٹرز ان کے لیے جو دوائیاں لکھتے ہیں ان میں کسی نہ کسی دوا میں نائٹرک آکسائیڈ پیدا کرنے والا کوئی جز بھی شامل ہوتا ہے۔

ٹینشن نہ لیں جسم میں نائٹرک آکسائیڈ کی قدرتی زیادتی صرف نوجوانوں میں ہوتی ہے جس کی وجہ سے وہ تھوڑا جوشیلے اور جذباتی بھی ہوتے ہیں۔ پچیس سال کے بعد جیسے جیسے عمر آگے بڑھتی ہے نائٹرک آکسائیڈ لیول کم ہوتا جاتا ہے ۔

احباب! یہ تو تھی قدرت کے بنائے ہوئے الائچی، کالی مرچ وغیرہ جیسے مصالحوں کی بات جو کہ صدیوں سے انسانوں کے لیے بیک وقت ذائقہ اور بیماریوں کی دوا کے طور پہ استعمال ہوتے چلے آ رہے ہیں۔ آج کل جو فاسٹ فوڈز بشمول شوارمے، پیزے اور برگرز وغیرہ کا انڈیا، پاکستان اور بنگلہ دیش وغیرہ میں بہت بڑے پیمانہ پہ استعمال ہور ہا ہے جبکہ رہی سہی کسر ہوم ڈیلیوری والوں نے نکال دی ہے کہ رات کو بارہ بجے بھی فون کرو تو وہ فاسٹ فوڈز گھر پہ پہنچا جاتے ہیں اب دیکھنا یہ ہے کہ آیا ان فاسٹ اور جنک فوڈز میں قدرتی گرم مصالحوں کا استعمال ہو رہا ہے یا ان میں چین، تائیوان، کوریا اور تھائی لینڈ سے ڈبّہ پیک آنے والے مصنوعی کیمیکلز سے بنائے گئے فلیورز اسپائسز ڈالے جا رہے ہیں؟ اور یہ کہ آیا یہ کیمیکلز فلیورز اسپائسز والے فاسٹ فوڈز خون اور دل کی نالیوں میں کچرا جمع کر کے انھیں بند کر کے دل، جگر اور گردوں کی تباہی کا سبب تو نہیں بن رہے؟ عوام کا مائنڈ سیٹ تو یہ ہوا پڑا ہے کہ ”اسّاں رج کے شوارمے پیزے کھا ونے نے، بھاویں دوائیاں دے شاپر بھر جاویں“ ۔

جب آپ کیمیکلز سے بنے مصنوعی مصالحہ جات سے بنائے گئے فاسٹ فوڈز اور جنک فوڈز کھاتے ہیں، بلاناغہ ڈونگے بھر بھر کے گوشت کھاتے ہیں، رات کو دودھ ایک کپ یا گلاس کی بجائے کلو دو کلو چڑھا جاتے ہیں، باربی کیو اور کڑاہی گوشت والی ہوٹلنگ کبھی کبھار کی بجائے اکثر کرتے ہیں، مکھن ملائیوں کے شوقین ہیں، روزانہ الکوحل کی بوتل اپنے اندر اتارتے ہیں، باہر کی نہ ملے تو مکانوں کے پینٹ میں استعمال ہونے والی خطرناک سپرٹ پی جاتے ہیں، کولڈ ڈرنک سافٹ ڈرنکس کے نام پہ الا بلا پیتے ہیں تو پھر آپ کے جسم کی وریدوں، شریانوں اور آنتوں میں جو چربی، چکنائی، فیٹس، کولیسٹرول، ٹرائی گلیسرائیڈز، یورک ایسڈ، یوریا، کریٹی نائین اور غیر ضروری پروٹین کے جو پہاڑ اور سمندر جمع ہوتے ہیں تو اس سے آپ کے دل، جگر اور گردوں کو اپنی کپیسٹی سے زیادہ کام کرنا پڑتا ہے۔

ایک سٹیج آتی ہے جب مسلسل اور نہ رکنے والی مشقت کے ہاتھوں بے حال ہو کر یہ تینوں خود بیمار ہونا شروع ہو جاتے ہیں اور یا تو آپ ہسپتال کے دل کے وارڈ میں پڑے ہوتے ہیں یا کالے یرقان کا علاج کرا رہے ہوتے ہیں یا ڈائیلاسز مشین پہ آپ کے گردے واش ہو رہے ہوتے ہیں۔ ہسپتالوں اور دوائیوں کے اخراجات کا تو آپ کو اندازہ ہے کہ گھر کے برتن تک بِکوا دیتے ہیں۔ آج تین فروری 2025 کی ایک سچی بات لکھوں۔ میرے قریبی عزیزوں کے ہاں پیدا ہونے والا بچہ جو ابھی ایک ماہ کا بھی نہیں وہ ملک کے چند بہت بڑے سرکاری سول ہسپتالوں میں سے ایک بہاول وکٹوریہ ہسپتال کے پیڈز یعنی چلڈرن وارڈ میں زیرِ علاج ہے۔ اس کا دودھ وغیرہ بنانے کے لیے سادہ پانی گرم کرا کر تھرموس میں رکھنا ہوتا ہے، ہسپتال کی کینٹین والے ایک بار پانی گرم کر کے دینے کا تین سو روپے وصول کر رہے ہیں اور یہ بات میں بالکل حقیقت پہ مبنی لکھ رہا ہوں۔ بہتر ہے خود کو ہسپتالوں اور بیماریوں سے زیادہ سے زیادہ بچانے کی کوشش کی جائے۔

کبھی کبھار کی انجوائے منٹ اپنی جگہ لیکن جب آپ بلاناغہ فاسٹ فوڈز اور جنک فوڈز کو اپنی روٹین کی غذا بنا لیتے ہیں تو پھر آپ کی لیب رپورٹ آ رہی ہوتی ہے بِلو روبن ٹوٹل بہت زیادہ ہائی مطلب آپ کے سرخ خلیے ٹوٹ رہے ہیں اور آپ یرقان کی طرف جا رہے ہیں اگر یہ کم ہے تو مطلب دل کی بیماری یا روما ٹائیڈ یا آٹو امیون بیماری میں سے کوئی ایک ہو سکتی ہے، بِلو روبن ڈائریکٹ بہت زیادہ ہائی مطلب آپ کا جگر اندر سے زخمی ہو گیا ہے اور بائل ڈکٹ میں سوجن آ چکی ہے یا آپ کے دماغ کے ٹشوز میں کوئی پتھالوجیکل تبدیلی آ رہی ہے، ایس جی پی ٹی بہت زیادہ ہائی مطلب جگر کا سائز بڑھ گیا ہے اور آپ فیٹی لیور کی طرف چلے گئے ہیں، گاماجی ٹی بہت زیادہ ہائی مطلب بائل ڈکٹ اور گردوں کی تباہی کی طرف سفر جاری، الکلائن فاسفیٹ بہت زیادہ ہائی مطلب گردے اور ہڈیاں دونوں بیک وقت بیمار ہیں، سی روسس مطلب جگر سُکڑ رہا ہے اور آپ ہیپاٹائٹس سی، کالے یرقان یا جگر کے کینسر کی طرف جا سکتے ہیں۔

کریٹی نائن اور یوریا مسلسل بہت زیادہ ہائی رہنا مطلب گردے کام کرنا چھوڑ رہے ہیں اور آپ ڈائیلاسز مشین کی طرف سفر کر رہے ہیں، یورک ایسڈ اور ٹرائی گلیسڑائڈز مسلسل بہت زیادہ ہائی رہنا مطلب آپ جوڑوں کی تکلیف تو محسوس کرتے ہیں ساتھ آہستہ آہستہ دل کی بیماری کی طرف بھی جا رہے ہیں، پلیٹ لیٹس اور آر بی سی نارمل کی بجائے بہت زیادہ ہائی مطلب آپ کے خون میں کلاٹ بن چکے ہیں یا بن سکتے ہیں، پلیٹ لیٹس کم مطلب آپ کا خون بہت پتلا اور آپ بلیڈنگ کے ہائی رسک پہ ہیں، ایسی نوفِلز زیادہ مطلب آپ نے کوئی دوا کھائی تھی جو آپ کے جسم میں ری ایکشن کر چکی ہے اور اب آپ الرجی کا شکار ہیں، نیوٹرو فِلز ہائی مطلب آپ کے جسم میں تازہ تازہ انفیکشن ہے، ہیموگلوبن ہائی مطلب آپ کا خون گاڑھا ہے اور مونو سائٹس ہائی مطلب آپ کا جسم بیک وقت کئی بیماریوں سے جنگ لڑ رہا ہے۔

یہاں اکبر شیخ اکبر پاکستان، انڈیا، بنگلہ دیش اور دیگر تمام ممالک کی حکومتوں کو تجویز دیتا ہے کہ آپ اپنی فوڈ اتھارٹیز اور غذا اور خوراک کے معیار کو چیک کرنے والے اداروں کو پابند کریں کہ مارکیٹ میں گروسری شاپس، ریسٹورنٹس، ڈھابوں، باربی کیو، بریانی پلاؤ، فاسٹ فوڈز اور جنک فوڈز اسٹالز پہ سائنٹیفک ڈیوائسز کے ذریعہ چیک کریں کہ آیا کس طرح کے مصالحہ جات اور میٹریل ان میں استعمال ہو رہا ہے۔ اس حوالے سے قانون سازی بھی کی جائے۔

اس کے ساتھ ساتھ عوام الناس کے لیے بھی نِکا جیا مشورہ ہے کہ اگر صحت مند زندگی گزارنا چاہتے ہو، ہسپتالوں اور دوائیوں سے دور رہنا چاہتے ہو تو آلودہ کی بجائے صاف پانی پیو۔ روزانہ زیادہ سے زیادہ واک کرو، گھر کے قریب پارک نہیں تو مارکیٹ سے سبزی سودا سلف لینے کے لیے کار اور موٹر سائیکل نہ نکالو بلکہ پیدل جاؤ۔ کیا کریں آپ نے تو اپنے بچوں کو چھوٹی عمر میں ہی گاڑیاں اور موٹر سائیکل دے کر انھیں پیدل چلنے سے دور کر کے ایڈوانس میں ہی مستقبل کا مریض بنانے کا بندوبست کیا ہوا ہے۔ گردن تک کھانا ٹھونسنے کی بجائے نارمل کھاؤ، گوشت ہفتہ میں صرف دو بار وہ بھی بے تحاشا نہیں باقی دنوں میں سبزیاں اور دالیں کھاؤ۔

اپنی سوچ، خیالات اور دوسروں کے لیے اپنے محسوسات کو مثبت رکھو۔ ریسرچ کہتی ہے مثبت ذہن بیماریوں کے خلاف دفاعی حصار بناتا ہے اور منفی ذہن خود بیماریوں کو دعوت دیتا ہے۔ دوسروں کی ذاتی زندگی پہ سی سی ٹی وی کیمرے نہ بنو۔

خود بھی پرسکون زندگی جیو اور دوسروں کو بھی خوشیوں والی زندگی جینے دو ۔ نہیں تو دو میں سے ایک کام ہو جائے گا یا تو آپ استاد غلام علی کا گیت ”اس کا غم نہیں کہ تونے ہمیں برباد کیا، اس کا غم ہے کہ بہت دیر سے برباد کیا“ بن جاؤ گے یا پھر ٹک ٹاک پہ بچوں کے لیے بنائی گئی ویڈیوز کے بیک گراؤنڈ میں چلنے والی میوزک ٹون بن جاؤ گے ”ڈُوڈی ڈُوڈی ڈم ڈم ڈُوڈی ڈُوڈی ڈم“ ۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments