علّامہ سید احسن عمرانی صاحب کے ساتھ بات چیت (آخری قسط)


 

” اختر صاحب نے مجھ سے پنجابی میں پوچھا کہ کیا تم سید ہو؟ میں نے جواب دیا کہ جی ہاں! طالب حسین نے کہا کہ یہ پنجابی جانتا ہے۔ پھر کہا کہ سید صاحب! آپ کا کیا تخلّص ہے؟ میں نے کہا کہ احسن عطائی مجھ سے پوچھا اس کے کیا معنی ہوئے؟ میں نے جواب دیا کہ عطا کردہ۔ پنجابی میں کہنے لگے کہ ایسا لگتا ہے جیسے عطائی ڈاکٹر ہوتے ہیں“ ۔

” نہ کوئی مرشد نہ کوئی پیر۔ سید ہو کے بھی عطائی ہو؟ ارے سید تو خود مُرشد ہوتا ہے تو بے استادا کس طرح ہے؟ میں نے کہا کہ منفرد ہونے کے لئے یہ لفظ لگایا ہوا ہے اپنے ساتھ۔ اس پر مجھ سے کہا کہ پھر کیا میں تمہیں منفرد کر دوں؟ ایسا منفرد کہ تیرے ماں باپ بھی تیرا نام نہیں پہچانیں گے اور تیرا اصل نام بھی گُم ہو جائے گا! میں ابھی یہ پخ لگا دیتا ہوں اور پھر انہوں نے میرے نام کو عمرانیؔ کر دیا۔ لفظِ عمرانی اختر صاحب کا دیا ہوا ہے۔ پھر کہا کہ اب یاد رکھنا کہ نہ اقبال حسین رہے گا نہ زیدی بلکہ یہ فقیر کی دعا ہے کہ عمرانی رہے گا۔ حقیقت بھی یہی ہے کہ اب بغیر عمرانیؔ، مجھے کوئی جانتا ہی نہیں اور تو اور میں اپنے آپ کو نہیں پہچانتا یہ حضرتِ ابوطالب کا اصل نام ہے۔ ایک عمران، حضرتِ مریم کا خاندان ہے اور ایک حضرتِ ابو طالب کا۔ ابو طالب، طالب کے والد ہیں۔ طالب حضرت علی کے بڑے بھائی تھے۔ انہوں نے اس نسبت سے مجھے عمرانی کا نام دے دیا۔ اختر صاحب درویش آدمی تھے۔ اپنے وقت کے قلندر تھے۔ مجھے کہتے کہ اب یہ تیری دُم لگا دی ہے۔ بس اب یہ دُم ہی رہ جائے گی“ ۔ اب تو بس عمرانی ہے میں تو اپنے وجود کی نفی کر چکا ہوں ”۔

” آپ کا کلام خواہ غزل ہو، سلام وغیرہ کیا کہیں محفوظ ہے؟“ ۔

” جی! میں نے چار مرثیے لکھے۔ ایک مرثیہ تو کوئی مجھ سے لے گیا کہ میں نے اپنی ماں کے ایصالِ ثواب کے لئے چھاپنا ہے۔ میں نے اسے دے دیا۔ ایک مجھ سے کاغذ منڈی لاہور کے شیخ عنایت صاحب لے گئے کہ ہم نے اپنے باپ کے لئے چھاپنا ہے۔ یہ نارووال کے رہنے والے تھے۔ تیسرا مرثیہ مجھ سے کہیں اپنے کاغذات میں گُم ہو گیا، پھر وہ مل گیا اور چھپا۔ ایک مرثیہ کوئی پی گیا“ ۔

علّامہ صاحب کی رباعیات

” اس کے بعد آغا صاحب نے اپنے کارندوں سے میرا کام یکجا کروایا۔ وہ رباعیات ہیں۔ رباعیات میں چار مصرعے ہوتے ہیں اور چوتھا مصرعہ شاعری کا نچوڑ ہوتا ہے۔ اور یہ کام عموماً بڑھاپے میں کیا جاتا ہے۔ وہ میری کتاب انہوں نے چھاپ دی جو میں ابھی آپ کو پیش کروں گا۔ ایک کتاب ’شاہِ شہیداں‘ تھی جس پر بھائی مشکور حسین یادؔ نے لکھا کہ یہ فلسفیانہ انداز کا کام ہے۔ اِن کے علاوہ اور بھی مشہور ادبی شخصیات نے اس پر لکھا۔ اسی طریقے سے اقبال ؔپر ایک انعام یافتہ کتاب ’اقبال، ؔ در مدح محمد اور آلِ محمد‘ ﷺ بھی لکھی۔ پھر ’تحفتہ العوام جعفری‘ ۔ یہ شیعہ عقائد میں جائے نماز کی زینتِ جائے نماز ہے۔ اس میں مجتہدین جنہیں اہلِ سنت ’مفتی‘ کہتے ہیں، کے ترتیب دیے ہوئے 18 توضیحی مسائل جمع کیے، بنایا، پھر اس میں یہ کیا کہ ہر چیز کا ترجمہ میں نے سید ابو الاعلیٰ نوح علی زیدی امروہوی سے کروایا جو کہ خانیوال میں خطیب تھے اور ان کا ایک بیٹا اُس زمانے میں سِول جج تھا پھر بعد میں وہ کراچی چلے گئے۔ اور علّامہ یوسف حسین صاحب قِبلہ نے اس پر ریمارکس دیے کہ یہ ترجمہ صحیح ہے وغیرہ۔ اب یہ کتاب دوبارہ مکتبۂ رضا، اردو بازار سے چھپ رہی ہے“ ۔

ایک رباعی کا عجیب شانِ نزول

” علّامہ صاحب کسی وظیفے کے دوران جس میں کوئی رکاوٹ آ گئی تھی یا پھر شاید وہ استغراق کی کیفیت تھی، آپ نے ایک رباعی کہی تھی یہ کیا ماجرا ہے؟“ ۔

” دراصل شاہد بھائی! بات یہ ہے کہ میں اللہ الصمد کا ایک وظیفہ کیا کرتا تھا اور اس میں کامیاب بھی ہوا۔ کیوں کہ اس زمانے میں میرے تایا مرحوم سید غلام حسین جنہیں پیر گامے شاہ کیتھلوی کہتے ہیں موجود تھے اور میری پُشت پر ان کا ہاتھ تھا۔ وہ تو میں کر گیا لیکن انہوں نے مجھے منع کیا تھا کہ آگے کوئی وظیفہ نہ کرنا۔ قُل ہو اللہ احد کے بڑے جلالی وظائف ہیں سوائے الصمد کے۔ ان کے انتقال کے بعد کہ اب کون مجھے پوچھنے والا ہے، میں نے اپنا قدم اٹھا کر رکھ دیا۔ اُس وظیفے کے دوران ہی میرا دماغ ماؤف ہو گیا۔ میں پاگل ہو گیا۔ مجھے ڈاکٹروں سے دکھوایا گیا۔ سروسز اسپتال بھی لے گئے۔ میری بہن اور سب نے کہا کہ اب اس کو پاگل خانے داخل کرتے ہیں۔ تو یہ باتیں ہوتی رہیں۔ میں ایک دن وینس سنیما کے پاس پنجاب یونیورسٹی روزانہ جانے والے چار پانچ آدمیوں کے درمیان اپنی موج میں جا کھڑا ہوا۔ اُن میں ایک کھوکھر صاحب بھی تھے۔ وہاں اوپر تلے یونیورسٹی کی تین بسیں آتی تھیں۔ میں گیا تو بس آئی، میرا گھر جانے یا بس میں بیٹھنے کا موڈ نہیں ہوا۔ میں کھڑا رہا اور بس چلی گئی۔ پھر ارادہ ہوا کہ پیدل چلو! تو میں پیدل چلنا شروع ہوا۔ شاہد بھائی اس بات کا اللہ گواہ ہے کہ جب میں چلا ہوں تو وینس سنیما کے پاس مجھ پر ایک مصرعہ وارد ہوا :

فِکرِ احسن بخدا منزلِ عرفان میں ہے

جب میں یہ پڑھتے پڑھتے دبئی چوک پہنچا اور علّامہ اقبال ٹاؤن کی طرف مُڑا، تو پہلے دائیں جانب پٹرول پمپ پر دوسرا مصرعہ آیا:

بات پَرکھی ہوئی یہ عقل کی میزان میں ہے

یہ دوسرا مصرعہ پٹرول پمپ سے شروع ہوتا ہے اور کہاں تک جاتا ہے؟ فاروق اسپتال تک! اور وہاں گورنمنٹ پائلٹ اسکول کی دیوار تک! پھر پنجاب یونیورسٹی کی جو دیوار تھی جس پر لوہے کا جنگلا لگا ہوتا تھا جہاں سے لوگ شاٹ کٹ میں کوارٹروں کی طرف نکلتے تھے۔ اب یہاں سے تیسرا مصرعہ شروع ہوا:

شمر کی شکل میں تصویر کسی اور کی ہے

شاہد بھائی آپ نے اس مصرعہ پر یوں ہاتھ کو حرکت دی تو اس وقت میں نے بھی بالکل ایسا ہی کیا تھا! ہمیں کیا تصویر دکھائی جاتی ہے؟ شمر کو دکھایا جاتا ہے حالاں کہ شمر کے پس منظر میں تو کوئی اور ہی ہے! اس کی کیا جرات کہ حسین کو مار دے! وہ تو یزید کا حکم تھا! اس کے بعد چوتھا مصرعہ کہاں سے شروع ہوا؟ وی سی ہاؤس سے! یہاں سے میں نے چوتھا مصرعہ پکڑا اور میں پنجاب یونیورسٹی لاء کالج پہنچ گیا:

قاتلِ سبطِ پیمبر میری پہچان میں ہے

چوتھا مصرعہ لا کالج کے برآمدے میں پہنچ کر مکمل کر لیا۔ اب یہ رباعی اتنی مشہور ہے کہ میں کہتا ہوں کہ بچے بچے کو یاد ہے ”۔

” اس رباعی کو سُن کر گیت نگار مشیر کاظمی صاحب نے کیا کہا تھا ذرا یہ بتائیے؟

” ہوتا یہ تھا کہ میں، مشیر کاظمی، ڈاکٹر حسن عسکری، ڈاکٹر افضال مرحوم و مغفور اور سجاد رضوی سب شام کو اکٹھے بیٹھ کر چائے پیتے اور گفتگو کرتے تھے۔ تو جب میں نے وہاں اپنی یہ رباعی سنائی تو مشیر کاظمی نے کہا کہ ایسا لکھنے والا پاگل نہیں! پھر ڈاکٹر عسکری کہنے لگا کہ میں لکھ کر دینے کو تیار ہوں کہ دنیا پاگل ہو جائے لیکن یہ ہرگز پاگل نہیں ہو سکتا! یہ تو خاصا مشہور واقعہ ہے“ ۔

” علّامہ صاحب آپ کو کس شخصیت نے کہا کہ یہ وظیفہ چھوڑ دو! “ ۔ میں نے پوچھا۔

” پھر میرے تایا جی خواب میں آئے اور کہنے لگے کہ تجھے آخر کیا مزہ آتا ہے؟ کیا تو پگلا ہے؟ پاجی کہیں کا! میں نے نہیں کہا کہ تم یہ سب بند کر دو! اس پر میں نے وہ وظیفہ بند کیا تب میرے اوسان ٹھکانے آئے“ ۔

ایک نہایت ہی پراسرار واقعہ

” اچھا علّامہ صاحب! کرونا کے زمانے میں آپ نیچے کے کمرے سے اوپر کے کمرے میں آئے؟ یہ بھی ایک نہایت پراسرار کہانی ہے! کچھ اس بارے میں بتائیے“ ۔

” وہ کہانی یہ ہے کہ جب کرونا پھیلا تو میں چنیوٹ میں جہاں میں نے کاکے کی بیگم بیاہی اس گھر میں تھا اور ٹھیک ٹھاک تھا۔ مجھے وہاں کچھ بیماری کا ہلکا سا احساس ہوا۔ فدا حسین کا بیٹا، اسد عباس میرے لئے خاص طور پر گاڑی لے کر آیا۔ لاہور آنے کے دوسرے ہی دن مجھ پر کورونا کا حملہ ہو گیا۔ اچھا اب پتا کیسے لگے؟ میں تو اسپتال کے قریب بھی نہیں جاتا نہ ڈاکٹر کو اپنے نزدیک آنے دیتا؛ اور مانوں نہ مانوں بس ایک ڈاکٹر سلمان کی مانتا ہوں! “ ۔

” رضوان جعفری صاحب کے بھائی؟“ ۔

” جی ہاں اُن ہی کے بھائی! تو جب ڈاکٹر سلمان کو پتا لگا تو انہوں نے دبئی سے کہا کہ یہ کرونا کی زد میں ہے لہٰذا انہیں فوراً چیک کراؤ۔ تو پھر ڈیوٹی لگی کس کی؟ وہ حسنین حیدر نقوی صاحب کی لگی! جو ہماری امام بارگاہ کے ہیڈ ہیں۔ وہ اپنی گاڑی لائے اس میں مجھے لے کر گئے۔ اسپتال ڈاکٹر سلمان نے بتایا۔ وہاں اُن ڈاکٹر صاحب سے ڈاکٹر سلمان نے کہا کہ آپ نے انہیں کوئی بِل نہیں بتانا، پیسوں کی کوئی بات نہیں کرنی، یہ میرے استاد بھی، چچا بھی اور مرشد بھی ہیں جو ان کا خرچہ ہے وہ میں دوں گا! اِدھر والے ڈاکٹر اُن کے ساتھی بھی تھے۔ اِنہوں نے مجھے بہت توجہ سے دیکھا۔ ہم رات کے ڈیڑھ بجے واپس آئے۔ یہ معلوم ہو گیا کہ یہ کرونا کی آخری اسٹیج ہے! “ ۔

” اللہ ُ اکبر!“ ۔ بے ساختہ میرے منہ سے نکلا۔

” اُس زمانے میں لوگ کرونا کے مریض سے دور رہتے اور اسے چھوت کی بیماری خیال کرتے تھے۔ لیکن حسنین نقوی نے عزیز داری کا، دوستی کا اور مسلمان ہونے کا حق ادا کر دیا! میاں بیوی دونوں ہی نے کمال کر دیا! رات کو یہاں کا ڈاکٹر آ کر ٹیکہ لگاتا اور جب مجھے ڈرپ لگتی، جو کہ بہت زیادہ لگیں، تو اُس وقت میری بہو، فرحان حیدر کی بیگم نے جو میری خدمت کی ہے یہ اسی صلہ میں بخشی جائے گی“ ۔

” اس زمانے میں بارشیں ہونے لگیں۔ کاکا میری طہارت کرتا اور واش روم لے کر جاتا تھا۔ خدا اس کو حیاتی والی اولاد دے! بہرحال حسنین نقوی گھر سے جاتے ہوئے کہتا کہ اِن کو ہلنے نہ دینا۔ نیچی کی منزل سے اوپر آنے کے لئے 32 کے قریب سیڑھیاں ہیں۔ چوں کہ میں اکثر نقوی صاحب سے کہتا تھا کہ مجھے باہر نکالو چنانچہ اِن سیڑھیوں پر گملے لگا دیے گئے حالاں کہ میرا تو اوپر آنے کا کوئی تصور ہی نہیں کر سکتا تھا۔ اتنی نقاہت تھی کہ دو قدم چلنا ممکن نہ ہوتا۔ ایسے میں مجھے میرے تایا یاد آئے۔ اب میں یہ سمجھتا ہوں کہ کون سی غیر مرئی طاقت مجھے اوپر پھینک گئی مجھے نہیں معلوم! آج اس بات کو 4 سال ہو گئے“ ۔

” اوئے ہوئے“ ۔ میں نے کہا۔

” میں اوپر کیسے آیا؟ ابھی بھی سمجھ سے بالا ہے۔ ہاں اتنا ضرور ہے کہ میں بس یہ سمجھ سکتا ہوں کہ میرے تایا تہہ العرض جانتے تھے تو یہ بھی شاید انہوں ہی نے کچھ کیا ہو گا۔ لیکن مجھے نہیں معلوم! بہرحال میں نیچے بیٹھک میں تھا۔ اوپر کئی دنوں کے بعد دھوپ لگی تھی تو جنابِ والا کاکے نے دیکھا کہ ابا تو بستر پر موجود نہیں۔ ادھر بھاگ اُدھر بھاگ کہ کہیں باہر تو نہیں نکل گئے! گلی محلے میں چھان بین کر دیکھی۔ اب یہ اتنے پریشان کہ میں تصویر کشی نہیں کر سکتا! پھر کاکے نے کہا کہ اوپر تو دیکھو؟ کسی نے کہا کہ اوپر کہاں جائیں گے؟ بہرحال اوپر کے کمرے دیکھے گئے، میں وہاں بھی نہیں۔ اب وہ اوپر ممٹی پر آئے وہاں برآمدے میں ایک پلنگ پڑا تھا اور میں وہاں پر لیٹا ہوا تھا جب کہ پیر پلنگ سے لٹکے ہوئے تھے اور مجھے کچھ ہوش نہیں تھا۔ سب حیران تھے کہ یہ اوپر کیسے آئے؟ جو چل کر واش روم نہیں جا سکتے تھے وہ آخر اتنی سیڑھیاں کیسے چڑھ گئے؟ آخر یہ سب ممکن کیوں کر ہوا؟“ ۔

علّامہ صاحب کی گفتگو یہاں تک پہنچی تھی کہ انہوں نے کاکے کو آواز دے کر بلایا اور پوچھا کہ انہیں بتاؤ کہ میں اوپر کس طرح پہنچا تھا؟

” میرے والد صاحب کو 2021 میں کرونا ہو گیا تھا۔ یہ جب کافی بیمار تھے تو ان کا آکسیجن لیول تقریباً 70 اور 80 کے درمیان تھا۔ جب ڈاکٹروں نے کرونا کی تشخیص کی تو اس کے اندازہً چوتھے دن ہم سب ان کے پاس نیچے بیٹھک میں ہی تھے بس صرف ایک سے دو منٹ کے لئے ہم وہاں سے ہٹے۔ جب دوبارہ گئے تو والد صاحب موجود نہیں تھے۔ ہم نے سارا گھر، گلیاں دیکھیں لیکن وہ وہاں پر بھی نہیں تھے۔ جب ہم گھر میں آئے تو اچانک اوپر دیکھنے کا خیال آیا۔ جب اوپر آئے تو اِن سے پوچھا کہ آپ یہاں کیسے آئے؟ تو انہوں نے کہا مجھے نہیں معلوم کہ مجھے کون یہاں چھوڑ گیا! حالانکہ یہ تو اُس وقت ایک قدم بھی نہیں اٹھا سکتے تھے۔ ہماری تقریباً 35 سے 40 سیڑھیاں ہیں جو یہ چڑھ کر اوپر آئے ہیں اور پھر انہوں نے باقاعدہ پلنگ بچھایا، تکیہ رکھا۔ یہ لیٹے ہوئے تھے اور دروازہ بند تھا“ ۔

” عدنان میاں اور علّامہ صاحب یہ تو بہت ہی عجیب و غریب واقعہ ہے“ ۔ میں نے برملا کہا۔

بہرحال ہماری بڑی اچھی گفتگو رہی۔ باتیں کرنے کو تو بہت تھیں لیکن پھر مناسب خیال کیا کہ علّامہ صاحب سے اب اجازت لینا چاہیے۔ یوں ہماری یہ ملاقات ختم ہوئی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).