تُو بھی نظر میں ہے


جو دنیا میں بھیجا گیا ہے اپنے حصے کی کوششں، محنت اور قسمت ساتھ لاتا ہے۔ سب کچھ ایک طے شدہ نظام کے تحت چلتا ہے۔ آدمی ساری عمر اپنی لکھی ہوئی تقدیر کے ساتھ موجودہ وسائل کو بروئے کار لاتے ہوئے اپنے دیکھے گئے خوابوں میں رنگ بھرنے کی کوشش میں مصروف رہتا ہے۔ یہاں تک کے زندگی اس کا ہاتھ تھام کر اسے اختتام، یعنی موت کی دہلیز تک چھوڑ آتی ہے۔ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ زندگی ہر ایک کے ساتھ یکساں طور پر مہربان نہیں رہتی کوئی شخص کوشش کے پہلے قدم پر ہی آزمائش کے پل صراط پر سے بآسانی گزر جاتا ہے کوئی کوشش کے آغاز پر ہی آزمائش کی ڈور میں الجھتا چلا جاتا ہے۔

یہ ضروری نہیں کہ ہر شخص کو ہر وقت ہر چیز آسانی سے دستیاب ہو جائے۔ مثال کے طور پر ایک آسودہ حال شخص کے پاس دولت تو بے تحاشا موجود ہے مگر وہ تمام تر کوششوں کے باوجود اچھی نیند نہیں سو پاتا، حتیٰ کہ پرسکون نیند کا حصول اس کے لئے جیسے خواب ہی بن کے رہ جاتا ہے۔ اس کے بر عکس ایک مالی لحاظ سے اوسط درجے کے انسان کے پاس دولت بے شک زیادہ نہ ہو مگر وہ پرسکون نیند سوتا اور خوش رہتا ہے۔ اس سے زیادہ خوش قسمت اور سہل زندگی کسی کی نہیں ہوتی۔ ہر انسان کو بھلے وہ مالی طور پر مطمئن ہو یا پریشان، زندگی کی راہوں میں کبھی نہ کبھی ایسے وقت کا سامنا کرنا پڑتا ہے جس کو وہ پسند نہیں کرتا مگر مجبوری کے آگے اسے پسپائی اختیار کرنا پڑتی ہے۔

ملک میں گزشتہ کچھ عرصہ سے جہاں نفرت اور انتقام کی سیاست سے لوگوں میں عدم برداشت اور ملکی صورتحال سے بیزاری کے عنصر میں نمایاں اضافہ ہوا ہے وہاں ہمارے عوامی رویے اور باہمی تعلق بھی اس خود غرضی اور تعصبیت کی بھینٹ چڑھ کر ہماری رواداری اور قومی ہمدردی کے احساس کو دیمک کی طرح چاٹ رہے ہیں۔ اور باہمی ہمدردی اور خلوص کی جگہ طنز و تشنیع، گالم گلوچ اور بے رحمانہ طعنوں نے لے لی ہے۔ اس کی حالیہ مثال تارکین وطن کی کشتیوں کو پیش آنے والے اندوہناک حادثوں پر ہمارا عوامی ردعمل ہے۔ جو یہ ظاہر کرتا ہے کہ ہم بحیثیت قوم اخلاقی طور پر کس قدر گراوٹ کا شکار ہو چکے ہیں۔ ہم یہ بھی نہیں سوچتے کہ جانے انجانے میں اپنے طنزیہ اور بے رحمانہ تبصروں سے ان لواحقین کی کتنی دل آزاری کرتے ہیں جو پہلے ہی اپنے پیاروں کی جدائی سے دل برداشتہ ہوتے ہیں۔

آج کا دور جدید ٹیکنالوجی کا دور ہے، بلکہ یہ کہنا بے جا نہ ہو گا کہ ٹیکنالوجی کے اس دور میں دنیا سمٹ کر ہاتھوں میں موجود جدید موبائل فونز میں سما گئی ہے۔ جہاں دنیا میں کوئی واقعہ پیش آیا آپ اپنے موبائل فون کے ذریعے اس کے بارے میں تفصیل جان سکتے ہیں اور بے شبہ آپ ہر خبر پر اپنی آزادانہ رائے کے اظہار کا حق بھی رکھتے ہیں مگر یہ بھی یاد رکھنے کی چیز ہے جو اکثر ہم بھول جاتے ہیں کہ کسی اندوہناک حادثے کا شکار ہونے والے انسان کے بارے میں رائے دہی کے اظہار میں احتیاط کرنا کس قدر ضروری ہے۔ کیونکہ ہمارے دین میں بھی کسی انسان کی دل آزاری کو شرک کے بعد سب سے بڑا گناہ قرار دیا گیا ہے۔ پھر چاہے وہ دل آزاری کسی بھی مذہب سے تعلق رکھنے والے انسان کی ہو یقینی طور پر ایک بہت بڑا گناہ ہے۔

ذکر ہو رہا تھا روزگار کی تلاش میں غیر قانونی طور پر بذریعہ سمندر ملک چھوڑ کے جانے والوں کا۔ یوں تو کافی سالوں سے سمندر کے ذریعہ ڈنکی لگا کر جانے والوں کے بارے میں اکثر تکلیف دہ خبریں سننے کو ملتی رہتی ہیں مگر گزشتہ سال سے اب تک کے ان واقعات میں تقریباً سینکڑوں تارکینِ وطن کی سمندر برد ہونے اور مختلف حادثات کا شکار ہو کر جاں بحق ہونے والوں کی المناک کہانیاں پڑھنے اور سننے کو ملیں جو اربابِ اختیار کی آنکھیں کھولنے کے لئے ویسے تو بہت کافی ہیں مگر نہ جانے کیوں ان کی آنکھیں کھلنے کا نام ہی نہیں لے رہیں۔ اور شاید یہی وجہ ہے کہ ابھی تک اس طرح کے واقعات کا سلسلہ رکنے میں ہی نہیں آ رہا۔

ہمارے یہاں ہمیشہ کی طرح حادثات کے وقوع پذیر ہو جانے کے بعد حکومتی سطح پر بڑی بڑی باتیں کی جاتی ہیں گہرے غم اور رنج کا اظہار بھی کیا جاتا ہے۔ مگر ان خونی واقعات کی روک تھام کے لیے عملاً کچھ نہیں کیا جاتا اس لئے تھوڑے تھوڑے وقفے سے ہمیں تارکینِ وطن کی کشتیوں کو سمندر میں رُونما ہونے والے حادثات کے بارے میں خبریں ملتی رہتی ہیں۔

حکومتی بے حسی کے ساتھ ساتھ ہمیں معاشرے میں بھی بے رحمانہ رویے بھی دیکھنے کو ملتے ہیں۔ یہاں پر عوامی رویے بھی بہت عجیب سی سرد مہری لئے ہوتے ہیں۔ سوشل میڈیا پر سب بھانت بھانت کی بولیاں بولتے ہیں کوئی ان بیچارے سمندر برد ہو جانے والے نوجوانوں اور ان کے والدین کو کوستا ہے تو کوئی قناعت پسندی کا بھاشن دیتا دکھائی دیتا ہے۔ کسی کو ایسے لوگوں کا غیر قانونی طور پہ جانا نہیں بھاتا تو کوئی ان کی ایجنٹس کو دینے والی بھاری رقوم کے بارے میں سوال اٹھا رہا ہوتا ہے کہ اتنا پیسا کہاں سے آتا ہے ان لوگوں کے پاس؟ کہنے کو یہ بہت غریب ہوتے ہیں مگر ایجنٹس کو دینے کے لئے ان کے پاس رقم موجود ہوتی ہے۔ یا پھر یہ کہ اس رقم سے اپنے ملک میں کوئی چھوٹا سا کاروبار کیوں شروع نہیں کر لیتے؟ یار! یورپ جانے کی لا لچ میں اپنی زندگیوں کو خطرے میں ڈالنا کہاں کی عقل مندی ہے وغیرہ وغیرہ۔ ایسی لا یعنی تبصرے بازی سے نہ جانے ہمیں کیا سکون ملتا ہے؟

اس معاملے پر ہمارے مولوی حضرات نے بھی میدان خالی چھوڑنا نامناسب سمجھا ہے اور ان تارکین وطن کے خلاف فتویٰ جاری کیا ہے کہ غیر قانونی طور پر بذریعہ سمندر جاتے ہوئے ہوئے کوئی شخص اگر اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے تو یہ ”خودکشی“ ہے۔ یہ الگ بحث ہے کہ یہ فتویٰ صحت کے لحاظ سے ٹھیک ہے یا نہیں کیونکہ اس بارے میں تو صرف جید علماء ہی رہنمائی کر سکتے ہیں آیا یہ فتویٰ درست ہے یا نہیں۔ مگر یہ بھی ایک سچ ہے کہ ان مولوی صاحبان کو نہ جانے کیوں فتویٰ ”بنام عوام“ صادر کرنا یاد رہتا ہے فتویٰ ”بنام خواص“ سے ہمیشہ ہی کنی کترا کر گزر جاتے ہیں۔ کبھی بھی یہ نہیں فرماتے کہ بیروزگاری غربت اور جابز کی عدم دستیابی سے مجبور ہو کر نوجوان اپنی زندگیوں کو خطرات میں ڈال کر یہ غیر قانونی طریقہ اپنانے پر مجبور ہیں۔ یا یہ کہ بہتر مستقبل کے خواب آنکھوں میں سجائے جو نوجوان ایسے اپنی جان جوکھم میں ڈالتے ہیں ان کے لئے کوئی اس طرح کا قانونی طریقہ بنایا جائے جہاں نہ انہیں ایجنٹس سے دھوکہ کھانا پڑے نہ ہی ملک کے قوانین توڑ کر چوری چھپے ملک کی سرحد پار کرنی پڑے کوئی ایسی راہ نکالی جائے جو نوجوانوں کے خوابوں کو درست راستے کے ذریعے تعبیر کی منزل تک لے کر جائے۔ کبھی کبھی فتوؤں کی جگہ حکومت وقت کو کوئی تجاویز بھی دے کر دیکھ لیا کریں محض بلیک میل کرنے اور ہونے کے علاوہ کچھ اچھا مصرف حیات بھی ہو تو کوئی وجہ نہیں کہ لوگ آپ کی عزت نہ کریں۔

دوسری طرف ہمیں بحیثیت قوم اپنے مزاجوں میں اعتدال اور توازن لانے کی اشد ضرورت ہے۔ ہمیں اپنے منفی رویوں اور دوسروں کے بارے میں بات کرنے سے پہلے یہ ضرور سوچ لینا چاہیے کہ سب انسان تقدیر کے فیصلوں کے سامنے بالکل بے بس ہوتے ہیں۔ اگر آپ کسی مصیبت زدہ کی عملی طور پر کوئی مدد نہیں کر سکتے تو دو حرف تسلی کے ہی ادا کر دیں۔ اگر وہ بھی نہیں کر سکتے تو صرف خاموشی ہی اختیار کرنا سیکھ لیں کیونکہ اپنی منفی رویوں اور باتوں سے کسی کی دل آزاری کرنے سے یہ زیادہ بہتر ہے۔ کسی مصیبت زدہ کے لئے تضحیک آمیز گفتگو کرنے سے پہلے یہ ذہن میں ضرور رکھیں کہ موسم سب انسانوں کے لئے بدلتے ہیں اگر آج آپ بہار کے رنگ دیکھ رہے ہیں تو کل خزاں کا موسم بھی آئے گا۔ دلوں میں پھول کھلانے والی بارش کے بعد بے سائبانی کی کڑی دھوپ بھی اچانک آ موجود ہوتی ہے۔ اس لئے دوسروں کے غمزدہ دلوں پر مہر بانی اور تسلی کا مرہم رکھیں۔ دل آزاری کے نشتر لگا کر آپ اور کچھ نہیں کرتے مگر مکافات کو اپنے اعمال کا بدلہ دینے کا راستہ مہیا کرتے ہیں۔ ایسی ہی ایک تنبیہ اس شعر میں بھی محسوس ہوتی ہے۔

پژمُردگیِ گل پہ ہنسی جب کوئی کلی
آواز دی خزاں نے کہ تو بھی نظر میں ہے


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments