عطاء الحق قاسمی، منیر نیازی اور قیدی نمبر 804


اسے میری بدگمانی کہہ لیں، غلط فہمی کہہ لیں، وہم کہہ لیں، نفسیاتی کج فہمی کہہ لیں یا روح کی سچائیوں کو بیان کرنے والا وجدان کہہ لیں، برسوں کے مشاہدہ کے بعد میرے ذہن میں ایک خیال راسخ ہو چکا ہے کہ دنیا بھر میں مختلف ممالک کی کرکٹ ٹیموں کے درمیان جو کرکٹ میچ ہوتے ہیں ان میں سے نوّے فیصد سے زائد میچ پلانٹڈ ہوتے ہیں یہاں تک کہ انڈیا اور پاکستان کے درمیان ہونے والا کرکٹ میچ چاہے وہ شارجہ میں ہو، لندن میں ہو، کلکتہ میں ہو یا لاہور کے کسی کرکٹ سٹیڈیم میں ہو اس میچ کی ہار یا جیت کا فیصلہ بھی میچ منعقد ہونے سے پہلے ہی طے کیا جا چکا ہوتا ہے۔ آپ کو حق ہے کہ میرے اس نقطہ نظر سے اختلاف کریں۔

راقم کا خیال ہے کہ عالمی کرکٹ میں کوئی سے بھی دو ممالک کے درمیان ہونے والے کرکٹ میچ کی ہار یا جیت کا قبل از وقت فیصلہ کرنے کا آغاز آج سے تقریباً چوبیس سال پہلے شروع ہوا۔ اُس سے پیشتر کرکٹ کھلاڑیوں کو دوسرے ملک کی کرکٹ ٹیم کے خلاف میچ جیتنے کے لیے واقعی جان مارنا پڑتی تھی اور اس وقت کرکٹ بائی چانس والی بات بھی درست تھی۔ راقم کا خیال ہے کہ پسِ پردہ کوئی ایسی ”عالمی کرکٹ اسٹیبلشمنٹ“ وجود میں آ چکی ہے جو پوری دنیا میں ہونے والے کرکٹ میچوں اور ان کی ہار جیت کے فیصلوں کو کنٹرول کرتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اب مجھے ٹی وی پہ کرکٹ میچ دیکھنے میں کوئی دلچسپی نہیں رہی۔

ایسے ہی راقم سمجھتا ہے کہ نیوز ٹی وی چینلز کے کرنٹ افئیرز پروگرامز اور سیاسی ٹاک شوز کا مکمل سکرپٹ بھی پہلے سے لکھا ہوا ہوتا ہے۔ اینکر نے کیا کیا سوال پوچھنے ہیں اور بلائے گئے سیاسی رہنماؤں اور نام نہاد تجزیہ کار بیبیوں اور بابوں نے کیا کیا جواب دینے ہیں یہاں تک بظاہر دو مخالف سیاسی جماعتوں کے رہنماؤں کا ٹی وی ٹاک شو میں ایک دوسرے سے گتھم گتھا ہونا یا ایک دوسرے کو گالیاں دینا بھی پہلے سے سکرپٹ کا حصّہ ہوتا ہے یعنی کچھ بھی نیا نہیں ہوتا لہذا انڈیا اور پاکستان کے کرنٹ افئیرز پروگرامز اور ٹی وی ٹاک شوز بھی راقم کو پلانٹڈ ہی لگتے ہیں۔ ان کو دیکھ کر کیا اپنا وقت ضائع کرنا۔

راقم میڈیا کے ایک ایسے ادارے سے وابستہ ہے جس کی نیوز رپورٹس عالمی میڈیا کا حصّہ بھی بنتی ہیں لیکن اس سب کے باوجود وہ یہ مشاہدہ رکھتا ہے کہ امریکہ سے لے کر فجی اور آسٹریلیا تک، جاپان سے لے کر فرانس تک اور انڈیا سے لے کر یوگینڈا تک دنیا میں کہیں بھی کسی بھی ملک میں کسی بھی خطّے میں میڈیا مکمل آزاد نہیں۔

لیکن ادب یا لٹریچر کہہ لیں یہ ایک ایسا شعبہ ہے جہاں پلانٹڈ کیے جانے کے باوجود سب کچھ پلانٹڈ رہ نہیں پاتا۔ ایسا نہیں کہ ”پسِ پردہ رہنے والی قوتیں“ اس شعبہ میں اپنے مہرے داخل نہیں کرتیں۔ یقیناً وہ ایسا کرتی ہیں لیکن شاعروں، ادیبوں اور فنکاروں کا ایک نیچرل مزاج بن جاتا ہے کہ وہ ایک دوسرے سے حسد کیے بغیر اور ایک دوسرے پہ تنقید کیے بغیر رہ ہی نہیں سکتے۔ نرگسی مزاج جتنی جلدی ادیبوں، شاعروں اور لکھاریوں میں پیدا ہوتا ہے وہ اس قدر کرکٹ یا کسی بھی سپورٹس گیم کے کھلاڑیوں اور جرنلسٹس میں پیدا نہیں ہوتا۔ جیسے گزشتہ رات 26 جنوری 2025 کو راقم نے عطاء الحق قاسمی صاحب کا منیر نیازی پہ لکھا گیا کالم پڑھا جس میں قاسمی صاحب نے لکھا کہ منیر نیازی مشہور شاعر فیض کو گھٹو یعنی ٹھگنا کہتے تھے یعنی ذہنی طور پہ فیض کو حقیر سمجھتے تھے۔

”منیر نیازی تقریب کے دوران گاہے بگاہے اسٹیج سے اتر کر کشور کے آفس میں چلے جاتے شاید“ گرائپ واٹر ”پینے جاتے تھے۔ اس آنے جانے کے دوران فیض صاحب اپنی صدارتی گفتگو کا آغاز کر چکے تھے۔ اس وقت وہ کشور کے آفس میں تھے باہر نکلے تو دیکھا فیض صاحب صدارتی اظہارِ خیال کر رہے ہیں۔ کھڑے ہوئے سامعین میں سے اسٹیج کی طرف راستہ بناتے ہوئے میرے قریب سے گزرے تو مجھ سے سرگوشی کرتے ہوئے پوچھا اس“ گھٹو ”(ٹھگنے ) نے میرے خلاف کوئی بات تو نہیں کی“ ۔

قاسمی صاحب کے کالم میں لکھا ہے کہ منیر نیازی خُدا کے حضور اپنے لیے اور ”داتا گنج بخش“ کے لیے دعا مانگتا تھا ”میری اور علی ہجویری کی لغزشیں معاف فرما“ ۔ (علی ہجویری کی لغزشیں؟ ) ۔

احباب! میڈیا ہو، ادب ہو، سیاست ہو، شوبز ہو یا اقتدار کی غلام گردشیں ہوں ”فیوض و برکتیں“ انھوں نے سمیٹیں جو فنِ چاپلوسی اور وفا فروشی میں ماہر تھے۔ منیر نیازی ہزاروں شاعروں اور ادیبوں میں گنتی کے ان شاعروں اور ادیبوں میں شامل تھا جو اس ”فن“ سے محروم ہوتے ہیں۔

ویسے تو پاکستان میں میڈیا میں کالم، بلاگز اور مضامین لکھنے والے سینکڑوں ہزاروں نہیں تو درجنوں کی تعداد میں ضرور ہیں لیکن راقم جن کے کالم شوق سے پڑھنا پسند کرتا ہے ان کی تعداد بس تین یا چار سمجھ لیں جن میں سے ایک نام عطاء الحق قاسمی بھی ہے۔ کئی سالوں سے میں ان کے کالم پڑھ رہا ہوں۔ چونکہ مجھے سیاست، سیاستدانوں اور غیر سیاسی ”ہیروز“ کے موضوع پہ لکھے جانے والے کالم پسند نہیں لہذا میں ان کے اس موضوع پہ لکھے جانے والے کالم سِکپ کر دیتا ہوں تاہم ان کے مزاحیہ اور ادبی کالموں کو پڑھے بغیر نہیں چھوڑتا۔

مشتاق یوسفی صاحب اچھا مزاح لکھتے تھے لیکن یوسفی صاحب کی مزاحیہ تحریروں یا انشائیوں میں بے ساختگی نہ تھی بلکہ سوچی سمجھی بناوٹ اور منصوبہ بندی کے ساتھ کی جانے والی تراش خراش تھی۔ اس کے برعکس عطاء الحق قاسمی کے مزاحیہ جملوں میں بے ساختگی اور دل کو چھو لینے والی کاٹ پائی جاتی ہے۔ قاسمی صاحب کے حریف انھیں ایک مخصوص سیاسی خاندان کی مدح سرائی کا الزام دیتے رہتے ہیں۔ چلیں وہ ان کا ایک ذاتی معاملہ ہے لیکن پتہ نہیں کیوں وہ میرے دل کو اچھے لگتے ہیں۔ راقم کا خیال ہے کہ اس وقت بیک وقت میڈیا اور ادب کی دنیا میں جتنا پیارا، رنگین اور نفیس کُرتہ شلوار والا لباس وہ پہنتے ہیں میرے خیال میں کوئی دوسرا نہیں پہنتا۔ فیس بک پہ ان کے لباس کے رنگوں اور میچنگ کو میں کچھ دیر تک غور سے دیکھتا رہتا ہوں۔ کم ازکم کوئی سڑیل طبیعت والا اتنا اچھا خوش لباس نہیں ہوا کرتا۔ اپنے کالم میں انھوں نے منیر نیازی کا بہت اچھا خاکہ پیش کیا جس کے مطابق منیر نیازی اپنے مافی الضمیر کو بغیر کسی خوف و ڈر کے بے دھڑک بیان کرنے والا شخص تھا۔ منیر نیازی تو مر گیا لیکن ایک سیاسی رہنما اپنے مزاج، مائنڈ سیٹ اور تقریر میں کچھ کچھ منیر نیازی کا پرتو لگ رہا ہے۔ میرے اس بلاگ کا اصل مخاطب وہی ہیں۔

”ڈئیر خان صاحب! آپ مستقبل میں و زیرِ اعظم بنتے ہیں یا نہیں؟ مجھے نہ تو اس سے کوئی غرض ہے اور نہ کوئی لالچ۔ میں یہ بھی نہیں جانتا کہ آپ جیل سے باہر بھی آ پائیں گے یا نہیں؟ مجھے آپ سے جنونی محبت بھی نہیں آپ سے نفرت بھی نہیں۔ میں اس بحث میں بھی نہیں جانا چاہتا کہ مریم نواز شریف اس لیے خوش نصیب ہے کہ اسے اچھے تھنک ٹینکس، اچھے پلانرز اور اچھے ساتھی ملے جبکہ آپ اس کے باوجود کہ اپنے انقلابی نظریات اور اپنے مشن میں بظاہر مخلص اور سچے نظر آتے ہیں لیکن آپ کے ساتھ اصلی سِکّے کم اور قائدِ اعظم والے کھوٹے سِکّے زیادہ ہیں“ ۔

سر! میں آپ سے اس لیے مخاطب ہوں کہ میرے وجدان نے یہ مشاہدہ کر لیا اور اس سچائی کو مان لیا کہ اس وقت جنوبی ایشیا میں شہرت و مقبولیت کی جن بلندیوں پہ آپ پہنچ چکے ہیں موجودہ سیاسی رہنماؤں میں کوئی ایک سیاستدان بھی اس بلندی تک نہ پہنچ سکا لیکن کیا آپ کے کروڑوں چاہنے والوں میں آپ کی مقبولیت اور آپ کے لیے چاہت کسی عظیم مقصد کو چھوئے بغیر بس ماضی کا ایک قصّہ بن جائے گی؟

ضروری تو نہیں کہ صرف اقتدار کے راستہ سے ہی قوم کی قسمت کو بدلا جا سکے۔ دنیا کی تاریخ بتاتی ہے کہ مقبول عوامی رہنماؤں نے تو جیلوں کے اندر رہ کر بھی کسی قوم یا ملک کا رُخ ہی بدل کے رکھ دیا۔

اکبر شیخ اکبر آپ کو ایک تجویز دیتا ہے کہ آپ جیل کے اندر رہتے ہیں یا مستقبل قریب میں اپنے گھر میں نظر بند ہو جاتے ہیں یا مستقبل بعید میں رہا ہو جاتے ہیں آپ جہاں جس پوزیشن میں ہوں اپنی تقریروں، اپنے خطابات اور میڈیا کو جاری ہونے والے اپنے بیانات کے ذریعے پاکستانی قوم کا روایتی مائنڈ سیٹ تبدیل کر دیں بس یہی سب سے بڑا انقلاب، اس ملک و قوم کے لیے آپ کی سب سے بڑی خدمت اور انسانیت کے لیے آپ کی طرف سے تاریخ میں طویل عرصہ تک یاد رکھا جانے والا انقلابی کردار ہو گا۔

ایک چھوٹے سے دکاندار سے لے کر ارب پتی کھرب پتی بزنس مین تک، سرکاری محکمہ کے ایک نائب قاصد سے لے کر بائیسویں گریڈ کے افسر تک، ایک غریب مزدور سے لے کر بہت بڑے صنعت کار تک، بے زمین کسان سے لے کر بڑے جاگیردار تک، کم عمر لڑکے لڑکیوں سے لے کر بوڑھے بابوں تک، گھریلو خواتین سے لے کر دفتروں، دکانوں اور فیکٹریوں میں کام کرنے والے مردوں تک، سویلین سے لے کر وردی والے بشمول پولیس والے تک، ان سب کے لاشعور اور شعور میں اگر آپ یہ بات بٹھا دیتے ہو کہ صرف کرپٹ عناصر سے ہی نفرت نہیں کرنا بلکہ خود اپنی ذات کو بھی بے ایمانی، دھوکہ، جھوٹ، دوسروں کا حق کھانے، دوسروں کے ساتھ ظلم کرنے، رشوت کھانے، سرکاری محکموں میں خواہ مخواہ لوگوں کے جائز کام کو بھی لٹکائے رکھنے، کھانے پینے کی اشیاء میں ملاوٹ کرنے، بازاروں میں دکانوں کے آگے تجاوازت قائم کرنے، گھروں کے فرش دھو کر باہر سڑکوں اور گلیوں کو تالاب بنانے، گاڑیاں اور موٹر سائیکل چھوٹے بچوں کے حوالے کرنے، سڑک پہ ون وے کی خلاف ورزی کرنے، مکان بنانے کے نام پہ کنکریٹ کا پہاڑ کھڑا کرنے، فرقہ اور مسلک کے نام پہ دوسروں کو بُرا بھلا کہنے اور اس طرح کی تمام سماجی برائیوں سے خود کو دور رکھنا ہے تو خان صاحب یقین جانیں جیل کے اندر رہتے ہوئے بھی آپ نے ایک عظیم مقصد کو حاصل کر لیا۔

خان صاحب! ہم آپ کو اس بات کا کریڈیٹ بھی دیتے ہیں کہ ملک کے مختلف کونوں میں مختلف زبانیں بولنے والے ایک دوسرے سے سندھی، پنجابی، پشتون، سرائیکی، بلوچی، براہوی، گلگتی اور کشمیری قومیت کے نام پہ ایک دوسرے سے نفرت کرنے کی بجائے کروڑوں کی تعداد میں آپ کی محبت میں ایک صفحہ پہ کھڑے ہیں۔ آپ چاہیں تو جیل کے اندر بیٹھے بیٹھے بھی ان کے مائنڈ سیٹ میں وہ عظیم تبدیلی لا سکتے ہیں جو کوئی اور نہیں لا سکا۔ مجھے یہ بھی یقین ہے کہ آپ اپیل کریں تو اسپیشلسٹ ڈاکٹرز اپنی فیسیں کم کر دیں اور تو اور یہ جو لیڈی ڈاکٹرز کا مائنڈ سیٹ بن چکا ہے کہ اگر مرغی نے بھی انڈا دینا ہے تو پہلے انھیں فیس ادا کر کے ان سے سیزیرین اپریشن کروا کے انڈا دے تو آپ ان کے اس مائنڈ سیٹ میں بھی تبدیلی لا سکتے ہیں۔ وہ میڈیکل سٹور والے جو جانتے بوجھتے صرف پیسوں کے لالچ میں جعلی ادویات بیچتے ہیں وہ آپ کی اپیل پر یہ انسان دشمن رویہ بھی چھوڑ دیں گے۔

سر! اپنے شہر بہاول پور میں جب میں واک کرنے پارک میں آتا ہوں تو دیکھتا ہوں کہ راستہ میں لوگوں کے گھروں کا ٹوٹل رقبہ تو پانچ یا سات مرلہ ہے لیکن انھوں نے سڑک کے دائیں بائیں جانب پڑی سرکاری جگہ پہ بھی چاردیواری ڈال رکھی ہوتی اور لوہے کا گیٹ لگا کر ریمپ سڑک پہ ڈال کر سو فٹ چوڑی سرکاری جگہ کو سات فٹ کی چوڑی سڑک تک محدود کر دیا ہوتا ہے۔ سڑک پہ گاڑی دھو کر سڑک کو تالاب بنایا ہوتا ہے۔

پارک میں واک کے دوران دیکھتا ہوں کہ ان پڑھ تو ان پڑھ اعلیٰ تعلیم یافتہ خاندانوں نے بھی کھا پی کر ڈسپوزل ایبل پلیٹیں اور گلاس وہیں پارک میں جگہ جگہ پھینکے ہوتے ہیں تو سر! میرا ذہن آپ کی طرف چلا جاتا ہے کہ آپ کے کہنے پہ لوگ آپ کی محبت میں ان سماجی برائیوں کو بھی چھوڑ سکتے ہیں۔ جب میں دیکھتا ہوں کہ لوگ گاڑی اور موٹر سائیکل چلاتے ہوئے نگاہیں اپنے موبائل فون کی سکرین پہ جمائے ہوئے ہوتے ہیں۔ انتہائی تیز رفتاری سے گاڑی یا بائیک چلا کر دوسروں کی زندگیاں خطرے میں ڈال رہے ہوتے ہیں تو نا جانے میرے دل میں یہ خیال کیوں آتا ہے کہ اگر قیدی نمبر 804 انھیں ایسا کرنے سے روک دے تو یہ رک جائیں گے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments