انڈیا، پاکستان اور بنگلہ دیش سنگل کرنسی کیوں نہیں اپنا لیتے؟
بہت سال پہلے راقم کو دنیا گھومنے کی بہت خواہش تھی۔ اب نہ غیر ملکی سفر کے لیے زادِ راہ ہے اور نہ جسم ساتھ دیتا ہے۔ جسمانی وزن، ٹرائی گلیسرائیڈز اور کولیسٹرول تھوڑا سا کیا بڑھے ہیں بہاول پور کے پارک کے ٹریک پہ دو چار تیز تیز چکر لگانے کے بعد اندر سے آواز آتی ہے بس دنیا گھوم لی اب کسی بنچ پہ تھوڑا سستا لو۔
کیا کریں ہرا لہسن، ہرا دھنیا، ہری مرچ اور مکھن میں تڑکہ لگے ساگ کو پراٹھا کے بغیر کھانا اچھا نہیں لگتا پھر ایسی ڈش کے ساتھ اکیلا پراٹھا کھانا اچھا نہیں لگتا۔ ہاتھ اُس وقت رکتا ہے جب ناشتہ پوائنٹ والے نظامی صاحب کہہ رہے ہوتے ہیں ”شیخ صاحب! پراٹھے مُک گئے نے“ ۔ اصل میں وہ ہمیں تین پراٹھوں سے زیادہ کھانے نہیں دیتے۔ کہتے ہیں آپ کا جسم پھٹ گیا تو آپ کے بلاگز پڑھنے کو کہاں ملیں گے۔ ہمارا جواب ہوتا ہے ”پیکا ایکٹ ہی کافی ہے“ ۔
تین پراٹھے کھانے کے بعد معدہ بیچارہ مریم نواز شریف کے حکم پہ کیے جانے والے تجاوزات کے خلاف آپریشن کے خلاف دکانداروں کی طرح ٹرائی گلیسرائیڈز اور کولیسٹرول والا احتجاج نہ کرے تو اور کیا کرے؟ اوپر سے پشتون بھائی بہاول پور میں بنّوں بیف پلاؤ اور کابلی پلاؤ لے کر آ گئے۔ نو سو روپے کی ایک بڑی پلیٹ سہی پر کیا کریں نفس اندر سے آواز دیتا ہے ”جانی! کیا نو سو روپے تم کو ہم سے زیادہ پیارے ہیں؟“ ہم ٹھہرے دل کے نرم بس نفس کی فریاد کے سامنے دلِ ناتواں پسیج جاتا ہے اور ٹرائی گلیسرائیڈز اور کولیسٹرول جو پارک میں چکر لگا لگا کر تھوڑا نیچے آئے ہوئے ہوتے ہیں وہ دوبارہ سے انڈیا، پاکستان اور بنگلہ دیش میں مسلسل بڑھتی ہوئی غربت، بے روزگاری اور مہنگائی کی طرح اوپر چلے جاتے ہیں۔ وہ ایک فلم میں نصیر الدین شاہ پہ لتا منگیشکر کا گیت فلمایا گیا تھا نا ”دکھائی دیے یوں کہ بے خود کیا“ والا حال ہو جاتا ہے۔
ویسے عام روٹین میں راقم کا ناشتہ ایک آملیٹ، بریڈ کے دو سلائس اور چائے کے ایک کپ تک محدود ہوتا ہے ہاں کبھی بازار سے گزر ہو اور باربی کیو یا بریانی پلاؤ ٹائپ تیز مصالحہ والی کسی ڈش کی اشتہا انگیز خوشبو ٹکرائے تو دل کی بریکیں فیل ہو جا نے سے وہ ”غیر قانونی“ ہو جاتا ہے یہ اور بات کہ دماغ کا آئی ایم ایف ”شیخائی بجٹ“ کو بار بار وارننگ دیتا ہے لیکن وہ دل ہی کیا جو دماغ کی سن لے۔ ”دل غلطی کر بیٹھا ہے بول کفّارہ کیا ہو گا؟“ ۔
بہاول پور شہر میں بلوچستان سے آئے پشتون بھائیوں نے بیس کے قریب کوئٹہ ہوٹل کھول لیے ہیں جن پہ آپ کو ہر وقت پراٹھا چائے دستیاب ہوتی ہے۔ ان میں سے دوچار کوئٹہ ہوٹلوں کی چائے کی ریسیپی میں پتہ نہیں کیا ہے؟ ایک بار کیا پی لی پھر پورے بہاول پور کے کسی اور ٹی اسٹال یا ڈھابہ کی چائے مزا نہیں دیتی بس ایسے سمجھ لیں جیسے یوٹیوب پہ فری لانسنگ کورسز فری سکھانے والا ایک ماسٹر گرو بار بار کہہ رہا ہوتا ہے نا ”دماغ کی بتی جلاؤ اور فری لانسنگ سے پیسے کماؤ“ تو ایسے ہی ان دو چار مخصوص کوئٹہ ٹی اسٹالز سے چائے پینے سے دماغ کی بتی سرائیکی زبان کے مطابق بَل (جل) اُٹھتی ہے۔
بہاول پور شہر کے ان کوئٹہ ہوٹلوں پہ آپ کو پاکستان کی تمام زبانیں بولنے والے طلباء ملیں گے جو دراصل اسلامیہ یونیورسٹی بہاول پور کے طلباء ہیں۔ سندھ، بلوچستان، خیبر پختونخوا، گلگت بلتستان اور کشمیر سے آ کر بہاول پور میں اسلامیہ یونیورسٹی، قائدِ اعظم میڈیکل کالج، صادق پبلک سکول اور دیگر تعلیمی اداروں میں پڑھنے والے ان طلباء کی تعداد تو دس ہزار سے تجاوز کر گئی ہے لیکن ان کے ساتھ خاندان کے دیگر افراد نے بہاول پور میں آ کر رہائش رکھی ہے یا یہاں پر مختلف کاروبار شروع کیے ہیں تو ان سب کی مجموعی تعداد پچاس ہزار سے بڑھ چکی ہے جبکہ بہاول پور شہر کی آبادی تقریباً آٹھ سے دس لاکھ کے درمیان ہے۔
دیگر صوبوں سے آ کر بہاول پور میں پڑھنے والے یہ طلباء شروع شروع میں تھوڑا سہمے ہوئے نظر آتے تھے اور مقامی آبادی سے میل جول میں تھوڑا فاصلہ رکھتے تھے۔ پشتون طلباء صرف پشتون طلباء کے ساتھ اور بلوچی طلباء اپنا مخصوص ثقافتی لباس پہنے صرف بلوچی طلباء کے ساتھ مارکیٹ یا پارک میں گھومتے نظر آتے لیکن اب دس سالوں بعد صورتحال بالکل بدل گئی ہے۔ دیگر صوبوں سے آنے والے طلباء مقامی آبادی کے ساتھ نہ صرف گُھل مل گئے ہیں بلکہ ٹی اسٹالز، ڈھابوں اور پارکوں میں ان کے ساتھ ان کے مقامی پنجابی اور سرائیکی زبان بولنے والے کلاس فیلوز بھی نظر آتے ہیں جن کے ساتھ ان کی گہری دوستی ہو چکی ہے۔ اب تو مخصوص بلوچی لباس پہنے بلوچستان سے آئی طالبات بھی بہاول پور میں نظر آتیں ہیں۔
اب آپ پاکستان، انڈیا اور بنگلہ دیش کی مثال لیں جو عالمی کاروبار کی شطرنج پہ ایک دوسرے سے فاصلہ رکھے ایک دوسرے سے سہمے ہوئے ہیں نتیجہ یہ کہ اپنا کاروبار چلانے والے عالمی کھلاڑی یہ خود نہیں کوئی اور ہے۔ حالت یہ ہے کہ بہاول پور کے میلہ والی گلی بازار میں ملنے والے چاول کے بارے میں بتایا جاتا ہے کہ یہ انڈیا کا معیاری چاول ہے لیکن یہ بھارت سے براہ ِ راست پاکستان نہیں آیا ہوتا بلکہ دبئی اور دیگر ممالک سے ہو کر کسٹم ڈیوٹی ٹیکس عائد ہونے کی وجہ سے پاکستانی عوام کو مہنگے داموں دستیاب ہوتا ہے۔ پاکستانی کپڑے کی انڈیا میں بہت زیادہ مانگ ہے جو دبئی، انڈونیشیا اور ملائیشیا کے راستہ سے ہو کر بھارت پہنچ رہا ہے۔ بنگلہ دیشی گارمنٹس بھی دبئی وغیرہ کے راستہ پاکستان پہنچ کر بحری اور کارگو جہازوں کا بھاری کرایہ ادا کرنے کے بعد پاکستان میں مزید مہنگے داموں بک رہے ہیں۔ آپ ایک دوسرے سے اشیاء براہِ راست کیوں نہیں منگوا لیتے؟
اس بلاگ کے ذریعہ اکبر شیخ اکبر یہ تجویز دیتا ہے کہ انڈیا، پاکستان اور بنگلہ دیش سنگل کرنسی کو اپنا لیں۔ مجھے اندازہ ہے کہ میری اس تجویز سے کچھ احباب سیخ پا ہوں گے۔ بات دراصل یہ ہے کہ امریکہ، یورپ اور جاپان کی سپر ملٹی نیشنل کمپنیاں انڈیا، پاکستان اور بنگلہ دیش کو مجموعی طور پہ دنیا کی سب سے بڑی کنزیومر مارکیٹ قرار دے چکی ہیں اور چین بھی اسی پالیسی کو اپنا رہا ہے کہ ایک طرف اس کی پراڈکٹ ہزاروں کلومیٹرز کا فاصلہ طے کر کے امریکہ، یورپ اور افریقہ کی مارکیٹوں میں پہنچتی ہیں جبکہ اس کے ہمسایہ میں دنیا کی سب سے بڑی کنزیومر مارکیٹ موجود ہے جہاں وہ چند گھنٹوں کے اندر اندر اپنی پراڈکٹ پہنچا سکتا ہے۔
دوسرا پہلو یہ کہ ملٹی نیشنل کمپنیاں اپنی جو پراڈکٹ مثلاً بخار کی دوا ایک ملٹی نیشنل کمپنی انڈیا میں ستر روپے میں فروخت کر رہی ہوتی ہے تو وہی کمپنی اپنی اسی دوا کو بنگلہ دیش میں دو سو روپے میں اور پاکستان میں ساڑھے چھ سور و پے میں فروخت کرتی ہے۔ چلیں آپ کہہ لیں کہ کرنسی کا فرق ہے۔ بھائی! انڈیا اور پاکستان کی کرنسی کی ویلیو میں اتنا بڑا فرق بھی نہیں جس قدر زیادہ قیمت یہ امریکی اور یورپی کمپنیاں مقامی کنزیومر سے وصول کر رہی ہوتی ہیں۔ جب انڈیا، پاکستان اور بنگلہ دیش سنگل کرنسی کو اپنائیں گے تو ملٹی نیشنل کمپنیاں اپنی پراڈکٹس تینوں ممالک کے عوام کو ایک ہی قیمت پہ مہیا کرنے پہ مجبور ہوں گی۔
میری اس تجویز کا ہر گز یہ مطلب نہ لیں کہ انڈیا، پاکستان اور بنگلہ دیش ایک دوسرے کے ساتھ اپنا بارڈر یا سرحدیں ختم کر دیں۔ یورپ کے ستائیس سے زیادہ ممالک نے یورو کے نام سے سنگل کرنسی کو اپنایا ہے تو کیا وہ ممالک بطور خود مختار ملک یا ریاست اپنا وجود کھو بیٹھے ہیں۔ جرمنی اپنی جگہ جرمنی اور فرانس اپنی جگہ فرانس کھڑا ہے بس سنگل کرنسی کو اپنانے سے ان ممالک نے غربت، بے روزگاری، مہنگائی اور مختلف ممالک میں پراڈکٹس کے مختلف ریٹس کے فرق پہ قابو پانے کی کوشش کی ہے۔
راقم یہ سمجھتا ہے کہ اس وقت خوفناک مہنگائی اور بے روزگاری کی وجہ سے تینوں ممالک میں مڈل کلاس معدومیت کی طرف جا رہی ہے تو سفید پوش کلاس کا تو بھرم ہی ختم ہو چکا ہے۔ سنگل کرنسی سسٹم ان تینوں ممالک میں غربت، بے روزگاری اور مہنگائی کے وجہ سے آنے والی تباہی کے سامنے بند باندھ سکتا ہے۔
پچیس جنوری 2025 کو بہاول پور پریس کلب میں بیٹھے دوستوں کے ساتھ گپ شپ ہو رہی تھی۔ ایک دوست نے سوال پوچھا ”اکبر صاحب! ڈونلڈ ٹرمپ کے حالیہ اقدامات کے بارے میں آپ کا کیا تجزیہ ہے؟“ میرا جواب تھا ”صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے جو یوکرین کی امداد بند کی ہے اور پیوٹن کی طرف دوستی کا ہاتھ بڑھایا ہے تو اس سے لگتا ہے کہ پینٹاگون ڈونلڈ ٹرمپ کو صدارت کی مدت مکمل نہیں کرنے دے گا۔ ہو سکتا ہے آئندہ تین سال بعد ٹرمپ جیل میں پڑا ہو تاہم ٹرمپ کے سپانسرڈ چونکہ امریکی ٹیکنالوجی کمپنیاں اور ملٹی نیشنل کمپنیاں ہیں تو وہ ان کے لیے دنیا کی سب سے بڑی کنزیومر مارکیٹ یعنی انڈیا، پاکستان اور بنگلہ دیش میں سہولیات اور رعایتیں حاصل کرنے کے لیے بطور صدر اپنا اثر و رسوخ اور دباؤ استعمال کرے گا جو ان تینوں ممالک کی مقامی اکانومی کو مزید کمزور کرے گا تاہم سنگل کرنسی کو اپنانا ٹرمپ کے اس وار کا توڑ ہو گا“ ۔
- ٹرمپ بے وفا کے نام شِکووں بھرا خط - 23/04/2025
- عمران خان اقتدار میں آ بھی گیا تو؟ - 17/03/2025
- مافیا، فراعینِ مصر، منصور ملنگی اور بابو محکمے - 14/03/2025
Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).