ابا کا حقہ!
ڈیوڑھی کا دروازہ کھلتا، سائیکل کی کھڑ کھڑ کی آواز آتی، باورچی خانے میں چولہے کے سامنے بیٹھی امی آواز دیتیں۔ پاتھیوں ( اپلے ) کو آگ لگا دو۔
وسیع و عرض صحن اینٹوں سے بنا تھا اور اس کے ایک کونے میں بیری کا درخت تھا۔ بیری کے درخت سے ذرا ہٹ کر ایک طرف مٹی کی انگیٹھی رکھی تھی۔ بیری کے دوسری طرف صحن کے کونے میں ایک چھوٹی سی کوٹھڑی تھی۔ کوٹھڑی کی چھت نیچی تھی اور وہاں صبح شام چڑیوں کا ایک جھنڈ باجرہ چگتے نظر آتا۔ باجرے کے ساتھ ایک پیالے میں پانی بھی رکھا ہوتا۔ ابا ہر شام کوٹھری کی دیوار کے ساتھ میز رکھتے، اس پہ چڑھ کر چھت پہ مٹھی بھر باجرہ بکھیرتے، پیالے کا بچا ہوا پانی پھینک کر تازہ پانی بھرتے۔
یہ ابا کی چڑیوں سے محبت تھی یا ذمہ داری، ہم نہیں جانتے۔ مگر یہ ضرور دیکھا کہ انہوں نے کبھی کسی بچے کو نہیں کہا کہ آج چڑیوں کو تم دانہ ڈال دو۔ ابا کے اس عمل کے دوران بھی چڑیاں بدستور دانہ چگتی رہتیں۔ جیسے جانتی ہوں کہ ان کے دانے پانی کا بندوبست کرنے والا یہ ادھیڑ عمر مرد بے ضرر ہے۔ چڑیوں کے اُڑنے، دانہ چگنے اور چوں چوں کی آوازیں اس صحن کا ایک مستقل حصہ تھیں اور مکینوں کی زندگی کا بھی۔
کوٹھڑی ایسے کاٹھ کباڑ کی جائے مسکن تھی جنہیں یہ سوچ کر سنبھال لیا جاتا کہ کسی نہ کسی روز ضرورت ہوئی تو کوٹھڑی اس چیز کو حاضر کر دے گی۔ لیکن ایک چیز ایسی تھی جس کے لیے کوٹھڑی کا دروازہ دن میں کئی بار کھولنا پڑتا۔ وہ تھی دروازے کے ساتھ بوری جو پاتھیوں سے ہر وقت بھری رہتی۔
گاؤں دیہات میں بھینس کے گوبر کو سکھا کر پاتھیاں ( اپلے ) بنا کر ایندھن کے طور پہ استعمال کرنا ایک عام بات تھی۔ شہروں میں اب ان کی ضرورت اس طرح سے نہیں رہی تھی۔ لیکن جن گھروں میں حقہ پیا جاتا تھا وہاں پاتھیوں کی ضرورت برقرار تھی۔ ہمارے گھر پاتھیاں اس گوالے سے منگوائی جاتی تھیں جو دودھ دینے کے لیے آتا۔ جب بھی بوری خالی ہونے والی ہوتی، امی گوالے کو پاتھیاں لانے کا کہتیں۔ ایک آدھ دن چھوڑ کر تاکید کی جاتی کہ کہیں ایسا نہ ہو، گوالے کو لانے میں تاخیر ہو جائے اور حقہ گرم نہ ہو سکے۔ دفتر سے واپسی پہ ابا حقے کا کش نہ لگائیں، یہ کیسے ممکن تھا۔
سائیکل کی کھڑ کھڑ ابا کی آمد کا اشارہ ہوتی۔ سائیکل کھڑی کر کے ابا سیدھے باورچی خانے کے دروازے پہ آتے، چولہے کے سامنے بیٹھی امی دونوں ہاتھ چلاتے ہوئے کبھی پھلکے سینکتیں اور کبھی ہانڈی میں ڈوئی پھیرتیں۔ پاس پڑی چنگیر میں توے سے اترتے گرم گرم پھلکے، ایک کے اوپر ایک، گندم کی مہک محبت میں گندھ کر چاروں طرف پھیل رہی ہوتی۔
دونوں مسکرا کر ایک دوسرے کو دیکھتے، ابا کے پاس کسی کا خط آیا ہوتا تو نکال کر ایک طرف پڑی ہوئی میز پہ رکھ دیتے اور اپنے کمرے کی طرف چلے جاتے۔ یکم تاریخ کو خطوں کے لفافوں کے ساتھ روپوں کا لفافہ بھی ہوتا۔ میز پہ رکھتے ہوئے یہ کہنا ابا کبھی نہ بھولتے۔ گن لینا انہیں۔
سائیکل کی آواز سننے کے ساتھ جب امی پاتھیاں جلانے کا کہتیں، وہ کسی کا نام نہ لیتیں، جانتی تھیں کہ یہ کام کسی بچے کے لیے بھی ناگوار نہیں۔ حقہ۔ ابا کا حقہ۔ ہم سب کے لیے بہت اہم تھا۔
آواز سن کر کوئی ایک بچہ ( عموماً ہم اور ہماری چھوٹی بہن ) صحن کے کونے بنی ہوئی کوٹھڑی کی طرف جاتا، بوری میں ہاتھ ڈال کر دو یا تین پاتھیاں نکالتا۔ پاتھیوں کو دو تین ٹکڑوں میں تقسیم کر کے مٹی کے چولہے میں رکھ کر تھوڑا سا کیروسین آئل چھڑکتا اور ماچس کی تیلی رگڑ کر پاتھیوں پہ پھینک دیتا۔ آگ کے شعلے بھڑک کر پاتھیوں کو لپیٹ میں لے لیتے۔
ابا کے کمرے کے ایک کونے میں حقہ پڑا ہوتا۔ مٹی کی بنی ہوئی چلم اور مٹی ہی کا پیندا، بیچ میں لکڑی کی دو منحنی نلکیاں جیسے بانسری۔ چلم اور پیچ دان کو ایک دوسرے سے جوڑتا ہوا نیچہ۔
حقہ اُٹھا کر صحن میں لایا جاتا۔ چلم میں موجود صبح کی بجھی ہوئی راکھ کوڑے کے ڈبے میں انڈیل دی جاتی۔ راکھ انڈیلتے ہوئے خیال رکھا جاتا کہ چلم کی تہہ میں رکھا چھوٹا سا پتھر بھی کوڑے دان میں نہ چلا جائے۔ یہ پتھر حقے کے لیے بہت اہم بیش قیمت تھا کہ چلم میں بنے سوراخ کو ڈھانپ کر فلٹر میں بدل دیتا تھا۔
چلم میں پتھر کو جما کر رکھنے کے بعد تمباکو کا تھیلا کھولا جاتا جس میں گاؤں کی اپنی زمین پہ کاشت کیا جانے تمباکو بیڑوں کی صورت میں رکھا ہوتا۔ ایک بیڑے سے تھوڑا سا تمباکو توڑ کر ہتھیلی پہ رکھ کر دوسری ہتھیلی سے مسلتے ہوئے پتھر کے اوپر ڈال دیا جاتا۔ تمباکو کے اوپر گڑ کا ایک چھوٹا ٹکڑا۔ لیجیے چلم کے لوازمات تیار۔
حقے کے نچلے حصے کی باری جب آتی، نیچے کی نے نما نلکیاں کھول کر ایک طرف رکھتے ہوئے پیندے میں موجود پانی گرا دیا جاتا جو گزشتہ دوپہر سے حقے کے استعمال سے تمباکو اور راکھ کے ذرات سے سیاہ ہو چکا ہوتا۔ تازہ پانی پیندے میں بھر کر نیچے کی نلکیاں پھر سے کس دی جاتیں۔
حقے کا ساز و سامان تیار کر کے انگیٹھی کی طرف توجہ کی جاتی جس میں پھاتھیاں دہک چکی ہوتیں۔ پاس رکھے چمٹے سے انہیں ایک ایک کر کے چلم میں جمایا جاتا۔ جونہی پاتھیوں، تمباکو اور گڑ کا ملاپ ہوتا، چاروں طرف ایک انتہائی دل کش مہک پھیل جاتی۔ جس میں اس وقت اضافہ ہو جاتا جب ابا حقے کی نے منہ میں دباتے اور گُڑگُڑ کے سُر برامد ہوتے۔ چلم، پیندا، نیچہ، نے، تمباکو، گڑ، پانی اور انسانی لمس۔ کیا کوئی اندازہ کر سکتا ہے کہ کیا سحر طاری ہوتا ہو گا؟
تمباکو کی بات چلی تو کچھ اور بھی یاد آ گیا۔ گاؤں سے جب بھی کوئی آتا، اس کے پاس ابا کے لیے ایک چھوٹا تھیلا ضرور ہوتا۔ اخباروں میں لپٹے، گہرے نسواری رنگ کے خشک پتے، جنہیں بل دے کر رسی جیسی شکل دی گئی ہوتی۔ تمباکو کی فصل دادا کی اپنی زمین سے اترتی اور کاشتکار اس میں سے ابا کا حصہ بھجوانا کبھی نہ بھولتے۔ جونہی تھیلا کھلتا، تمباکو کی کڑوی کسیلی مہک ہر طرف پھیل جاتی۔ ابا تمباکو کے بیڑے کو سونگھتے ہوئے کہتے، کڑوا لگتا ہے۔ تمباکو کی کوالٹی کی جانچ اس کی کڑواہٹ سے کی جاتی۔ تمباکو کے یہ بیڑے کسی ایسی جگہ پہ سنبھال کے رکھ دیے جاتے جہاں سیلن سے خراب ہونے کا ڈر نہ ہوتا۔ روزمرہ کے استعمال کے لیے بیڑہ کھول کر اس کا کچھ حصہ جستی ڈبے میں بند کر دیا جاتا۔
کبھی کبھار ہماری پھوپھی لاہور سے آتیں تو ابا اور پھوپھی حقے کے کش لگاتے ہوئے پہروں گپ شپ کرتے۔ حقے کا نیچہ اور پیندا گھومتا رہتا اور نے کبھی بھائی کے ہاتھ اور کبھی بہن کے۔ ہم ان دونوں کو رشک سے دیکھتے۔ کیا دل چسپ بہن بھائی ہیں دونوں۔ پدرسری کا شکنجہ ابا کو دام میں نہیں لا سکا تھا۔
ہم نے حقے کا کش لینے کا مزہ کبھی نہیں چکھا مگر حقہ تازہ کرنے کے وہ دن ہماری یادوں میں جگمگاتے ہیں۔ ان یادوں میں ایک مرد اور ایک عورت ایک جزیرے پہ اپنے بچوں کے ساتھ ایسے رہے کہ وہ دن بھلائے نہیں بھولتے۔
- پی آئی ڈی : ایک موذی بیماری! - 23/04/2025
- ویجائنا کا علاج کیسے کرنا ہے؟ - 18/04/2025
- قبل از وقت بچے کی پیدائش : ویجائنا بیمار ہے - 14/04/2025
Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).