عصمت کی ٹیڑھی لکیر , ہم جنسیت ، مساس اور نسائیت !قسط نمبر 2


اگر عسکری صاحب اردو ادب کے ان پچاس لاجواب صفحات کی لا جوابی کو کھول دیتے، بڑائی بیان کر دیتے تو ان کا کیا جاتا؟ لیکن شاید اُن کی منشا یہ نہیں تھی۔ اب میں یہ تو نہیں کہہ سکتی کہ ان میں یہ صلاحیت ہی نہیں تھی۔ ایک جملہ لکھنا تھا، لکھ دیا۔ اب لوگ پوچھتے رہیں اور عسکری صاحب کے پرچم بردار آنکھیں مٹکاتے رہیں، بات ادھوری رہ گئی اور ادھوری ہی رہے گی۔ لیکن خود عسکری صاحب نے بھی تو ہمیں افسانوں کے کئی مجموعے دیے ہیں پر باہر تو باہر گھر میں بھی ان کی روشنی سے کسی کو کوئی راستہ سجھائی نہیں دیا۔

ان کے تمام مداح مل کر بھی عسکری صاحب کی افسانہ نگاری کو کہیں نہیں پہنچا اور لے جا سکے۔ ناول تو انھوں نے لکھا ہی نہیں۔ تنقید لکھی تھی، کہاں پہنچی؟ یہیں گھوم رہی ہے، نہ نہانے گئی نہ نچوڑنے۔ اُن سے انتظار حسین بھلے کہ بستی سا ناول تو لکھا۔ محمد عمر میمن کے ترجمے پر آصف فرخی نے پانی ضرور پھیرا لیکن ناول بکّر انٹرنیشنل میں شارٹ لسٹ تو ہوا۔ انتظار صاحب کا بھی نام ہوا اور اردو کا بھی۔

ایسا سوچنے پر میں اس لئے مجبور ہوں کہ عسکری نے ناول چھپنے سے پہلے ہی بطور خاص ناول کی ہیروئن کا ذکر کیا یہ کہتے ہوئے کہ ہیروئن کو لحاف زدہ کر دو اور یہ پیغام عصمت تک پہنچوایا جو ان کی رائے جاننا چاہتی تھیں۔

عصمت نے ایک ایسی ہیروئن تخلیق کی تھی جو بہت سے تجربات و احساسات سے گزری اور ایسے گزری کہ سب مرد اسے قابو کرنے کے منصوبے بناتے رہ گئے مگر وہ کسی کے ہاتھ نہ آئی۔

بیسویں صدی کی چوتھی دہائی میں ایک ایسی عورت کا خاکہ جسے مرد کے سہارے کی ضرورت نہیں، عسکری کو چونکا نے کے لیے کافی تھا۔ اگر اس عورت کی زندگی میں جنس کا عمل دخل مرد کی صورت میں نہیں تو لامحالہ کچھ اور ہونا چاہیے۔ اور یہ کچھ اور ہم جنسیت کے علاوہ کیا ہو سکتا ہے؟

عسکری نے اس دور کے مرد کی سوچ کے مطابق اظہار خیال کیا مگر عصمت نے اس خیال کو بیک جنبش ِقلم رد کر دیا۔ وہ جس راہ پر چل رہی تھیں یا عورت کو چلتا دکھانا چاہتی تھیں، اُسی پر رہیں، ہم جنسیت اس عورت کی منزل نہیں تھی۔

یاد رہے کہ عصمت نے عسکری صاحب کے مشورے کے مطابق ہیروئن کو لحاف زدہ نہیں کیا بلکہ جو ہے سب عیاں کر دیا، لیکن اس کو کیا سمجھا گیا؟ ناول پر ہم جنسیت کا لیبل ہمیشہ کے لیے چسپاں ہو گیا۔

عزیز احمد کو بھی اگر کچھ یاد رہا تو مساس اور مساس کا ریفرنس دینے کے لیے ”لحاف“ ۔ کسی بھی ادیب کے قتل کا اس سے بہتر طریقہ نہیں ہو سکتا کہ اگر اس کا کوئی ایک کام شہرت کی سیڑھی چڑھ جائے تو اصرار کیا جائے کہ وہ وہی کام کرتا رہے، اُسی طرح کرتا رہے۔ اگر وہ ویسا کرنے لگے تو اُس پر تکرار کی حد جاری کر دی جائے اور نہ کرے تو کہا جائے کہ ایک کام اچھا کیا تھا اس کے بعد کچھ نہیں ہو سکا۔ گھوڑی/ گھوڑا لمبی ریس کا نہیں تھا۔ پھلجھڑی تھی، جلی چمکی اور بجھ گئی۔

اور اگر کام پسند نہ آئے تو اس کے ہر کام کو اعتراض و نکتہ چینی کی عینک پہن کر دیکھا جائے، خاص طور پہ اگر کسی کام کے ساتھ اعتراضات کی پخ لگی ہو اور مصنفہ عدالت کی ہوا کھا چکی ہو۔ ذکر چل ہی نکلا ہے تو بتاتی چلوں کہ میں نے نوعمری میں افسانہ لحاف پڑھا اور پڑھ کر دیر تک سوچتی رہی کہ کیا تھا اس میں جو لوگ سیخ پا ہو گئے۔ بجائے اس کے کہ انہیں ایک شادی شدہ عورت کی بے بسی نظر آتی جو شوہر کے ہوتے ہوئے بیوگی کی زندگی گزارنے پر مجبور ہے۔ اپنے جذبات و احساسات کو کچلتے ہوئے اور خوش باش بیوی کا روپ دھارتے ہوئے ایک چھت کے نیچے اجنبی مرد اور عورت۔ لیکن شاید لحاف کے ذریعے بہت سے مردوں کو آئینہ دیکھنے پر مجبور ہونا پڑا تھا۔

نسائی نفسیات کی تلخی، بے بسی، مجبوری اور مردانہ ڈھٹائی کا آئینہ!

اس طرز عمل سے ادب یا ادیب کا کیا بھلا ہو سکتا ہے؟ ویسے اس بات کا بھی جائزہ لیا جانا چاہیے کہ کیا تنقید نے ادب کی مدد کی؟ کی تو کیسی کی؟

میری اس کوشش کا مقصد اگرچہ عصمت چغتائی کی فنی نمو، ان کا دور، اردو ادب میں ان کی اہمیت اور تنقید و ناقدین کے کردار کا مطالعہ نہیں لیکن ٹیڑھی لکیر میں نسائیت کو فحاشی اور مساس کے آئینے میں دیکھنے کی کوشش کرتے ہوئے مجھے خیال آیا کہ اگر ناول نگار کی تخلیقی حیثیت اور مسائل کو بھی سامنے رکھا جائے تو شاید وہ تانیثی پہلو کچھ اور واضح طور پر سامنے آ سکتا ہے جو میں بھی دیکھنا چاہتی ہوں۔

ٹیڑھی لکیر میں ہم جنسیت کی بات شروع کہاں سے ہوئی جب ہیروئن شمن ہوسٹل پہنچی۔ یاد رہے کہ شمن ابھی بلوغت کی سیڑھی نہیں چڑھی، وہ ابھی بچی ہے۔ میرے یعنی گائینی کے حساب سے۔ ویسے تو نو دس کی بچی کو بھی بالغ سمجھنے والے بہت ہیں۔

مس چرن اور شمن کی آپس میں پسندیدگی کو ہر جگہ ہم جنسیت کی نظر سے پڑھا اور دیکھا گیا۔ مگر کیا واقعی ایسا تھا؟ ناول سے ہی ڈھونڈنے کی کوشش کرتے ہیں۔

” اس نے انہیں تمام گھر کے قصے سنائے۔ بڑی آپا سے وہ خفا تھی اور شانو اور ستو کی شرارتوں پر تو ان کے اچھّو لگ گئے۔“

”مس چرن نے اسے سکول کے علاوہ کام دینا شروع کیا اور دوسرے امتحان پر اسے ڈبل درجہ چڑھا دیا گیا۔ مس چرن اب بھی اُسے پڑھاتی رہیں اور منجھو کے بعد اُسے پہلے انسان نے متاثر کر کے اپنے قابو میں کر لیا۔“

یہ تھی دونوں کے تعلق کی نوعیت اور کنجی۔ مس چرن نے بے توجہی کی شکار ایک ذہین لڑکی کو وقت اور توجہ دی، اس سے باتیں کیں، اسے اہم جانا، اسے پڑھنے میں مدد دی اور اس قدر خیال رکھا کہ سگی بہن منجھو کے ساتھ والی سیڑھی پہ جا کھڑی ہوئیں۔ منجھو وہی بہن ہے جس نے شمن کو اوائل عمری میں سنبھالا اور جس کی شادی ہو جانے کے بعد شمن پوری دنیا میں اکیلی ہو گئی۔

عصمت چغتائی لکھتی ہیں : وہ ایک چھوٹی سی لڑکی تھی جو اکیلی ادھر ادھر بھٹکتی رہتی تھی اور کبھی کبھی یہ دعا مانگتی تھی کہ منجھو بی کا دلہا مر جائے کہ وہ واپس آ جائے۔ (کاغذی ہے پیراہن )

شدید ذہنی اور جسمانی تنہائی کا شکار شمن جسے مس چرن نے توجہ کی دوا پلا کر پڑھائی کی طرف راغب کیا۔ وہ مس چرن کے تعاقب میں ویسے ہی دوڑی جیسے کبھی منجھو کے لیے دیوانی ہوتی تھی اور جب مس چرن نے اسے قابو کر لیا تب اس پہ ذمہ داریوں کا بوجھ ڈال کر اسے سدھارنے کی کوشش کی۔

” کلاس کی مانیٹر وہ۔ بورڈ وہ صاف کرے۔ چاک کی فکر رکھنی پڑے۔ نقشہ ٹانگنے کی کیل مضبوط ہے کہ نہیں؟ لڑکیاں غل مچائیں تو اس کی مصیبت۔ اس کے علاوہ مس چرن کی کتابیں اور چھڑی وہ اپنے فیسک میں رکھے اور کبھی کبھی ان کے کمرے پر امتحان کی کاپیاں پہنچانے جائے۔“


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments