خواتین کھیل کے میدان میں


2025 ء کی شروعات ہوتے ہی ذہن میں خیال آیا کہ دنیا جتنی تیزی سے ترقی کر رہی ہے اتنی تیز رفتاری سے وقت کا کارواں بھی گزر رہا ہے۔ مگر کہیں سارے ممالک اور خاص کر قومیں ابھی تک بہت پیچھے ہیں۔ کہتے ہیں کہ انسان چاند پر پہنچ گیا، یقیناً یہ بھی اسے خدا کی طرف سے دیے گئے صلاحیتوں کی وجہ سے ممکن ہوا ہو گا مگر اب بھی جب ہم اپنے اردگرد دیکھتے ہیں تو لگتا ہے کہ ہم زمین کی اہمیت کو ہی اب تک سمجھ نہیں پائے ہیں تو چاند تک پہنچنے کے لیے ہمیں نہ جانے اور کتنے سارے جنم لینے ہوں گے، پھر شاہد کہیں اس بارے میں جا کر سوچا جا سکے کہ چاند میں بھی ایک دنیا بستی ہے۔

خیر میں بات کرنا چاہ رہی ہوں کھیلوں کے بارے میں جن کے حوالے سے کہا جاتا ہے کہ یہ انسانی زندگی کے توازن کو برقرار رکھنے کا اہم ذریعہ ہوتے ہیں۔ خوش قسمت لوگوں کو کھیل کھود میں شرکت کے مواقع ملتے ہیں جس سے وہ نہ صرف اپنے وزن کو برقرار رکھتے ہیں بلکہ اپنی ذہنی صلاحیتوں میں بھی اضافہ کرتے ہیں۔ جس سے وہ ذہنی اور جسمانی طور سے صحت مند رہ سکتے ہیں۔ کہتے ہیں کہ اچھے کھلاڑی کئی ساری بیماریوں سے محفوظ رہ جاتے ہیں، کھیلوں میں شمولیت نہ صرف کھلاڑیوں کے قلبی صحت کو بہتر بنانے میں مدد کرتا ہے بلکہ اس سے وہ بہت سی دائمی بیماریوں جیسے ذیابیطس، ہائی بلڈ پریشر، اور ہائی کولیسٹرول جیسے بیماریوں کے خطرات سے بھی محفوظ رہتے ہیں۔

کھیل انسانی دماغ میں تناؤ اور اضطراب کو کم کر کے موڈ کو بہتر بنانے میں مدد کرنے کا ذریعہ ہیں۔ اس بات میں کوئی شک نہیں کہ دماغی صحت کے بہتر ہونے سے انسان کو خود میں مثبت خود اعتمادی پیدا کرنے میں مدد ملتی ہے۔ چونکہ کھیل کو ورزش سے تشبیہ دیا جاتا ہے لہذا سائنس اور مذہب دونوں میں باقاعدگی سے ورزش کرنے کے عمل کو مثبت قرار دیا گیا ہے اور باقاعدہ ورزش، آرام کرنے اور اچھی نیند فراہم کرنے میں مدد دیتی ہے جس سے علمی فعل کو بھی بہتر بنایا جاسکتا ہے۔

کھیلوں کی دنیا نئے دوست بنانے اور بہتر سپورٹ سسٹم کو اجاگر کرنے جس میں کہ اپنے علاوہ دوسروں کے ساتھ کیسے پیش آنا ہے، کی بھی ترغیب دیتا ہے۔ یہ موثر مہارتیں فروغ دینے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں، اس سے صحت مند فیصلہ سازی کا رجحان بڑھتا ہے، اچھے اور برے کی پہچان ہونے میں مدد ملتی ہے۔ اور اگر سکھانے والے اچھے

ہوں تو کھیل ہر لحاظ سے مکمل انسان بناتا ہے۔
کیا لڑکیوں کو بھی کھیلوں میں شرکت کرنی چاہیے؟

اگر کھیل انسانی زندگی کے توازن کو برقرار رکھتے ہیں تو لڑکیاں بھی انسان ہیں انہیں بھی زندگی کو بھرپور طریقے سے جینا چاہیے جو کہ ان کا پیدائشی حق ہے۔ لہذٰا کھیل لڑکیوں کو بھی زندگی میں آگے بڑھانے کے لیے معاون کردار ادا کرتے ہیں۔ یہ نہ صرف انہیں ہنر سکھانے کا بہترین ذریعہ ہوتے ہیں بلکہ جو لڑکیاں کھیل کھیلتی ہیں ان میں خود اعتمادی پیدا ہوتی ہے، اور یہ اعتماد ان میں لچک پیدا کرتی ہیں جس سے وہ ٹیموں میں کام کرنا سیکھتی ہیں۔ اس سے جڑت کا تصور پیدا ہوتا ہے، اداروں سے جڑے رہنے اور بہتر ملازمتیں حاصل کرنے کا رجحان بڑھتا ہے۔

ایک بین الاقوامی ادارے کے سروے کے مطابق بیانوے فیصد عالمی سامعین اس بات پر متفق ہیں کہ لڑکیوں کے لیے کھیل کھیلنا اہم ہے، اور 61 فیصد نے تو اسے ”بہت ہی اہم“ قرار دیا ہے۔ جب خواتین کھلاڑی ماں بننے کے عمل سے گزرتے ہیں تو وہ حمل کے دوران تاخیر کے مرحلے سے بھی بچ جاتی ہیں۔ ایک سروے کے مطابق کھیلوں میں سرگرم لڑکیوں کی زندگی میں چھاتی کے کینسر میں مبتلا ہونے کے امکانات عام عورتوں کی نسبت 20 % کم ہوتے ہیں۔

دیکھا گیا ہے کہ کھیلوں میں حصہ لینے والے خاندانوں کے لیے کھیل خود ایک اثاثہ بن جاتا ہے جو ورثوں میں منتقل ہوتا جاتا ہے، ان خاندانوں میں والدین اور ان کے بچیوں کے درمیان رابطے اور اعتماد کافی مضبوط ہوتے ہیں۔ تحقیق سے پتہ چلتا ہے کہ 6 سے 9 سال کی عمر تک لڑکیاں کھیلوں میں لڑکوں کے ہی برابر دلچسپی کا مظاہرہ کرتی ہیں۔ تاہم، 14 سال کی عمر تک پہنچتے پہنچتے لڑکیاں لڑکوں کی نسبت دوگنی شرح سے کھیلوں سے دستبردار ہو جاتی ہیں جو اُن کے کھیلوں کے تجربات کو متاثر کرتے ہیں۔

لڑکیوں کے کھیلوں کے تجربات کو متاثر کرنے والے عوامل:

ویسے تو کہیں سارے عوامل لڑکیوں کے کھیلوں کے تجربات کو متاثر کرتے ہیں لیکن اگر دیکھا جائے تو دنیا بھر میں 1.3 ملین لڑکیوں کے پاس لڑکوں کے مقابلے میں ہائی اسکولوں میں کھیل کھیلنے کے لیے کم مواقع ہوتے ہیں۔ ہائی اسکول اور کالجوں میں جسمانی تعلیم کی کمی اور کھیل کھیلنے کے محدود مواقع کا مطلب ہی یہی ہے کہ لڑکیوں کو کھیل کھیلنے کے لیے کہیں اور دیکھنا پڑتا ہے، کوئی ایسی جگہ جو کہ ان کے آس پاس موجود نہیں ہے یا اس تک رسائی اُن کے بس کی بات نہیں ہے۔

اکثر اوقات ان کے گھروں کے قریب کھیل کھیلنے کے لیے مناسب سہولیات تک رسائی کی کمی کی وجہ سے لڑکیوں کے لیے کھیلوں میں مشغول ہونا زیادہ مشکل ہوتا ہے۔ سب سے زیادہ مسئلہ ان کے لیے اخراجات کا آ جاتا ہے جو وہ خود سے پورا نہیں کر پاتی ہیں اس کے لیے بھی انہیں اپنے بڑوں کی طرف دیکھنا پڑتا ہے اور بہت کم خاندانوں میں لڑکیوں کو کھیلنے کے لیے مالی امداد فراہم کیے جاتے ہیں۔

چونکہ کھیلوں میں حصہ لینے کے لیے کسی ’خاص‘ جگہ کی ضرورت ہوتی ہے اور بہت سی لڑکیوں کے لیے، خاص طور پر شہری ماحول میں، اُس خاص یا مخصوص جگہ کا مطلب ہی غیر محفوظ ماحول ہے۔ کھیلوں کے میدان تک سفر کرنا یا میلوں دور کسی اچھی سہولت سے بھرپور جگہ تک پہنچنے کا کوئی ذریعہ نہ ہونا لڑکیوں اور اس کے خاندان کے لیے گھر میں رہنے کا واحد راستہ بن جاتا ہے۔ مختلف پیش رفتوں کے باوجود بھی ہمارے سماج میں جنسی رجحان اور خواتین کھلاڑیوں کے ساتھ صنفی شناخت کی بنیاد پر امتیازی سلوک اب تک برقرار ہے۔

کھیل کے میدان میں لڑکیوں کو سماجی بدنامی، اپنے کارکردگی کی منفی تشخیص، یا سماجی طور پر کمزور یا نازک صنف کا طعنہ ان کے لیے بہت سارے مشکلات پیدا کرتے ہیں، یہاں تک دیکھا گیا ہے کہ اگر وہ لڑکوں کے ساتھ غلطی سے کھیلیں بھی تو ان پر ، ”جنس پرستی“ کے ٹیگ تک لگائے جاتے ہیں اور یہ خوف انہیں مزید کھیلوں کی دنیا سے باہر کرنے کے لیے کافی مضبوط ہتھکنڈہ ہوتا ہے۔

جیسے جیسے لڑکیاں بڑی ہوتی ہیں، ان کے کھیلوں کے تجربے کا معیار گرتا جاتا ہے۔ کیونکہ ایک مخصوص عمر تک وہ اپنے پوزیشن کو اس میدان میں برقرار رکھنے کی جہد تو کر سکتی ہیں، مگر شادی شدہ یا حاملہ ہونے کے بعد انہیں اس میدان میں کوئی اہمیت نہیں دی جاتی۔ ان کے اپنے صنف یا کمیونٹی میں معیاری، تربیت یافتہ کوچز کے دستیابی کی کمی ہوتی ہے، زیادہ تر اپوزیشن کوچز انہیں سکھانے کا ذمہ دار ہوتے ہیں اور وہ لڑکوں کے پروگراموں پر اپنی توجہ زیادہ مرکوز کرتے ہیں کیونکہ انہیں لگتا ہے کہ لڑکے لڑکیوں کی نسبت زیادہ وقت فراہم کریں گے۔

لڑکیوں کی بہت سی پروگراموں کے لیے ساز و سامان، اور یہاں تک کہ یونیفارم کے لیے بھی فنڈز فراہم نہیں کیے جاتے ہیں اس لیے بھی ان کی اس میدان میں ترقی حاصل کرنے اور کھیل سے لطف اندوز ہونے کی صلاحیت مزید کم ہو جاتی ہے۔ اچھے کھلاڑی جو کے آگے چل کر نئی نسل کے لیے رول ماڈل بن سکتی ہیں وہ کسی بھی عمر میں دباؤ کا شکار ہو کر کھیلوں کے میدان کو چھوڑ جاتی ہیں جس کی وجہ سے نئے نسل کی نوجوان لڑکیوں کی صحت مند جسمانی سرگرمیوں میں حصہ لینے کی مضبوط حوصلہ افزائی نہیں ہو پاتی۔

کھیلوں میں خواتین کے شرکت کی ایک طویل تاریخ ہمیں قدیم یونان سے ملتی ہے، تاہم، یہ سفر مستقل طور پر بہت سے چیلنجوں کا شکار رہا ہے۔ پوری تاریخ کا اگر تجزیہ کیا جائے تو خواتین کھلاڑیوں نے اپنے مرد ساتھیوں کے مقابلے میں مقبولیت میں تفاوت کا سامنا کیا ہے۔ انہوں نے غیر مساوی فنڈنگ کے ساتھ ساتھ کھلے عام امتیازی سلوک اور یہاں تک کہ جنس پرستی بھی برداشت کی ہے۔ مزید برآں، خواتین کو کھیلوں کے اہم اداروں، فیصلہ ساز اداروں، اور کھیلوں میں قائدانہ عہدوں پر واضح طور پر کم نمائندگی دی گئی جو کسی نہ کسی حد تک اب بھی جاری ہے۔ اگرچہ خواتین کھلاڑی پہلی بار 1900 ء میں پیرس میں ہونے والے اولمپک گیمز میں بطورِ حصہ دار نمودار ہوئیں، لیکن پیشہ ورانہ کھیلوں میں 20 ویں صدی میں انہوں نے بھی اپنے قدم مکمل طور پر جمائے۔

کھیلوں میں خواتین کی ناقابلِ رشک پوزیشن حالیہ دنوں میں کئی مواقع پر توجہ میں آئی ہے۔ خاص طور پر قابل ذکر واقعہ آسٹریلیا میں 2023 ء کے فیفا ویمنز ورلڈ کپ میں سامنے آیا، جہاں فٹبال فیڈریشن کی صدر نے اسپین کی فاتح قومی ٹیم کے گول اسکور کرنے والوں میں سے ایک کھلاڑی کو ہونٹوں پر بوسہ دے کر مبارکباد دی۔ نہ صرف عوام نے اس عمل کو مکمل طور پر نامناسب قرار دیتے ہوئے تنقید کیا، بلکہ فیفا نے اس شخص کو تین سال کے لیے فوری معطل کر دیا۔

دنیا بھر میں بہت سی آوازوں نے اسے جنسی زیادتی کے مترادف ایک سنگین خلاف ورزی قرار دیا۔ اس واقعے نے کھیلوں کی دنیا میں خواتین کے مقام، کھیلوں کے کلبوں اور انجمنوں میں اقتدار کے عہدوں پر قابض افراد کی طرف سے جو کہ مردوں کے پاس ہیں، خواتین کھلاڑیوں کے ساتھ ناروا سلوک پر ایک وسیع بحث کو متحرک کیا۔ یہ دیکھتے ہوئے کہ بین الاقوامی سطح پر فٹ بال ایک کھیل کے طور پر کھڑا ہے جو بنیادی طور پر مردوں کے زیر انتظام ہے، مرد اور خواتین دونوں ساتھیوں اور وسیع تر عوام کی طرف سے اٹھائے گئے سوالوں نے خواتین کھلاڑیوں کی زبردست حمایت نے کھیلوں میں ان کے درپیش چیلنجوں کو تسلیم کرنے اور ان کے لیے حالات کو بہتر بنانے کی طرف ایک اہم پیش رفت کا نشان لگایا۔

اس میدان میں اپنے ساتھ ہونے والے بدسلوکیوں کے بارے میں خواتین کھلاڑی برسوں سے شکایتیں کر رہی تھیں، لیکن ان مسائل اور شکایتوں کو اس وقت تک سنجیدگی سے نہیں لیا گیا جب تک کہ وہ ناروا سلوک دنیا کی آنکھوں کے سامنے نہیں آیا۔ یہ خود اس بات کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ غلط ہونے پر ہمیشہ مزاحمتی تحریکوں نے جنم لیا ہے۔ لیکن آیا اس طرح کے واقعات ہی صرف ان کھلاڑیوں کے ساتھ غلط ہونے کی نشان دہی کرتے ہیں یا انہیں اس میدان سے دور رکھنے کے لیے جس طرح ثقافتی اقدار و روایات اور مذہبی رسومات کا نام لے کر انہیں روکا جاتا ہے کیا وہ بھی ان لڑکیوں کے ساتھ زیادتی کی علامتیں ہیں؟

لیاری جسے کراچی کا دل بھی کہا جاتا ہے، 1980 ء کی دہائی تک جمہوری، سیاسی اور سماجی سرگرمیوں کا مرکز رہا، گو کہ نوے اور دو ہزار کے دو دہائیوں میں یہ نمایاں طور پر عدم تحفظ کا شکار رہا۔ لیکن یہاں کے رہائشیوں نے اپنی شناخت کو برقرار رکھنے کے لیے متحرک ہو کر ہر میدان میں خود کو منوایا۔ اپنی پہچان منوانے کے لیے یہاں رہنے والی نوجوان خواتین کھلاڑی بھی کھیلوں میں شاندار کارکردگی کا مظاہرہ کرتی رہیں ہیں۔ اب بھی کہ کراچی کا پورا شہر بدستور ہنگامہ خیز ہے، لیاری میں رہنے والے کھلاڑی مختلف کھیلوں میں نمایاں پیشرفت کرنے میں مصروفِ عمل ہیں۔

لیاری میں لڑکیاں نہ صرف فٹ بال، باکسنگ اور کراٹے بلکہ جمناسٹک اور سائیکلنگ کے میدان میں بھی اپنی مثال آپ ہیں۔ حالانکہ سہولیات کے فقدان کی وجہ سے انہیں کہیں مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے جب کہ وہ بھی جدید تربیت سے استثناء ہونا چاہتی ہیں اور اس کے لیے وہ جدید سہولیات کی ضرورت پر زور دیتے ہیں۔ پچھلے دنوں سندھ بھر سے لیاری کی جمناسٹک لڑکیوں نے بہترین کارکردگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے نیشنل لیول کی ٹرافی اپنے نام کروا لیا۔ جب کہ جدید سہولیات تو بہت دور کی بات اُن کے لیے ریاستی سطح پر ایک جگہ کی ناہمواری کی مثال ہی کافی ہے۔

فٹبال اور باکسنگ میں لیاری کی کئی لڑکیاں بین الاقوامی کھیل کے میدانوں میں جگہ بنا چکی ہیں۔ ایک بین الاقوامی خواتین باکسر سمیعہ بلوچ کا کہنا ہے کہ ”اس کھیل کو میں نے اپنا نام کمانے اور اپنا دفاع کرنا سیکھنے کے لیے منتخب کیا ہے، اس کھیل نے مجھے خود اعتمادی اور دوسروں کے ساتھ مل کر کام کرنے کا عمل سکھایا۔“ پاکستان کی خواتین کی فٹ بال ٹیم میں کھلاڑیوں کی ایک قابل ذکر تعداد لیاری سے تعلق رکھتی ہے، جنہوں نے بین الاقوامی مقابلوں میں ملک کی فتوحات میں اہم کردار ادا کیا۔ ان خواتین کھلاڑیوں نے کامیابی کی موجودہ سطح تک پہنچنے کے لیے کافی چیلنجز کا سامنا کیا ہے اور اب بھی کر رہی ہیں۔

ویسے تو خواتین، پوری تاریخ میں، برابری کے لیے مسلسل جدوجہد کرتی رہی ہیں اور اگرچہ کھیل ہمیشہ سے موجود ہیں، لیکن یہ ایک مردانہ ڈومین سمجھا جاتا رہا ہے جہاں خواتین کو تعصب، تضحیک اور بنیادی طور پر اخراج کی میراث کا نشانہ بنایا گیا ہے۔ ”خواتین کھلاڑیوں“ کے بارے میں سن کر ، لوگ ان پر حساس یا کمزور ہونے کا لیبل لگاتے ہیں، جس نے ان کی پہچان کو برقرار رکھنے کے لیے سماجی قبولیت کو مکمل طور پر روک دیا ہے۔ بالخصوص ہمارے معاشرے کے طبقات کا مطالبہ ہے کہ مردوں اور عورتوں کو قائم کردہ صنفی کرداروں اور ڈومینز کی تعمیل کرنی چاہیے جہاں مردوں سے آزادانہ طور پر کھیلنے کی توقع کی جاتی ہے، جب کہ خواتین سے اطاعت گزار نگہداشت کرنے کی توقع کی جاتی ہے۔

یہ دقیانوسی تصورات، خاص طور پر خواتین کے کھیلوں کے حوالے سے، آنے والے دنوں میں خواتین کھلاڑیوں میں مزید کمی کا باعث بنتے جائیں گے۔ کھیلوں کے ’مردوں کے زیر تسلط‘ میدان میں قدم رکھنے کے لیے چھڑی کا مختصر اختتام حاصل کرنا خواتین کے لیے کوئی نیا موضوع نہیں ہے۔ ہماری خواتین کو ویسے بھی اتنے مواقع نہیں ملتے جتنے مردوں کو ۔ یہاں تک کہ جب انہیں کھیل کھیلنے کا موقع ملتا ہے، تب بھی ان کے ساتھ جانبداری کا سلوک کیا جاتا ہے اور ان سے ’جنسی طور پر مناسب‘ برتاؤ کی توقع کی جاتی ہے۔ اس کی موجودہ مثال گزشتہ مہینے دسمبر میں لیاری میں ہونے والے تین روزہ آل سندھ ویمن سنوکر چیمپئن شپ پنک فٹ بال ٹورنامنٹ میں دیکھا گیا۔

اس ٹورنامنٹ کی سب سے اہم بات یہ تھی کہ بین الاقوامی سطح پر صنفی تشدد کے خلاف ہونے والے 16 روزہ مہم کے درمیان بالخصوص پنک ٹورنامنٹ کے نام سے رکھوایا گیا۔ جو اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ حکومتی سطح پر خواتین کے خلاف تشدد کے خاتمے کو کہیں نہ کہیں اہمیت کا حامل گردانا جاتا ہے۔ اس ٹورنامنٹ میں خواتین کی 16 فٹ بال ٹیموں کو دیکھنا خوش آئند بات تھی، سندھ کے مختلف اضلاع سے 320 کھلاڑیوں نے اس ٹورنامنٹ میں حصہ لیا۔

اس چیمپئن شپ میں سندھ بھر سے لاڑکانہ، نواب شاہ، بے نظیر آباد، حیدرآباد، میرپور خاص، سکھر سمیت مختلف شہروں کی ٹیموں نے اپنے اپنے ڈسٹرکٹ اور علاقوں کی نمائندگی کی جب کہ کراچی کے نو کلبوں نے بھی حصہ لے کر اس میں چار چاند لگا دیے۔ یہ نیٹ ورکنگ کی ایک بہترین مثال تھی کہ تمام صوبے کے کھلاڑیوں کی میزبانی لیاری ٹاؤن کے خواتین کھلاڑیوں نے کی۔ لیاری کے لیے فخر کی بات ہونی چاہیے کہ لیاری انٹرنیشنل فٹبال اسٹیڈیم کی افتتاح ہی صوبائی لیول کے ٹورنامنٹ سے کی گئی جس کی افتتاح پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو نے کی۔

لیکن افسوس کی بات ہے کہ جس پارٹی کی حکومت نے اس ٹورنامنٹ کا انعقاد کروایا اسی پارٹی کے نمائندوں کو ثقافتی اور مذہبی اقدار کی پاسداری کرنے کی حامی بھرنی پڑی جو کہ انتہا پسندی کی علامت ہے۔ جبکہ اسی ٹورنامنٹ میں پارٹی کے چیئرمین نے اپنی تقریر میں نہ صرف نوجوانوں کو انتہا پسندی کا ہراول دستہ قرار دیا بلکہ انہوں نے اعلان کیا کہ ”ملک کے نوجوانوں کو انتہا پسندی کی طرف دھکیلا جا رہا ہے، تاہم وہ انتہا پسندانہ نظریات سے کنارہ کشی اختیار کریں اور ملک کی تعمیر و ترقی میں اپنا کردار ادا کریں۔“

ہمارے یہاں مذہبی اور ثقافتی عوامل سماجی رویوں پر بہت زیادہ اثر انداز ہوتے ہیں، جو اکثر ایسی رکاوٹیں پیدا کرتے ہیں جو خواتین کی کھیلوں کی سرگرمیوں میں حصہ لینے کی آزادی کو محدود کرتے ہیں۔ روایتی اصول اور صنفی کردار خواتین کی کھیلوں کی سہولیات اور مواقع تک رسائی کو محدود کرتے ہیں۔ یہ لیاری کے اپنے لیے ایک بہت بڑا چیلنج ہے کہ دقیانوسی سوچ مختلف ذرائع سے یہاں پر ترقیاتی منصوبوں کو عملی جامہ پہنانے سے روک رہے ہیں جب کہ لیاری کے کھلاڑی خواہ لڑکے یا لڑکیاں، ہر کھیل کے میدان میں اپنی بہترین کارکردگی کا مظاہرہ کر کے نہ صرف اپنی بلکہ اپنے علاقے اور ملک کی پہچان منوانے میں کوشاں ہیں۔

فیڈرل اور باؒلخصوص سندھ حکومت جو کہ خواتین کی ترقی کے لیے کوشاں ہے، اسے چاہیے کہ چھوٹے علاقوں میں رہنمائی یا قیادت ایسے لوگوں کو دے جو ترقی کے مطلب سے واقف ہوں، جو اپنے اپنے علاقوں کی سطح پر خواتین کھلاڑیوں کے لیے جدید سہولیات فراہم کرنے میں اپنا کردار ادا کریں۔ خواتین کھلاڑیوں کی ترقی پر کام کرنے کے لیے سب سے پہلے سماج کے اس دقیانوسی سوچ پر کام کرنے کی ضرورت ہے جو انہیں آگے آنے سے روکتی ہے۔ حکومت کو چاہیے کہ نہ صرف لیاری بلکہ تمام ملک کے خواتین کے کھیلوں کے لیے ایک معاون مالیاتی نظام کو تشکیل دے۔

کھیل کے میدان میں لڑکیوں / خواتین کی زیادہ سے زیادہ شمولیت کے لیے میڈیا میں خواتین کھلاڑیوں کی زیادہ نمائندگی، محدود ثقافتی اصولوں کو چیلنج کرنے کے لیے کمیونٹی میں بیداری مہم، اسکولوں میں جسمانی تعلیم کے جامع پروگراموں کا تعارف، اور کھیلوں کے بنیادی ڈھانچے میں سرمایہ کاری میں اضافہ اور ہائی اسکول اور کالج کی سطح پر لڑکیوں کے لیے مواقع شامل ہونا چاہیے۔

ہم سندھ حکومت کے خواتین کے حوالے سے اٹھائے گئے اقدامات کو سراہتے ہیں، یہ یقیناً ایک ایسے معاشرے کی تشکیل کے وسیع تر وژن کی نشاندہی کرتے ہیں جہاں خواتین نہ صرف محفوظ ہوں بلکہ زندگی کے تمام شعبوں میں بامعنی کردار ادا کرنے کے لیے با اختیار ہوں۔ پنک بس، صحت سے متعلق آگاہی مہم، اور خواتین کھلاڑیوں کے لیے بنائے گئے چیمپئن شپ جیسے منصوبوں کے ذریعے، حکومت اہم رکاوٹوں کو دور کر رہی ہے اور خواتین کی ترقی اور شرکت کے لیے نئی راہیں کھول رہی ہے۔

اگرچہ مسائل اور چیلنجز باقی ہیں، اور ان مسائل کو پروان چڑھانے میں بھی حکومتی سطح پر موجود منفی سوچ کے لوگوں کا ہاتھ ہے۔ لیکن ہم پُرامید ہیں کہ اس طرح کے مثبت اقدامات پر مزید کام کرنے کے لیے حکومت میں موجود نوجوان نسل اپنی سطح پر ہر ممکن کوشش کریں گے۔ اس طرح کے مثبت اقدامات سندھ، خاص طور پر کراچی کو خواتین کے لیے زیادہ مساوی جگہ بنانے کے لیے مضبوط عزم کی عکاسی کرتے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments