کافکا کا میٹا مارفوسس


تصور کریں کہ آپ رات کو طویل اور پر سکون نیند لیں اور صبح اٹھنے پر احساس ہو کہ آپ انسان نہیں رہے بلکہ ایک کاکروچ نما کیڑے میں بدل چکے ہوں تو آپ پہ کیا گزرے گی؟ ایسا سوچنا ہی کتنا عجیب لگے گا۔ میٹامارفوسس کافکا کے مختصر ناول یا طویل کہانی کا مرکزی گردار ”گریگر سامسا“ ایک صبح اسی صورتحال سے دوچار ہوتا ہے۔ آنکھ کھلنے پر اسے احساس ہوتا ہے کہ وہ کاکروچ نما کیڑے میں بدل چکا ہے۔ اسی سے ناول کا آغاز ہوتا ہے۔ کہانی دلچسپ مگر پرسوز اور سنجیدہ انداز میں آگے بڑھتی ہے۔ اپنے مختصر خاندان کے درمیان رہ کر وہ اپنی نئی شناخت بطور کاکروچ کے ساتھ جینا چاہتا ہے اور اس کے لئے دونوں فریق دو طرفہ کوشش کرتے بھی نظر آتے ہیں۔ آخر کار وہ اور اس کا خاندان دونوں عاجز آ جاتے ہیں۔ یوں ایک شب کے پچھلے پہر گریگر خاموشی سے جان دے دیتا ہے جو دونوں فریقوں کے لئے خاموش اطمینان کا استعارہ بنتا ہے۔

کافکا کے اس مختصر ناول کی خوبی یہ ہے کہ اس نے اس کیڑے کے احساسات کو بے حد خوبصورتی سے بیان کیا ہے۔ لگتا یوں ہے کافکا نے واقعی کاکروچ بن کر احساسات کی نمائندگی کی ہے۔ اس پر مجھے اپنے ایف سی کالج کے استاد رشید احمد انگوی مرحوم یاد آتے ہیں جو کہتے تھے کہ انسان کا نظام دوران خون سمجھنا ہے تو خود کو ایک خون کا سیل سمجھیں اور مطالعاتی سفر پر خون کی نالیوں میں روانہ ہو جائیں۔ گھومتے گھماتے نالیوں سے گزرتے، دل کے خانوں کو اندر سے دیکھیں، نالیوں کا سائز چیک کریں، ساتھی خلیوں کی شکلیں دیکھیں، ان کے کردار کو سمجھیں اور اپنی شکل سے موازنہ کریں۔ پھر جو آپ کو سمجھ آئے گی وہ باہر بیٹھ کر درجنوں لیکچر یاد کرنے سے بہتر ہو گی۔ اسی مثال کی طرح ناول لکھتے ہوئے لگتا ہے کہ کافکا نے بھی خود کو کاکروچ کی جگہ پر رکھ کر ناول لکھا ہے۔ اس خوبی سے لکھ ہے کہ آپ کو کاکروچ کی حسیات تک کی سمجھ آتی ہے۔

اسی منظر نامہ پر مجھے انتظار حسین کا افسانہ ”آخری آدمی“ بھی یاد آ رہا ہے جہاں ایک صبح ایک بستی کے انسانوں پر انکشاف ہوتا ہے کہ ”الیعذر“ کی جگہ پر ایک بندر اس کی خوابگاہ میں موجود ہے۔ سب حیران اور خوفزدہ ہوتے ہیں کہ الیعذر بندر بن گیا ہے۔ پھر آہستہ آہستہ سب بندروں میں تبدیل ہوتے جاتے ہیں یہاں تک کہ الیاسف آخری آدمی بچتا ہے جو انسانی جون میں زندہ رہنے کی کوشش کرتا ہے۔ وہ مزاحمت کرتا ہے اور کوشش کرتا ہے کہ وہ ایسا کوئی کام نہ کرے جس کی وجہ سے دوسرے بندر بن جاتے ہیں۔ بالآخر وہ بھی مزاحمت ترک کر کے بندر بن جاتا ہے کیوں کہ جہاں اور آدمی نہ ہو وہاں پر کوئی اکیلا آدمی کیا کرے گا۔

کافکا کا ”گریگر“ کاکروچ میں بدلا یا انتظار حسین کا ”الیاسف“ کا بندر بننا اس حقیقت کا اظہار ہے کہ انسان ہوں یا جانور وہ ایک دوسرے کو شناخت عطا کرتے ہیں اور اپنی جون کے بغیر زندہ نہیں رہ سکتے۔ بالکل اس شعر کی طرح

میرے ہونے سے ہی منسوب ہے ہونا تیرا
آئینہ نہ ہو تو دیکھنے والا کچھ بھی نہیں

کافکا کا بچپن بہت برا گزرا جس میں اس کے باپ کا غیر مشفقانہ رویہ شامل تھا۔ اس کی اسی ابتدائی زندگی کی خلش اس کے عظیم ادیب ہونے کا باعث بنی جس کی جھلک اس کے اس ناول سمیت دوسرے ناولوں میں بھی نظر آتی ہے۔ انتظار حسین بھی ایسی کیفیات سے گزرے جن کا کرب ان کی تحریروں میں جھلکتا ہے۔ یاد رہے کافکا نے اپنا 90 فیصد تخلیقی کام اپنی زندگی میں ہی جلا دیا تھا۔ بچا کھچا ماسٹر پیس کا زیادہ حصہ اس کی 40 سال کی عمر میں وفات ( 1929 ) کے بعد شائع ہوا۔

Franz Kafka

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments