فرانسیسی ادیب وکٹر ہیوگو کا ناول پھانسی
وکٹر ہیوگو ( 1802۔ 1885 ) فرانس کے نامور ادیب، شاعر، ڈرامہ نویس اور سیاست دان تھے۔ وہ اپنے رومانوی اندازِ تحریر کی وجہ سے مشہور ہوئے۔ انہیں ان کے عہد کا عظیم ترین فرانسیسی ادیب گردانا جاتا ہے۔ انہوں نے پہلے وکالت کی تربیت حاصل کی مگر پھر ادبی دنیا کی طرف راغب ہو گئے۔ ان کے تخلیق کردہ ادب کو قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ انہیں موسیقی سے بھی گہرا لگاؤ تھا اور وہ اپنے شعری مجموعوں کی وجہ سے بھی جانے جاتے ہیں۔
روسی ادیب و فلسفی فیودور دستوفسکی کے ہیوگو کے بارے میں تاثرات: ”بے شک ہیوگو نے جو کچھ بھی لکھا ہے اس میں سب سے زیادہ حقیقت و سچائی ہے“ ۔
اس ناول کے مترجم سعادت حسن منٹو مصنف کے بارے میں اپنی رائے دیتے ہوئے لکھتے ہیں : ”کتاب کا اندازِ تحریر پڑھنے والوں کے دماغ سے گزر کر ان کے دل پر منقش ہو جاتا ہے۔ کتاب فی الحقیقت بین الملی المناک داستان ہے۔ قانون دان طبقہ اور فطرتِ انسانی سے دل چسپی لینے والے حضرات کو چاہیے کہ وہ اس کتاب کا مطالعہ ضرور کریں“ ۔
پہلی بار یہ ناول فرانسیسی زبان میں 1829 میں چھپا۔ 1840 میں اس کا پہلا انگریزی ترجمہ جارج ولیم میک آرتھر رینالڈز نے کیا۔ اس کا پہلا اردو ترجمہ سعادت حسن منٹو نے 1933 میں کیا۔ اگر عنوان کا بامعنی ترجمہ کیا جائے تو وہ ہو گا ’ایک مجرم کی آخری رات‘ مگر منٹو نے اسے ’سرگزشتِ اسیر‘ کا نام دیا جو بعد میں ’پھانسی‘ کے نام پر منتقل ہو گیا۔ اس کے حالیہ اردو ایڈیشن کے 152 صفحات ہیں۔
ناول کا پلاٹ ایک بے نام مجرم کی کہانی پر مبنی ہے، جو سزائے موت کا منتظر ہے اور اپنی زندگی کے آخری لمحات کے کرب میں مبتلا ہے۔ وہ نفسیاتی عذاب سے گزرتے ہوئے مسلسل سوچ رہا ہے۔ اسے موت کا خوف ہے اور کھوئی ہوئی آزادی اور اپنے خاندان خاص طور پر اپنی بیٹی کے مستقبل کے بارے میں فکر مند بھی ہے۔ ناول کا اختتام مجرم کی موت پر ہوتا ہے مگر یہ انجام قارئین کے ذہنوں میں کئی اخلاقی سوالات اور انسانی زندگی کی قدر کے بارے میں گہری فکر چھوڑ جاتا ہے۔
اگر ہیوگو کے اسلوب کی بات کی جائے تو ان کی ادبی عظمت اور انسان دوست تصورات کی بدولت انہیں منفرد مقام حاصل ہے۔ ان کی تحریریں انصاف، موت، آزادی اور سماجی مسائل پر غور و فکر کو پروان چڑھاتی ہیں۔ وہ اپنے کرداروں کی اندرونی کشمکش کو بڑی حساسیت کے ساتھ پیش کرتے ہیں۔ ان کی جزئیات نگاری ان کے اسلوب کا اہم اور منفرد پہلو ہے۔ وہ چھوٹی سے چھوٹی تفصیلات کو بھی بڑی مہارت اور باریکی سے بیان کرتے ہیں، جس سے قاری کو کہانی یا منظر کی گہرائی میں اترنے کا موقع میسر آ جاتا ہے۔ قصہ مختصر ان کا اسلوب ہر دور کے قارئین کو متاثر کرتا ہے اور یہ ان کی ادبی عظمت کی پختہ دلیل ہے۔
یہ ناول ایک طاقتور اور متاثر کُن بیانیہ ہے جس میں سزائے موت کو ہدفِ تنقید بنایا گیا ہے۔ اپنے منفرد بیانیے اور اصلاحی پہلووں کی وجہ سے یہ ادب کی دنیا میں انقلابی اہمیت کا حامل ہے کیوں کہ اس میں انصاف، اخلاقیات اور انسانی تکلیف جیسے اہم موضوعات پر بحث کی گئی ہے۔
ہیوگو نے مرکزی کردار کو بے نام رکھا ہے اور اس کے جرم یا معصومیت کی تفصیلات کو بھی دانستہ طور پر پوشیدہ رکھا ہے۔ اس کا ماننا ہے کہ سزائے موت اتنی غیر انسانی ہے کہ اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ سزا پانے والا کون ہے اور اس سے کیا جرم سرزد ہوا ہے۔ اس کے علاوہ ہیوگو کا مرکزی کردار کو بے نام رکھنا دو پہلووں پر روشنی ڈالتا ہے، ایک یہ کہ وہ ہر اس شخص کی نمائندگی کرے جسے سزائے موت دی جاتی ہے، دوسرا وہ نظام انصاف کی بے رحمی کو بھی ظاہر کرے۔
وہ عوامی پھانسیوں کو بھی ہدفِ تنقید ٹھہراتا ہے اور انہیں غیر مہذب اور ذلت آمیز قرار دیتا ہے۔ وہ ان تماشائیوں کی مذمت کرتا ہے جو ان مناظر سے لطف اندوز ہوتے ہیں اور وہ اس قانون کو غیر انسانی اور ظالمانہ قرار دیتے ہوئے اسے ختم کرنے پر زور دیتا ہے۔ ناول کا مطالعہ کرتے ہوئے قاری ایک ایسے آدمی کے خیالات اور اندیشوں کا کھوج لگانے میں کامیاب ہو جاتا ہے جس کے بارے میں ہم شاید ہی سوچ سکتے ہوں۔
جب یہ ناول منظر عام پر آیا اس وقت فرانس سمیت یورپ بھر میں سزائے موت عام تھی۔ یہ ناول اس وسیع تحریک کا حصہ بنا جو نظام عدل میں اصلاحات اور سزائے موت کے خاتمے کے حق میں آواز اٹھا رہی تھی۔ ہیوگو نے موت کے قیدی کے دکھ اور تکلیف کو شدت سے پیش کیا ہے تاکہ قارئین میں ہمدردی و اخلاقی فکر کو ابھارا جا سکے۔ ان کا یقین تھا کہ ادب کے ذریعے عوامی رائے میں بدلاؤ لایا جا سکتا ہے جس سے سماج میں تبدیلی کی رفتار کو تیز کیا جا سکتا ہے۔ بطور ادیب وہ اپنی ذمے داری سمجھتے تھے کہ بے آواز لوگوں کو آواز دی جائے تاکہ رائج معاشرتی ضوابط کو چیلنج کیا جا سکے۔
اختتاماً یہ ناول سزائے موت کے انسانی پہلووں اور اس کے معاشرتی اثرات پر ایک لازوال دلیل ہے۔ ہیوگو قارئین کو ایک مجرم کے ذہن اور جذبات میں جھانکنے کا موقع فراہم کرتا ہے اور انصاف کے نام پر انسانی جان لینے کے اخلاقی اور جذباتی پہلووں پر غور کرنے کی تلقین کرتا ہے۔ یہ ناول ہمدردی اور انسانیت کی حرمت کو تسلیم کرنے کی ایک یاد دہانی ہے جو آج بھی معاشرتی اصلاحات کے لیے ایک مضبوط آواز ہے۔
- فلسطینی المیے پر غسان کنفانی کا ناولٹ دھوپ میں لوگ - 22/04/2025
- دی کائٹ رنر: دوستی، بے وفائی اور ندامت جیسے احساسات پر مبنی ایک اثر انگیز ناول - 27/03/2025
- موت کا دریا (افسانہ) - 23/03/2025
Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).