اردو میں نثری تراجم کی روایت
دنیا میں مخلتف زبانوں کے ادبی فن پارے دیگر علمی سیاسی، تہذیبی اور مذہبی کتب کا دوسری زبانوں میں تراجم کی روایت بہت پرانی ہے۔ جن کی وجہ سے دنیا کی مختلف زبانوں نے ایک دوسرے سے نظریات حاصل کیے۔ مختلف زبانیں بولنے والوں کی روایات، مفادات اور نفسیات سے آگاہی حاصل ہوئی۔ بلاشبہ ہر زبان میں تراجم کی روایت مختلف ہے۔ اس کا تعلق زبانوں کی عمروں اور ان میں علمی ذخائر سے ہے۔
لفظ ترجمہ کے لیے انگریزی زبان میں ٹرانسلیشن استعمال ہوتا ہے۔ ٹرانسلیشن کا لفظ مغرب کی جدید زبانوں میں لاطینی زبان سے آیا ہے۔ اس کے لغوی معنی *پار لے جانا* کے ہیں۔ جب لاطینی ادبیات عربی میں منتقل ہوئیں تو اہل عرب نے ٹرانسلیشن کی جگہ پر ”ترجمہ“ کا لفظ اختراع کیا جس کے معنی تفسیر و تعبیر یا ایک زبان سے دوسری زبان میں نقل کلام ہے۔ تو یہ لفظ فارسی اور اردو میں عربی کے توسط سے آیا ہے۔
ہمیشہ سے انسان کی فطرت میں کھوج کرنے کا تجسس رہا ہے کسی نئے چیز کو پانا نامعلوم کو دریافت کرنا اور دریافت شدہ سے معرفت حاصل کرنا اس کی جبلت میں شامل رہا ہے۔ انسان کی اس جبلت نے اسے دیگر زبانوں کے علم کے حصول اور ان کے ادبی و علمی ذخائر تک رسائی حاصل کرنے پر مجبور کیا ہے۔ اس سے انسان نے دوسرے زبانوں کی تحریروں کو تراجم کرنا شروع کیا اس سے اور اس عمل سے زبانوں میں تراجم کی روایت آ گئی۔ تراجم کے اصطلاحی مفہوم کے حوالے سے کچھ آرا ذیل میں بیان کی جاتی ہیں۔
فارسی کی معروف لغت ”فرہنگ آنند راج“ میں لفظ ترجمے کا مفہوم کچھ اس طرح بیان کیا گیا ہے :
”لغتی را بلغت دیگر آوردن“
ڈاکٹر عبدالوحید ”انسائیکلوپیڈیا“ میں ترجمہ کے حوالے سے کچھ یوں رقم طراز ہیں :
”ترجمہ ایک زبان کو دوسری زبان کے قالب میں ڈھالنا یا ایک زبان کے مفہوم کو لفظاً معناً دوسری زبان کے مفہوم میں منتقل کرنا“ ۔
آکسفورڈ انگلش ڈکشنری ترجمے کے حوالے سے یوں بیان کرتی ہے :
”the action or process of turning from one language in to another“ .
انسائیکلو پیڈیا امریکہ کی کی گئی تعریف بھی ملاحظہ ہو
”The art of rendering a work of one language into another“ .
مرزا حامد بیگ کے بقول
”میرے خیال میں ترجمہ، ایک زبان میں پیش کردہ حقائق کو دوسری زبان میں منتقل کرنا ہے۔ کسی تحریر، تصنیف یا تالیف کو کسی دوسری زبان میں منتقل کرنے کا عمل ترجمہ کہلاتا ہے“ ۔
ڈاکٹر عطش درانی کے نزدیک:
”جہاں تک ترجمے کی تعریف کا تعلق ہے۔ اسے ہم ان الفاظ میں بیان کر سکتے ہیں کہ ترجمہ کسی زبان پر کیے گیے ایسے عمل کا نام ہے۔ جس میں کسی اور زبان کے متن کی جگہ دوسری زبان کا متن پیش کیا جائے“ ۔
اس حوالے سے فاخرہ نورین کا نقطہ نظر کچھ یوں ہے
” ترجمہ محض اصل مصنف اور متن سے وفاداری اور ہم پلہ الفاظ کہ فراہمی نہیں بلکہ ترجمہ متون کی اہمیت، جدت اور تنوع میں ان کے کردار کا از سر نو جائزہ بھی ہے“ ۔
مذکورہ بالا تمام آرا ترجمے کے مفاہیم کو ہر طرح سے سمیٹ لیتے ہیں۔
کچھ لوگ کہتے ہیں کہ ترجمہ غداری کا نام ہے۔ کچھ کہتے ترجمہ ایک پل کا نام ہے جو دو تہذیبوں کو آپس میں ملاتا ہے۔ کچھ نے کنجی کہا ہے۔ اور کچھ لوگوں نے اسے کھڑکی سے مشابہت دی ہے۔ کہ اس کے ذریعے دو تہذیبیں آر پار دیکھ سکتی ہیں۔
ترجمہ تمام انسانوں کو جاننے کا فن ہے۔ ترجمہ سے حقیقت کی جامع تصویر میں تبدیلی آ جاتی ہے۔ جب تہذیب فرسودہ ہو جاتی ہے اور زبانیں جمود کا شکار ہوتی ہیں تب ترجمہ انہیں نئی زندگی عطا کرتا ہے۔
ارسطو، سقراط، رینو، اقراطس آج زندہ فلاسفر نہ ہوتے اگر عربی میں ان کے علوم کے تراجم نہ ہوئے ہوتے۔ دنیا نے جس نسخے سے بوطیقا کو پہچانا وہ عربی نسخہ ہے یونانی نسخہ ناپید ہے۔
جس طرح عرب نے یونانیوں کے تراجم کیے ایسے ہی یورپیوں نے عربوں کے تراجم کیے اور یورپ سے تراجم کا سلسلہ اردو کے ساتھ ساتھ دیگر زبانوں میں بھی ہوئے۔
*اردو میں تراجم کی روایت*
تراجم سے ایک زبان نے دوسری زبان سے فائدہ حاصل کیا تراجم سے زبانوں کے ادبی ذخائر بڑھ گئے۔ اسی طرح اردو ادب میں بھی دیگر زبانوں کے ادبی فن پاروں کے تراجم سے فنی و فکری لحاظ سے وسعت پیدا ہو گئی۔ اردو ادب میں مثنوی اور قصیدے کا پلاٹ فارسی اور عربی سے آیا ہے۔ ابتدائی نثری داستانیں بھی ہندی اور فارسی سے اردو میں وارد ہوئی ہیں
سترہویں صدی عیسوی کے شروع میں اردو نثری تراجم کا آغاز ہوا ہے۔ بعض محققین کا خیال ہے کہ ملا وجہی کی کتاب ”سب رس“ نثر کے حوالے سے اردو کی پہلی کتاب جو کہ 1635 ء میں لکھی گئی۔ یہ کتاب دراصل شاہ جی نیشا پوری کی فارسی تصنیف ”دستور العشاق“ کا اردو ترجمہ ہے۔ مگر بعض محقق یہ کہتے ہیں۔ کہ شاہ میراں جی خدا نما (جس کا اصل نام سید میراں حسینی تھا) کی تصنیف اردو نثر میں سب سے پہلے نثری تصنیف ہے۔ انہی کو سب سے پہلے مترجم ٹھہراتے ہیں۔ ان کا تعلق دکن کے قطب شاہی دور سے تھا۔ شاہ میراں جی خدا نما نے 1603 ء میں عربی زبان کے مشہور مصنف ابو الفضائل عبداللہ بن محمد عین القضاة ہمدانی کی تصنیف ”تمہیدات ہمدانی“ کا اردو میں ترجمہ کیا۔ حامد حسن قادری نے داستان تاریخ اردو ” (ایڈیشن سوم) میں شاہ میراں جی خدا نما کے بارے میں بتایا ہے
”انھوں نے“ تمہیدات عین القضات ”مصنفہ عین القضات ہمدانی کا ترجمہ اردو میں کیا ہے جس کا نام شرح تمہید ہمدانی ہے۔“
جب کہ تاریخ ادب اردو جلد اول کے مصنف جناب ڈاکٹر جمیل جالبی نے اس ترجمے کو کسی نام سے موسوم نہیں کیا۔ انہوں نے کہا ہے
”اسی زمانے میں اپنے خیالات کی اشاعت و تبلیغ کے لیے چند رسالے تالیف و ترجمہ کیے جن میں“ چہار وجود ”،“ شرح تمہید ہمدانی ”اور“ رسالہ قربیہ ”قابل ذکر ہیں“ ۔
”میراں جی حسین خدا نما نے گیسو دراز کی اسی“ شرح ”کا دکنی اردو ( 1066 ہ) میں ترجمہ کیا ہے۔ “ شرح تمہیدات ہمدانی ” ( 1066 ہ) کا دکنی ترجمہ اصل فارسی“ شرح ”کے مطابق ہے۔ مقابلہ کرنے سے معلوم ہوا کہ کہیں کہیں وضاحت کے لیے خدا نما نے چند الفاظ یا چند جملوں کا اضافہ بھی کر دیا ہے۔ لیکن بحیثیت مجموعی یہ ترجمہ لفظی ہے“ ۔
اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ شاہ میراں جی خدا نما کی شرح تمہیدات ہمدانی ابوالفضائل عبداللہ کی عربی تصنیف تمہیدات ہمدانی کی فارسی شرح ہے جو خواجہ بندہ نواز گیسو دراز نے 1421 ء میں لکھی۔ اور شاہ میراں جی خدا نما نے خواجہ بندہ نواز گیسو دراز کی فارسی شرح کا اردو میں ترجمہ کیا۔ اس کا مطلب یہ کتاب فارسی سے ترجمہ شدہ ہے عربی سے نہیں۔ اس کے علاوہ حامد حسن قادری نے ابوالفضل کی عربی تصنیف کو تمہیدات عین القضاة لکھا ہے۔ جمیل جالبی اسے تمہیدات ہمدانی لکھتے ہیں۔
ان سب دلائل سے ایک بات واضح ہوتی ہے کہ نثری تراجم کی روایت منظوم تراجم سے پہلے قائم ہو چکی ہے۔ اس کے بعد 1673 ء میں میراں یعقوب نے فارسی کتاب ”شمائل الاتقیا“ کا اردو میں ترجمہ کیا اس میں تصوف کے مسائل پر بات کی گئی ہے۔ منظوم تراجم میں سب سے پہلے ملک خوشنود نے امیر خسرو کی فارسی مثنوی دہشت بہشت کا ترجمہ 1640 ء میں ”جنت سنگار“ کے نام سے کیا۔ یعنی منظوم تراجم کا آغاز سترہویں صدی کے وسط میں جب کہ نثری تراجم کا سلسلہ سترہویں صدی کے آغاز سے شروع ہوا ہے۔
قطب شاہی عہد کے بعد اٹھارہویں صدی عیسوی میں دکن میں مغلیہ دور حکومت میں شاہ ولی اللہ قادری نے شیخ محمد کی فارسی تصنیف ”معرفت السلوک“ کا اردو میں ترجمہ کیا یہ ترجمہ 1704 ء میں کیا گیا۔ اس کتاب میں تصوف کے مسائل بیان کیے گئے ہیں۔ اس دور میں محمد قادری کی فارسی میں معروف تصنیف ”طوطی نامہ“ کا اردو سمیت دیگر زبانوں میں بھی ترجمہ ہوا۔
اردو تراجم کا کام شمالی ہند میں بھی جاری تھا۔ فضل علی فضلی نے ملا حسین واعظ کاشفی کی فارسی کتاب ”روضتہ الشہدا کا اردو ترجمہ“ کربل کھتا ”کے نام سے کیا۔ یہ ترجمہ انھوں نے 1731 ء میں کیا۔ شمالی ہند میں شاہ رفیع الدین (حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی کے دوسرے صاحب زادے تھے ) اور شاہ عبدالقادر نے قرآن پاک کے اردو تراجم کر کے اردو تراجم کی روایت میں بڑا کارنامہ سر انجام دیا۔ شاہ رفیع الدین نے 1776 ء کے قریب قرآن کا ترجمہ اردو میں کیا۔ یہ ترجمہ لفظی، بے محاورہ اور دشوار قرار پایا۔ تاہم شاہ عبدالقادر کا ترجمہ جو 1795 ء میں ہوا اپنے ادائے فہم، صفائی اور اختصار کے لحاظ سے بہتر تھا۔
ارکاٹ کی اسلامی ریاست کے وزیر اعظم مولانا محمد غوث نے فقہ حنفی کا اردو میں ترجمہ کیا۔ غوث اپنے زمانے کے عالم تھے۔ ارکاٹ دربار کے قاضی بدر الدولہ بھی کئی کتابوں کے مصنف تھے۔ قرآن پاک کے مترجم اور مفسر تھے یہ تراجم اٹھارہویں صدی کے آخر میں ہوئے۔
اس کے بعد ایک مستقل کتاب کی صورت میں عطا حسین خان تحسین نے کتاب ”نو طرز مرصع“ لکھی جو فارسی کے قصہ چہار درویش کا اردو ترجمہ ہے۔ یہ کتاب 1798 ء میں لکھی گئی۔ بقول حافظ محمود شیرانی قصہ چہار دو ریش بنیادی طور پر محمد علی معصوم کی فارسی تصنیف ہے۔ نو طرز مرصع میں ترجمے کے باوجود فارسی اور عربی کی تراکیب بکثرت پائی جاتی تھیں۔ کہیں کہیں صاف طرز اظہار بھی موجود ہے۔ زمانی اعتبار سے قصہ چہار درویش کو پہلے دکن میں مولوی قادر علی ”مصباح الصلواة“ کے نام سے 1781 ء میں ترجمہ کر چکے تھے۔
انگریزی تراجم کا آغاز بھی اٹھارہویں صدی عیسوی میں ملتا ہے یوں تو انگریزی سے اردو تراجم کی ابتدا اس وقت سے ہوئی جب انگریزوں کا ہندستان میں عمل دخل شروع ہوا۔ عیسائی پادریوں نے عیسایت کی تبلیغ کرنے کی غرض سے تراجم کیے جس میں بائبل اور انجیل کے اردو سمیت دیگر زبانوں میں تراجم کرائے۔ بنجمن شلز کے اس ترجمے کو اولیت حاصل ہے جو انہوں نے 1748 ء میں کیا۔
مذکورہ بالا تمام تراجم کرنے کی کاوشیں انفرادی سطح کی تھیں۔ جب کہ 1800 ء میں فورٹ ولیم کالج کا قیام عمل میں آتا ہے۔ یہ پہلا ادارہ تھا جس میں بڑے پیمانے پر تراجم ہوئے مگر کالج کے قیام سے پہلے ڈاکٹر گلکرسٹ (کالج میں شعبہ اردو کے صدر تھے ) نے ”انگریزی اردو لغت“ شائع کی۔
اگر چہ فورٹ ولیم کالج انگریزوں نے اپنی سیاسی اغراض کے لیے بنایا تھا کہ نئے آنے والے انگریز افسران کو ہندوستانی زبان اور تہذیب سے آگاہی دی جائے تاکہ وہ بہترین طریقے سے حکمرانی کر سکیں مگر کالج نے اردو کو نثری ادب کا بڑا خزانہ دیا۔ اس وجہ سے تراجم کا سلسلہ جاری ہوا۔ دوسری زبانوں کی شاہکار کتابوں کے اردو زبان میں تراجم ہوئے۔ جن میں ہندی، فارسی، عربی اور سنسکرت زبانیں خاص طور پر شامل تھیں۔ تراجم کے لیے جن منشیوں کو بھرتی کیا تھا ان کی فہرست مع تراجم ذیل میں دی گئی ہے۔
1۔ میر امن دہلوی
نو طرز مرصع از عطا حسین خان تحسین کا ترجمہ باغ و بہار سے کیا۔
اخلاق محسنی از حسین واعظ کاشفی کا ترجمہ ”گنج خوبی“ کے نام سے کیا۔
2۔ حیدر بخش حیدری
1۔ ”قصہ لیلیٰ و مجنوں“ ( مثنوی لیلیٰ و مجنوں از امیر خسرو )
2۔ ”تاریخ زادری“ (تاریخ جہاں کشائے نادری از مرزا محمد مہدی استر آبادی)
3۔ ”گلزار دانش“ (بہار دانش از شیخ عنایت اللہ)
4۔ ”توتا کہانی (طوطی نامہ از محمد قادری)
5۔ ”آرائش محفل“ (ہفت سیر حاتم از حاتم طائی)
6۔ ”کل معرفت“ (روضتہ الشہدا از حسین واعظ کاشفی)
3۔ شیر علی افسوس
1 ”باغ اردو“ ( گلستان سعدی از سعدی شیرازی)
2 ”آرائش محفل“ ( خلاصتہ التواریخ از منشی سبحان رائے بٹالوی)
4۔ مرزا علی لطف*
1 ”گلشن ہند“ (گلزار ابراہیم از علی ابراہیم خان )
5۔ میر بہادر علی حسینی
1۔ ”اخلاق ہندی“ (مفرح القلوب)
2۔ ”تاریخ آسام“ (تاریخ آسام از شہاب الدین طالش)
6۔ میر علی خان ولا
1 ”مادھو نل اور کام کنڈلا“ (مادھو نل اور کنڈلا از موتی رام کیشیئر)
2۔ ”ہفت گلشن“ (ہفت گلشن از ناصر خان واسطی)
3۔ ”تاریخ شیر شاہی“ (تاریخ شیر شاہی از عباس خان شیروانی)
4۔ ”بتیسال پچیسی“ ( بتیسال پچیسی از بتیسال)
5۔ ”جہانگیر نامہ“ (تزک جہانگیری)
7۔ کاظم علی جو ان
”شکنتلا“ (شکنتلا از کالی داس)
تاریخ فرشتہ کے ایک حصے کا بھی اردو ترجمہ کیا۔
8۔ مولوی امانت اللہ شیدا
1۔ ”ہدایت الاسلام“ (ہدایت الاسلام از امانت اللہ شیدا)
2۔ ”جامع الاخلاق“ (اخلاق جلالی)
3۔ ”ترجمہ قرآن مجید“ (قرآن مجید)
9۔ شیخ حفیظ الدین
خرد امروز ( عیاش دانش از شیخ ابو الفضل علامی)
10۔ خلیل علی خان اشک
داستان امیر حمزہ ( داستان امیر حمزہ)
واقعات اکبری (اکبر نامہ از ابو الفضل)
11۔ اکرم علی
”اخوان الصفا“ (رسائل اخوان الصفا)
12۔ نہال چند لاہوری
”مذہب عشق“ (گل بکاؤلی از عزت اللہ بنگالی)
13۔ بینی نارائن جہاں
”تنبیہ الغافلین“ ( تنبیہ الغافلین از مولانا شاہ رفیع الدین دہلوی)
14۔ للو لعل جی
”پریم ساگر“ ( بھگوت گیتا)
انفرادی سطح پر اگر دیکھا جائے تو متعدد کتب کے مستشرقین نے تراجم کیے ہیں۔ جو ذیل میں بیان کیے گئے ہیں
english dictionary
”اردو لغت“ کے نام سے کپتان ٹیلر نے 1808 ء میں ترجمہ کیا۔
اس کا دوسرا ترجمہ ”لغت جہاز رانی“ کے نام سے بھی کپتان ٹامس نے 1811 ء میں کیا۔
fables by the late Mr.Gray
کا ترجمہ احسن المواعظ کے نام سے کپتان ٹامس روبک نے کیا۔
Economics
اس کا ترجمہ ”رسالہ علم المعیشت کے نام سے جان پارکس لیڈلی نے 1853 ء میں کیا۔
Reading in english poetry
کا ترجمہ غلام مولانا نے ”جواہر منظوم“ کے نام سے 1864 ء کیا ہے۔
فورٹ ولیم کالج کے بعد دہلی کالج نے اردو تراجم میں اہم کردار ادا کیا۔
درحقیقت دہلی کالج کے تراجم فورٹ ولیم کالج کے تراجم سے موضوعاتی اور فکری سطح پر بہت مختلف تھے۔ کیوں کہ فورٹ ولیم کالج میں انگلستان سے آنے والے نئے افسران کو مقامی زبان، تہذیب و ثقافت سے آشنائی حاصل کرنے کے لیے تراجم کیے گئے تھے۔ جب کہ دہلی کالج میں ہندوستانیوں کو مغربی علوم و فنون سے آگاہی دینے کے لیے تراجم کرائے گئے۔ اس لحاظ سے بھی دہلی کالج کو تراجم میں فوقیت حاصل ہے۔
1792 ء میں دہلی کے مدرسہ غازی الدین میں مشرقی علوم کا ایک مدرسہ قائم کیا گیا۔ تیس سال تک اس مدرسے میں عربی، فارسی، اور دیگر مشرقی علوم کی تعلیم دی جاتی تھی۔ جب انگریزوں کی توجہ ہندوستانیوں کی تعلیم کی طرف ہوئی تو اس وقت 1825 ء میں مدرسے کو کالج کی صورت میں تبدیل کیا۔ G۔ H۔ taylor اس کے پرنسپل مقرر ہوئے۔ اس وقت کالج میں عربی اور فارسی کے ذریعے تعلیم دی جاتی تھی۔ مگر 1828 ء میں کالج میں انگریزی جماعت کا اضافہ ہوا۔ اس وقت کی انگریزی حکومت کی پالیسی کے تحت ہندوستان میں عربی، فارسی، سنسکرت اور دیگر علاقائی زبانیں کمزور پڑ گئیں۔ دہلی کالج واحد ادارہ تھا جہاں مغربی علوم جیسے فلسفہ، ہیت، ریاضی، تاریخ وغیرہ کے علوم اردو میں پڑھائے جاتے تھے۔ اس وقت ایک مسئلہ درپیش آیا کہ مغربی تعلیم کو اردو میں حاصل کرنے کے لیے اردو نصابی کتابیں نہیں تھیں۔ حکومت وقت نے 1835 ء میں ایجوکیشنل کمیٹی قائم کی تاکہ وہ اس مسئلے کو حل کر سکے۔ اس کمیٹی کے قیام سے پہلے مدرسوں کے لیے اردو میں بہت ساری کتابیں اسکول بک سوسائٹی کے نام سے ایک ادارے نے تیار کر کے شائع کی تھیں۔ اس وقت انگریزی علوم کو حاصل کرنے کے لیے نصابی کتابوں کو طبع زاد کرنا بہت مشکل تھا۔ لیکن یہی ممکن تھا کہ انگریزی سے اردو میں تراجم ہوتے۔ اس غرض سے 1841 ء میں ایک سب کمیٹی تشکیل دی گئی جس نے اردو میں تراجم کی طرف توجہ دی۔ جن کتب کے اردو میں تراجم ہوئے تھے ذیل میں دیے گئے ہیں
شیکسپئر کا ڈراما voltaires work اور The Arabic night کا ترجمہ اردو میں کیا۔
جیمز میلز کی کتاب History of british india کا اردو ترجمہ کیا گیا۔ بائبل کا اردو ترجمہ کیا گیا۔ یورپی فلسفہ کے تراجم سے ان کی فکر اور نظریات کو مشرقی ادب کا حصہ بنایا۔ فطری، سائنس، ریاضی، فلسفہ کے تراجم ہوئے ہیں۔ تاریخ میں ایڈورڈ گِبن اور فری کاؤسر کی کتب کے تراجم ہوئے۔
دہلی کالج کے بعد تراجم کے سلسلے کو سرسید احمد خان نے آگے بڑھایا مگر اس سے پہلے انفرادی سطح پر بھی کئی تراجم ہوئے تھے ان میں سدا سکھ لعل جس نے زراعت سے متعلق ایک کتاب کا انگریزی سے اردو میں ترجمہ 1854 ء میں کیا۔ فقیر محمد گویا نے 1835 ء میں انوار سہلی کا ترجمہ دبستان حکمت کے نام سے کیا۔ نیم چند کھتری نے 1837 ء میں دو یادگار تراجم کیے تھے۔ پہلا شمس الدین محمد دمشقی کہ کتاب حسین حسین کا ترجمہ ”ظفر جلیل“ کے نام سے کیا۔ دوسرے ترجمے کا نام ”مظاہر حق“ ہے جو مشکواة شریف کا اردو ترجمہ ہے۔ مفتی سعداللہ رامپوری نے چند عربی کتب کا اردو میں ترجمہ کیا جن میں حضرت امام اعظمؒ کا رسالہ ”فقہ اکبر“ بھی شامل ہے۔ منشی چرنچی لعل نے 1859 ء میں علم النفسیات کے متعلق ایک انگریزی کتاب کا ترجمہ اردو میں ”تعلیم النفس“ کے نام سے کیا۔ منشی عبدالکریم نے 1847 ء میں الف لیلہ کے انگریزی ترجمے کو اردو میں منتقل کیا۔ مولوی انشاء اللہ خان نے سلطان عبدالحمید خان ثانی کے نام سے 1893 ء میں ایک کتاب کا ترجمہ کیا۔
*دارالمصنفین*
انجمن ترقی اردو کی کاوشیں تراجم کے میدان میں جاری تھیں کہ علامہ شبلی نعمانی نے 1913 ء مین اعظم گڑھ میں دارالمصنفین کا ادارہ قائم کیا۔ جس میں مشرقی علوم و فنون کے ساتھ ساتھ مغربی فلسفیوں اور ماہرین نفسیات کی بعض اعلیٰ تصانیف کے بھی اردو تراجم کرائے گئے۔ جن میں یہ کتب شامل ہیں۔
”روح الاجتماع“
”انقلاب الاسم“
”مبادی علم انسانی“
:مکالمات برکلے ”
پیام امن ”
”فطرت نسوانی“
”افکار عصریہ“
*جامعہ عثمانیہ*
26 اپریل 1917 ء کو نظام حیدر آباد نے عثمانیہ یونیورسٹی کے قیام کی منظور دے دی۔ کہا جاتا ہے کہ اس یونیورسٹی کی تجویز مولوی عبدالحق نے حیدر آباد کے نواب میر عثمان علی خان کو دی تھی۔ سر اکبر حیدری اور سر راس مسعود نے بھی نواب کو راضی کرنے کے لیے پرخلوص کوششیں کی تھیں۔ جس کے نتیجے میں اس کا قیام عمل میں آیا۔ اس کے قیام کے فوراً بعد ہی مختلف علوم میں اردو نصابی کتابوں کی ضرورت محسوس کی گئی۔ چنانچہ 14 اگست 1917 ء کو نظام حیدر آباد نے یونیورسٹی میں شعبہ تالیف و ترجمہ کے نام سے دارالترجمہ قائم کیا۔ اس ادارے میں آرٹس اور سائنس کے مضامین میں دو مترجمین کا تقرر کیا۔ اس طرح آرٹس اور سائنسی علوم پر مشتمل کئی کتب کے تراجم کیے گئے جن میں حیاتیات، طبیعات، اور انجینئرنگ وغیرہ کے مضامین شامل تھے۔ اس ادارے میں تراجم بڑے پیمانے پر کیے گئے۔
قاضی تلمذ حسین، قاضی محمد حسین ہاشمی فرید آبادی، چودھری برکت علی، نظم طباطبائی، مرزا ہادی رسوا، مولوی عبدالباری، عبدالحلیم شرر وغیرہ کے تراجم قابل ذکر ہیں۔ اس ادارے نے نصاب کے لیے لگ بھگ ساڑھے چار سو کتابیں تیار کی تھیں۔ ان کتابوں میں انتیس کتب تالیفات اور باقی ترجمہ کی تھیں۔ تین سو انتیس کتابیں انگریزی سے، اکہتر عربی سے، سترہ فارسی سے، چھ جرمن سے، پانچ فرانسیسی سے ترجمہ کی گئیں۔ تقسیم ہند کے بعد جب حیدر آباد کا الحاق کیا گیا تو یونیورسٹی کا ذریعہ تعلیم بدل دیا گیا۔ پولیس ایکشن میں دارالترجمہ کی عمارت کو آگ لگا دی گئی اور اردو کا بیش بہا خزانہ نذر آتش کر دیا گیا۔
*ہندوستانی اکیڈمی اور اردو اکیڈمی*
1927 ء میں قائم شدہ ہندوستانی اکیڈمی اور اردو اکیڈمی نے اردو تراجم کی روایت کو آگے بڑھایا۔ ہندوستانی اکیڈمی نے جرمن ڈراما نویس لیسنگ کے ناول ”ناتن“ اور انگریزی کے ڈرامہ نگار کا لزوردی کے ناول کو اردو میں منتقل کیا۔ اس اکیڈمی کے تحت جو تراجم ہوئے تھے چند ایک ذیل میں بیان کیے گئے ہیں
1 لبرٹی از جان اسٹورٹ مل کا ترجمہ ”آزادی“ سعید انصاری بی۔ اے
2 ہسٹری آف ویسٹرن یورپ از ڈاکٹر رابسن کا ترجمہ سید نذیر لیاری
3 تاریخ فلسفہ اسلام از ٹی۔ جی بوٹر کا ترجمہ ”تاریخ فلسفہ اسلام“ کے نام سے ڈاکٹر سید عابد حسین نے کیا تھا
4 عربوں کا تمدن از جوزف ہیل کا ترجمہ ”عربوں کا تمدن“ سید نذیر نیازی نے کیا۔
5 مبادی معاشیات از اسڈون کا ترجمہ ڈاکٹر ذاکر حسین نے ”مبادی معاشیات کے نام سے کیا۔
اس وقت یعنی بیسویں صدی عیسوی کے اوائل میں انفرادی طور پر بھی اردو کے تراجم کا سلسلہ جاری رہا۔ عربی، فارسی اور سنسکرت زبانوں سے بھی تراجم ہوتے رہے بالخصوص انگریزی فن پاروں مثلاً ناول، افسانہ، ڈرامہ وغیرہ کے اردو میں تراجم کے گئے۔ اس کے علاوہ فرانسیسی، روسی، ترکی اور جرمن وغیرہ کے فن پاروں کے تراجم بھی اردو میں کیے گئے۔ غیر ملکی افسانوں کے اردو تراجم بھی لگ بھگ 1930 ء میں شروع ہوئے۔ ان مترجمین میں سجاد حیدر یلدرم، خواجہ منظور حسین، جلیل قدوائی، مجنوں گورکھپوری، ل احمد، محمد مجیب، فضل حق قریشی اور اختر حسین رائے پوری وغیرہ قابل ذکر ہیں
1932 ء اور 33 ء میں حلقہ نیازمندان لاہور نے تراجم سے اردو ادب کا دائرہ مزید وسیع کر دیا۔ قیام پاکستان سے پہلے اور بعد میں جن مترجمین نے تراجم کیے تھے وہ عبدالمجید سالک، عابد علی عابد، صوفی تبسم، ڈاکٹر تاثیر، مولانا صلاح الدین، منٹو، میرا جی، حسن عسکری اور انتظار حسین وغیرہ کی انفرادی کاوشیں قابل تعریف ہیں
قیام پاکستان کے بعد سرکاری و نیم سرکاری سطح پر ایسے ادارے قائم کیے جنھوں نے اپنے اپنے دائرہ کار میں تراجم کو فروغ دیا۔ ان اداروں کی طرف سے یہ کام ہنوز بھی جاری ہے۔ ان میں درج ذیل نام ہیں
*انجمن ترقی اردو پاکستان کراچی*
*سائنٹفک سوسائٹی آف پاکستان کراچی*
*نیشنل بک کونسل*
*نیشنل بک فاؤنڈیشن*
*اکادمی ادبیات*
*اقبال اکادمی پاکستان لاہور*
*شعبہ تصنیف و تالیف و ترجمہ جامعہ کراچی*
*مجلس زبان دفتری پنجاب لاہور*
*ادارہ تالیف و ترجمہ جامعہ پنجاب لاہور*
*مرکزی اردو بورڈ*
*مقتدرہ قومی زبان اسلام آباد*
- اوجڑی کیمپ واقعہ - 13/04/2025
- حبیب جالبؔ کی بتیسویں برسی - 06/04/2025
- اردو میں نثری تراجم کی روایت - 09/12/2024
Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).