وے بول ڈونلڈ ٹرمپ! نہ رولیں سانوں
وے بول سانول! نہ رولیں سانوں (میرے محبوب! محبت تو تم سے کر بیٹھے ہیں تھوڑا مہربانی ہوگی ہمارے نِکّے جَئے دل کو دھوکہ نہ دے دینا) ۔ برسوں پہلے جب ہم اسکول کے طالب علم تھے اور خراماں خراماں چلتے ہوئے چندی پور گاؤں کے برلب سڑک والے کونے پہ چاردیواری اور دروازے سے آزاد گھر میں اپنے نوّے سال کی عمر کے بوڑھے شوہر کے ساتھ رہنے والی اسّی سالہ ماسی گُھکی کے کچی مٹی کے گارے سے بنے اکلوتے کمرے کے سامنے بیری کے پرانے درخت کے نیچے بچھی دہائیوں پرانی ٹوٹی پھوٹی چارپائی پہ بیٹھے ماسی گُھکی کے چھوٹے سے ٹیپ ریکارڈر پہ لالہ عطا عیسیٰ خیلوی کا یہ گیت سن رہے ہوتے تو ایک سوال ذہن میں گونجتا رہتا ”وے بول سانول“ کا سانول ہے کون؟
یہ تو بھلا ہو جولین چاچو کا جس نے سادہ یا ”بھرے“ ہوئے سگریٹ کے زیرِ اثر ہمیں اسانج لیکس بھیج دیے جن کے ”غیر مصدقہ“ مطالعہ سے پتہ چلا کہ ڈونلڈ ٹرمپ نو عمری میں میانوالی آئے تھے۔ وہاں اُن کی ملاقات ایک شاعر اور دروغ بر گردنِ راوی، لالہ عطا عیسیٰ خیلوی (اب لالہ جی لاکھ تردید کرتے پِھریں لیکن راوی بضد ہے ) کے ساتھ ہوئی۔ نو عمر ڈونلڈ ٹرمپ شاعر اور عوامی گلوکار کے ساتھ امریکہ کا ویزہ دلانے کا وعدہ کر کے چلے گئے۔ کافی عرصہ تک ویزہ نہ آیا تو ”وے بول سانول نہ رولیں سانوں“ والا شہرہ آفاق گانا وجود میں آیا۔ اچھا ہوا، ویزہ نہیں آیا ورنہ شاعر صاحب نیویارک کے کسی پٹرول پمپ پہ پٹرول بھر رہے ہوتے اور لالہ جی دلوں کو چھو لینے والے پیارے پیارے عوامی گیت گانے کی بجائے وہاں ”پان بِیڑی“ کا کھوکھا چلا رہے ہوتے۔
اب چونکہ ڈونلڈ ٹرمپ یو ایس اے کے صدر منتخب ہو چکے ہیں تو رگِ ظرافت نے تقاضا کیا کہ ان کے نام خط لکھا جائے۔ بہت سمجھایا دلِ ناتواں کو ”وہ سپر پاور ملک کا سربراہ بن چکا ہے اب شوکی کو شوکا نہیں چودھری شوکت صاحب بولا جائے گا ورنہ اس کے“ چمچوں ”نے منہ توڑ جواب دے دینا ہے“ لیکن دل ہے کہ مانتا نہیں۔ عرض ہے۔
سرکلر روڈ والے گول گپّے، رنگیلا بازار والے دہی بھلے، ٹامیوالی ٹانگری مُرنڈے، قائم پوری توشے، حاصل پوری ربڑی فالودے اور منچن آبادی تِل شَکرے ہم کو تم سے پیارے ڈونلڈ ٹرمپ!
کیسے ہو؟ حال چال ٹھیک ہے؟
اُستاد! اگر تم ہمارے جنوب مغرب میں سمندر کے کنارے والے ہمسایہ میں ”ریگنی غلطی“ کر بھی بیٹھو تو دیکھنا ہماری وفاؤں کو سستے داموں نہ خریدنا۔ ہم بڑے خود دار لوگ ہیں، مونگ پھلی کے عوض اپنا سودا کبھی نہیں کیا۔ ہاں، اگر کشکول میں ڈالر کے نئے نئے نوٹ ڈالو گے تو ہو سکتا ہے اُس کی چمک کے سامنے ہمارا ضمیر اُٹھ ہی نہ سکے۔ اچھا ہاں یاد آیا، نومبر 2024 کا وسط آ گیا ہے، اپنے بہاول پور میں سردی آئی نہ آئی مونگ پھلی آئی قیمت ہم غریبوں کی پہنچ سے ہائی فائی۔
تم ایسا کرنا، امریکی مونگ پھلی سے بھرے پندرہ بیس بحری جہاز پاکستان اور انڈیا بھجوا دینا۔ اگر اگلا الیکشن تم اسلام آباد اور نئی دہلی سے بھی لڑو گے تو تمہاری جیت کی گارنٹی ہم ایڈوانس میں دیتے ہیں۔ بس یہاں ووٹ خریدنے کے لیے تھوڑا بہت خرچہ کرنا پڑتا ہے۔ تم اگر ہمیں پچاس ساٹھ کروڑ ڈالر دے بھی دو گے تو ٹرمپ جانی! یقین مانو ہم اس میں سے آدھا پیسہ اگر اپنی جیب میں ڈالیں گے تو آدھا تمہارے لیے ووٹ خریدنے پہ ضرور خرچ کریں گے۔ اب ہم پاکستانی و بھارتی اتنے بھی بے ایمان نہیں۔ آخر ایک دن مرنا ہے۔ تینوں سمجھاواں کی؟ باقی تُوں آپ سمجھ دار ایں۔ ٹرمپ خان! ”بنانا ریاستوں“ کے سارے حکمران، سیاستدان، باوردی اور بے وردی افسران تم پہ قربان بشرطیکہ تم اس ”روحانی وظیفہ“ کا ورد ان کے سامنے باآواز بلند کرتے رہو ”تُوں بول تاں سہی تینوں کی چاہی دا؟“
اچھا، ہمارا ایک نفسیاتی مسئلہ تو حل کر دو۔ پاکستان اور بھارت کی ایلیٹ کلاس تو سو کی سو فیصد امریکہ کی وفادار ہے لیکن وہ جن کی تین تین نسلیں انگلستان اور امریکہ رہ رہی ہوتی ہیں۔ جن کے بنک اکاؤنٹس امریکی بنکوں میں ہوتے ہیں۔ جن کے بچے امریکی سکولوں کالجوں میں پڑھ رہے ہوتے ہیں اور وہ پاکستان اور بھارت پہ بس حکم چلانے کے لیے یہاں رہ رہے ہوتے ہیں، وہ خود کو یہاں کا ”محب وطن“ اور ہم غریبوں کو جن کے پاس بہاول پور سے لاہور اور کلکتہ سے دہلی جانے کا کرایہ نہیں ہوتا، ان کو غدار کہہ رہے ہوتے ہیں۔ یار تُو ایسا کر، اپنے ان ایلیٹ کلاسیے غلاموں سے بول کہ ہم ”غداروں“ کو بھی محبِ وطن سمجھ لیں۔ چلو اور نہ سہی، ساڈی دل پشوری ہو جا سی۔ تیڈی بہوں بہوں مہربانی ہو سی۔ بدلہ میں راقم تم کو فرید گیٹ والا مشہور سونا حلوہ کھلائے گا۔
ٹرمپ انکل! اکبر شیخ اکبر کا خیال ہے کہ دنیا سے غربت اس وقت تک ختم نہیں ہو سکتی جب تک امریکی ڈالر کی مناپلی کا خاتمہ نہیں ہو جاتا۔ پاکستان ہو، انڈیا ہو، ایشیا ہو، افریقہ ہو یا لاطینی امریکہ ہو، سب کو مل کے یو ایس ڈالر کے ”عالمی معاشی غنڈہ“ والے کردار کے خاتمہ کے لیے مقابلہ میں آرٹیفیشل سپر انٹیلی جنس اور بلاک چین ٹیکنالوجی کے ملاپ سے ایسی ڈیجیٹل کرنسی کو سامنے لانا ہو گا جس کی حیثیت قانونی اور عالمی ہو اور جس پہ کسی ایک ملک کا کنٹرول بھی نہ ہو اور یہ کہ ساری دنیا کی تجارت اس نئی ڈیجیٹل کرنسی میں ہو۔
اپنی سیاسی کزن کملا ہیرس کو ہماری طرف سے دن کو گڈ نائٹ اور رات کو گڈ مارننگ بول دینا۔ ذرا اُس سے پوچھ کے بتانا اُسے تہہ والی بریانی بنانا آتی ہے؟ کملا سے یہ بھی پوچھنا کہ اُسے سویٹر بُننا آتا ہے؟ ایک سویٹر تو بنا دے، تنخواہ آئے گی تو پیسے دے دوں گا، ۔ تم بھی اپنا کمیشن کاٹ لینا۔ اچھا، خوش رہو لیکن اپنے خرچہ پہ، پاکستانی اور بھارتی تو مزاجاً شیخ ہیں۔
- ٹرمپ بے وفا کے نام شِکووں بھرا خط - 23/04/2025
- عمران خان اقتدار میں آ بھی گیا تو؟ - 17/03/2025
- مافیا، فراعینِ مصر، منصور ملنگی اور بابو محکمے - 14/03/2025
Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).