غیروں پہ ستم اپنوں پہ کرم
ہمارے تقریباً تمام انصافی بھائی بے حد نرم خو، عاجز اور منکسر المزاج ہیں۔ بعض اوقات خان صاحب کی محبت میں بھی اتنی عاجزی سے کام لیتے ہیں کہ ان پر بے اختیار پیار آ جاتا ہے۔ ابھی کل ہی ایک دوست نے ان کے حوالے سے یہ شعر سنایا۔
نہ میں گرا نہ میری امیدوں کے مینار گرے
پر کئی لوگ مجھے گرانے میں کئی بار گرے
مجھے بے حد الجھن ہوئی کہ چلو اپنی حد تک تو تم عاجزی اختیار کرو مگر خان صاحب کی اتنی محنت سے حاصل کی گئی کامیابیوں کو تو اتنے سستے حروف میں مت تولو۔ دراصل یہ تمام لوگ خود نہیں گرے بلکہ خان صاحب نے بڑی جرات، بہادری اور دیدہ دلیری سے تن تنہا ان سب کو ایک ایک کر کے گرایا ہے۔ یوں آپ نے کرکٹ کے ساتھ ساتھ سیاسی دنگل میں بھی اپنے آپ کو اول نمبر پر منوایا ہے۔ ان کی اس جری داستان کا خلاصہ کچھ یوں ہے۔
آپ نے اپنے سیاسی داؤ پیچ بھرپور کامیابی سے کھیلے اور اپنے سب سے بڑے حریفوں میں سے ایک یعنی نواز شریف کو فلمی انداز میں لندن سے اٹھا کر یوں مینار پاکستان لا گرایا جیسے سلطان راہی گنڈاسے کے ایک ہی وار سے ولن کو فیصل آباد گھنٹہ گھر اسے ٹھا کر چوبرجی لاہور پر لا پھینکتا ہے اور سینما میں بیٹھے سامعین نعرہ یا علی بلند کرتے ہیں۔ کشتوں کے پشتے لگاتے اور رجز پڑھتے ہوئے آپ اور آگے بڑھے اور اسلام آباد کے عدالتی دنگل میں اپنے دوسرے حریف قاضی فائز صاحب سے اچھی خاصی لڑائی لڑی جو بالآخر قاضی صاحب کی شکست فاش پر منتج ہوئی اور قاضی صاحب زخم خوردہ اور نیم جان ہو کر چیف جسٹس کی کرسی پر جا گرے۔ حملہ اس قدر شدید تھا کہ عدل کے ایوان بھی لرز اٹھے تھے۔
ایوان صدر میں لڑے جانے والے اگلے معرکے میں آپ نے جنگی اور سیاسی چالوں کے ساتھ ساتھ اپنی ذہانت کے ایسے داؤ پیچ کھیلے کہ زرداری صاحب بے بس ہو گئے اور ہانپتے کانپتے بالآخر صدر پاکستان کی کرسی پر جا گرے۔ امید ہے اگلے پانچ سال ادھر ہی اس شکست کا زخم چاٹتے رہیں گے اور باہر آنے کی جرات نہیں کریں گے۔ ابھی مسلسل معرکوں سے آپ کی تکان نہیں اتری تھی کہ آپ نے تخت لاہور کا رخ کیا اور بالترتیب دو کزنوں حمزہ اور مریم کو شکست فاش دی۔ وہ دونوں بالترتیب وزیراعلیٰ ہاؤس میں اپنے تخت پر محصور ہو کر رہ گئے۔ آپ کی آنکھ لگ جانے کی وجہ سے حمزہ تو فرار ہونے میں کامیاب ہو گئے مگر مریم تاحال آپ کے خوف سے وزیراعلیٰ ہاؤس میں بطور وزیر اعلیٰ پناہ گزین ہیں۔ آپ کی پچھلی جری داستانیں ابھی عوام کی زبان پر ہی ہوتیں کہ اگلا معرکہ پیش آ جاتا۔
اگلے مورچوں پر آپ کے دستوں نے نا صرف محاذ گرم رکھا بلکہ مسلسل فتوحات کا سلسلہ بھی جاری رہا اور یوں وہ معرکوں پر معرکے سر کرتے رہے۔ نوبت یہاں تک پہنچی کہ ان کے مخالف جرنیل کو نہ صرف آرمی چیف کی کرسی پر پسپا ہونا پڑا بلکہ سیٹ بیلٹ بھی مضبوطی سے باندھنا پڑی مبادا کہ وہ کرسی سے ہی نہ اٹھائے جاویں۔ اپنے ایک اور دیرینہ حریف محسن نقوی کی قابلیت کے باعث آپ نے ان کے ساتھ شروع میں رعایت کی اور ان کو اپنے مقابل قابل اعتنا نہ سمجھا۔ پھر اچانک آپ کو اس کی سازشوں کا پتہ چلا تو آپ نے ایک ہی ہلے میں انہیں اٹھا کر وزارت اعلیٰ پر پٹخ دیا۔ وہ ریشہ دوانیوں سے باز نہ آئے تو آپ نے پھر لشکر سمیت پیش قدمی فرمائی اور ان کو الٹے قدموں واپس لوٹنے پر مجبور کر دیا۔ بعد ازاں اس مسلسل پیش قدمی نے انہیں اتنا زچ اور نڈھال کر دیا کہ وہ مقابلے سے بھاگ کر وزارت داخلہ میں پناہ گزین ہوئے اور تاحال وہیں رہنے کو مجبور ہیں۔
اس کے علاوہ بھی تاریخ گواہ ہے کہ آپ کے مقابلے پر جو بھی آیا اسی طرح کے بھیانک انجام سے دو چار ہوا۔ شاید قدرت بھی درپردہ آپ کی مدد کو شامل حال تھی۔ آپ کے متعین کردہ جاسوس آپ کو جیل میں موجود خطرناک دشمن شہباز شریف کی مسلسل آرام طلبی، اور طبی اور روحانی سکون کی پیش گوئی کر رہے تھے۔ ابتداء میں تو آپ نے سکوت فرمایا پھر جرات ایمانی غالب آئی۔ آپ نے بالترتیب دو معرکوں میں شہباز کو اس کے پرسکون فرشی مسکن سے اٹھایا اور ان کو سخت ترین ماحول میں بغیر اے سی کے وزیر اعظم کی تتے توے والی اکلوتی کرسی پر بٹھا کر عوام سے داد شجاعت وصول فرمائی۔ تاہم ایک دشمن مونچھوں سے پکڑ کر عبرت بنانے کی تاریخ سے سند دستیاب نہیں ہو سکی کہ آیا ان کا انجام آپ نے کیا فرمایا۔
آپ کی مسلسل فتوحات اس قدر طویل ہیں کہ ان کو رقم کرنے کے لئے ایک دفتر درکار ہے۔ چند ایک ایسی ہیں جن کا تذکرہ نہ کرنا زیادتی ہو گی۔ آپ نے اوندھے منہ گرے ہوئے بالشتیے ڈالر کو اپنے قدموں پر کھڑا کر دیا۔ برسوں سے بیمار، سست اور لاغر مہنگائی کو ایک نئی توانائی بخشی۔ امریکہ، سعودی عرب، روس اور چائنہ جیسی قوتوں کو واشگاف الفاظ میں بتایا کہ ہمارے قد کے برابر آ کر ہم سے بات کرو۔ انہوں نے اپنا قد چھوٹا کرنے کی سرتوڑ کوشش کی مگر پھر بھی وہ اپنا قد آپ کے لیول پر نہ لا سکیں۔
یوں بالآخر آپ نے ان کو جھنڈی دکھا دی اور وطن عزیز کا کشکول توڑ دیا۔ آپ نے فاقوں سے مایوس قوم کو قبر میں صبر اور سکون کی تلقین کی۔ آپ نے پوری قوم میں اپنے علاوہ کسی کو ادھار پر پلنے نہیں دیا۔ علاوہ ازیں آپ نے اسلامی قلعہ کے دروازے مکمل کھول دیے اور لوگوں کو باہر بھاگ جانے، جان بچانے اور ملک بچانے کی یوں نصیحت کی جیسے پولیس انکاؤنٹر کرنے والے ملزم کے ساتھ کرتی ہے۔ آپ کی اس کامیاب تدبیر کو آپ کے حریفوں نے بھی نہ صرف سراہا بلکہ عملاً اپنا کر اس پر داد بھی دی۔
مسلسل فتوحات اور تمام دشمنوں کو گرانے اور رسوا کرنے کے طویل اور تھکا دینے والے سلسلے کے بعد آپ کی طبیعیت آرام کی متقاضی ہوئی۔ آپ نے ڈائری اٹھائی، زخم خوردہ اور گرے ہوئے حریفوں پر ایک اچٹتی نظر ڈالی اور آرام کی خاطر اڈیالہ کی طرف عازم سفر ہوئے۔ جیل کے صاف ماحول میں آپ کی صحت نہ صرف بہتر ہوئی بلکہ آپ کو مدت سے لاحق ڈیزل سے الرجی کا مسئلہ بھی ٹھیک ہو گیا۔ تا دمِ تحریر آپ راولپنڈی میں سرکاری مہمان کے طور پر مقیم ہیں۔ یہاں آپ خالص مکھن میں تلا ہوا دیسی مرغ، صالح بکرا، ڈرائی فروٹس، مچھلی کا گوشت اور جہان بھر کی نعمتیں نوش فرماتے ہیں جبکہ آپ کے حریف جی ایچ کیو، وزیر اعظم ہاؤس، ایوان صدر، وزیر اعلیٰ ہاؤس، سینیٹ، وغیرہ میں دھول چاٹتے ہیں۔
یہ ان کے حریفوں کو گرانے اور ”غیروں پہ ستم“ کے واقعات کی ایک مختصر سی جھلک تھی۔ ان کی ”اپنوں پہ کرم“ کی داستان ایک الگ تحریر کی متقاضی ہے۔ عوام کی پسندیدگی کی صورت میں دوسری قسط میں پیش کیا جائے گا۔
- نمک حرام، گستاخ اور غدار - 20/04/2025
- بوتل صرف مشروب کے لئے استعمال کریں - 14/04/2025
- کوبرے کی پھنکار اور کمپنی سرکار - 22/03/2025
Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).