فزکس کا نوبل انعام اور یادوں کے دریچے
آج جب فزکس کے نوبل پرائز کا اعلان ہوا اور معلوم ہوا کہ J۔ J۔ Hopfield کو ان کے نیورل نیٹ ورک کی بنیاد پر نوبل انعام دیا گیا ہے، تو اس نے میری یادوں کے دریچے کھول دیے۔
یہ کئی سال پہلے کی بات ہے جب میں قائداعظم یونیورسٹی میں الیکٹرانکس کے پروفیسر کے عہدے پر فائز تھا۔ میں چند سال پہلے امریکہ سے واپس آیا تھا اور میں نے کوانٹم آپٹکس کے شعبے سے متعلق مسائل پر کام کرنے والا ایک ریسرچ گروپ قائم کیا تھا۔ میرا کام تھیوریٹیکل تھا۔ میں تجرباتی کام میں کبھی شامل نہیں ہوا تھا۔
ستمبر 1984 میں پاکستان واپس آنے سے چند ماہ قبل جاپان کے وزیر اعظم یوسوہیرو ناکاسون نے پاکستان کا دورہ کیا تھا۔ اپنے دورے کے دوران انہوں نے اعلان کیا تھا کہ جاپانی حکومت قائداعظم یونیورسٹی میں لیبارٹریوں کی تزئین و آرائش کرے گی جو اس وقت انتہائی قابل رحم حالت میں تھیں۔ یونیورسٹی کے مختلف ڈیپارٹمنٹ سے کہا گیا کہ وہ اپنی ضرورت کے سامان کی فہرست جمع کرائیں جنہیں مزید کارروائی کے لیے جاپانی حکومت کو پیش کیا جانا تھا۔ فزکس ڈیپارٹمنٹ نے اپنی لامحدود حکمت میں لیزر فزکس میں آلات کی ایک لمبی فہرست شامل کی تھی جس میں کئی مہنگے لیزر بھی شامل تھے۔ یہ اس حقیقت کے باوجود تھا کہ اس وقت لیزر سائنس کی فیلڈ میں کوئی فیکلٹی ممبر موجود نہیں تھا۔
ستمبر 1984 میں جب میں قائداعظم یونیورسٹی میں فیکلٹی کا عہدہ سنبھالنے پہنچا تو یہ فہرست مجھے لیزر فزکس کی لیبارٹری بنانے کے لیے دی گئی جب کہ اس وقت ایسی کوئی لیبارٹری موجود نہیں تھی۔ ایک تھیورسٹ ہونے کے ناتے جس نے کبھی لیبارٹری میں کام نہیں کیا تھا، یہ کافی غیر متوقع اور غیر معقول تھا۔ مجھے لیب قائم کرنے کا کوئی تجربہ نہیں تھا اور سب سے اہم بات یہ کہ لیب قائم کرنا ایک محنت طلب کام تھا اور میں اپنی تمام تر توجہ تھیوریٹکل کوانٹم آپٹکس میں ایک گروپ قائم کرنے پر مرکوز کرنا چاہتا تھا۔ اس طور یہ نئی ذمہ داری میرے منصوبوں میں رکاوٹ بن رہی تھی۔
جب میں اپنی زندگی پر نظر ڈالتا ہوں تو ایک رویہ نمایاں نظر آتا ہے اور وہ یہ کہ میں نے ہمیشہ احتجاج سے احتراز کیا ہے۔ جب بھی مجھے کوئی ذمہ داری دی گئی، میں نے اپنی بہترین صلاحیتوں کے مطابق اچھی طرح نبھانے کی کوشش کی، اس کے باوجود کہ مجھے احساس ہوتا تھا کہ میرے ساتھ زیادتی ہو رہی ہے۔ اس رویے کو عام طور پر کمزوری کی علامت سمجھا جاتا ہے لیکن میرا یہ تجربہ رہا کہ جب آپ کوئی ذمہ داری اچھی طرح نبھاتے ہیں تو آپ کی قدرومنزلت میں اضافہ ہوتا ہے اور نئی راہیں کھلنے لگتی ہیں۔ ایک تحقیقی لیبارٹری قائم کرنا مجھے اپنی پیشہ ورانہ زندگی میں درپیش سب سے بڑے چیلنجوں میں سے ایک تھا۔
لیبارٹری قائم کر نے کے لیے میں نے اٹامک انرجی کمیشن سے مدد حاصل کرنے کی کوشش کی مگر اس میں ناکامی کا سامنا کرنا پڑا۔ بہت جلد مجھے احساس ہو گیا کہ اس لیبارٹری کو سیٹ کرنا اور اس کو استعمال کرتے ہوئے ایک ریسرچ پروگرام شروع کرنے کی ساری ذمہ داری میری تھی۔
جاپان سے آلات کی آمد سے پہلے، میں کچھ دلچسپ تحقیقی منصوبوں کے بارے میں سوچنا چاہتا تھا جنہیں نئی لیبارٹری میں لاگو کیا جا سکتا تھا۔ تجربات کرنے میں ایک مکمل طور پر ناتجربہ کار شخص ہونے کے ناتے، میں ایسے آسان تجربات کی تلاش کرنا چاہتا تھا جنہیں آرڈر کیے گئے آلات کے ساتھ کرنا ممکن ہو۔ مگر میرے لیے یہ کافی نہیں تھا۔ میں ان مسائل پر کام کرنا چاہتا تھا جو کہ نئے اور دلچسپ ہوں۔ ایک ایسا تجربہ ترتیب دینا جو سادہ ہونے کے ساتھ ساتھ ناول اور دلچسپ بھی ہو کوئی آسان کام نہیں تھا۔
میں نے اس طرح کے تجربات کرنے کے لیے لیزر فزکس سے وابستہ مختلف قسم کی فیلڈز کا مطالعہ کرنے میں کافی وقت صرف کیا۔ آخر کار میں نے ایک ایسے موضوع کو دریافت کیا جو میرے لیے بالکل نیا تھا لیکن واقعی حیرت انگیز تھا۔ یہ اس بات کا مطالعہ تھا کہ دماغ کیسے کام کرتا ہے اور تجربہ گاہ میں ان خیالات کا تجرباتی نفاذ کیسے ممکن بنایا جائے۔ میں نے اپنی پوری زندگی میں کبھی حیاتیات کا کورس نہیں پڑھا تھا۔ اس لیے مجھے دماغ کی ساخت اور ابتدائی خصوصیات کو سمجھنے میں کچھ وقت لگا۔
اب تک دماغ کے بارے میں سائنسی ریسرچ ابتدائی مراحل میں ہے۔ اس بارے میں بہت کم معلوم ہے کہ دماغ کیسے کام کرتا ہے۔ انسانی دماغ نیوران کا ایک پیچیدہ نیٹ ورک ہے۔ ایک دماغ کے اندر ایک کھرب سے زیادہ نیوران ہوتے ہیں اس طرح کہ ہر نیوران دس ہزار سے زیادہ دوسرے نیوران سے جڑا ہوتا ہے۔ یہ ایک حیرت انگیز پیچیدہ نیٹ ورک ہے۔ یہ سمجھا جاتا ہے کہ انسانی یادداشت (تجربات کی بنیاد پر) ان باہمی رابطوں میں موجود ہے جو ہر دو نیوران کے درمیان موجود ہیں۔ ہمارے بیرونی جسم کے عناصر جیسے آنکھ، زبان، جلد اور کان میں سینسری نیورانر ہوتے ہیں۔ جب یہ نیوران کسی بیرونی عمل سے متحرک ہوتے ہیں، جیسے چہرہ دیکھنا، تو سگنل دماغ کے اندر موجود نیورل نیٹ ورک کو بھیجے جاتے ہیں۔ نیٹ ورک آنے والی معلومات پر کارروائی کرتا ہے اور ہر نیوران ان لامحدود امکانات میں سے اس بات کا انتخاب کرتا ہے کہ کس طرح کا رد عمل ظاہر کیا جائے۔ نیوران کی نئی حالت کا انحصار حسی نیورانز کی حالت اور انسانی یادداشت جو ان نیوران کے مابین باہمی رابطوں میں محفوظ ہوتی ہے، پر ہوتا ہے۔
اس سادہ فہم کی بنیاد پر میں ایک ایسا آلہ تیار کرنا چاہتا تھا جو دماغ کی ایک خاص خصوصیت جیسا کہ کسی نمونے کی شناخت کا مظاہرہ کر سکے۔ ایک حیرت انگیز بات یہ ہے کہ انسانی دماغ ایک ذہین آلہ ہے۔ اس ذہانت کی ایک خصوصیت یہ ہے کہ جزوی معلومات سے مکمل معلومات حاصل کی جا سکتی ہیں۔
ایک مثال کچھ اس طرح ہے۔ ایک بہت بڑی تعداد میں چہروں کی تصویریں میرے دماغ میں محفوظ ہیں۔ قابل ذکر بات یہ ہے کہ اگر میں کسی شخص کو دیکھتا ہوں، تو میں ان ہزاروں ذخیرہ شدہ تصاویر میں سے اسے فوری طور پر پہچان سکتا ہوں۔ میری ذہانت کا ثبوت یہ ہے کہ ان چہروں میں کافی تبدیلی بھی آ جائے تب بھی پہچاننا ممکن ہو تا ہے۔ مثال کے طور پر، یہاں تک کہ جب میں کسی دوست سے بہت طویل عرصے بعد ملتا ہوں، تب بھی میں اسے ایک لمحے میں پہچان سکتا ہوں۔ ہو سکتا ہے اس شخص کی داڑھی بڑھ گئی ہو، چہرہ جھریوں سے بھرا ہوا ہو، اور گھنے بالوں کی جگہ بہت کم بال رہ گئے ہوں، میں تب بھی اسے پہچان سکتا ہوں۔ نیورل نیٹ ورک میں یہ کس طرح ممکن ہوتا ہے اور کیا ہم آپٹیکل آلات کا استعمال کرتے ہوئے اس طرح کا نیورل نیٹ ورک لیب میں بنا سکتے ہیں؟ یہ میرا سوال تھا۔
میں جانتا تھا کہ کچھ ماڈلز موجود ہیں جو اسی طرح کے رویے کی نمائش کر سکتے ہیں۔ لیکن میں خود اس ذہین رویے کو ایک آسان طریقے سے سمجھنا چاہتا تھا اور ان آلات کے ساتھ ایک ڈیوائس بنانا چاہتا تھا جن کی ہم جاپان سے توقع کر رہے تھے۔
ایک رات میں اس مسئلے کے بارے میں سوچ رہا تھا اور مجھے یہ خیال آیا کہ اس طرح کی شناخت کو ایک بہت سادہ ماڈل کے ذریعے سمجھنا آسان ہے، اور اس ماڈل کے ذریعے دماغ کی اس خصوصیت کا مشاہدہ لیبارٹری میں بہت سادہ آپٹیکل آلات کے ذریعے کیا جا سکتا ہے۔
فرض کریں کہ میرے دماغ میں 10 دوستوں کے چہرے محفوظ ہیں جن کے نام عمر، زید، بکر، خالد، علی، قاسم، طارق، حمزہ، زبیر، اور ندیم ہیں۔ ان سب کے چہروں کی خصوصیات مختلف ہیں۔ لیکن چند چہروں میں یہ خصوصیات مشترک ہو سکتی ہیں اور کچھ میں نہیں۔ مثال کے طور پر ، عمر، خالد، قاسم، اور زبیر کی ناک ایک جیسی ہے، زید، خالد، قاسم اور حمزہ کی آنکھیں ایک جیسی ہیں، عمر، خالد، طارق، اور ندیم کے کان ایک جیسے ہیں، وغیرہ۔
اب فرض کریں کہ ایک ماسک کے پیچھے خالد کا چہرہ اس طرح چھپا ہوا ہے کہ صرف اس کی ناک، آنکھیں اور کان نظر آرہے ہیں۔ اب سوال یہ ہے کہ میں خالد کو ماسک کے پیچھے کیسے پہچانوں گا؟
میرے ماڈل کے مطابق، خالد کی ناک مجھے عمر، خالد، قاسم، اور زبیر کے چہرے یاد دلاتی ہے، اس کی آنکھیں مجھے زید، خالد، قاسم اور حمزہ کی یاد دلاتی ہیں، اور اس کے کان مجھے عمر، خالد، طارق، اور ندیم کی یاد دلاتے ہیں۔ اس طرح ماسک کے پیچھے چھپا چہرہ مجھے خالد کو تین بار اور عمر اور قاسم کو دو بار یاد دلا تا ہے، اور باقی صرف ایک بار یا بالکل نہیں۔ اس طرح ایک قسم کا عمل جس میں تین بار کی یاد محفوظ رہتی ہے اور باقی غائب ہو جاتی ہیں، مجھے خالد کی یاد دلاتا ہے، اور میں اس چہرے کو پہچان لیتا ہوں۔ یہ بہت سادہ سا ماڈل اس بات کی وضاحت کر سکتا ہے کہ کس طرح نامکمل معلومات کے باوجود ہم کسی بھی چیز کو پہچاننے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ وہ رات میرے لیے بہت بے چینی کی رات تھی۔ میں شدت سے صبح کا انتظار کر رہا تھا تا کہ میں دفتر جا کر اس ماڈل کو ایک مساوات کی شکل میں لکھ سکوں۔ اگلا مرحلہ اس ماڈل کو ایک تجربہ کی شکل دینا تھا۔
جب میں نے اپنے ماڈل کو مساوات کی شکل دی تو میری حیرانی کی انتہا نہ رہی کہ یہ تو وہ ہی ماڈل تھا جو J۔ J۔ Hopfield نے کچھ سال پہلے پیش کیا تھا۔ میرے جذبات مکسڈ تھے، ایک طرف تو مجھے افسوس ہوا کہ میں جس ماڈل کو نیا سمجھ رہا تھا وہ تو Hopfield نے پہلے سے دریافت کر رکھا تھا۔ لیکن خوشی اس بات کی تھی کہ میں نے یہ اتنے سادہ دلائل سے حاصل کیا تھا جس کا Hopfield کو بھی شاید اندازہ نہیں ہو گا۔
آج جب میں نے سنا کہ Hopfield کو اس نیورل نیٹ ورک کی بنیاد پر نوبل پرائز دیا گیا ہے جس کو میں ایک رات کے لیے اپنا دریافت کردہ ماڈل سمجھا تھا، تو پرانی یادیں امڈتی چلی گئیں۔
بالآخر یہ تجربہ ایک طالب علم کے ساتھ مل کر کیا گیا اور اسے ایک سائنسی جریدے میں شائع کیا گیا۔ اس طالب علم نے اس تجربے کی بنیاد پر پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ یہ پاکستان میں تجرباتی طبیعات کی اولین پی ایچ ڈی ڈگریوں میں شامل تھی۔
- میری زندگی کا مقصد کیا تھا؟ - 21/04/2025
- حقیقت کی حقیقت کیا ہے؟ - 16/04/2025
- کیا اس کائنات کا کوئی خالق ہے؟ - 08/04/2025
Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).