بالزاک کا ناول یویجن گرینڈ
فرانسیسی مصنف ہنری ڈی بالزاک ( 1799۔ 1850 ) نے اپنی مختصر زندگی میں سو سے زائد ناول، ڈرامے اور کہانیوں کے مجموعہ جات تحریر کیے۔ بالزاک نے اپنے منفرد اسلوب کی مدد سے فرنچ معاشرے کی حقیقت پسندانہ عکاسی کی ہے۔ بالزاک کی پیدائش پیرس کے نواحی علاقے میں ہوئی جہاں اُس کا باپ سرکاری ملازم تھا۔ جوان ہوا تو باپ کی خواہش پر پیرس منتقل ہو کر ایک وکیل کے ہاں منشی کی نوکری کرنا شروع کر دی۔ اسی دوران وہ اپنے قلمی نام سے بھی لکھتا رہا۔ کچھ عرصہ کے لیے اشاعت و چھپائی کا کاروبار بھی کیا مگر اس میں ناکامی کے بعد پھر سے قلم اٹھایا اور نئے عزم کے ساتھ ادب تخلیق کرنا شروع کر دیا۔
یوجین گرینڈ کا اردو زبان میں ترجمہ ’تاریک راہوں کے مسافر‘ کے نام سے روف کلاسرا نے بہ خوبی کیا ہے۔ پہلی بار یہ ناول 1833 میں فرانسیسی زُبان میں شائع ہوا۔ اگر فکشن کے ذریعے انیسویں صدی کے فرانسیسی سماج کی صورت حال کو جانچنا ہو تو اس کے لیے بالزاک کے اس شہرہ آفاق ناول کا مطالعہ کر لیجیے آپ حالات سے آگاہ ہو جائیں گے۔ یہ ناول مصنف کے ابتدائی اور بہترین کاموں میں سے ایک ہے، جس میں ایک ایسے معاشرے کی تصویر کشی کی گئی ہے جو دولت جمع کرنے اور طاقت کے حصول کی جدوجہد میں مصروف ہے۔ مصنف نے اس ناول میں پیسے کی پُرجوش ہوس، مادی خواہشات اور انسانی جذبات کی طاقت کے درمیان مہلک تصادم کی عکاسی کی ہے۔ انہوں نے حقیقت نگاری کا جامہ پہناتے ہوئے تمام جزئیات کا باریک بینی سے جائزہ پیش کیا ہے۔
اس ناول کو فرانس کے دیہی علاقے میں موجود ایک چھوٹے سے قصبے سمور کے پسِ منظر میں تحریر کیا گیا ہے۔ یہ علاقہ قدامت پسندوں کا گڑھ ہے جو فرانس کے روایتی سماج کی نمائندگی کرتا ہے۔ یہاں کے لوگ مادیت پرست ہونے کے ساتھ ساتھ سماجی حیثیت کو برقرار رکھنے میں بھی پیش پیش ہیں۔ اس قصبے کی قدامت پروری مرکزی کردار یوجین کو زندگی میں بے اختیار بنا دیتی ہے۔ قدامت پسندانہ روایات کے ذریعے یوجین کے جذبات اور خواہشات کا گلا گھونٹ دیا جاتا ہے اور وہ ایسے بے بس ماحول میں جکڑ دی جاتی ہے کہ جہاں خوابوں کی تعبیر بھی ممکن نہیں اور نہ ہی محبت کی تکمیل ہو سکتی ہے۔
ناول کا پلاٹ ایک نوجوان لڑکی یوجین گرینڈ اور اس کے بخیل باپ فلیکس گرینڈ کے گرد گھومتا ہے۔ اس کا باپ صاحبِ ثروت ہے مگر کنجوسی میں بھی اس کا کوئی ثانی نہیں۔ وہ جنون کی حد تک حریص ہے اور جائیداد کو دوگنا کرنے میں مصروف ہے۔ معاشرے میں اچھا خاصا مقام ہونے کے باوجود وہ خاندان کو کفایت شعاری سے زندگی گزارنے پر مجبور کرتا ہے۔ اس کے لیے وہ اکثر اوقات اُن کے بنیادی حقوق بھی نظر انداز کر جاتا ہے۔ وہ خستہ حال مکان میں رہتے ہیں اور کسمپرسی کی سی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ موم بتی سے لے کر شکر کے استعمال تک کا اختیار مسٹر گرینڈ کے پاس ہے۔ وہ گھریلو استعمال کی تمام اشیا کا حساب کتاب اپنے پاس محفوظ رکھتا ہے۔ گھر کو گرم رکھنے کے لیے لکڑی جلانے کی اجازت نہیں۔ اس کی بیوی بیمار پڑتی ہے تو وہ اس لیے ڈاکٹر کو گھر نہیں بلواتا کہ علاج طویل ہونے کی صورت میں رقم کا ضیاع ہو گا۔ ایک دن ان کے ہاں مسٹر گرینڈ کا بھتیجا چارلس پیرس سے پہنچتا ہے تو یوجین اس کی محبت میں گرفتار ہو جاتی ہے۔ چارلس کی پُرکشش شخصیت یوجین کی دبی ہوئی خواہشات کو جگا دیتی ہے۔ چارلس کے لیے یوجین کے پوشیدہ جذبات اپنے والد کے ساتھ ایک پُر تشدد تصادم میں بدل جاتے ہیں۔
ہم دیکھتے ہیں کہ بالزاک کے کردار اپنے اپنے تشخص پر کار بند ہیں جو دو سو سال گزرنے کے بعد بھی زندہ محسوس ہوتے ہیں۔ ناول کی سب سے بڑی خوبی اس کے کرداروں کا کہانی کے ساتھ مضبوط تعلق ہے۔ اس نے کرداروں پر خصوصی توجہ دی ہے۔ وہ انہیں پیچیدہ بنانے کے بجائے سادہ اور حقیقی طور پر پیش کرتا ہے۔ وہ ایسے کردار تخلیق نہیں کرتا جو سب کے پسندیدہ ہوں اور انہیں سراہا جائے بلکہ وہ ایسی شخصیات پیش کرتا ہے جو حقیقت میں بھی نظر آئیں۔
اس ناول کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ جیسے یہ ہماری ہی معاشرت پر تحریر کیا گیا ہے۔ حالات و واقعات میں ایسی مماثلت پائی جاتی ہے کہ بالکل بھی محسوس نہیں ہوتا کہ آپ فرانسیسی زبان کے کسی ناول کا مطالعہ کر رہے ہیں سوائے جگہوں اور انسانی ناموں کے۔ لیکن اگر اُس زمانے کے سماج کا آج کے فرانسیسی ماحول سے موازنہ کیا جائے تو آپ کو حالات یکسر مختلف نظر آئیں گے۔ آج کی عورت نے جو حقوق اور مقام حاصل کر لیا ہے دو سو سال پہلے وہ اس سے محروم تھی۔ یہی تو ارتقا ءہے۔ معاشرت کی سب سے بڑی خوبی ہی یہی ہے کہ اس کے ارتقائی عمل میں جمود نہ ہو اور مستقبل میں اس میں کیا تبدیلیاں رونما ہوتی ہیں اندازہ لگانا مشکل ہو جائے۔
اس ناول کو عام طور پر انیسویں صدی کے فرانسیسی معاشرے اور اقتصادی ڈھانچے پر تنقید کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔ مصنف اس کے ذریعے ہوس، لالچ اور مادیت کے تباہ کن اثرات کی نشان دہی کرتا ہے۔ فلیکس کا دولت سے شدید لگاؤ کس طرح انسانی رشتوں کی تباہی کا باعث بنتا ہے وہ ہمارے سامنے ہے۔ یہاں فلیکس کی شخصیت کو معاشرتی و اقتصادی تنقید کی علامت کے طور پر پیش کیا گیا ہے۔ یہ اُس زمانے کے فرانسیسی سماج کی اخلاقی خرابیاں ہی ہیں جنہیں بالزاک نے اچھی طرح سے بے نقاب کیا ہے۔ مگر دوسری جانب ہم یہ بھی دیکھتے ہیں کہ مردوں سے مغلوب ماحول سے ہی بالزاک نے یوجین جیسا مضبوط نسوانی کردار بھی پیدا کیا ہے۔ اسی زنگ آلود معاشرے میں ہی پروان چڑھنے کے باوجود اس کی شخصیت ایثار، نیک دلی اور بے لوث محبت کی مظہر دکھائی دیتی ہے۔
بالزاک کی نثر ہر قسم کے قاری کو متاثر کرتی ہے۔ بالزاک کے کام کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ حقیقت نگاری پر مبنی معاشرتی موضوعات سیدھے دل میں اُترتے ہیں۔ اگر آپ کا شمار عالمی ادب کے شائقین میں ہوتا ہے تو پھر آپ کی لائبریری میں بالزاک کی کتابوں کا موجود ہونا لازم ہے کیوں کہ فرانسیسی کلاسیکی ادب کو پڑھے بغیر ایسا ممکن نہیں۔
- فلسطینی المیے پر غسان کنفانی کا ناولٹ دھوپ میں لوگ - 22/04/2025
- دی کائٹ رنر: دوستی، بے وفائی اور ندامت جیسے احساسات پر مبنی ایک اثر انگیز ناول - 27/03/2025
- موت کا دریا (افسانہ) - 23/03/2025
Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).