اڑتی پتنگ سا تھا وہ


 

تقریباً میرے بیٹے کی ہی عمر کا تھا۔ یہی بمشکل آٹھ نو سال۔ جیسے ہی رات قریب 10 بجے میں مقامی ہسپتال کے سامنے والے شاپنگ پلازہ سے نکلا تو وہ غیر محسوس انداز سے میرے ساتھ ہو لیا۔ لیزر لائٹ اس کے ہاتھ میں تھی جو پرجوش بچوں کی طرح کبھی ادھر مارتا کبھی ادھر۔ پھر رک کر اپنی انکھوں کے گرد ڈال کر تجربہ کرتا اور پھر دوڑ کر میرے ساتھ آ ملتا۔ نہر کا پل کراس کرنے سے تھوڑا پہلے وہ بولا۔

”بات سنیں!“
”جی بیٹا“ میں نے رکے بغیر بولنے کا اشارہ کیا۔
”مجھے اپنے بہن بھائیوں کے لئے روٹی لے جانی ہے مجھے روٹی لے دیں یا پیسے دے دیں۔“
”اوہ سوری، آپ ابھی تک بھوکے ہو؟“ میں نے گھڑی سے وقت دیکھتے ہوئے ہمدردی اور افسوس سے کہا۔
”جلدی چلو! میں آپ کو وہاں سے روٹی لے دیتا ہوں۔“
مجھے معلوم تھا آگے تھوڑے فاصلے پر ایک ہوٹل تھا جہاں مجھے رک کر ایک دوست کے آنے کا انتظار کرنا تھا۔

”وہاں سے نہیں میں نے ادھر سے لینی ہیں روٹیاں۔ وہاں دس روپے کی ملتی ہے“ ۔ اس نے پیچھے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا۔

”آپ بے فکر رہیں بیٹا۔ میں خود پیسے دوں گا اور سالن بھی لے دوں گا“ ۔ وہ خاموشی سے ساتھ چلنے لگا۔

” کتنی روٹیاں اور کتنا سالن؟“ ہوٹل پر پہنچ کر میں نے سڑک پر لگی کرسی سنبھالی اور اسے ساتھ والی کرسی پر بیٹھنے کا اشارہ کیا۔

”جتنی بھی۔“ وہ بیٹھتے ہوئے بے اعتنائی سے بولا
” بیٹا جتنے لوگ ہیں اسی حساب سے بتائیں“ میں نے ”جتنے“ پر زور دے کر پوچھا۔
”تین بہنیں اور ایک ماں ہے۔ “ اس نے نسبتاً بیزاری سے بتایا۔

میں نے فی کس تین کا حساب لگا کر بارہ روٹیوں کا آرڈر دیا اور اسے کہا کہ ویٹر کو اپنی پسند کا سالن بتائے۔ وہ کچھ نہیں بولا تو میں نے خود ہی تین پلیٹ چکن پیک کرنے کا بھی کہہ دیا۔

رش کی وجہ سے آرڈر لگنے میں بھی وقت تھا اور مجھے بھی دوست کا انتظار تھا تو اس دوران اس کا انٹرویو شروع ہوا۔

میں اس سے سوال شروع کرنے ہی لگا تھا کہ اپنی بوریت توڑتے ہوئے وہ خود ہی بول پڑا۔

پرسوں رات جب میں 2 بجے گھر گیا تو میری ماں ایک بندے کے ساتھ۔ اس نے دونوں ہاتھوں سے بنا کسی جھجک کے مخصوص اشارہ کیا۔

میری آنکھیں اس کے جملے، اشارے، ماں کے تقدس اور معصوم عمر کے اس عجب تضاد پر حیرت سے پھٹی رہ گئیں۔ حیرت کے اظہار میں ابھی انگلی میرے ہونٹوں تک نہیں پہنچی تھی کہ اس نے دوسرا بم پھوڑا۔

”میرا ابا ناکارہ مرد تھا۔ بس اتنا سا۔“
اس نے دائیں ہاتھ کے انگوٹھے کو شہادت کی انگلی کے درمیان رکھتے ہوئے مخصوص اشارہ کیا۔
” اسی لئے میری ماں کسی کے ساتھ بھاگ گئی تھی“
”پر ابھی تو تم کہہ رہے تھے کہ تم نے ماں کے لئے کھانا لے کر جانا ہے۔“
اتنی دیر میں ویٹر نے پارسل ریڈی ہونے کی آواز دی جسے سن کر وہ اٹھا اور دوسری طرف کو چلنے لگا۔
”روٹی تو لیتے جاؤ“ میں نے آواز دی۔
”مجھے روٹی نہیں چاہیے“ وہ دور جاتے ہوئے عجیب بے نیازی سے بولا۔
”آپ آرڈر کینسل کر دیں“ ۔
تو آپ کو کیا چاہیے؟
”مجھے پانچ سو روپے چاہئیں۔ آپ کی گاڑی کدھر کھڑی ہے۔“
”کیوں گاڑی کو آپ نے کیا کرنا ہے؟“
”گاڑیوں والے تو مجھے پانچ پانچ ہزار بھی دے دیتے ہیں اور آپ پانچ سو بھی نہیں دے رہے“
اس نے تحقیر بھرے لہجے سے کاٹ دار جواب دیا۔

”گاڑیوں والے آپ کو پانچ پانچ ہزار کس چیز کے دیتے ہیں؟“ میں نے بے یقینی کو یقین میں بدلتے کے لئے پوچھا۔

اس کا ہاتھ ایک دفعہ پھر مخصوص اشارے کے لئے حرکت میں آ چکا تھا جسے دیکھ کر مجھے دنیا گھومتی ہوئی محسوس ہو رہی تھی۔ اپنے بیٹے جیسے اس بچے کے مستقبل کے تصور نے میری انکھوں میں نمی بھر دی تھی۔

آپ کے لئے یہیں تک مگر اس تفصیلی انٹرویو میں مقدور بھر کوشش کے باوجود مدرسے کی مخصوص ٹوپی پہنے ہوئے اس ہوشیار بچے سے میں یہ نہیں اگلوا سکا تھا کہ اس کا اصل نام کیا تھا؟ کیا وہ کسی منظم اور تربیت یافتہ گروہ کا حصہ تھا یا گھر یا مدرسے سے بھاگا ہوا تھا؟ اس کے والد اور والدہ حیات تھے یا نہیں اور معاشرے نے اس کو چائلڈ ابیوز کی یہ راہ کیسے دکھائی اور اس کو یہ اعتماد، مائل کرنے کی تربیت اور بے حجابی کہاں سے ملی۔

ہاں البتہ حیرت اور استعجاب کی اس کیفیت کے درمیان ایک بات میرے لئے ”اطمینان طلب“ بھی تھی کہ اپنا وقت آنے پر یہ بچہ بھی جب معاشرے کو اپنا کردار واپس لوٹائے گا تو وہ کسی صورت مثبت اور قابل قبول نہیں ہو گا۔ وہ ساحر لدھیانوی کے اس شعر کی عملی تفسیر ہو گا کہ

دنیا نے تجربات و حوادث کی شکل میں
جو کچھ مجھے دیا ہے وہ لوٹا رہا ہوں میں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments