تین لاکھ بچے اور وزیر اعلیٰ مراد علی شاہ


میرا کافی دفعہ اتفاق ہوا ہے سندھ کے چیف منسٹر سید مراد علی شاہ کے پوسٹ بجٹ خصوصی میڈیا ٹاک کے پروگرام کو اٹینڈ کرنے کا اور جب کبھی ان سے تعلیم کے بجٹ کے بارے میں سوال کیا جاتا ہے وہ کہتے ہیں پیسے دینا میرا کام ہے آپ کام کر کہ دکھائیں۔ جب کہ ہر سال تعلیم کے بجٹ میں 10 سے 15 فیصد اضافہ بھی کیا جاتا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ تعلیم کا بجٹ کم ہے مگر اہم سوال یہ ہے کہ جو بجٹ دیا جاتا ہے اس کا استعمال کیسے کیا جاتا ہے۔ میں یقین کے ساتھ کہہ سکتا ہوں ہمارے سی ایم سندھ کو تعلیم کے حالات کا ذرا برابر بھی اندازہ نہیں ہے اور ان کو یہ علم ہی نہیں کہ سندھ کی تعلیم کیسے تباہ ہو چکی ہے۔ سندھ میں 70 لاکھ سے زیادہ بچے اسکول سے باہر ہیں اور جو اسکولوں میں پڑھ رہے ہیں ان پر بھی بڑے سوال ہیں۔ یہ اچھی بات ہے سی ایم مراد علی شاہ نے 3 لاکھ آؤٹ آف اسکول بچوں کو اسکول میں لانے کا ٹارگیٹ سندھ ایجوکیشن فاؤنڈیشن کو دیا ہے۔ سندھ ایجوکیشن فاؤنڈیشن ایک اچھا ادارہ ہے مگر اس کی پرفارمنس کو دیکھنے کی ضرورت ہے۔ سندھ ایجوکیشن فاؤنڈیشن کے اسکولوں میں 1 ملین بچے 2734 اسکولوں میں پڑھتے ہیں۔ چند اسکولوں کو چھوڑ کر 95 فیصد اسکولوں میں کوئی خاص تعلیم نہیں دی جا رہی۔ جب کہ اسکول کے پارٹنر یا مالک کو پوری سبسڈی بھی ملتی ہے۔ پارٹنر کو اسکول میں ماسٹر ڈگری ٹیچر رکھنے ہوتے ہیں جن کی کم از کم تنخواہ 25 ہزار تھی جو اب حکومت نے بڑھا کر 37 ہزار کر دی ہے مگر کسی سندھ ایجوکیشن فاؤنڈیشن کے اسکول میں یہ تنخواہ نہیں دی جاتی اور میٹرک پاس تک ٹیچرز کو رکھا جاتا ہے جو 10 سے 12 ہزار میں مل جاتے ہیں۔ اور بد قسمتی یہ ہے سندھ ایجوکیشن فاؤنڈیشن کو بجٹ تو سال کا دیا جاتا ہے مگر اسکولوں کو ایک کواٹر کا بجٹ دیا جاتا ہے اور ہر ٹیچر کو تنخواہ سندھ ایجوکیشن فاؤنڈیشن کے اسکولوں میں 3 مہینے کہ بعد ملتی ہے۔ اب آپ اندازہ کر سکتے ہیں جس ٹیچر کو 3 مہینے میں تنخواہ ملے گی وہ ٹیچر کتنی محنت کرے گا۔ اسکولوں کی کوئی خاص انسپیکشن نہیں ہوتی۔ ایک کلاس میں 30 سے زیادہ بچے ہوں گے تو کوئی ٹیچر اچھی طرح نہیں پڑھا سکتا مگر سندھ ایجوکیشن فاؤنڈیشن کے اکثر اسکولوں کی کلاس میں 50 سے زیادہ بچے ہوتے ہیں۔

جب سندھ ایجوکیشن فاؤنڈیشن کا پہلا بڑا پروجیکٹ پی پی آر ایس شروع ہوا تھا اس وقت میں اس پروجیکٹ کا ریجنل ہیڈ تھا اور میرا پہلا اعتراض میڈم انیتا غلام علی سے آکسفورڈ کے سلیبس پر تھا جو وہ بچوں کو پڑھانا چاہتی تھیں کہ آپ کو سندھ کے دور دراز علاقوں میں آکسفورڈ کا سلیبس پڑھانے والے ٹیچر نہیں ملیں گے مگر وہ بھی نہیں مانیں تھی اور اب 12 سالوں کے بعد سندھ ٹیکسٹ بک بورڈ کا سلیبس پڑھایا جا رہا ہے مگر افسوس اس بات کا ہے کسی اسکول میں بچوں کو مکمل کتابیں نہیں ملتیں اور ان اسکولوں میں اکثر غریبوں کے بچے ہوتے ہیں جو کتاب خرید نہیں سکتے۔

ہمارے سندھ میں تعلیم کے وزیر سردار شاہ سابق ایم ڈی سیف میڈم ناہید دورانی پر تنقید کرتے تھے کہ وہ کسی کی نہیں سنتیں مگر بعد میں سب کی سننے والے قاضی کبیر کو سیف کا ایم ڈی بنا دیا گیا مگر حالات اور خراب ہو گئے۔ میرے خیال میں سب سے پہلے تو سندھ ایجوکیشن فاؤنڈیشن کو اوور ہال کرنے کی ضرورت ہے۔ ایسے حالات میں ادارہ کیسے ایک سال میں 3 لاکھ آؤٹ آف اسکول بچوں کو اسکولوں میں لا سکے گا۔

سندھ میں اسکول ایجوکیشن اینڈ لیڑیسی ڈیپارٹمنٹ ہر سال لاکھوں روپے انرولمنٹ کمپین پر خرچ کرتا ہے مگر اس نے آج تک یہ ڈیٹا پبلک نہیں کیا کہ کتنے بچے اسکولوں میں داخل کیے گئے ہیں۔ اور ہر سال سندھ میں آؤٹ آف اسکول بچوں کی تعداد میں اضافہ ہو جاتا ہے۔ سندھ میں اسکول ایجوکیشن اینڈ لٹریسی ڈیپارٹمنٹ کی سنجیدگی کا عالم یہ ہے کہ پچھلے سال انہوں نے دسمبر میں انرولمنٹ کمپین کا اعلان کر دیا تھا جب کہ انرولمنٹ کمپین ہمیشہ اکیڈمک سال شروع ہونے سے ہوتی ہے۔ جو بچہ دسمبر میں اسکول میں آئے گا وہ فروری میں امتحان کیسے دے گا۔ اس کا نہ سلیبس پورا ہو گا اور جو نیا بچہ اسکول آئے گا تو پرانے بچے بھی اچھی طرح پڑھ نہیں سکیں گے کیونکہ دونوں ایک ساتھ نہیں چل سکتے۔ مگر ان لوگوں کو اس چیز کی کوئی پرواہ نہیں ہوتی ان کو صرف پیسے خرچ کرنے ہوتے ہیں اور کمانا ہوتا ہے۔

مجھے بہت خوشی ہوتی ہے جب پنجاب کی وزیراعلیٰ مریم نواز پنجاب کی تعلیم کے پروجیکٹس کو خود دیکھتی ہیں اور آئے دن کسی نہ کسی ڈونر سے کسی پروجیکٹ کی میٹنگ کر رہی ہوتی ہیں۔ مگر سندھ کے وزیراعلیٰ تعلیم پر بالکل توجہ نہیں دیتے اور انہوں نے سب کچھ وزیر تعلیم سردار شاہ کے حوالے کر رکھا ہے۔ سردار شاہ اتنے ناکام نظر آتے ہیں کہ وہ سندھ کے ایم پی ایز کو خط لکھ رہے ہیں آپ ہمارے اسکولوں کو سنبھالیں جب کہ یہ کام وزیر تعلیم کا ہے۔

ابھی تک سندھ کے 80 فیصد اسکولوں میں بنیادی سہولیات نہیں ہیں۔ جن میں پینے کا پانی، بجلی اور واش روم وغیرہ شامل ہیں۔ اس سال زیادہ گرمی کی وجہ سے اسکولوں میں 15 دن کی مزید چھٹی کر دی گئی ہے کیونکہ اسکولوں میں بچوں کے پاس پنکھے نہیں ہیں اور بچوں کو ہیٹ اسٹروک ہونے کا خطرہ تھا۔ پچھلے سال 20 لاکھ بچوں کو کتابیں تک نہیں ملیں، اور اس سال بھی بچوں کو مکمل کتابیں ملنے کا کوئی امکان نہیں۔ اب اسکولوں کے ایسے حالات میں دوسرے ایم پی ایز کیا کریں گے۔ جب تک وزیر تعلیم اسکولوں میں بنیادی سہولیات فراہم نہیں کرتے سندھ کے اسکولوں میں بہتر تعلیم ہو ہی نہیں سکتی۔ ہر سال اسکولوں میں فرنیچر اور مرمت کے ہیڈ میں کروڑوں روپے آتے ہیں مگر اسکولوں میں کام نہیں ہوتا، اور نہ ہی اسکولوں میں فرنیچر آتا ہے۔ اگر تھوڑا بہت کام ہوتا ہے تو چھ مہینے میں اسکول کی پہلے والی حالت ہو جاتی ہے۔ سارے پیسے وزیر اور ان کے کانٹریکٹرز کی جیب میں چلے جاتے ہیں۔

آخر میں وزیراعلیٰ مراد علی شاہ سے گزارش کروں گا کہ آپ خود اسکولوں کا وزٹ کریں اور جو ڈیٹا آپ کو ملتا ہے اس کو ویریفائی کریں اور برائے مہربانی ہر دفعہ ایک ہی اسکول کا وزٹ نہ کریں اور دور دراز کے اسکول بھی وزٹ کریں کیونکہ آپ سندھ کے وزیر اعلیٰ ہیں۔ مجھے یاد پڑتا ہے جب میں سرکاری کنسلٹنٹ تھا تو کراچی میں جتنے بھی وزیر اور ڈونرز آتے تھے ان کو ایک ہی اسکول وزٹ کرایا جاتا تھا جب میں معلوم کرتا تھا تو پڑے افسران کہتے تھے باقی اسکولوں کی ایسی حالت نہیں جہاں ہم کسی کا وزٹ کرا سکیں۔ میں امید کرتا ہوں سی ایم سندھ کی توجہ سے سندھ کی تعلیم میں بہتری آئے گی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments