موت کیا ہے؟
موت انسانی زندگی سے وابستہ سب سے بڑے رازوں میں سے ایک ہے۔ اس دنیا میں موجود ہر زندہ چیز کو موت کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ مختلف مخلوق کی زندگی کا دورانیہ مختلف ہو سکتا ہے، لیکن وہ سب آخرکار مر جاتے ہیں۔ حیرت انگیز طور پر کسی مخصوص نوع کے لیے زندگی کا دورانیہ ایک بالائی حد رکھتا ہے۔ تاریخ کے مطابق کوئی انسان 150 سال سے زیادہ زندہ نہیں رہا (ایک بہت بڑی اکثریت 100 سال کی عمر تک پہنچنے سے پہلے ہی مر جاتی ہے ) ، ایک مکھی عام طور پر 30 دن تک زندہ رہتی ہے، اور ایک کچھوا 200 سال تک زندہ رہ سکتا ہے۔ یہ حقیقت اس بات کی نشاندہی کرتی ہے کہ تمام زندہ اشیاء کسی بھی مشین کی طرح ہیں جس کے پرزے وقت کے ساتھ گھس جاتے ہیں اور آخر کار کام کرنا چھوڑ دیتے ہیں۔ ایک کار کی زندگی عام طور پر 10 سے 20 سال کی ہوتی ہے جس کے بعد اسے ناکارہ سمجھا جاتا ہے اور اسے ضائع کر دیا جاتا ہے۔
مشین کی زندگی کے ساتھ انسانی زندگی کی مماثلت کے باوجود، انسان عموماً اس خوش فہمی کا شکار رہے ہیں کہ ان میں کوئی ایسی چیز ہے جو ہمیشہ زندہ رہتی ہے۔ جسم مر سکتا ہے، لیکن روح زندہ رہتی ہے۔ اس مضمون میں، میں موت کی نوعیت کے بارے میں کچھ ذاتی خیالات پیش کرتا ہوں۔
ہر انسان اس دن سے، جب وہ اپنے ارد گرد کی دنیا کو سمجھنا شروع کرتا ہے، یہ نتیجہ اخذ کر لیتا ہے کہ زندگی عارضی ہے اور ایک دن آئے گا جب زندگی کا خاتمہ ہو جائے گا۔ یہ زیادہ تر لوگوں کے لیے ناگزیر ہونے کے باوجود ایک خوفناک سوچ ہے۔ تقریباً تمام انسانوں کے لیے، یہ خیال کہ ہر زندگی کا انجام موت ہے، ناقابل قبول ہے۔ کیونکہ اگر یہ سچ ہے تو زندگی بے معنی ہو جاتی ہے۔ کوئی بھی اعلیٰ درجہ جس پر انسان اپنے آپ کو فائز دیکھتا ہے، یک دم اپنی اہمیت کھو دیتا ہے۔ زندگی کا کوئی بھی مقصد اپنا معنی کھو دیتا ہے۔
ایک ابدی زندگی کا تصور انسانی تاریخ میں بہت قدیم ہے اور انسانی تہذیب کے ابتدائی لمحات سے موجود نظر آتا ہے۔ پہلی بڑی تعمیرات جو تقریباً 5000 سال سے قائم ہیں، مصر میں گیزا کے اہرام، فرعون خوفو اور اس کے بیٹے خافری کے آخری ٹھکانے تھے۔ ان عالی شان عمارتوں کے اندر ایسے حجرے ہیں جہاں فرعونوں کی باقیات تابوتوں میں رکھی گئی تھیں۔ موت کے بعد کی زندگی کو کافی آرام دہ بنانے کے لیے وسیع انتظامات کیے گئے تھے۔ باقیات کو در اندازوں سے بچانے کی بھرپور کوشش کی گئی۔ بعد میں آنے والے بادشاہوں کی تدفین کے مقامات پر، فرعونوں کے مقبروں کو ایسا سامان فراہم کیا گیا تھا جو بعد کی زندگی میں کارآمد ہوتا۔ یہاں تک کہ ان مقبروں میں سے ایک میں، جو اصلی شکل میں ملا تھا، وہ سینڈل بھی ممی شدہ لاشوں کے پاس رکھی گئی تھیں، جو غالباً یہاں کی زندگی میں پہنی جاتی تھیں۔
ایک ابدی زندگی کی یہ خواہش ان تمام مذاہب کی پہچان بن گئی جو پچھلے 4000 سالوں کے دوران پیدا ہوئے اور تیار ہوئے۔ مشرق وسطیٰ کے مذاہب، یہودیت، عیسائیت اور اسلام میں، بعد کی زندگی کی ایک وسیع تصویر نمودار ہوئی۔ مثال کے طور پر بعض روایات میں ہے کہ زندگی کے دوران اعمال کے بارے میں فرشتوں کی پوچھ گچھ قبر کی پہلی رات ہی سے شروع ہو جائے گی۔ پھر قیامت کے دن اعمال کی بنیاد پر طے کیا جائے گا کہ کون جنت میں ابدی امن و سکون کی زندگی گزارنے کے لیے جاتا ہے اور کون ابدی زندگی جہنم میں گزارنے کے لیے جاتا ہے۔ مشرقی مذاہب میں، ہندوازم کی طرح اس تصور کو فروغ دیا کہ موت کے بعد انسان کسی اور شکل میں ظاہر ہوتا ہے۔ اگلی زندگی کی نوعیت کا انحصار اس دنیا میں کیے گئے اعمال پر ہو گا۔
ایک بڑا مسئلہ یہ ہے کہ بعد کی زندگی کی ان میں سے کوئی بھی تصویر کسی طور قطعی طور پر ثابت نہیں ہے۔ یہ پچھلی کئی صدیوں کے دوران سائنس کی زبردست ترقی کے باوجود ہے۔ موت کے بعد کی زندگی کے بارے میں تمام تصورات صرف اور صرف عقائد پر مبنی ہیں۔ یہ عقائد ہزاروں سال پہلے لکھے گئے صحیفوں اور مذہبی کتابوں پر مبنی ہیں۔
موت اور اس کے بعد کی زندگی کی انسانی تصویریں کچھ اہم سوالات کو نظر انداز کر دیتی ہیں۔ مثال کے طور پر، وہ انسان جو موت کے بعد ایک ابدی زندگی کے بارے میں اتنا خود اعتماد نظر آتے ہیں، تقریباً کبھی بھی جانوروں، پرندوں اور رینگنے والے جانوروں سمیت دیگر جانداروں کی موت کے بعد کی زندگی کے بارے میں بات نہیں کرتے۔ کیا ان کو بھی اس دنیا میں ان کے اعمال کا ذمہ دار ٹھہرایا جائے گا؟ اس سے بھی اہم بات یہ ہے کہ اس تفصیل سے غائب ہمارے وہ آبا و اجداد ہیں جو تہذیب کے طلوع ہونے سے پہلے لاکھوں سال پہلے اس دنیا میں موجود تھے۔
کیا ہم اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ ہمارے تمام آبا و اجداد، جو ایک لاکھ یا دس لاکھ سال پہلے موجود تھے، موت کے بعد ابدی زندگی گزار رہے ہیں؟ ان آبا و اجداد کی نہ کوئی زبان تھی، نہ کوئی مذہب، نہ کوئی خدائی رہنمائی، ان کے پاس صرف زندہ رہنے کی جبلت تھی اور بس۔ آج زندہ رہنے والے تمام جانوروں کی طرح، بعد کی زندگی میں ان کی حیثیت کا تصور کرنا بھی ناقابل فہم ہے۔ ان تک تو کوئی ہدایت نہیں پہنچی۔ کیا وہ بھی اپنے اعمال کے ذمہ دار ہوں گے؟ ان کو جنت یا دوزخ میں بھیجنے کا فیصلہ کس بنیاد پر کیا جائے گا؟ یہ واقعی پریشان کن سوالات ہیں۔
موت کے بعد زندگی کا تصور ایک اور بنیادی سوال سے گہرا تعلق رکھتا ہے : زندگی کیا ہے؟ تمام جاندار اشیاء، تمام غیر جاندار اشیاء کی طرح، ایک خاص ترتیب میں ایٹموں اور مالیکیولوں پر مشتمل ہیں۔ سوال یہ ہے کہ کیا زندگی ان ایٹموں اور مالیکیولز کے امتزاج سے باہر کی کوئی چیز ہے؟ کیا ہم ان ایٹموں اور مالیکیولز کو، جو فطرت میں بکثرت پائے جاتے ہیں، ملا کر لیبارٹری میں کوئی زندہ چیز پیدا کر سکتے ہیں؟
موت کی تفہیم حاصل کرنے کے لیے زندگی کی نوعیت کو سمجھنا بہت ضروری ہے۔ اگر یہ پایا جاتا ہے کہ زندگی مادّی دنیا سے باہر کی چیز ہے، تو بعد کی زندگی پر یقین کافی وزن رکھتا ہے۔ یہ کیسے ہے کہ عام ایٹموں اور مالیکیولز کے امتزاج کے نتیجے میں کوئی ایسی چیز بن سکتی ہے جس میں آزاد مرضی، گہرے جذبات اور تولیدی صلاحیت ہو؟ یہ واقعی ایک دلچسپ سوال ہے۔ کیا انسان کی طرح ہر جاندار چیز کے ساتھ کوئی روح وابستہ ہے جو اس کی مادی ساخت سے ماورا ہے؟
ایک دلچسپ مشاہدہ یہ ہے کہ ہمارے جسم کے خلیات مسلسل تبدیل ہو رہے ہیں۔ پرانے خلیات مر جاتے ہیں اور ان کی جگہ نئے خلیات لیتے ہیں۔ ہم بنیادی طور پر ہر 7 یا 8 سال بعد نئے خلیات پر مشتمل ہوتے ہیں۔ لیکن ایک شخص کے طور پر ہماری شناخت برقرار رہتی ہے۔ کیا یہ روح جیسی کسی چیز کی طرف اشارہ کرتا ہے جو خلیات کے تبدیل ہونے کے اس عمل میں برقرار رہتی ہے؟ کیا یہ ممکن ہے کہ موت کا مطلب یہ ہے کہ زندہ جسم کا مادی حصہ پرانی گاڑی کی طرح کام کرنا چھوڑ دے، لیکن روح زندہ رہے؟
یہ وہ سوالات ہیں جن کے جوابات ہمیں اس وقت معلوم نہیں ہیں۔ جب ان بنیادی سوالات کی بات آتی ہے تو سائنسدان اس وقت ان سوالات کا جواب دینے کے قابل نہیں۔ تاہم یہ سوالات سائنس کے دائرے سے باہر نہیں ہیں اور اس بات کا امکان ہے کہ کسی دن ہمیں زندگی کی اصل نوعیت کا علم ہو جائے گا۔
موت کے بارے میں سوال کی طرف واپس آتے ہوئے، کچھ اہم مشاہدات ہیں۔ پہلی اور اہم بات یہ ہے کہ موت ناقابل واپسی ہے۔ انسانی تاریخ میں کوئی بھی شخص مردہ قرار دے کر دوبارہ زندہ نہیں ہوا۔ ایک اور مشاہدہ موت کے بعد ابدی زندگی کے بارے میں ہے۔ اگر کوئی زندہ چیز موت کے بعد ابدی ہے، تو پیدائش سے پہلے کے تقریباً لامحدود ماضی کے بارے میں پوچھنا ایک معقول سوال ہے۔ موت کے بعد ایک ابدی زندگی پیدائش سے پہلے کی زندگی کے بغیر معقول نظر نہیں آتی۔
موت کے بارے میں سوالات کا جواب دینے کا ایک طریقہ ان لوگوں کے تجربات کا مطالعہ کرنا ہے جنہیں چند منٹ یا اس سے زیادہ عرصے کے لیے مردہ قرار دیا گیا تھا لیکن وہ ”موت“ کا تجربہ کرنے کے بعد دوبارہ زندہ ہو گئے تھے۔ موت کے بارے میں ایسے لوگوں کے بتائے گئے تجربات ایک دوسرے سے کافی مختلف ہیں۔ بعض نے خود کو جسم چھوڑ کر باہر سے دیکھا ہے۔ کچھ نے اپنے وجود سے باہر ایک دنیا کو بیان کیا ہے۔ تاہم ان تمام تجربات میں ایک چیز مشترک ہے : یہ ان افراد کے تجربات کو بیان کرتے ہیں جن کی طبی حالت موت کی حالت سے زندگی کی طرف لوٹ سکتی تھی۔ لہذا، یہ واقعی ایک ”مردہ“ شخص کے تجربات کو بیان نہیں کر سکتا۔
کیا کوئی دوسرا طریقہ ہے جس سے ہم موت کے بعد کی زندگی کے بارے میں رائے قائم کر سکیں اور یہ معلوم کر سکیں کہ موت کے بعد کیا کوئی اور زندگی ہے؟
ہماری عام زندگی میں دو ایسے تجربات ہوتے ہیں جو موت کی حالت میں ہونے کے قریب آتے ہیں۔ وہ اس مضمون میں پوچھے گئے سوالات پر کچھ روشنی ڈال سکتے ہیں۔
ایک تجربہ جو ہم سب کے لیے عام ہے وہ ہے نیند۔ نیند کی حالت میں، ہم عام طور پر ان جذبات اور احساسات سے عاری ہوتے ہیں جسے ہم زندگی کی نشانی تصور کرتے ہیں۔ کیا موت کے بعد ہم بھی ایسا ہی محسوس کریں گے؟ اس کا جواب نفی میں محسوس ہوتا ہے۔ نیند مکمل ہونے کے بعد ہم عموماً اس بات سے واقف ہوتے ہیں کہ ہم کتنی دیر سوئے اور زندگی سے جڑے خواب ہمیں یہ باور کراتے ہیں کہ نیند کی حالت میں ہم زندہ ہوتے ہیں۔
دوسرا تجربہ، جو اتنا عام نہیں ہے، موت کی حالت سے ملتا جلتا ہے۔ یہ جنرل اینستھیزیا سے وابستہ بے ہوشی کی صورت حال ہے۔ میرے ذاتی تجربے کے مطابق، یہ وہ حالت ہے جب وقت رک جاتا ہے۔ جب ہم اینستھیزیا کے اثر سے باہر آتے ہیں، تو ہمیں بالکل اندازہ نہیں ہوتا کہ کتنا وقت گزر گیا ہے۔ یہ چند منٹ یا چند گھنٹے یا چند دن ہو سکتے ہیں۔ تاہم، سب سے قابل ذکر پہلو مکمل اندھیرا ہے۔ ہم اپنے ساتھ یا ہمارے اردگرد کے ماحول میں ہونے والی کسی بھی چیز سے بالکل بے خبر ہوتے ہیں۔ ہمارے پاس کوئی سوچ نہیں، کوئی خواب نہیں، کوئی جذبات نہیں، ۔ بس کچھ نہیں۔ کبھی کبھی میں سوچتا ہوں کہ کیا جنرل اینستھیزیا کے دوران ہونے والی موت اسی حالت کا تسلسل ہو گی اور اگر یہ سچ ہے تو بعد کی زندگی میں کچھ نظر نہیں آتا۔ موت کے ساتھ ہی ہمارا ہمیشہ کے لیے خاتمہ ہو جائے گا۔
موت کے بعد کی زندگی کی عدم موجودگی کی حمایت میں ایک اور دلیل موت اور بے ہوشی کے تحت ڈاکٹری تعریفوں سے ملتی ہے۔ طبی طور پر قبول شدہ تعریف کے مطابق، موت کو دماغی خلیوں سمیت پورے دماغ کے کام کے ناقابل واپسی خاتمے کے طور پر بیان کیا جاتا ہے۔ تاہم، جنرل اینستھیزیا کے
دوران بھی دماغی خلیوں کی کارکردگی موت کے مترادف ایک مخصوص سطح سے کم ہوتی ہے۔ یہ موازنہ اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ دونوں صورتوں ایک جیسی ہیں بس فرق یہ ہے کہ موت کی صورت میں دماغ کی معمول کی کارکردگی ہمیشہ کے لیے ناقابل واپسی ہو جاتی ہے جب کہ جنرل اینستھیزیا کی صورت میں دماغ کی معمول کی کارکردگی لوٹ آتی ہے۔
اس طور یہ سوچنا مناسب معلوم ہوتا ہے کہ موت کی حالت میں دماغ کی حالت اس صورت سے بہتر نہیں ہو سکتی جس کا سامنا بے ہوشی یا اینستھیزیا کی حالت میں ہوتا ہے۔ مکمل تاریکی اور گھپ اندھیرا۔ کیا یہ اس طرف اشارہ تو نہیں کہ موت کے بعد کوئی زندگی نہیں؟ یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ موت کی حالت میں انسان بے ہوشی کی حالت سے زیادہ زندگی سے نزدیک تر ہو۔
موت زندگی کا سب سے بڑا معمہ ہے۔ ہو سکتا ہے کہ موت کے بعد زندگی ہو یا پھر نہ ہو۔ اس بات کا امکان ہے کہ ہم کبھی بھی اس اہم ترین سوال کا سائنسی فریم ورک کے اندر کوئی جواب نہ جان پائیں۔ جواب تب ملے گا جب ہم خود موت کا تجربہ کریں گے لیکن تب بہت دیر ہو چکی ہوگی۔
- میری زندگی کا مقصد کیا تھا؟ - 21/04/2025
- حقیقت کی حقیقت کیا ہے؟ - 16/04/2025
- کیا اس کائنات کا کوئی خالق ہے؟ - 08/04/2025
Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).