ناول ”دی ہابٹ“ صرف بچوں کا ادب نہیں


Shahzad Hussain Bhatti Lahore

’دی ہابٹ‘ جے آر آر ٹولکین (3 جنوری 1892۔ 2 ستمبر 1973) کا تحریر کردہ مہم جوئی پر مبنی ایک تخیلاتی ناول ہے۔ بنیادی طور پر دی ہابٹ نوجوانوں کے لیے لکھا گیا فکشن تھا جسے پہلی بار 1937 میں شائع کیا گیا۔ ٹولکین کے شہرہ آفاق ناول ’دی لارڈ آف رنگ‘ کی دیواریں بھی اسی ناول کی بنیادوں پر ہی قائم ہیں۔ ناول کا ترجمہ دنیا کی تقریباً تمام بڑی زُبانوں میں کیا جا چکا ہے۔ اس کے اُردو ترجمہ کے فرائض شوکت نواز نیازی نے ادا کیے ہیں۔ موصوف متعدد فرانسیسی اور انگریزی ادب پاروں کا ترجمہ کر چکے ہیں۔ اس ترجمہ کے 19 ابواب ہیں اور یہ 343 صفحوں کی مجلد کتاب ہے۔

ٹولکین نے انگریزی ادب کے لیے گراں قدر خدمات انجام دیں ہیں۔ وہ ماہر لسانیات بھی تھے اور لغت نویس بھی۔ اُن کی پیدائش بلوم فونٹین جنوبی افریقہ میں ہوئی لیکن اپنے والد کے انتقال کے بعد وہ واپس برمنگھم، انگلستان چلے گئے۔ صرف سولہ سال کی عمر میں ایک یتیم لڑکی ایڈتھ براٹ سے عشق کیا۔ 1915 میں انہوں نے بی اے اور 1919 میں ایم اے کیا۔ انہوں نے اپنی پیشہ ورانہ زندگی کا بیشتر حصہ لیڈز اور آکسفرڈ یونیورسٹی میں انگریزی زُبان و ادب پڑھاتے ہوئے گزارا۔

1938 میں نیویارک ہیرلڈ ٹریبیون نے اس ناول کو نوجوان قارئین کے لیے بہترین ناول قرار دیا۔ 2012 میں امریکی جریدے ”سکول لائبریری جرنل“ نے بچوں کے 100 بہترین ادب پاروں کی فہرست میں 14 ویں نمبر پر رکھا۔ ”بُکس فار کیپس“ نامی امریکی اشاعتی ادارے نے دی ہابٹ کو ایک جائزے میں نوجوانوں کے لیے بیسویں صدی کا اہم ترین ناول قرار دیا۔

نیویارک ٹائمز کے مطابق: ”تجسس سے بھرپور اور دھیمے لطیف مزاح سے مزین ایک زبردست مہم کی پرکشش داستان، خوب صورت پیرائے میں بیان کی گئی“ دی ہابٹ ”کی کہانی مہم جوئی کی داستانوں کے کمسن، بڑے اور بوڑھے شائقین کے دلوں میں اتر جائے گی۔“

1973 میں ٹولکین کی وفات پر ٹائم میگزین کا اداریہ: ”جے آر آر ٹولکین کے شیدائیوں کی تعداد مٹھی بھر انگریزی دانوں سے بڑھتے ہوئے دنیا بھر میں لاکھوں میں پہنچ گئی۔ “

بچوں کے شہرہ آفاق ادبی سلسلے ”کرانیکلز آف نارنیا“ کے مصنف اور نامور برطانوی ادیب سی ایس لیویس کے دی ہابٹ کے بارے میں تاثرات: ”ایک امر ذہن نشین کرنا ہو گا کہ یہ کتاب محض اس حد تک بچوں کے ادب میں شمار ہوتی ہے کہ اسے بچپن میں بھی پڑھا جا سکتا ہے۔ “ ایلسز ایڈونچر اِن ونڈر لینڈ ”کو بچے سنجیدگی سے پڑھتے ہیں اور بالغ تفریح طبع کے لیے۔ اس کے برعکس دی ہابٹ اپنے کم عمر قارئین کے لیے پُر مزاح تحریر ثابت ہو گی جب کہ سالوں بعد وہ یہ کتاب دسویں یا بیسویں مرتبہ پڑھیں گے تو انہیں احساس ہو گا کہ اس کتاب کو ایک مکمل پُرلطف اور اپنے ہی انداز میں حقیقی داستان بنانے میں کیسی عالمانہ چابکدستی اور گہری فکری مہارت کا مظاہرہ کیا گیا ہے۔ پیشین گوئی کا عمل اکثر خطرناک ثابت ہوتا ہے لیکن دی ہابٹ یقیناً ایک شاندار کلاسیکی شہ پارہ ثابت ہو گا۔“

اب دی ہابٹ کی کہانی کی بات کرتے ہیں۔ ناول کی کہانی مہم جوئی پر مبنی ہے جس میں طلسماتی دنیا کا تخیل پیش کیا گیا ہے۔ اس کے کردار ہابٹ ہیں۔ ہابٹ پستہ قد انسان نما ایک ایسی مخلوق ہے جن کے پاؤں بڑے ہونے کے ساتھ ساتھ چپٹے بھی ہوتے ہیں اور ان کے کان بھی بڑے اور عجیب و غریب ہوتے ہیں۔ ہابٹ امن و سادگی پسند ہوتے ہیں، جو پہاڑوں میں کھودے گئے آرام دہ گھروں میں رہنا پسند کرتے ہیں۔ کئی خامیوں اور کمیوں کے باوجود یہ بہادر اور حوصلہ مند بھی ہوتے ہیں۔

ناول کا مرکزی کردار بلبو بیگنس نہ چاہتے ہوئے بھی 12 بونوں کے ساتھ ایک ایسی خطرناک مہم پر راضی ہو جاتا ہے جو ڈریگن سماوگ سے اپنے آبا و اجداد سے چھینا گیا خزانہ واپس لینے کے لیے نکل کھڑے ہوتے ہیں۔ اس مہم جوئی کے دوران بلبو کو ایک جادوئی انگوٹھی ملتی ہے جسے پہننے والا لوگوں کی نظروں سے اوجھل ہو جاتا ہے۔ دی ہابٹ ایک سادہ لوح اور پُرسکون ہابٹ کی کہانی ہے جو مہم جوئی پر نکلتا ہے تو بہادری اور عقل مندی کی داستان قلم کرتا ہے۔

ناول کا پلاٹ ایسی خطرناک مہم جوئی پر کھڑا ہے جسے پڑھتے ہوئے قاری متجسس اور مشغول رہتا ہے کہ کہانی کے اگلے حصے میں کیا ہونے جا رہا ہے۔ مصنف نے مہم جوئی میں کرداروں کا حوصلہ بڑھانے کے لیے کئی جگہوں پر شاعری کا استعمال بھی کیا ہے جس کی وجہ سے یہ کردار اپنے انجام کی پروا کیے بغیر آگے بڑھتے رہتے ہیں۔ مصنف کا شاعرانہ اندازِ تحریر قاری کو بھی متاثر کرتا ہے اور وہ کہانی کے ساتھ جڑا رہتا ہے۔

اس ناول میں جہاں مصنف نے طلسماتی دنیا بنانے میں محنت کی ہے وہیں کردار نگاری پر بھی خصوصی توجہ دی ہے۔ بلبوبیگنس ایک غیر معمولی اور متحرک کردار ہے جو آغاز میں شرمیلا اور ہچکچاہٹ کا شکار ہے، مگر پھر مہم جوئی کے دوران وہ مختلف چیلنجوں کا مقابلہ کرتے ہوئے قابلِ ذکر تبدیلیوں سے گزرتا ہے۔ اس کی ہمت، عقل اور وفاداری آہستہ آہستہ ظاہر ہونے لگتی ہے۔

ناول کے مطالعہ کے بعد آپ جانیں گے کہ تھورین اوکنشیلڈ کی سربراہی میں بونوں کے گروہ میں شامل سب الگ الگ شخصیت و خوبیوں کے مالک ہیں۔ ایک اور اہم کردار گنڈالف دی گرے جو کہ ایک بوڑھا جادوگر ہے وہ بونوں کی مختلف معرکوں میں مدد کرتا ہے اور بلبو کو اس مہم میں شامل ہونے کے لیے راضی بھی کرتا ہے۔ مصنف نے تمام کردار بخوبی تخلیق کیے ہیں جن میں وہ تمام خوبیاں موجود ہیں جو تصوراتی مہم جوئی کے کرداروں میں ہونی چاہیں۔

ٹولکین کا تخیل بہترین ہے۔ اس نے اس ناول میں طلسم سے بھرپور جو تصوراتی دنیا تخلیق کی ہے وہ بے مثل ہے اور اس تصوراتی دنیا کی منظر کشی کرتے ہوئے مصنف نے جن مافوق الفطرت مخلوقات کا ذکر کیا ہے ان کی وجہ سے مہم جوئی پر مشتمل فکشن کے قارئین خوب لُطف اندوز ہوتے ہیں۔

مصنف اس ناول میں جہاں مختلف موضوعات کا احاطہ کرتا ہے وہیں ڈر کو شکست دینے کی اہمیت پر روشنی بھی ڈالتا ہے۔ وہ دوستی اور وفاداری کا درس دیتا ہے۔ وہ مشترکہ جدوجہد کے نتیجے میں حاصل ہونے والی کامیابی کو احسن انداز سے بیان کرنے کا فن بخوبی جانتا ہے۔ مزید برآں اس میں لالچ اور اس کے نتائج اور دولت کے غلط ہاتھوں میں منتقل ہونے کے اثرات پر بھی گفتگو موجود ہے۔

ناول کے مترجم کے لیے بھی داد بنتی ہے۔ انہوں نے ترجمہ کرتے وقت تمام باریکیوں کا خیال رکھا ہے۔ چوں کہ اس کی کہانی پیچیدگیوں سے بھرپور ہے اس لیے اگر کوئی بھی تفصیل یا معلومات ترجمہ کرتے وقت رہ جاتی تو مزہ کرکرا ہو جاتا۔ یہی وجہ ہے کہ قاری بوریت محسوس نہیں کرتا اور اس کی دل چسپی برقرار رہتی ہے۔ اگر ترجمہ سطحی ہوتا تو شاید وہ مقصد حاصل نہ ہو پاتا جو اس طرح کے نالوں کی کامیابی کی ضمانت ہے۔

اختتام پر ہم یہ رائے دینے کی جسارت کرتے ہیں کہ جب یہ ناول منظر عام پر آیا تھا تو یہ صرف بچوں کے ادب کی حیثیت رکھتا تھا مگر بہت جلد یہ سنجیدہ قارئین تک بھی رسائی حاصل کر گیا۔ اسی خوبی کی بدولت یہ آج بھی بین الاقوامی کلاسیکی ادب میں اپنی جگہ پر ٹکا ہوا ہے۔ یقیناً دی ہابٹ جے آر آر ٹولکین کا پُختہ کام ہے جس میں ہر عمر اور مزاج کے افراد کے لیے تفریحی کا سامان موجود ہے۔

 


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments