یونس خان میرا بھائی!
یونس خان کا پہلا تعارف تو یہی ہے کہ وہ میرا بھائی ہے مگر یہ تعارف تو تصویر کشی کے عمل کو متنازعہ و متعصب کر دیتا ہے کہ بھائی تو بہنوں کو عزیز ہوتے ہیں اور اچھے ہی لگتے ہیں مگر یونس خان اگر میرا بھائی نہ بھی ہوتا تو میری رائے یہی ہوتی۔ یہ وہ بھائی ہے جو اس ادبی دنیا نے مجھے عطا کیا، اس ادبی دنیا کا یہ احسان میری ذات پہ کیا کم ہے کہ اس نے بڑے انمول لوگ اور رشتے میری دریدہ جھولی میں ڈال دیے۔ وہ دامن جو رشتوں کے اعتبارات سے چھلنی تھا، سچ تو یہ ہے کہ میں رشتے بنانے سے خائف ہوں بری طرح خائف، میرے لیے کسی کو دائرہ دوستی میں داخل کرنا بھی بہت مشکل کام ہے کجا کہ کوئی رشتہ استوار کر لینا۔
اس خاکے کو سوچتے اور سوچ کر لکھنے میں ایک طویل عرصہ حائل ہے اذیت اور بے حسی کے انتہائی مقام پہ بہت بار خود کو روک لیا کہ یہ بے اعتبار دنیا ہے یہاں کون رشتہ و تعلق نبھاتا ہے جانے کون کب آپ کو چھوڑ دے تو تحریر خود مجھ پہ ہنسنے لگے مگر یہ یونس خان کی بے لوث، ایثار کرنے والی، محبت کرنے والی شخصیت ہے کہ مجھے بھول گیا ہے کہ وہ میرا سگا بھائی نہیں، منہ بولا بھائی ہے ہم شاید پچھلے جنم میں بھی بہن بھائی تھے کہ جمیل احمد عدیل کہتے ہیں ”تسی واقعی سگے پین پرا ہو کہ اکوں ورگی املا دیاں غلطیاں کردے او۔“ اور مزے کی بات یہ ہے کہ میرا خاندان اس تعلق کو پوری طرح قبول کر چکا ہے بلکہ ادبی دنیا کی اکثریت ہمیں بطور بہن بھائی ہی جانتی ہے۔
یونس بھائی کے ساتھ کہیں جانا ہو تو میرے شوہر کو اطمینان ہوتا ہے۔ یونس خان کو میں نے اتنا ہی تنگ کیا ہے جتنا کوئی چھوٹی بہن بڑے بھائی کو کر سکتی ہے۔ کوئی کتاب چاہیے، سرچ کی ذمہ داری ہو بھائی پہ، کسی تحریر کے حوالے سے کچھ ریسرچ کرنا ہے، خود تو کھپنا ہے مگر بھائی کو الگ مصیبت میں ڈال دینے کا اپنا مزہ ہے کیونکہ یونس بھائی ”یہ مصیبت“ بہت شوق سے گلے لگاتے ہیں کہ پڑھنا، بے تکان پڑھنا ان کا محبوب مشغلہ ہے اک چیز کھولی اس کے حوالے میں جانے کیا کچھ پڑھ ڈالا، کھود کے رکھ دیا، اب بتانے کو ان کے پاس بے تحاشا مواد ہے، گفتگو ہے کہ بیک وقت دسیوں سمتوں میں چلی گئی ہے۔
میں ہک دک پریشان کہ اس انبار و خزانے میں سے اپنے مطلب کے موتی کیسے نکالوں۔ جی ان کے پاس کہنے کو بتانے کو اتنا کچھ ہوتا ہے کہ گفتگو بے ربط ہو کر کئی سمتوں میں بہنے لگتی ہے اور یہیں اس گفتگو میں کئی جملے، کئی معلومات سوچ کے دروازوں پہ دستک دیتی ہیں اور وہ سوچ کبھی افسانے کبھی کالم کے قالب میں ڈھل جاتی ہے۔ یہ بے ربط اور مختلف سمتوں میں گفتگو اس لئے ہوتی ہے کہ ان کے مطالعے میں بیک وقت بہت سی کتابیں موجود ہوتی ہیں۔
ایک صاف گو، مخلص شخص، محبت کرنے والا علم دوست جس کی جانب متوجہ مجھے مشرف عالم ذوقی صاحب نے کیا تھا اور کہا تھا ”سیمیں یونس ہیرا آدمی ہے اس جیسے لوگ نایاب ہوتے ہیں“ ۔
معاملہ میری کتابوں کی اشاعت کا ہو یا پھر ناول کی کمپوزنگ کا ، یونس بھائی بس منہ سے نہیں کہتے ”میں ہوں نا“ اور غیر محسوس طریقے سے ساری ذمہ داری اٹھا لیتے ہیں اور مجھے اس حد تک فکر سے آزاد کر دیتے ہیں کہ مجھے بھول جاتا ہے کہ یہ شخص بھرے پڑے خاندان کا فرد ہے جس کی بہت سی ذمہ داریاں ہیں بلکہ مجھے اس بات پہ ٹوک دیا جاتا ہے کہ میں نے جملے میں پلیز کا استعمال بھی کیوں کیا، محبت کا مان رکھنے والا شخص۔ جو آپ کو شرمندہ نہیں کرتا، زیر بار نہیں کرتا۔ ہاں ان کی باتوں سے اندازہ ہوجاتا ہے کہ میرے کسی کار بے کار میں ان کے کئی گھنٹے صرف ہو گئے۔
اچھا مزے کی بات یہ ہے کہ یونس بھائی ان کے بچے اور بھابھی مجھے بہت دانا بینا اور سمجھ دار سمجھتے ہیں اور بھائی مختلف مواقع پہ برملا اعتراف کرتے ہیں کہ آپ سے مشورے نے مجھے معاملے کو سلجھانے میں بہت مدد کی اور میں (جو اپنے میاں کے نزدیک انتہائی احمق، سٹریٹ فاورڈ اور ضرورت سے زیادہ سادہ اور ناکارہ سمجھی جاتی ہوں ) دل ہی دل میں اس صورتحال پہ خوب خوش ہوتی ہوں۔
یونس بھائی کی ایک اور خوبی جو ادب سے منسلک لوگوں میں میں نے خال دیکھی وہ ان کا توکل خدا اور خوش امیدی ہے ایک حیرت انگیز مثبت توانائی سے بھرا ہوا شخص جس کو میں نے شکستہ اور دکھی ضرور دیکھا ہے مگر امید سے خالی اور منفی سوچتے کبھی نہیں دیکھا۔ زندگی کی امید، بہتری کا یقین، کچھ کرتے رہنے کی لگن اور صحت و زندگی کے مسائل کے ساتھ کسی کام کے نہ کر پانے پہ مایوسی نام کی کسی چیز کا کوئی تصور یونس خان کی ڈکشنری میں نہیں آتا۔
ادبی دنیا میں وہ ایک مترجم ہے دو کتابیں، ”سنگی کتابیں کاغذی پیراہن“ کنفیوشس کی تین کتابوں کا مجموعہ ہے کہ جس کی پروف ریڈنگ، دیباچہ اور عنوان رکھنے کا اعزاز مجھے ملا اور حال ہی میں 2022 ء کی نوبل انعام یافتہ ادیبہ اینی ارنو کی سوانحی عشقیہ داستان کو ”گمشدہ“ کی صورت ترجمہ کیا، جنھیں مؤقر اداروں نے شائع کیا ہے۔ تجزیاتی مضامین، کتابوں پہ تبصرے، سیاسی کالمز ان کے کریڈٹ پہ ہیں مگر اس شخص کو اگر ایک جملے میں باندھنا ہو تو کہا جا سکتا ہے کہ احساس کی آنچ کو محبت و خلوص کی مٹی میں گوندھ کر یونس خان کو بنایا گیا ہے۔
بے غرض بے لوث شخص۔ جس کو میں نے اس کے ہر رشتے سے مخلص و محبت کرتے پایا، جس کی انکھیں اکثر احساس کی انچ سے بھیگ جاتی ہیں۔ وہ اپنے بچوں میں حماد سے عشق کرتا ہے، اپنے سسر کو اپنا استاد (mentor) کہتا ہے اور برملا کہتا ہے کہ وہ مجھے اپنے باپ سے زیادہ عزیز تھا، جس کی موت پہ وہ دھاڑیں مار کر رو رہا تھا جو اپنی ماں کی خدمت کسی نوجوان کی طرح کرنے میں سرگرم رہتا ہے، اپنی بیوی کی مدد کرتے ہوئے کچن میں اپنے برتن خود دھو دیتا ہے، اپنے کپڑے خود دھو لیتا ہے، بارہ بہن بھائیوں جیسی بڑی فیملی رکھنے کے باوجود رشتوں کی چپقلشوں باہمی حسد ناراضگیوں کے باوجود میں نے اسے کسی کے لیے برا بولتے، رنجش پالتے نہیں دیکھا حتی کہ یونس خان وہ شخص ہے جس کو اپنی ساس سے بھی اتنی ہی محبت تھی جتنی اپنی ماں سے ہے ان کی زبان پہ ان کی تعریف کے ایسے کلمات سنے ہیں میں نے کہ اس خاتون سے ملنے کی آرزو دل میں بار بار جاگتی رہی لیکن وہ میری ملاقات سے پہلے ہی اس دنیا سے سدھار گئیں۔ میں نے اسے کسی کے لیے بد کلمات کہتے، کسی کی برائی کرتے منفی ہوتے نہیں دیکھا وہ ان چیزوں سے کہیں بہت دور قیام کرتا ہے ان سے بے نیاز رہتا ہے۔
کتابیں خریدنا ان کا عشق ہے پھر ان کتابوں کو کسی نوخیز دوشیزہ کی طرح گفٹ پیپر کے برقعے میں ملفوف کر دیا جاتا ہے اور بے دریغ کتاب تحفے میں دے دینا بھی ان کا محبوب مشغلہ ہے میری لائبریری میں بہت سی کتابیں ان کی گفٹ کی ہوئی ہیں۔ ان کتابوں کی یہ نوک پلک ان کے مزاج کی نفاست پسندی کی عکاس ہے۔ کسی مصنف سے ملنے جانا ہو تو وہ اس کی کتب خرید کر مطالعہ کر کے ملنا ان کا شیوہ ہے۔ وزیر آغا سے لے کر تارڑ تک سے ان کی ملاقاتیں ہیں بلکہ تارڑ صاحب سے دوستی و محبت کا دیرینہ رشتہ موجود ہے اور ان کے درمیان بہت طویل عرصہ خط و کتابت کا تعلق بھی موجود رہا ہے۔
اچھا یونس بھائی سے اکثر و بیشتر گفتگو رہتی ہے ایک اور خوبی جس کا اعتراف کرنا اس لئے بھی ضروری ہے کہ اس کے بغیر تصویر و خاکہ نامکمل رہے گا وہ گفتگو کے دوران بھی اپنی روش برقرار رکھتے ہیں، یہ علمی وفور و رچاؤ سے رچی بسی گفتگو تو ہوتی ہے مگر اس میں تعلی یا اپنی قابلیت کا رعب ڈالنے کی کاوش کہیں دور تک نظر نہیں آتی، سادہ سے لب و لہجہ میں تیز تیز بولتے ہیں، یہی وجہ ہے کہ مخاطب ان کے ساتھ بہت سہولت محسوس کرتا ہے اور میں نے یہ کثرت سے دیکھا ہے کہ میری رائے کے اختلاف کو ، میرے تجزیے یا سوچ کے زاویے کو وہ بڑے کھلے دل سے تسلیم کرتے ہیں بلکہ اعتراف کر کے اپنی رائے کو فوراً تبدیل کر لیتے ہیں اور اگلی کال پہ مجھے پتہ چلتا ہے کہ میری بات نے انہیں اتنا مہمیز کیا ہے کہ انہوں نے اپنا لائحہ عمل بھی فوری تبدیل کر لیا اور یہاں میں بہن ہونے کا بھرپور فائدہ اٹھاتی ہوں اور بڑی آپا بن کر ڈانٹ ڈپٹ بھی لیتی ہوں اور ضرورت پڑنے پر ٹوک بھی دیتی ہوں۔
ان کا خیال ہے کہ انہوں نے بھی کئی بار مجھے ڈانٹا ہے اور میں سوچتی رہ جاتی ہوں کہ ایسا سانحہ ہوا کب تھا۔ ہاں میرے زیادہ تنگ کرنے پہ کبھی کبھی کچھ زچ ضرور نظر آتے ہیں جس پہ میرا بیٹا مجھے ٹوکتا ہے ”مما آپ اب جب واٹس ایپ پہ ٹائپ کر کے انکل کو بھیجتی ہیں تو خود ایم ایس ورڈ میں کیوں نہیں ٹائپ کرتیں آپ انکل کی نرمی کا فائدہ اٹھاتی ہیں“ اور میں دل میں سوچتی ہوں کہ وہ ایک ایسا شخص ہے جس پہ مجھ جیسا شخص بھی اتنا مان اور بھرم کر سکتا ہے اور کبھی میں سوچتی ہوں کہ ”یہ وہی مددگار فرشتہ تو نہیں جو ماں کے ساتھ ہوا کرتا تھا“ بقول ابا کے اور ماں کے بعد بھیس بدل کر اب میرے ساتھ رہتا ہے۔
اچھا یہ جو تصویر میں نے کھینچی ہے اس نے جو تصور آپ کے ذہن میں بنایا ہو گا آپ کو یہ سن کر دھچکا لگے گا کہ ایسا شخص غصے کا بہت تیز ہے۔ ان کے بیٹے حماد اور حسیب شادی شدہ بال بچے دار ہونے کے باوجود اپنے بابا کے غصے سے بہت فرماں برداری سے مستفید ہوتے ہیں اور بھابھی روہانسی ہو کر کہتی ہیں ”یہ جذباتی ہیں اور مجھے بیوقوف کہہ کر چپ کروا کر سارا معاملہ بگاڑ دیتے ہیں“ اور میں انھیں ہنس کر کہتی ہوں ”بھابھی کوئی بات نہیں یہ مردوں کا ٹیکنیکل فالٹ ہے“ ۔
یونس بھائی کو ہر شریف آدمی کی طرح ایک زمانے میں دوسری شادی کا شوق چرایا تھا اور اس شوق کا اظہار میرے ابا کی طرح وہ بھابھی اور بچوں کے سامنے کر چکے تھے، بچے تو ایسے فرماں بردار ہیں کہ باپ کے ساتھ کھڑے ہو گئے اور بھابھی نے بھی فوراً خوش دلی سے یہ کہ کر انھیں اجازت دے دی ”شوق سے کرو تم جیسے نمونے کو کوئی اور بھگتے تو پتہ چلے“ مگر اس شوق کو اتارنے میں فدویہ کا گہرا ہاتھ ہے۔ میں نے ایسی ایسی بھیانک منظر کشی کی کہ یہ شریف آدمی دبک کر بیٹھ گیا۔
ایسے ایک نہیں کئی تضادات کا مجموعہ ہے یونس خان اور شاید ہم پائسز کچھ ایسے ہی جھلے ہوتے ہیں، ہماری سالگرہ بھی ایک دن کے وقفے سے آگے پیچھے آتی ہے۔ ان کو بے تکان کچھ بے ربط بولتا سن کر آپ سوچیں گے یہ شخص تو بہت باتونی ہے مگر آپ حیران ہوں گے یہ سن کر کہ وہ شخص بہت تنہائی پسند ہے اور مہینوں کسی سے نہیں ملتا، گھر سے نہیں نکلتا اس کے دوست نہیں ہیں۔ اس سے کسی کام کے لیے کسی کو فون کروانا ہو تو وہ بہت صاف گوئی سے انکار کردے گا اور کہے گا میں کل یا پرسوں کروں گا اور اب مجھے سمجھ آ چکا ہے کہ وہ دو تین دن ذہنی تیاری کے لیے لیتے ہیں، وہ وائس میسج پہ اکتفا کرتے ہیں اور بقول ان کے وہ اودے زئی پٹھان ہیں جو حجرہ مقیم تھے اور انھیں بھی کمرے میں مناسب سہولت و کتابوں کے ساتھ بند کر دیا جائے تو شاید وہ مہینوں بغیر کسی دقت کے وہاں رہ لیں گے۔ ایک ایسا شخص جو ہر مسئلے کو علم و عرفان کی عینک لگا کر حل کرنے کا عادی ہے اور تجزیے کے عمل سے ہر وقت سیکھنے کے لیے ہمہ دم تیا رہتا ہے!
ایک پر عزم، مہم جو شخص جس کے سر میں کوئی نہ کوئی سودا سمایا رہتا ہے۔ جس دن بیٹے کو سکول میں داخل کرایا اسی دن ان کا ایم بی اے میں داخلہ ہوا تھا۔ حماد کا یونیورسٹی اف سرگودھا میں سافٹ وئیر انجنیئرنگ میں داخلہ ہوا تو باپ نے بھی ساتھ ہی ورچوئل یونیورسٹی میں داخلہ لے لیا کہ تب تک بھائی پی ٹی سی ایل سے قبل از وقت ریٹائر ہو گئے تھے، قدم قدم پہ اس کی راہنمائی کی یہ باپ کی لگن اور انتھک محنت تھی کہ حماد نے ایک بڑے مارجن کے ساتھ یونیورسٹی کو ٹاپ کیا اور گولڈ میڈلسٹ ہوا اور آج اپنا بزنس بہت کامیابی سے چلا رہا ہے۔ باپ کی نصیحت تھی کہ وہ پاکستان نہیں چھوڑے گا یہیں ڈلیور کرے گے، جاب نہیں کرے گا اپنا کام کرے گا او ر اب وہ آئی ٹی انڈسٹری میں اپنا نام بنا رہا ہے اس کے دروازے ہر وقت ہر شخص کے لئے کھلے ہیں وہ ہر دم مدد کے لئے تیار رہتا ہے۔
دل میں سمائی تو مشہ بروم (K1 ) کے بیس کیمپ تک ٹریک کر آئے اور مختصر سا سفر نامہ لکھ دیا، جو لکھا اس کی پبلسٹی سے بے نیاز، شہرت کی دوڑ سے باہر ایک درویش شخص۔ خطرناک حالات میں طورخم بارڈر سیر کے لئے پہنچ گئے۔ پہاڑ کے اگر ایک طرف سفر کر چکے ہیں تو دوسری طرف سفر کرنا باقی ہے۔
جاب کے سلسلے میں فیصل آباد و سرگودھا کے درمیان مختلف زمانوں میں قیام پذیر رہے اور پھر بچوں کے مستقبل کی خاطر لاہور شفٹ ہو گئے۔
ایک ایسا شخص جو بظاہر آئینہ صفت ہے مگر وہ اپنا بھرم، سفید پوشی اور مسائل کو بہت سلیقے سے اپنی امید کے رومال کے نیچے تہہ کیے رکھتا ہے۔ وہ اپنا بھرم اپنے راز چھپا کر رکھتا ہے جس کا اندازہ کوئی اس کی گفتگو سے نہیں لگا سکتا۔
ان کی جواں سال بہو اقصی حسیب دو شیر خوار بچے چھوڑ کر کوئی ڈیڑھ سال پہلے اچانک یہ دنیا چھوڑ گئی۔ اقصی کی موت ہم سب کے لیے دھچکا تھی، ایک شدید دھچکا۔ دو دن پہلے وہ میرے گھر تقریب میں مدعو تھی اپنے شوہر اور بچوں کے ساتھ اور دو دن بعد وہ نہیں تھی۔ میں نے اس دکھ میں مبتلا اس شخص کے ٹوٹے کندھے دیکھے مگر توکل اور صبر میں دراڑ نہیں تھی، اس زخم پہ مرہم بھی اس کتاب دوست شخص نے ایسے باندھا، اس غم سے ایسے لڑا کہ دو کتابیں ترجمہ کر ڈالیں۔
یونس بھائی کے ساتھ میں نے دو مختصر سفر کیے ، ایک فیصل آباد کا مطالعاتی دورہ اور دوسرا اندرون لاہور کا اور میرے بچوں نے اعتراف کیا کہ انکل کا بہت نالج ہے، وہ سفر میں ایسے گائیڈ ثابت ہوتے ہیں جس کی صحبت آپ کے لیے سفر کو دلکش بنا دیتی ہے۔ ایک ایسا سادہ بے ضرر شخص جس کے ساتھ آپ مکمل سہولت محسوس کرتے ہیں بلکہ یہ سہولت ہر عورت ان کے ساتھ محسوس کرتی ہے کہ نوجوانی میں اپنی فی میل کزنز کے ساتھ بے تکلفی، ہنسی مذاق گفتگو کے باوجود ان کی پھپھو کہتی تھی ان کی ماں کو ”پا بی میں ایدھی اکھیاں پڑھیاں نے، اے صاف شفاف نے تینوں ایدھی راکھی دی لوڑ نہیں ۔“
وہ دھان پان سا سفید بالوں والا شخص اپنی مثبت انرجی اور اپنی محبت و شفقت کے ساتھ اپنے اطراف کے لیے سایہ دار شجر تو ہے ہی بلکہ ایسے لوگ تو کسی معاشرے کا نمک ہوا کرتے ہیں، وہ نمک جو ذائقہ ہوتا ہے، معیار ہوا کرتا ہے کسی معاشرے کا حسن ہوا کرتا ہے۔
یونس بھائی شاید میں نے آپ کو کبھی نہیں بتایا کہ میں نے ساری زندگی ہر قیمتی رشتے کو کھویا ہے اور میں کھو دینے کے خوف میں مبتلا شخص ہوں اور اکثر یہ دعا کرتی ہوں کہ میرے خوف کو آپ کی خوش گمانی اور مثبت توانائی مل جائے اور تا دیر آپ کا سایہ ہمارے سروں پر قائم رہے اور تادیر آپ یونہی اپنی چھاؤں بکھیرتے رہیں۔
- ظلم کے ایوانوں میں ایک تھا مسٹر چارلس بائیکاٹ - 23/04/2025
- یوم نسواں پہ کچھ اچھے مردوں کو سلام - 10/03/2025
- روحانی لفنگے۔ مشتری ہشیار باش - 09/02/2025
Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).