ہے آدمی۔ ہے کام۔ قوم کی ترقی کا راز کام، کام اور کام میں مضمر ہے!


لغوی معنوں میں کام (ورک) سے مراد کسی مقصد یا نتیجہ کے حصول کے لئے جسمانی، ذہنی یا توانائی کی سرگرمی شامل ہو یا کوئی ایسی سرگرمی جس میں کوئی شخص اپنی روزی روٹی کمانے کے لئے باقاعدہ طور پراس کام سے منسلک ہو۔ کام کرنے والے شخص کو نوکر، کو کار کن، کاریگر، کارگزار یا ملازم بھی کہا جاتا ہے۔ مسلسل کام محنت میں تبدیل ہو کر محنت و مشقت کی شکل اختیار کر لیتا ہے۔ کام کے متعلق ایک مشہور کہاوت ہے کہ ہے آدمی، ہے کام، نہیں آدمی تو نہیں کام۔ یعنی انسان کے دم سے اس دنیا میں کام قائم ہے، انسان نہیں ہوتا تو کام بھی نہیں ہوتا۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ کرنے والے کے لئے بہت کام ہوتا ہے، جو نہ کرنا چاہے اس کے لئے کچھ کام نہیں ہوتا۔ جگر مراد آبادی نے کام کی اہمیت پر کیا خوب کہا ہے۔ نہ غرض کسی سے نہ واسطہ، مجھے کام اپنے ہی کام سے۔

کسی بھی ادارہ میں کام، نوکری یا ملازمت انجام دینے والے کو ملازمتی قانون کی اصطلاح میں کارکن کہا جا تا ہے۔ کارکنوں کی بے شمار اقسام ہیں جیسے قدیم پیشے کسان، بڑھئی، کمہار، لوہار، حجام، مزدور، کارکن اور وائٹ کالر ملازمین وغیرہ شامل ہیں۔ کارکنوں کی فہرست میں غیر ہنر مند، نیم ہنر مند، ہنر مند اور اہل حرفہ یعنی پیشہ ور کاریگر یعنی ایسے کام جن کو اختیار کرنے کے لئے مشق کے ساتھ ساتھ خصوصی تجربہ بھی ضروری ہو آتے ہیں۔

تاریخی طور پر چند قدیم پیشوں تدریس، طب، صحافت اور قانون ( منصفی) کو تمام پیشوں میں اعلیٰ ترین مقام حاصل ہے۔ طب اور منصفی کے پیشہ سے سے وابستہ افراد اپنے پیشہ کہ ذمہ داریوں اور ان پر صدق دل سے عمل پیرا ہونے کے لئے باقاعدہ حلف بھی لیتے ہیں۔ جبکہ درمیانہ درجہ کے پیشہ ورانہ مہارت والے کاموں میں پلمبر، الیکٹریشن، مکینک، ویلڈر، مستری، قصاب، حجام، درزی، ڈرائیور اور معمار وغیرہ شامل ہیں۔

کسی بھی کارکن کے لئے اس کے اوقات کار کی بڑی اہمیت ہوتی ہے۔ جن میں کام انجام دینے کے لئے پابندی وقت سے کام کی جگہ حاضری، تفویض کردہ کام کی دل جمعی سے اور بلا خلل انجام دہی اور برق رفتاری سے کام کی نتیجہ خیز تکمیل شامل ہے۔ لیکن افسوس ملک میں دیگر معاشرتی خرابیوں کی طرح سرکاری محکموں، صنعتی، تجارتی، کاروباری اور دیگر پیداواری شعبوں میں تاحال کام کی ثقافت (ورکنگ کلچر) ، کام کی اقدار، کام کی پذیرائی اور کام کے فروغ کی صحت مند روایات پروان نہیں چڑھ سکی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ آج بھی ہمارے دیہی معاشرہ میں شعبہ زراعت میں خدمات انجام دینے والے کارکنوں کے لئے ایک تحقیر آمیز اصطلاح ”کمی یا کمین“ استعمال کی جاتی ہے۔

اگر ملک میں کارکنوں اور ملازم پیشہ طبقہ کی سالانہ کارکردگی کا بغور جائزہ لیا جائے تو معلوم ہو گا کہ ہم بطور قوم شاید دنیا میں ہفتے میں سب سے کم پیداواری گھنٹے کام کرتے ہیں۔ ستم ظریفی ہے کہ ایک مقروض الحال اور خسارہ کا شکار قوم دنیا کی دیگر ترقی یافتہ اقوام کی نقالی کرتے ہوئے دن میں بمشکل چند گھنٹے ہی کام کرتی ہے اور ہفتے کے پانچ دنوں پر مشتمل اوقات کار اور دو ہفتہ واری تعطیلات سے پوری طرح لطف اندوز ہو رہی ہے۔ اکثر سرکاری اداروں کے آرام طلب اور تن آسان ملازمین تو ہفتے کے پانچ روزہ اوقات کار کے دوران بھی اکثر اپنے کام کی جگہ سے غائب ہی پائے جاتے ہیں۔ لیکن سرکاری اداروں میں سیاسی اور سفارشی بھرتیوں اور کمزور دفتری نظم و نسق کے باعث ان کام چور ملازمین سے جوابدہی کرنے والا کوئی نہیں ہے۔

اگر ملک میں ہونے والی مجموعی سالانہ تعطیلات کا جائزہ لیا جائے تو یہ تلخ حقیقت سامنے آئے گی کہ دنیا کی دیگر ترقی یافتہ قوموں کی نقالی کرتے ہوئے ہماری مقروض اور دیوالیہ قوم پر تعیش انداز میں دو ہفتہ واری تعطیلات (سالانہ 104 تعطیلات) کے علاوہ، 11 عام تعطیلات، 22 اختیاری تعطیلات، چند مقامی تعطیلات اور تین بینک تعطیلات سے لطف اندوز ہوتی ہے۔ جبکہ سرکاری ملازمین کے لئے مروجہ سالانہ 20 اتفاقیہ، 33 بیماری اور 33 استحقاقیہ رخصتیں اس کے علاوہ ہیں۔

ملک کے سرکاری دفاتر میں ہفتے کے آخری دن یعنی جمعہ کو سب سے قلیل وقت کام انجام دیا جا تا ہے۔ یہ بھی مشاہدہ ہے کہ جمعہ کے دن اکثر سرکاری ملازمین یا تو دفاتر میں حاضری لگا کر بلا اجازت اپنے آبائی شہروں کو روانہ ہو جاتے ہیں یا نماز جمعہ کی ادائیگی کے بعد اپنے کام پر واپس نہیں آتے۔ آبائی شہروں کا رخ کرنے والے سے سرکاری ملازمین تین دن کی چھٹی منا کر پیر کے دن دن چڑھے اپنے دفاتر میں کام پر حاضر ہوتے ہیں۔ اس قسم کے سرکاری ملازمین محض ہفتے میں صرف تین دن ہی کام کرتے ہیں۔

ایک محتاط جائزہ کے مطابق پاکستانی کارکن دنیا کے دیگر ترقی یافتہ اور ترقی پذیر ممالک کے محنتی کارکنوں کے مقابلہ میں سال کے 365 دن کے دوران تقریباً 150 سے زائد دن اپنے کام کاج سے دور رہتے ہیں۔ جبکہ آج کے پر آشوب معاشی دور میں خاندان کی کفالت کے بڑھتے ہوئے اخراجات اور اشیائے صرف کی بلند قیمتوں کے پیش نظر اپنی آمدنی میں اضافہ اور غربت کے خاتمہ کے لئے پاکستانی کارکنوں کو دن میں کم از کم 12 گھنٹے جان فشانی سے کام کرنے کی ضرورت ہے۔ تاکہ ملک اور قوم موجودہ سنگین معاشی بحران کی دلدل سے نکل کر معاشی طور پر ایک مستحکم اور خود کفیل قوم بن سکے۔

فروغ انسانی وسائل کے شعبہ میں سرکاری اداروں میں غیر تسلی بخش اور ناقص کارکردگی کے حامل، سست، نکھٹو، نکمے اور کام چور قسم کے ملازمین کے لئے فضول کارکن (ڈیڈ ووڈ) کی اصطلاح استعمال کی جاتی ہے۔ جبکہ ملک کے اکثر و بیشتر سرکاری محکموں میں اس قسم کے سست، کاہل، نکھٹو، نکمے، بہانے باز، عادی کام چور اور غیر تسلی بخش اور ناقص کارکردگی کے حامل لاکھوں ملازمین کی بھرمار ہے۔ سیاسی دباؤ اور بھاری سفارشوں کے ذریعہ بھرتی ہونے والے سرکاری ملازمین کی بدن بولی  سے ہی ان کی نا اہلیت اور عادی کام چوری ٹپکتی ہے۔

سرکاری اداروں میں کام چوری کی اس تشویشناک صورت حال کے باعث عوام الناس کے ادا کردہ بھاری محصولات سے تنخواہ پانے والے نکمے سرکاری ملازمین ناقابل اصلاح ہوچکے ہیں اور اس کے نتیجہ میں سرکاری مشینری اور ملک کے بیشتر قومی اداروں کا نظم و نسق تباہ و برباد ہو چکا ہے اور عوام الناس کی فلاح و بہبود کے لئے قائم کیے گئے ان اداروں کی خدمات اور کارکردگی بدترین سطح پر پہنچ چکی ہے۔ جس کا سراسر خمیازہ بے بس اور کمزور عوام الناس کو بھگتنا پڑ رہا ہے۔

اگرچہ اس وقت حکومت نے سرکاری دفاتر کے اوقات کار صبح ساڑھے آٹھ بجے سے شام ساڑھے چار بجے تک مقرر کیے ہیں۔ لیکن آپ صبح کے وقت کسی بھی سرکاری دفتر میں چلے جائیں تو وہاں افسران اور ماتحت ملازمین کے بجائے الو ہی بول رہے ہوں گے۔ سرکاری محکموں میں یہ عام رجحان بھی پایا جاتا ہے کہ بیشتر اعلیٰ افسران دن چڑھے اپنے دفاتر آتے ہیں اور اسی طرح ان کے ماتحت ملازمین بھی اپنے افسران کی اسی روش کے نقش قدم پر چلتے دکھائی دیتے ہیں۔

حکومت، وزراء اور اعلیٰ افسران کی جانب سے اپنے ماتحت افسران و ملازمین سے کام پر بروقت حاضری اور ان کی کارکردگی جانچنے سے سے متعلق باز پرس میں غفلت اور جوابدہی کا عمل نہ ہونے کے باعث اکثر سرکاری ملازمین میں دفتری ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی کرتے ہوئے دفتری اوقات کار کی پابندی نہ کرنا، قبل از وقت گھروں کو چلے جانا، اوقات کار کے دوران آپس میں گپیں ہانکنا، چائے نوشی و سگریٹ نوشی اور کھانے اڑانا، سیل فون پر عزیزوں اور دوستوں سے بے تکان گفتگو کرنا اور ذاتی امور کی انجام دہی کے لئے تفویض کردہ کام کو نامکمل چھوڑ کر حیلے بہانوں سے غائب ہوجانا ایک معمول بن گیا ہے ۔ جو دفتری نظم و نسق کی سنگین خلاف ورزی اور مستوجب سزا ہے جس کی زیادہ سے زیادہ سزا ملازم کی ملازمت سے برطرفی کی صورت ہو سکتی ہے۔

اگرچہ سرکاری ملازمین کو معقول تنخواہیں اور پرکشش الاءنسز اور دیگر سہولیات میسر ہیں اس کے باوجود ان سرکاری ملازمین کی عوام الناس کی فلاح و بہبود کے لئے خدمات اور کارکردگی انتہائی ناقص اور غیر تسلی بخش ہیں۔ جبکہ اس کے برعکس پرائیویٹ سیکٹر میں خدمات انجام دینے والے کارکنوں کے اوقات کار لامحدود، اجرتیں قلیل، سہولیات ناپید اور جملہ حالات کار انتہائی غیر تسلی بخش ہیں۔ لہذاء معاشرہ میں تمام اقسام کے کارکنوں کے لئے کام اور محنت کی قدر و قیمت یکساں طور پر واضح ہونی چاہیے۔

کارکنوں اور ملازمین کے اوقات کار سے مراد وہ اوقات ہیں جن کے دوران کارکن یا ملازم اپنے آجر یا ادارہ کے تصرف میں ہو۔ ایک دور میں تو دنیا میں کارکنوں کے لئے مقررہ اوقات کار کا کوئی تصور موجود نہیں تھا۔ جس میں مرد، عورت، بوڑھے اور کمسن بچے بلا امتیاز معمولی اجرتوں پر کارخانوں، کاروباری، تجارتی اداروں حتیٰ کہ کوئلے کی تاریک اور گہری کانوں میں شب و روز غیر انسانی ماحول میں کام کرنے پر مجبور تھے۔ لیکن یورپ میں 19 ویں صدی میں رونماء ہونے والے صنعتی انقلاب کے بعد کارکنوں کے اوقات کار کو باقاعدہ کرنا سب سے قدیم قانون سازی میں شمار کیا جاتا ہے اور کارکنوں کے اس بنیادی حق کو 19 ویں صدی میں تسلیم کیا گیا تھا کیونکہ کام کے زائد گھنٹے کارکنوں اور ان کے اہل خانہ کی سماجی زندگی کو متاثر کرنے کے ساتھ ساتھ ان کی صحت کے لئے بھی ایک بڑا خطرہ بن گئے تھے۔

اس مقصد کے لئے صنعتی اداروں میں کارکنوں سے زائد کام لئے جانے اور ان سے بدسلوکی کے خاتمہ اور اوقات کار کو باقاعدہ بنانے کے لئے ایک 40 ہفتہ نامی سماجی تحریک چلائی گئی تھی۔ جس کے نتیجہ میں فن لینڈ میں سب سے پہلے 1923 ء میں کارکنوں کے لئے 8 گھنٹے کام کا نظام متعارف کرایا گیا تھا۔ ماہرین صحت کے مطابق انسانی زندگی میں توازن برقرار رکھنے کے لئے 8 گھنٹے کام، 8 گھنٹے سماجی سرگرمیوں، عبادت، کھیل کود، تفریح، کتابوں کے مطالعہ، موسیقی سے لطف اندوز ہونے اور اہل خانہ اور عزیز و اقارب سے میل ملاقات اور 8 گھنٹے آرام کرنا لازمی ہے۔ جبکہ انسانی صحت برقرار رکھنے کے لئے ایک بالغ فرد کو کم از کم 8 گھنٹے پرسکون نیند کی ضرورت ہے۔

انجمن اقوام متحدہ کا ذیلی ادارہ عالمی ادارہ محنت (ILO) 1919 ء میں اپنے قیام سے ہی دنیا بھر کے کارکنوں کے بنیادی حقوق کے تحفظ، سماجی انصاف، عالمی معیار محنت کی تشکیل، باوقار روزگار اور ان کی صحت اور سلامتی کے لئے کوشاں رہا ہے۔ چنانچہ عالمی ادارہ محنت نے 1919 ء میں اپنے قیام کے فوراً بعد اپنے اولین عہد نامہ (کنونشن) میں صنعتی اداروں میں کارکنوں کے لئے 8 گھنٹے کے اوقات کار مقرر کیے تھے۔ جبکہ اس سلسلہ میں عالمی ادارہ محنت نے مزید پیش رفت کرتے ہوئے 1930 ء میں اپنے دوسرے عہد نامہ نمبر 30 میں شعبہ تجارت اور دفاتر سے وابستہ ملازمین کے لئے بھی 8 گھنٹے کے اوقات کار منظور کیے تھے۔

پاکستان سمیت دنیا کے 187 ارکان ممالک پر مشتمل عالمی ادارہ محنت آئینی طور پر ایک عالمی تنظیم کا استحقاق رکھتا ہے اور دنیا بھر میں عالمی معیارات محنت، کام اور کارکنوں کی فلاح و بہبود کے متعلق قوانین وضع کرنے اور ان پر کارروائی کرنے کا اہل ہے۔ حکومتوں، آجران اور کارکنوں کے سہ فریقی مثلث پر تشکیل دیے گئے عالمی ادارہ محنت کو آئینی اصولوں کے اظہار کے لئے ”کام“ کی بابت بنیادی حقوق کے فروغ کی غرض سے آفاقی معاونت حاصل ہے اور اس کے منظور کردہ تمام عہد ناموں کو آفاقی طور پر تسلیم کیا جاتا ہے۔

عالمی مزدور قوانین کے مطابق ہر کارکن کے لئے یومیہ 8 گھنٹے اور ہفتہ میں مجموعی طور پر 48 گھنٹے کام انجام دینا لازمی ہے جبکہ بعض اوقات ان کے کام کا دورانیہ 12 گھنٹے تک دراز ہو سکتا ہے۔ جس کے لئے کارکنوں کو مروجہ مزدور قوانین کے مطابق اضافی کام کا معاوضہ (Over time) ادا کیا جائے گا۔ عالمی ادارہ محنت اپنے رکن ممالک میں خواتین کارکنوں کے لئے بھاری مشینری پر کام اور شبینہ اوقات کار (Night Shift) میں کام کی ممانعت کے ساتھ ساتھ کمسن بچوں سے مزدوری کی بھی حوصلہ شکنی کرتا ہے۔

یہ حقیقت ہے کہ کسی بھی صنعتی، تجارتی اور کاروباری ادارے کی ترقی اور صنعتی پیداوار میں اضافہ کے لئے آجران اور کارکنوں کے درمیان حقوق اور فرائض میں توازن برقرار رکھنا بھی بے حد ضروری ہے۔ اس مقصد کے لئے آئین پاکستان کی دفعہ 17 کے تحت کارکنوں کے لئے انجمن سازی کا بنیادی حق فراہم کیا گیا ہے۔ ایک دور میں ملک بھر کے چھوٹے بڑے صنعتی، کاروباری، تجارتی اور دیگر اداروں میں مضبوط ٹریڈ یونین قائم تھیں جو ان اداروں میں خدمات انجام دینے والے کارکنوں کے حقوق کے تحفظ کے لئے اجتماعی سودے کاری کے ذریعہ کارکنوں کی اجرتوں اور ان کے حالات کار کو بہتر بنانے کے لئے قانون کے دائرہ میں رہ کر پرامن جدوجہد کیا کرتی تھیں۔

لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ملک میں دور آمریت، سرمایہ داری نظام کے پھیلاؤ اور صنعتی، کاروباری، تجارتی اور دیگر اداروں میں بڑے پیمانے پر منفی سیاسی سرگرمیوں کے باعث ٹریڈ یونین تحریک رفتہ رفتہ کمزور ہو گئی ہے۔ ہمارا مشاہدہ ہے کہ ماضی کے برعکس ملک کے بیشتر صنعتی، کاروباری، تجارتی اور دیگر پیداواری اداروں میں ٹریڈ یونین لیڈروں کی اکثریت خود بھی ٹریڈ یونین تحریک کے بنیادی اصولوں کی خلاف ورزیوں میں مصروف ہے۔

یہ نام نہاد ٹریڈ یونین لیڈران، ٹریڈ یونین تحریک کے بنیادی مقاصد کارکنوں کے حقوق کے تحفظ اور ان کی فلاح و بہبود اور اپنے ادارہ کی ترقی کے لئے عملی اقدامات کرنے کے بجائے محض الزام تراشیوں، بیان بازیوں اور تقریروں تک محدود ہو کر رہ گئے ہیں۔ اس صورت حال کے نتیجہ میں ملک کے اکثر صنعتی، کاروباری، تجارتی اور دیگر پیداواری اداروں میں مالکان اور ٹریڈ یونین کے درمیان دیرینہ اور سنگین نوعیت کے تنازعات پیدا ہو گئے ہیں اور آجران اور کارکنوں کے درمیان ایک دوسرے کے خلاف عدم اعتماد، عناد اور سخت رسہ کشی کی کیفیت پائی جاتی ہے جس کا نقصان بالآخر کارکنوں کو اپنی ملازمت سے برطرفی کی صورت میں بھگتنا پڑتا ہے۔

یہ نام نہاد ٹریڈ یونین لیڈران اپنے اداروں کے کارکنوں کے لئے ایک رول ماڈل بننے کے بجائے خود بھی کام پر حاضری سے استثنا حاصل کر کے، اوقات کار کی خلاف ورزی اور کام چوری کر کے حرام خوری میں مصروف ہیں۔ لیکن اس کے باوجود بڑی دیدہ دلیری کے ساتھ ٹریڈ یونین تحریک کی آڑ میں کسی قسم کا کام انجام دیے بغیر اپنے اداروں سے بھاری تنخواہوں، پرکشش مراعات اور سہولیات سے لطف اندوز ہو رہے ہیں۔ اس قسم کے ٹریڈ یونین رہنماؤں کی اس غیر منصفانہ مزدور روش نے نا صرف قومی، صوبائی، خود مختار اور عوامی خدمات کے لئے قائم کیے گئے اداروں، اکثر صنعتی اور پیداواری اداروں کا بیڑا غرق کر کے رکھ دیا ہے بلکہ ان کا ناروا عمل ریڈ یونین تحریک کے مقدس نام کی بدنامی کا باعث بھی ہیں۔

شاید اسی لئے عالمی جفت ساز باٹا کمپنی کے بانی اور دنیا کی ایک شہرہ آفاق کاروباری شخصیت طامس باٹا ( 1876۔ 1932 ) نے اپنی کمپنی میں کارکنوں کی جانب سے پیدا شدہ ایک تنازعہ اور ہڑتال سے خوش اسلوبی کے ساتھ نمٹنے کے بعد اس صورت حال کو بھانپتے ہوئے آئندہ کے لئے اپنی کمپنی اور کاروبار کی بقاء اور سلامتی کے لئے یہ سنہری اصول وضع کیا تھا کہ ”کام کی جگہ سیاست نہیں“ (No politics at Workplace) ۔ طامس باٹا کے اس دور اندیش فیصلہ کی بدولت باٹا شو کمپنی آگے چل کر ناصرف اپنے کاروبار کو بر اعظم یورپ سے نکال کر دنیا کے دیگر خطوں تک پھیلانے میں پوری طرح کامیاب رہی بلکہ اس کے نتیجہ میں دنیا بھر کے گاہکوں کو ناصرف باٹا شو کمپنی کے سستے اور معیاری جوتے میسر آئے بلکہ کمپنی میں خدمات انجام دینے والے لاکھوں کارکنوں کو بھی باعزت اور مستقل روزگار نصیب ہوا۔

لیکن افسوس ہمارے صنعت کاروں اور ٹریڈ یونین رہنماؤں نے عظیم کاروباری شخصیت طامس باٹا کے اس سنہری اصول سے آج تک کوئی سبق نہیں سیکھا۔ ملک میں آجر برادری اور ٹریڈ یونین کے درمیان حقوق اور فرائض کے جنم لینے والے دیرینہ تنازعات اور کشمکش کے نتیجہ میں ملک کے بڑے بڑے قومی صنعتی اور پیداواری ادارے تباہ ہو گئے۔

اگر دنیا کی محنتی ترین اور ترقی یافتہ اقوام کے کارکنوں کے کام کے سالانہ گھنٹوں کا جائزہ لیا جائے تو نہایت ہوشرباء اعداد و شمار سامنے آ جائیں گے۔ 38 یورپی ممالک پر مشتمل اور معاشی ترقی اور عالمی تجارت پر نظر رکھنے والی بین الحکومتی تنظیم آرگنائزیشن برائے اکنامک کوآرڈینیشن اینڈ ڈیولپمنٹ (OCED) کے ملازمت اور لیبر مارکیٹ کے اعداد و شمار کے مطابق دنیا میں شمالی امریکہ کے ملک میکسیکو کے کارکن سالانہ 2128 گھنٹے، ہندوستان سالانہ 2480 گھنٹے، سری لنکا سالانہ 1872 گھنٹے، بنگلہ دیش سالانہ 2438 گھنٹے، نیپال سالانہ 2080 گھنٹے، برازیل سالانہ 1970 گھنٹے، نائجیریا سالانہ 1976 گھنٹے، جنوبی کوریا سالانہ 1910 گھنٹے، ریاستہائے متحدہ امریکہ سالانہ 1790 گھنٹے، جاپان سالانہ 1607 گھنٹے، کینیڈا سالانہ 1685 گھنٹے، برطانیہ سالانہ 1497 گھنٹے، فرانس سالانہ 1490 سالانہ گھنٹے، جرمنی سالانہ 1780 گھنٹے، آسٹریلیا سالانہ 1694 گھنٹے، عوامی جمہوریہ چین سالانہ 1644 سالانہ گھنٹے، روسی فیڈریشن کے کارکن سالانہ 1874 گھنٹے کام کرتے ہیں۔ جبکہ اس کے برعکس ایک محتاط اندازہ کے مطابق پاکستانی کارکن اوسطا سالانہ بمشکل 1،000 گھنٹے ہی کام کرتے ہیں۔

دوسری جانب دنیا کے چند ترقی یافتہ ممالک خصوصاً جاپان اور جنوبی کوریا میں مقررہ گھنٹوں سے زائد کام کرنے والے (Workholic) کارکنوں کی کثیر تعداد بھی پائی جاتی ہے ایک حالیہ رپورٹ کے مطابق مقررہ گھنٹوں سے زائد کام کے عادی بعض جاپانی کارکن ہفتے میں 110 گھنٹے ( ساڑھے چار دن تک) تک بھی کام کرتے پائے گئے ہیں۔ 90 ء کی دہائی میں جاپان میں سخت محنت و مشقت کے ذریعہ اپنی عملی زندگی کا آغاز کرنے والے ایک پاکستانی نوجوان اور آج کے معروف آئی ٹی ایکسپرٹ اور سماجی رہنماء اور ہمارے محترم دوست سہیل بلخی نے اپنی کتاب ”چار برس جاپان میں“ میں جاپانی معاشرہ میں کام کی ثقافت اور کام کی اقدار پر نہایت تفصیل سے روشنی ڈالی ہے۔

آپ اپنی کتاب کے ایک باب میں رقمطراز ہیں کہ ہمارے کارخانہ کے مالک (Shachou) کی عمر 82 برس تھی، کروڑوں کی جائیداد کے مالک ہونے کے باوجود وہ انکساری کے ساتھ عام کارکنوں کے مقابلہ میں دو تین گھنٹے زائد کام کیا کرتے تھے۔ میں نے کبھی ان کے چہرے پر کام سے بیزاری اور تھکن کے آثار نہیں دیکھے۔ اگرچہ ہماری فیکٹری میں صبح آٹھ بجے کام شروع ہوتا تھا مگر ہماری فیکٹری کے مالک صبح سویرے ہی فیکٹری پہنچ جاتے، زمین پر پانی کا چھڑکاؤ کر کے جھاڑو دیتے، کوڑا کرکٹ جمع کر کے ٹھکانے لگاتے، دفتر میں کرسیوں کو ترتیب سے رکھتے، فیکس مشین پر ایک نظر ڈالتے کہ کوئی نیا فیکس تو نہیں آیا۔

اس کے بعد ہر طرح کا اطمینان کرنے کے بعد وہ فیکٹری کے قریب واقع اپنے گھر جاکر ناشتہ کر کے اور باقاعدہ یونیفارم پہن کر اپنی بیوی کے ساتھ فیکٹری میں داخل ہوتے تھے۔ ہماری فیکٹری کا عمر رسیدہ مالک ہمیشہ دیر تک فیکٹری کے مختلف حصوں میں کسی نا کسی کام میں مصروف نظر آتا تھا۔ ہم نے دوران ملازمت اپنی فیکٹری کے مالک کو ہمیشہ سب سے زیادہ محنتی اور بہترین استعداد رکھنے والا فرد پایا۔ حتیٰ ٰ کہ فیکٹری کے مالک کی بیوی بھی اپنی فیکٹری کے کارکنوں کے شانہ بشانہ کام کیا کرتی تھی۔ جبکہ اس کے برعکس ہمارے صنعتی معاشرہ میں کسی فیکٹری مالک کا اپنی فیکٹری میں اپنے کارکنوں کے شانہ بشانہ کام کرنے کا تصور تک نہیں کیا جاسکتا۔

بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح کام کی اہمیت اور اس کی بدولت ملک و قوم کی ترقی پر کامل یقین رکھتے تھے۔ چنانچہ بابائے قوم قائد اعظم محمد علی جناح نے بھی اپنی قوم کو کام، کام اور بس کام کا ایک سبق آموز درس دیا تھا۔ آپ نے فرمایا تھا کہ ”میں آپ کو مصروف عمل ہونے کی تاکید کرتا ہوں۔ کام، کام اور بس کام۔ سکون کی خاطر، صبر و برداشت اور انکساری کے ساتھ اپنی قوم کی سچی خدمت کرتے جائیں“ ( خطاب آل انڈیا مسلم اسٹوڈنٹس کانفرنس، بمقام پٹیالہ، 15 نومبر 1942 ) ۔

ملک میں جاری موجودہ معاشی بحران کے نتیجہ میں پیدا ہونے والی بد ترین مہنگائی اور شدید افراط زر نے عوام الناس کی کمر توڑ کر رکھ دی ہے۔ جس کے باعث آبادی کی اکثریت دن بدن غربت کی لکیر عبور کر رہی ہے۔ اس مایوس کن صورت حال سے مجبور ہو کر محروم طبقہ یا تو اجتماعی طور پر موت کو گلے لگا رہا ہے یا محروم نوجوان اور دلیر طبقہ سنگین جرائم کی دلدل میں داخل ہو رہا ہے جبکہ دوسری جانب اکثر اعلیٰ پیشہ ورانہ قابلیت کے حامل نوجوان مایوسی کا شکار ہو کر اپنے بہتر مستقبل کے لئے قانونی اور غیر قانونی طریقہ سے مغربی ممالک کی جانب ہجرت کرنے پر گامزن ہیں۔

لہذاء اس تشویشناک صورت حال سے نجات پانے کے لئے ہمارے پاس فقط ایک ہی راستہ ہے کہ ہمیں اپنی روایتی کام چوری اور محنت سے جی چرانے کی دیرینہ عادات بد کو ترک کر کے اور خود کو تبدیل کر کے دنیا کی دیگر ترقی یافتہ قوموں کی طرح دلجمعی کے ساتھ کام کام اور بس کام کرنے کی ضرورت ہے۔ کیونکہ کسی بھی قوم کی ترقی کا راز کام، کام اور کام میں ہی مضمر ہے۔

محنت سے چل رہے ہیں دنیا کے کارخانے۔ محنت سے مل رہے ہیں ہر قوم کو خزانے
اسمعیل میرٹھی


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments