کھلی آنکھوں کا خواب: (15)


یہ بڑے نصیب کی بات ہے :

واپس آ کر طعام گاہ گئے جہاں بوفے میں پھر ہر چیز کی کثرت ہی کثرت تھی مگر میرا مسئلہ اپنی جگہ برقرار کہ چکن نہیں کھانا۔ تو لیکن یہاں ہر ڈش میں چکن موجود تھی اور چاول بھی نہیں کھانے کہ بعد میں تکلیف دیتے ہیں۔ رہ گئی مچھلی وہ ہمیں پسند ہے مگر یہاں اس سے بھی جی اوب گیا تھا۔ اب لے دے کہ میٹھی چیزیں رہ گئیں اور میٹھا ہمیں پسند ہے اور یہاں تو کئی قسم کے میٹھے تھے جنہیں کھا تو لیتی مگر دل و دماغ پر بوجھ سا پڑ جاتا اور خود کو سمجھاتی نصرت!

یہ کیا کر رہی ہو اگر اب تک اللہ کے کرم سے شوگر نہیں ہے تو اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ احتیاط کا دامن ہاتھ سے چھوڑا جائے۔ ٹھیک ہے ٹھیک ہے۔ اب ہاتھ روک کر کھائیں گے۔ خود سے وعدہ کرتی ہوں اور شکر بھی کہ اللہ نے کربلا نجف اور اب بغداد کے اس رزق پر ہمارا نام لکھ رکھا تھا۔ شکر گزاری کی اس کیفیت میں شکر اور کیف آگیں مسرت کے نئے رنگ شامل ہو کر سراپا شکر کرتے ہیں۔ جب دریچے سے صبح کی اولین کرنوں کا نظارہ کرتی ہوں تو معدوم ہوتے اندھیروں اور تسلط جماتی ہوئی روشنی کے سہانے منظر کو سرسبز لان اور پھول حسین تر بناتے ہیں۔

( اور سوچتی ہوں کہ ایک مضمون دریچہ اور منظر کے عنوان سے لکھنا چاہیے ) فوارے اور سڑک پر گاڑیوں کی روشنی منظر کو مزید دل کش اور دل آویز بنا رہی تھی۔ میں تادیر اس منظر کو دیکھتی رہی۔ سورج کچھ اور بلند ہوا تو اشراق پڑھ کر سو گئے کہ آج سہ پہر زیارات کے لئے جانا ہے۔ ناشتے کے بعد کپڑے استری کے لئے دیے اور اہتمام سے تیار ہوئے کہ آج ہم پیر طریقت شیخ عبدالقادر کے مزار اقدس پر جانے والے ہیں جہاں جانا دیرینہ خواہش تھی۔ (میں شروع میں سہون شریف جانے کا واقعہ لکھ چکی ہوں کہ ادھر دل سے خیال گزرا اور ادھر جھٹ پورا ہو گیا۔ پروگرام میں تبدیلی کر کے سہون شریف لے جایا گیا۔ اسی واقعے کو پیش نظر رکھ کر کبھی کبھی ترنگ میں کہہ اٹھتی کہ وہاں تو اللہ نے دل کی بات فوراً سن لی۔ اور یہاں بلاوا ہی نہیں آتا۔ ) اور آج جانے والے ہیں پیر طریقت پیران پیر کے پاس جو شیخ عبدالقادر جیلانی کے نام سے جانے جاتے ہیں۔

ولی، شاعر، فقیہ، سلفی، غوث اعظم، غوث الثقلین، محی الدین، محبوب سبحانی شیخ عبدالقادر جیلانی کا جو شب اول رمضان 470 ہ کو عراق کے تاریخی شہر مدائن کے قریب واقع ایک شہر گیلان میں پیدا ہوئے۔ تمام اولیا اس بات پر متفق ہیں کہ آپ پیدائشی ولی ہیں۔ آپ بچپن میں ماہ رمضان المبارک میں طلوع فجر سے غروب آفتاب تک دودھ نہیں پیتے تھے اور آپ کی یہ کرامت گیلان میں بہت مشہور تھی۔

18 برس کی عمر میں تحصیل علم کے لیے بغداد آئے۔ فقہ میں حضرت ابو سعید مبارک اور حدیث و تفسیر میں ابو بکر بن مظفر اور ابو محمد جعفر جیسے اساتذہ سے فیض حاصل کیا۔ آپ سنی حنبلی طریقے کے نہایت اہم شیخ و صوفی اور سلسلہ قادریہ کے بانی ہیں۔ آپ کا تعلق جنید بغدادی کے روحانی سلسلے سے ملتا ہے۔

جب علم کی تشنگی مزید بڑھی تو بغداد شہر کو چھوڑ کر عراق کے صحراؤں اور جنگلوں میں 25 سال تک سخت عبادت و ریاضت کی۔ پھر دوبارہ بغداد کا رخ کیا اور 40 سال تک درس و تدریس کی جس کے نتیجے میں ہزار ہا لوگ دائرہ اسلام میں داخل ہوئے۔ آپ کی نیک نامی بغداد میں دور دور تک پھیل گئی۔ آپ کی قابل قدر خدمات کی وجہ سے مسلم دنیا میں آپ کو غوث اعظم دستگیر کا خطاب ملا۔ آپ کو ولایت کا علم دس برس کی عمر میں ہوا جب آپ مکتب جاتے تو ایک غیبی آواز آتی جسے سب سنتے کہ ”اللہ کے ولی کے لیے جگہ کشادہ کر دو ۔“

ایک دن جمعہ کے خطبے کے دوران آپ پر جذب کی ایسی کیفیت طاری ہوئی جس کے نتیجے میں آپ کی زبان سے یہ کلمات جاری ہوئے کہ ”میرا قدم تمام اولیا کی گردن پر ہے۔“ یہ جملہ سنتے ہی وہ تمام اولیا جو زندہ تھے یا پردہ فرما چکے تھے سب نے گردنیں جھکا دیں اور آپ کو مرتبہ غوثیت اور مقام محبوبیت سے نوازا گیا۔

آپ کا شجرہ نسب والد کی طرف سے حضرت امام حسن اور والدہ کی طرف سے امام حسینؓ سے ملتا ہوا شجرہ رسولﷺ سے جا ملتا ہے۔ نحیف و نزار جسم، درمیانہ قد، کشادہ سینہ، ملی ہوئی بھنویں، بڑا سر اور خوبصورت چہرے کے مالک شیخ عبدالقادر جیلانی نے 50 برس کی عمر میں ازدواجی زندگی کا آغاز کیا اور مختلف ادوار میں چار شادیاں کیں۔ آپ کے بچوں کی تعداد انچاس ہے جن میں 20 لڑکے اور باقی لڑکیاں شامل ہیں۔ انسانیت اور خصوصاً مسلم امہ کی اصلاح کے لیے آپ نے کئی کتابیں لکھیں جن میں فتوح الغیب، الفتح الربانی والفیض الرحمانی، غنیۃ الطالبین قابل ذکر ہیں۔ آپ 89 سال کی عمر میں 8 ربیع الاول 561 ہجری کو اس جہان فانی سے کوچ فرما گئے۔ آپ کی آخری آرام گاہ آپ کے مدرسے کے احاطے میں بنی۔ آپ کی لحد مبارک پر اللہ کے انوار و رحمت کی بارش ہو۔ آمین۔

مزار زیادہ دور نہ تھا۔ گرین زون کے اندر ہی تھا، لہٰذا بہت جلد گرین زون کے خوبصورت علاقے سے گزرتے ہوئے مزار کے عقبی طرف سے داخل ہوئے۔ بڑے سے صحن میں گاڑی کھڑی کی۔ صحن کے ساتھ ہی بڑی ڈیوڑھی تھی جس میں دو بڑی موٹر کار کھڑی تھیں۔ اس کے سامنے ہی دروازہ کھلا اور سفید لباس پہنے مزار کے مہتمم نے باہر آ کر استقبال کیا۔ ہمیں ایک خاتون کے حوالے کیا گیا جو ہال کے دروازے پر کھڑی تھی۔ وہ ہمیں اپنی معیت میں لے کر آگے بڑھی۔

وہ ہمیں لے کر ایک کشادہ ہال میں داخل ہوئی جہاں سب خواتین اپنے اپنے طور پر مصروف عبادت تھیں۔ بڑے سے ہال کو عبور کر کے دائیں طرف چھوٹے سے دروازے پر ایک اور خاتون متعین تھی جو ہال سے مزار کی طرف خواتین کے گروپ کو باری باری اندر سلام کے لئے بھجوا رہی تھی۔ ہمارے ساتھ آنے والی خاتون نے انہیں ہمارے بارے میں بتا کر ان کے حوالے کیا۔ انہوں نے ہمیں ہاتھوں ہاتھ لیا۔ مسکرا کر ٹافی پیش کی اور چھوٹے دروازے سے اندر مزار کی طرف لے گئی۔

خواتین جالیوں سے لگی ہوئی دعائیں کر رہی تھیں۔ ہم منتظر کہ یہ ہٹیں توہم آگے بڑھیں کہ اتنے میں وہ متولی قریب آ کر بولے آپ پہلے ادھر آجائیں۔ مزار کے مقابل چھوٹا سا کمرہ تھا۔ قالین بچھے ہوئے، اے سی لگا ہوا، عود کی خوشبو سے مہکتا ہوا یہ چھوٹا سا کمرہ شیخ عبدالقادر گیلانی کا خاص کمرہ تھا جہاں انہوں نے چلے کاٹے۔

ہم نے وہاں نوافل پڑھے اور اس حجرہ خاص میں بیٹھے عجیب سی کیفیت محسوس کی۔ وہ جلیل القدر ہستی جس نے کہا کہ میرا قدم تمام اولیا کی گردن پر ہے تو دنیابھر کے اولیائے کرام جہاں جہاں تھے، انہوں نے اپنی گردنیں جھکا دیں۔ آج یہاں ہم بندۂ ناچیز پر تقصیر اس حجرہ خاص میں تھے، جہاں انہوں نے چلے اور محبوب برحق کی عبادت کی۔ اللہ اللہ ہم کہاں اور یہ مقام کہاں

اس کمرے کا لکڑی کا بہت خوب صورت دروازہ دو سو سال پرانا اور ترکی کا تحفہ ہے۔ ہم نے اس دروازے کے حسن، قدامت کو چھو کر دیکھا، محسوس کیا۔ دروازے سے نکل کر دیکھا تو دائیں بائیں دونوں طرف شجرہ فریم کیا ہوا آویزاں تھا۔ میں اور نسیم پڑھنے لگے۔ متولی نے رہنمائی کی۔ یہ دائیں طرف شجرہ نسب ہے جو حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے جا ملتا ہے۔ دوسری طرف شجرہ طریقت ہے۔ وہ بھی باب علم حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ تک پہنچتا ہے۔ یہ دونوں نسبتیں کیا شاندار اور قابل رشک ہیں اور پھر اولیا میں اونچا مقام کیوں کر نہ ہو۔ میں نے بار بار ان دونوں کو پڑھا۔ عائشہ نے ان کی اور دو سو سال پرانے دروازے کے ساتھ تصویریں لیں۔ (جو ان شا اللہ کتاب میں آپ دیکھ سکیں گے ) ۔

اب ہم مزار کی طرف آئے۔ درود و سلام پیش کیا۔ فاتحہ پڑھی اور خوبصورت چاندی کے بنے دروازے اور جالیوں کو دیکھا اور دل نے کہا کہ

شنیدہ کہ مانند بود دیدہ

تصویروں میں تو بارہا جالیاں دیکھی تھیں مگر اصل میں دیکھنے کی کچھ اور بات ہے۔ چاندی کا یہ دروازہ پاکستان کا تحفہ ہے اور حال ہی میں 92 ٹی وی والوں نے ازسر نو اس کی مرمت اور تزئین کروائی ہے۔ چاندی کا دروازہ، نقرئی جالیوں کے اندر مزار پر سبز چادر اور اوپر پگڑی رکھی ہوئی تھی۔ میں دیکھنے میں، حیرت اور خوشی کی لہروں میں ابھرتی ڈوبتی تھی کہ عائشہ نے توجہ دلائی۔ امی دیکھیں، ہمارے لئے سارا مزار خالی کرا لیا گیا ہے۔ اب ہمارے علاوہ یہاں کوئی نہیں ہے۔

میں نے دیکھا۔ درمیان کا دروازہ بند تھا اور مزار کے اس مخصوص چھوٹے سے احاطے میں صرف ہم چار لوگ موجود تھے۔ سو چاروں طرف گھوم کر اندر مزار اقدس دیکھا۔ نظاروں کو آنکھوں اور دل میں بسایا۔ احمد دروازے کے پاس فرش پر بیٹھ گئے۔ یہ کہتے ہوئے کہ یہاں آ کر مجھے بہت سکون ملتا ہے۔ واقعی وہاں چاندی جیسی ٹھنڈک تھی اور فضا میں نور سا پھیلا ہوا تھا۔ اتنے میں اذان مغرب سنی۔ شکر کے ساتھ دعائیں کیں۔ مزار کے پائنتی طرف نماز کی نیت کرنے لگی تھی کہ ایک عورت نے دروازہ کھول کر دیکھا تو میں نے کہا کہ میں اندر نماز پڑھنے جا رہی ہوں۔

یہ عورتیں دیکھ رہی ہیں تو مجھے اچھا نہیں لگ رہا ہے۔ احمد نے بھی میری بات سے اتفاق کیا۔ میں نے اندر حجرہ خاص میں نماز پڑھی۔ نفل اور شکر کے سجدے کیے ۔ سراپا سپاس اور شکر گزار ہوئی۔ تشکر سے لبریز دل نے کہا وہ گلے شکوے کہ اب تک بلاوہ نہیں آیا، وہ سرگوشیاں تو آج ان سب کا کیسا پیارا جواب ہے۔ واقعی انسان جلد باز اور تھڑ دلا ہے اور میرا سوہنا رب کس پیارے انداز سے نوازتا ہے۔ میں سراپا شکر ہو کر سجدہ ریز ہوئی۔

نجف، کربلا اور اب یہاں، وہ مادرز ادولی جس پر کبھی شیطان کا داؤ نہیں چل سکا۔ یا اللہ ہمیں بھی شیطان کے داؤ پیچ اور دلفریب جال سے بچا کر رکھ۔ باب العلم سے یہاں تک کا سفر عبادت ریاضت سخاوت تقویٰ کا بن جائے۔ جھولی بھر جائے کہ کیسے کیسے سخیوں کے در پر آئے ہیں۔ رب زدنی علما، یا اللہ علم و عمل کی کمی دور فرما۔ قلم کو ایسی تابانی دے کہ جو لکھوں صدقہ جاریہ بن جائے۔ یہ اور ایسی بہت سی دعائیں مانگ کر مزار کے احاطے سے ہال کی طرف آئے۔

دروازہ کھلا تو منتظر خواتین کا ریلا اندر آیا۔ ہال سے گزر کر صحن میں آئے تو دائیں ہاتھ پر ان کے بیٹے کا مزار تھا۔ ادھر فاتحہ پڑھ کر باہر آئے اور نکلتے نکلتے بھی تمام دوست و احباب، بہن بھائی سب کے لئے دعائیں کیں۔ متولی نے گرم جوشی سے رخصت کرتے ہوئے کہا آپ کی بیٹی تو عاشق ہے اور یہاں آتی رہتی ہے۔ الحمدللہ بیٹی آتی ہے تو مجھے لگتا ہے میری بھی حاضری ہو گئی۔ گاڑی میں بیٹھے تو انہوں نے لنگر کا کھانا ساتھ کر دیا۔ چاول چکن اور میٹھا۔

(جاری ہے )


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments